ایک خوبصورت نائطی شاعر اور مخلص انسان۔۔۔ عبد اللہ رفیق محتشم

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:30PM Sun 5 Dec, 2021

 آج علی الصبح  جناب عبد اللہ رفیق محتشم  صاحب کی رحلت کی خبر نے مغموم کردیا ،  آپ کی رحلت سے ہمارا معاشرہ ایک بے باک اور مصلحت سے بلند انسان سے محروم ہوگیا، مرحوم نائطی زبان کے ایک کہنہ مشق شاعر تھے، اور صاف ستھرے افکار اپنی شاعری میں ڈھالتے تھے، ہمارے خیال میں آپ کی شاعری میں طنزیہ پہلو حاوی تھا، یہ پہلو آپ کی شخصیت میں بھی رچا بسا تھا،  یہ پہلو جب کسی شاعرو ادیب کے کے افکار وخیالات کا حصہ بنتا ہے، تو معاشرے کی برائیوں کے لئے نشتر کا کام دیتا ہے،اس سے اصلاح کا کام بھی  لیا جاسکتا ہے۔  آپ نے اس دنیا میں عمر کی (۸۰) بہاریں دیکھیں، آپ کی پیدائش سنہ ۱۹۴۱ء کی ہے، بھٹکل کے انجمن اینگلو اردو ہائی اسکول میں آپ نے میٹرک کی تعلیم مکمل کی۔

مرحوم سے ہماری پہلی ملاقات  ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی کے ابراہیم رحمت اللہ روڈ پر واقع فلیٹ میں سنہ ۱۹۷۴ ء میں ہوئی تھی ، نئی نئی فراغت کے بعد چند ماہ ہمارا ممبئی میں رہنا ہوا تھا،اس وقت ڈاکٹر صاحب کا فلیٹ تحریکی ودعوتی سرگرمیوں کا مرکز تھا، عبد اللہ  رفیق مرحوم اس زمانے میں ممبئی سے کپڑے، ساڑیاں ، ریڈیمیڈ  وغیرہ گٹھریاں بنا کر گوا بیچنے  لے جایا کرتے تھے، اور یہ تجارتی سامان لینے کے لئے ممبئی آیا  جایا کرتے تھے، ان کی رحلت پر آج ہمارے ایک دوست نے جوشذرہ لکھا ہے اس میں ان کی زبانی واقعہ نقل کیا ہے کہ :

((ایک  مرتبہ گوا کے منگیشی گاوں میں آواز لگاتے ہوئے جارہا تھا  کہ منگیشی کے مندر کے پجاری نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا مندر کے اندر سے ہی اس کے گھر کا دالان کھلتا تھا پجاری کے گلے میں سفیدڈوری  تھا اور الٹی دھوتی پہنا ہوا تھا اس نے مجھے گھر میں بلایا اور کپڑے دکھانے کے لئے کہا اور اپنی بیوی کو آواز دی ،ساڑھیاں دکھائیں گئیں کچھ ساڑھیاں جو اسے پسند آئیں اس نے علیحدہ رکھیں ،ساڑھیوں کی قیمت اسے بتائی گئی  اس نے کوئی بھاو تاو نہیں کیا اس پر ہمیں کافی تعجب ہوا میرے ساتھ گوا کے محمدعلی بھی تھے پجاری  اندر گیا الماری سے رقم نکالی اور میرے حوالے کی   میرے ساتھی نے کانا پوسی کی کہ ہم فورا یہاں سے نکل جائیں، ہو سکتا ہے کہ اس کا ارادہ بدلے ہم کو آج کافی منافع ہوا ہے  ،ہو سکتا ہے  ہم کو اچھا منافع ہاتھ آگیا تھا ،جب ہم جانے کی تیاری کرنے لگے تو اس نے کہا رک جاؤ ،ہم کو پریشانی ہوئی وہ پجاری پیشہ سے وکیل تھا اس کی فوٹو دیوار پر آویزاں تھی اس نے کہا آپ ہمارے مہمان ہیں کھانا کھا کر ہی یہاں سے جائیں گے ،اس کی بیوی نے ہمارے لئے کھانا لگا دیا، ہم کو بہت شرمندگی ہوئی کہ ہم نے کپڑوں کے بھاو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا اور ہم کو اس کے پورے پیسے مل گئے تھے ،آخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ تم نے بھاو تاو نہیں کیا حالانکہ اس میں گنجائش رہتی ہے لوگ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں  ،تم نے ہمیں بڑی عزت بھی دی آخر اس کا سبب کیا ہے اس نے جواب دیا تم بھٹکل کارہو بھٹکل کے صاحبان کو میں جانتا ہوں یہ بڑے مہا پرش ہوتے ہیں،   بھٹکلی ہونے کا مطلب ایمانداری سے موسوم کیا جاتا تھا  بھٹکل کا نام پہلے کتنا روشن تھا۔یہ واقعہ اسی زمانے کا تھا))

