ایک اخلاق ومروت کے پیکر ، عظیم عالم دین و مربی ۔ مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی ؒ (  قسط ۔ ۰۱)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:10PM Tue 24 May, 2022

تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

آج صبح یہ  جانکاہ خبر موصول ہوئی کہ  حضرت مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنیؒ  نہیں رہے، اور اس دنیائے فانی میں عمر طبیعی گزار کا اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، انہوں نے دنیا کے اس سرائے خانے میں زندگی کی (۸۱) گذاریں، آپ کی ولادت ۳ ؍ اپریل ۱۹۴۱ء عمرآباد(آمبور، ٹامل ناڈو) میں ہوئی تھی، آپ جنوبی ہند کی عظیم تاریخی درسگاہ جامعہ دارالسلام عمرآباد کے ناظم اعلی تھے، اور اپنی پوری زندگی یہاں کے ایک طالب علم، استاد ، مربی و منتظم کی حیثیت سے گذاری، اور یہاں کی مٹی میں اپنی زندگی کے انمول نقوش چھوڑگئے۔صحیح معنوں میں آپ کی زندگی دارالسلام عمرآباد سے تعبیر تھی، اور اس عظیم ادارے کے مسلک اور منہج کی ترجمانی کرتی تھی، جس میں عظمت ، رواداری، حلم ، برداشت ، بردباری، علم وتحقیق سبھی کچھ شامل تھے۔ آپ کی رحلت کے ساتھ ان اوصاف حمیدہ کے ایک عظیم نمونے سے دنیا محروم ہوگئی، لیکن آپ نے زندگی کے جو روشن نقوش آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑے ہیں، ان شاء اللہ وہ رہتی دنیا تک مشعل راہ بنے رہیں گے۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، اور جو اچھے کام آپ کی زندگی میں سرزد ہوئے ہیں ،انہیں بلندی درجات کا ذریعہ بنائے۔آمین

 مولانا کی رحلت نے ذاتی طور پر ہمیں بھی سخت صدمہ سے دوچار کیا ہے، حالانکہ مرحوم سے ہمارے ایسے کوئی ذاتی مراسم نہیں تھے۔ ۱۹۷۰ ء کی دہائی میں طالب علمی کے دوران عمرآباد  میں ایک غیر اہم زائر کی حیثیت سے وہاں جانا ہوتا تھا، اس کے بعد بھی کئی ایک پھر بار جانا ہوا، یہاں کی شخصیات سے سرسری سی واقفیت رہی،البتہ  کوئی پندرہ سال سے ہمارا دبی حکومت کے  ماتحت    دائرۃ الشؤون الاسلامیہ کے شعبہ ریسرچ سے تعلق ہوا تو ناظم جامعہ مولانا سعید احمد کاکا عمری صاحب سے ملاقاتیں ہونے لگیں، او ر ان کے اخلاق ومعاملات نے دل کو مسحور کیا، اور ایک بار جامعہ میں آپ کی میزبانی میں حاضری ہوئی، اور کتب بینی اور ذوق مطالعہ پر یہاں کے اساتذہ وطلبہ سے ایک پروگرام میں گفتگو کا موقعہ ملا، جس میں  الکٹرونک کتابوں کے تعارف کا  بھی موقعہ ملا، یہ ملاقاتیں ایسی نہیں تھی کہ مولانا مرحوم جیسی عظیم شخصیا ت سے گھل ملنے اور کھل کر بات کرنے کے مواقع ملتے، اس طرح  گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران جامعہ دارالسلام کے بارے میں بہت کچھ جاننے، یہاں کی شخصیات کو دیکھنے اور ملنے  کے باوجود  ہمارے لئےبہت سے اہم گوشے پنہاں ہی رہے۔   یہ شاید  جنوبی ہند کے اہل علم کا مزاج  بھی ہے کہ ظاہر ی رکھ رکھاؤ اور تکلفات سے عاری زندگی اور دوسری وجوہات سے ان کی شخصیات کے اہم پہلو پردہ اخفا میں رہ جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کی چند باتیں جن سے اس ناچیز کو واسطہ پڑا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

