جیسے کرکٹ کی فیلڈ میں والی بال کا کھلاڑی (از:حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

04:56PM Mon 27 Jul, 2015
یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی چپ ہیں اور صرف چپ نہیں ہیں بلکہ یہ کہا جانے لگا ہے کہ اُن کی بولتی بند ہے۔ این ڈی ٹی وی انڈیا کے اہم پروگراموں سے پہلے دو منٹ کا مزاحیہ ٹریلر گستاخی معاف آتا ہے۔ جس دن وزیر اعظم پیلیس میں شری نریندر مودی قبضہ لینے کے لئے جانے والے تھے اس دن شام کو اس پروگرام میں دکھایا تھا کہ مودی صاحب کے ایک ہاتھ میں کیسری رنگ سے بھرا ڈبہ ہے اور دوسرے ہاتھ میں دیواروں پر رنگ کرنے والی کوچی۔ اور دوسرے کمرے سے سابق وزیر اعظم اپنا سامان کاندھے پر لادے نکل رہے ہیں۔ مودی صاحب کی نظر ان پر پڑی تو نمستے کا تبادلہ ہوا اور دیوار پر رنگ پھیرتے ہوئے مودی بھائی نے کہا کہ اب تک اس گھر نے اپنے مکین کی آواز ہی نہیں سنی تھی اور اب وہ دن رات میری آواز سنے گا اس لئے کہ جو جارہے ہیں ان سے بولا ہی نہیں جاتا تھا اور جو آرہا ہے اس سے چپ رہا ہی نہیں جاتا۔ آج سے 18 مہینے پہلے مودی نے جو انتخابی مہم شروع کی تھی اس دن سے 26 مئی تک وہ رات دن صرف بولتے رہے تھے اور پنڈت نہرو سے لے کر منموہن سنگھ تک ہر ایک وزیر اعظم کو بولنا پڑا ہے لیکن کسی کی آواز نہیں بیٹھی تھی یہ فخر صرف مودی صاحب کو حاصل ہے کہ آخر میں اُن کی آواز اتنی بیٹھ گئی تھی کہ انہیں بولنے کے لئے پوری طاقت لگانا پڑتی تھی اور سننے والے کے کان میں بھربھراہٹ کی آواز آتی تھی جبکہ اندرا گاندھی اپنی انتخابی مہم میں صبح سات بجے سے رات کو دس بجے تک 30-30 تقریریں کرتی تھیں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ چیختی یا دہاڑتی نہیں تھیں۔ مودی صاحب کی آواز بہت مستحکم ہے لیکن وہ ضرورت سے زیادہ دہاڑتے ہیں۔ اس وقت اُن کے سامنے سب سے اہم ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ گذشتہ دس سال میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھاجپا لیڈروں نے ہر موقع پر صرف ایک مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعطم خود بیان دیں۔ ارون جیٹلی جو آج نمبر دو کے منصب پر ہیں وہ راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈر تھے اور اب حکومت کے نمائندے ہیں انہوں نے شاید 100 مرتبہ کہا ہے کہ وزیر اعظم یہاں آکر بیان دیں۔ یعنی ہمارے دربار میں حاضر ہوکر بیان دیں ورنہ ہم ہاؤس نہیں چلنے دیں گے۔ آج اگر مودی اور جیٹلی یہ فیصلہ کرلیں کہ جب جب یہ مطالبہ ہوگا کہ وزیر اعظم بیان دیں تب تب وزیر اعظم اپنی گرجدار آواز میں بیان دیں گے تو دنیا کو یقین آجائے گا کہ ہندوستان میں صرف حکومت نہیں نظام بھی بدل گیا۔ بی جے پی لیڈر یاد کریں کتنی مرتبہ سابق وزیر اعظم اور سونیا گاندھی نے رو روکر کہا ہے کہ ڈھائی لاکھ روپئے فی منٹ عوام کا برباد ہورہا ہے آپ لوگ ہاؤس چلنے دیجئے اور آپ نے کبھی نہیں مانا۔ اب کس منھ سے کہہ رہے ہیں کہ عوام کا کروڑوں روپیہ برباد ہورہا ہے؟ اور کانگریسی نہیں مانتے۔ آخر دونوں میں کیا فرق ہے؟ عوام کی پیسوں کے دشمن دس سال آپ رہے آپ نے ایک لاکھ کروڑ کے قریب ہمارا روپیہ برباد کیا۔ اب کانگریسی دشمن ہیں اور وہ برباد کرا رہے ہیں۔ نریندر مودی نام کے لیڈر نے چار سو سے زیادہ تقریروں میں کہا تھا کہ حکومت مل گئی تو ملک کی تقدیر بھی بدل دوں گا اور تصویر بھی بدل دوں گا۔ لیکن 15 مہینے ہوگئے تصویر بھی وہی ہے اور تقدیر بھی وہی۔ یعنی حکومت نہ انہیں کرنا آتی تھی اور نہ آپ کو، وہ بھی جھوٹے تھے اور آپ بھی تو پھر ہمارا کیا ہوگا؟ چار دن برباد ہوگئے کتنے گھنٹے تھے اور کتنے منٹ؟ اور ان کا ذمہ دار آپ کے علاوہ دوسرا کون ہے؟ آپ نے نہیں آپ کے وزیر مالیات، وزیر خارجہ اور ہوم منسٹر نے دس سال تک کہا ہے کہ استعفیٰ پہلے بحث بعد میں اور انہوں نے ہاؤس نہیں چلنے دیا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں اور اس حد تک ہمارے جیسے کانگریس مخالف اور بی جے پی مخالف بھی مانتے ہیں کہ وزیر خارجہ نے جو کیا وہ اتنے ذمہ دار وزیر کا ناقابل معافی جرم ہے۔ جس کی ذمہ داری کا تقاضہ خود انہیں پورا کرنا چاہئے۔ رہی آپ کی منھ بولی بہن اسمرتی ایرانی تو حلف ناموں میں ڈگریوں میں اختلاف اس کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں اور یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ جھوٹ بولنا اور یاد رکھنا کتنا مشکل ہے؟ کہ آپ 13 مہینے بھی یاد نہ رکھ سکے کہ آپ نے ہم لوگوں سے کیا کیا وعدے کئے تھے؟ اور صرف ان وعدوں کی بنا پر ہی چھپرپھاڑکر آپ کے اوپر ووٹ برسائے تھے۔ سونیا گاندھی، راہل، سیتا رام پچوری، رمیش اگروال وغیرہ وغیرہ جو مطالبہ کررہے ہیں کہ آپ دونوں ہاؤس میں بیان دیں اور پہلے چوہان، سوشما، سندھیا اور ایرانی کا استعفیٰ بعد میں بحث اگر آپ ان مطالبات پر چپی سادھ لیں گے اور کسی کا استعفیٰ نہیں لیں گے تو آپ ڈاکٹر منموہن سے زیادہ کمزور وزیر اعظم کہے جائیں گے۔ اس لئے کہ انہوں نے آپ کے دباؤ میں کم از کم پانچ وزیروں کے استعفے لئے سریش کلماڈی کو پارٹی سے نکالا سب کو جیل بھیجا اور آپ ہیں کہ صرف تین سو ممبروں کے نشہ میں چور ہیں جبکہ اٹل جی کے زمانہ کے تین بڑے کہہ رہے ہیں کہ ان کا سرشرم سے جھکا جارہا ہے اور مودی اس سے زیادہ کمزور نکلے جتنا سردار جی تھے۔ جب جب مرکز میں غیرکانگریسی حکومت بنی کانگریس نے کہا کہ ہماری حکومت آئی تو ہم دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دیں گے۔ اور جب ان کی حکومت آئی تو وہ چپ ہوگئے تو بی جے پی لیڈروں نے کہا کہ اگر ہماری سرکار آئی تو ہم دہلی کو مکمل ریاست بنائیں گے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کانگریس کی تو حکومت بنتی ہی رہی چھ سال کے لئے اٹل جی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت بن گئی اور دہلی آدھی کی آدھی ہی رہی۔ 2014 ء کے الیکشن میں جہاں دوسرے وعدوں کی مودی صاحب نے جھڑی لگائی وہیں دہلی والوں سے وعدہ کیا کہ میری سرکار آئی تو دہلی کو پوری ریاست کا درجہ کسی نے نہیں دلایا میں دلاؤں گا۔ اور دہلی کی ساتوں سیٹیں مودی کو دے دی گئیں۔ لیکن دس مہینے میں جب دہلی والوں نے دیکھا کہ مودی صاحب نے ساتوں سیٹیں کھاکر ڈکار بھی نہیں لی تو انہوں نے اسمبلی الیکشن میں وہی کیا جو لوک سبھا الیکشن میں کیا تھا کہ صرف دو سیٹیں دے کر کہا کہ جہاں رہو خوش رہو۔ نریندر بھائی مودی کا ذہن سیاسی نہیں ہے وہ سنگھ کی بھٹی کے پکے ہوئے ہیں اس لئے وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتے چلے جارہے ہیں اور ان کی غلطیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اروند کجریوال پہلے سے کہیں زیادہ مقبول ہوتے جارہے ہیں۔ انوہں نے صرف دہلی والوں کو ہی نہیں پورے ملک کو یقین دلا دیا کہ کجریوال واقعی دہلی کی تصویر اور تقدیر بدل دیتا لیکن مودی دشمنی میں اسے کام نہیں کرنے دے رہے۔ مودی صاحب نے گورنر اور پولیس کو مودی کا دشمن بنا دیا ہے۔ نجیب جنگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے اختیارات سب میرے پاس ہیں۔ اس نے کجریوال کو پھول کی طرح ہلکا کردیا۔ پورا ملک جانتا ہے کہ حکومت سے 75 فیصدی شکایتیں پولیس کی وجہ سے ہوتی ہیں اور پولیس مودی کی ڈگڈگی پر ناچ رہی ہے جس کی وجہ سے کجریوال سے محبت بڑھ رہی ہے اور مرکزی حکومت سے دشمنی۔ شری مودی ماہر سیاست داں ہوتے تو سارے اختیارات کجریوال کو دے کر کہتے کہ بیٹا کل جو تم نے وعدوں کی جھڑی لگائی تھی اب وہ کرکے دکھاؤ؟ تو نہ نومن تیل ہوتا اور نہ رادھا ناچتی۔ اور ایک سال میں ہی کجریوال واپس جاؤ کے نعرے گونجنے لگتے۔ اس لئے کہ ملک کے عوام کا مزاج اتنا بگڑ چکا ہے کہ کوئی صبر اور انتظار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ہر آدمی کو آج ہی وعدوں پر عمل چاہئے۔ جس نے مودی صاحب کی بولتی بند کررکھی ہے۔ پندرہ مہینے ہوئے ہیں ہر وہ غریب ناراض ہے جس کو پندرہ لاکھ کالے دھن کے حصہ کا انتظار تھا، جس کو مہنگائی کے کم ہونے کا انتظار تھا، جن کو اچھے دنوں کا انتظار تھا، جن کو اپنے مکان کا انتظار ہے اور جو بھرشٹاچار کرنے والوں کو جیل جاتا ہوا دیکھنے کا انتظار تھا جن کو ملک کی تقدیر اور تصویر بدلنے کا انتظار تھا۔ اور ہر کسان ناراض ہے جسے اتنی مدد کا انتظار تھا کہ اس کے سارے دَلِدّر دور ہوجائیں اور ہر گھر میں ہر فصل کے بعد شہنائی کی گونج سنائی دے۔ لیکن پہلے کے مقابلہ میں دوگنی خودکشی ہورہی ہیں اور بے شرم ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ عشق میں ناکامی، نامردی اور نااہلی کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں کسان۔ انتخابی مہم میں ہریانہ کی اس تقریر کو یاد کیجئے جس میں کہا تھا کہ ہر ریٹائرڈ فوجی کے دروازہ پر کار کھڑی ہوجائے گی جس کا ایک رینک اور ایک جیسی پینشن آج وہی ریٹارئڈ فوجی سن رہے ہیں کہ اس میں ابھی وقت لگے گا اور جب کوئی وزیر کہے کہ اس میں وقت لگے گا تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ کس کس کو یاد کیجئے کس کس کو رویئے آرام بڑی چیز ہے منھ ڈھک کے سویئے یہ ان کے غیرسیاسی مزاج کا ہی نتیجہ ہے وہ بہار اور بنگال کے الیکشن میں ہتھیار سجاکر نہیں مجنوں کی طرح ’’دامن بھی تار تار گریباں بھی چاک چاک‘‘ کئے ہوئے جائیں گے اور اُن کے گریبان یا دامن کو نہ صابر سی سکیں گے اور نہ مانجھی، اُن کا حشر بھی وہی ہوگا جو کرن بیدی کا دہلی میں ہوچکا ہے اور بہت ممکن ہے کہ ہر میدان میں ان کا سامنا آج کے سب سے بڑے دشمن کجریوال سے بھی ہوجائے جو یہ طے کئے بیٹھا ہے کہ مودی کے بعد کرسی پر مجھے بیٹھنا ہے اور مودی صاحب اسے بلوان بناتے چلے جارہے ہیں۔