اس وقت مرحوم جوان تھے اور بڑے حوصلہ مند  بھی تھے، تحریکی باتیں کیا کرتے تھے، اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے فلیٹ میں ہفتہ واری اجتماعات ہوتے تھے، اور یہاں سے پندرہ روزہ النوائط بھی نکلتا تھا، جس میں مرحوم کی تحریریں بھی نکلا کرتی تھیں، اور شاید کچھ عرصہ وہ اس  کے مدیر بھی رہے۔

دو چار سال بعد آپ بھٹکل منتقل ہوگئے، اور یہاں سائیکل پر اسلامی فکر کے پرچوں ، الحسنات، نور ،حجاب، ہلال  اور تحریکی ادبی ودینی کتابوں کی فروخت کا سلسلہ شروع کیا، اس زمانے میں لوگ بھٹکل میں  اس انداز سے بھی روزی روٹی کماتے تھے ، ممکن ہے اس سے یخنی بریانی نہ ملتی ہو، لیکن چاول کڑھی  کا کچھ انتظام ہوجایا کرتا تھا، مرحوم نے اس طرح معاشرے کے نونہالوں کی درست فکری رہنمائی کے لئے جو خدمت انجام دی، ایسی چیزوں کو  یاد تو نہیں رکھا جاتا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے ہی لوگ قوم کے گمنا م سپاہی ہوا کرتے ہیں، اور خاموشی سے ان جیسے افراد کے ذریعہ معاشرے میں  انقلابات رونما ہوجایا کرتے ہیں۔

اس پر یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں قوم کے ایک مایہ ناز استاد سید حسین شبیر ماسٹر  مرحوم کی محمد علی روڈ پر جہاں اب ہاشم  بیکری ہے اسے لگ کر کتابوں کی  دکان ہوا کرتی تھی، ماسٹر صاحب شام گئے  بچوں اور نوجوانوں کے ہاتھوں ٹوکری میں نوائط برادری میں رائج دینی اور مذہبی    کتابوں کودے کر  گلی گلی بیچنے بھیجا کرتے تھے، اور جس طرح ریڑھی والا آلو ، ترکاری پیاز وغیرہ کے لئے آواز لگاتا ہے، اسی طرح یہ بچے   گلی گلی آواز لگاتے پھر تے کہ(( کتابے کتابے ایکا گے سیانو، کیلے بیان، حسینا شہادت، مولودنامہ،مخدوما بیتو،  گروے وکان ، خُرشے خُرشے))، یہ آواز چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اس طرح یاد ہوگئی تھی، ہمیں یاد ہے، جب تکیہ محلہ میں ہم رہتے تھے، تو ہماری بہن نے جو ابھی بہت چھوٹی تھی، کتاب فروش کی آواز سن کر والدہ سے کہنا شروع کردیا کہ(( ماں ماں اُچچے  ایلی شے))، ماں نے بات نہ سمجھا تو بار بار کہنے لگی ایتابے ایتابے۔وہ بتانا چاہتی تھی کہ کتابیں آئی ہوئی ہیں۔

اُوچے سے اس کی مراد خرشے تھی ، اور ایتابے سے کتابے، خرشے نائطی زبان میں کتاب کو کہا جاتا ہے۔اس طرح گھر گھر میں کچھ نہ کچھ چھوٹی موٹی دینی کتابیں پڑی رہتی تھیں، اور مستورات بھی انہیں گھروں میں شوق سے بلند آواز  اور اجتماعی طور پر   پڑھا کرتی تھیں، جس طرح حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ کے گھرانوں میں مولانا عبد الرزاق کلامی کی صمصام الاسلام اور قمقام الاسلام پڑھنے کا رواج تھا۔

عبد اللہ رفیق  مرحوم کی اس گشتی لائبریری کا اس ناچیز کو بھی بہت فائدہ ہوا،  ہمیں اچھی طرح یاد ہے آپ  کے پاس دو رپئے کی ایک کتاب ملی تھی۔ ((نام تھا اس کا قوت حافظہ، مصنف : ڈیل کارنیگی، مترجم: پروفیسر عبد الحمید صدیقی ، سابق مدیر ترجمان القرآن ، لاہور اور ناشر:  سہیل پبلشنگ ہاؤس، پہاڑی بھوجلہ، دہلی ۔ ۶۔))

یہ کتاب میری محسن کتابوں میں سےایک ہے، ا س کتاب کی تلاش ہمیں گزشتہ  بیالیس سالوں سے ہے، برصغیر کے جن کتب خانوں اور شخصیات سے  اس کی کاپی حاصل ہونے کی امید ہوسکتی تھی ، ان سے رابطہ کیا، لیکن اس تک رسائی نہیں ہورہی ہے، اب  خیال گزرتا ہے  کہ  شاید یہ کتاب ۱۹۵۰ء کی دہائی میں امریکہ میں چھپی لینرد لیرڈ اور ایلی نرسی لیرڈ کی کتاب

Techniques For Efficient Remembering

کا پروفیسر صدیقی کا  کیا ہوا اردو ترجمہ ہوسکتا ہے، جو ۱۹۶۱ء میں لاہور سے  قوت حافظہ کے نا م سے شائع ہوا تھا، اور کتاب کو چلانے کے لئے ناشر نے اس وقت کے  مقبول مصنف ڈیل کارنیگی کا نام اصل مصنف کے بجائے  چھاپ دیا تھا۔

عبد اللہ رفیق مرحوم سے اس وقت سے ملاقاتوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا، وہ مخالف رائے رکھنے والوں سے بھی خوش اسلوبی سے ملتے تھے، ایک دو بار شاید ہمارا بھی ان سے اختلاف ہوا، اور ہم نے ان کے چند ایک افکار یا مضامین پر تنقید بھی کی، لیکن انہوں نے اس کا برا نہیں مانا، انہوں نے تحریک اسلامی کی جس فکر کو اپنا یا تھا، اس سے سر مو انحراف نہیں کیا،وہ اس سے جڑے رہے۔

نائطی شاعر ی ان کی اصل پہنچان تھی، وہ بڑی خوبصورت زبان لکھتے  اور بولتے تھے، اور  چونکہ وہ ایک بامقصد زندگی گزارتے تھے، لہذا ان کی شاعری میں ایک پیغام ہوتا تھا، ہمارا خیال ہے کہ ان کے جانے کے بعد اس پائے کا کوئی نائطی شاعراب  ہم میں نہیں رہا ہے۔

وہ ہم سے ہمیشہ محبت  وتعلق کا اظہار کرتے تھے۔

نائطی زبان کی ترویج کے لئے نوائط محفل کی جب سیج سجی تو اس میں وہ شامل رہے، اور اس زبان کی ترویج میں بھر پورحصہ لیا، انہیں نائطی زبان کے شاعر محمد علی پرواز مرحوم سے خاص انس وتعلق تھا، جب بھٹکلیس ڈاٹ کام کا آغاز ہوا اور ہم نے اس میں نائطی زبان کے شعراء کی آواز میں کلام کی ریکارڈنگ اور اس کی اشاعت کا اہتمام کیا تو انہیں اس سے دلی خوشی ہوئی، اور پرواز صاحب کے پاس آپ  کا کلام ریکارڈنگ کرنے لے گئے، پرواز مرحوم میں شاعروں کا رکھ رکھاؤ تھا، وہ ذہنی طور پر فورا ریکارڈنگ کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے، پرواز صاحب اس ناچیز سے بھی محبت کرتے تھے، عبد اللہ رفیق صاحب کو  سفارشی بنا کرجب آپ کے پاس لے گئے تو کئی روز تک وقفہ وقفہ سے آپ کا کلام ریکارڈ کروایا، اس طرح آپ کی دس نظمیں  اورگیت جن میں سے بعض بیس  پچیس منٹ کے بھی ہیں ریکارڈ ہوئے۔

اس موقعہ پر ہم نے پرواز صاحب کوآرام دینے  کی غرض سے عبد اللہ رفیق صاحب کو بھی کلام ریکارڈ کرنے پر آمادہ کیا ، اس طرح (( میں، مدد المدد، سن، موجی شاعری، اللہ خالق ، دنیا ولکھو ناکھا،ول اشے باقی، ایک حسین کلی)) وغیرہ  نظمیں ریکارڈ ہوئیں، یہ نائطی شاعری کا ایک انمول سرمایہ ہے۔ جب بھی آپ کا کلام سنا یا پڑھا جائے گا، مرحوم کی یاد آتے رہے گی، انسان اس دنیا میں جانے کے لئے آیاہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، مرحوم نے ایک قدرتی عمر گذار کر اس دار فانی سے کوچ کیا، وہ انسان تھے فرشتہ نہیں تھے، اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ ان کی سیئات سے درگذر کا معاملہ ہوگا، اور ان کے حسنات  سب پر بھاری ہونگے، اللھم اغفرلہ وارحمہ

2021-12-05