۔ ایک عشرے پہلے ہمیں دبی میں معلوم ہوا کہ جامعہ دارالسلام عمرآباد کے استاد حدیث مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر میں حدیث کی خاص کر صحیح مسلم کی سب سے عالی سند رکھتے ہیں، اس مقصد سے آپ نےمرحوم  مدرسہ رحمانیہ دہلی میں داخلہ  لیا تھا۔ اور یہ کہ  خلیجی ممالک اور دنیا بھر کے تشنگان علم حدیث آپ سے اجازت حدیث کی مجالس اہتمام سے  منعقد کرکے آپ سے اجازت حدیث لیتے ہیں۔یہ جاننے کے  چند ہی دنوں  بعد آپ کی رحلت کی خبر آئی ، اور آپ کا فیض اٹھانے سے محرومی رہی۔

۔ چند سال قبل  مایہ ناز محقق محمد راشد شیخ کے ایک مضمون سے معلوم ہوا کہ جامعہ دارالسلام عمرآباد کے قدیم استاد اور عظیم اسلامی شاعر  مولانا ابو البیان حماد عمری دامت برکاتھم کے مولانا مسعود عالم ندویؒ رحمۃ اللہ علیہ سے مراسم تھے، اور ان کے مابین مراسلت  ہوئی تھی،یہ خطوط ایک  علمی امانت ہیں ، ان کی حفاظت اور اشاعت اہم ضرورت ہے، مولانا سے ہماری  پہلے کئی بار ملاقاتیں ہوئی ہیں، اور ان سے بڑی پیاری پیاری باتیں خاص طور پر آپ کے استاد ومربی مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں سننے کو ملی ہیں، لیکن آپکی علمی زندگی  کا یہ پہلو مخفی تھا، حالانکہ  کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ تھی کہ مولانا مسعود عالم ندوی کو دیکھنے والے اب  شاید اس دنیا میں موجود نہیں ہیں ۔ بارہا خواہش ہوئی کہ مولانا ابو البیان حماد صاحب سے خصوصی ملاقات کی جائے، تو کبھی معلوم ہوا کہ آپ عمرآباد سے بنگلور منتقل ہوگئے ہیں، اور کبھی اطلاع آئی  کہ باہر ملک گئے ہوئے ہیں، اب ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے آخری پڑاؤ میں شاید آپ سے دوبارہ  ملاقات نہ ہوسکے۔

۔ محمد راشد شیخ ہی کی تحریر سے معلوم ہوا کہ عظیم محقق، قدیم موہنجڈاڑو سندھی رسم الخط کے ماہر، مولانا ابو الجلال ندوی رحمۃ اللہ علیہ  کا قیام جامعہ دارالسلام عمرآباد میں رہا ہے، اور ان کے قیمتی مخطوطات اور نادر تحقیقات کا صندوق یہاں کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ اس سلسلے میں مولانا ابو الجلال صدیقی ندوی کے نواسے یحیی بن زکریا صدیقی(مدیر فرائیڈے اسپیشل) اور سوانح نگار بھتیجے  احمد حاطب صدیقی  صاحبان نے بھی توجہ دلائی کہ اس علمی خزانے کی حفاظت یا ان کی نقل حاصل کرنے کی کوئی کوشش کی جائے، اسی ضمن میں مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مرحوم سے ہمارا فون پر رابطہ ہوا، الحاج محی الدین منیری مرحوم سے ہمارے تعلق کی وجہ سے کھل اٹھے،اور محسوس ہوا کہ برسوں کی شناسائی ہے، پھر وقتا فوقتا ٹیلفو ن پر بات چیت کے مواقع ملتے رہے، جن میں آپ کی پرانی یادیں کھلتی رہیں، جس سے معلوم ہوا کہ کہ پچاس کی دہائی میں مولانا ابو الجلال ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی تحقیقات کے سلسلے میں عمرآباد میں قیام ہوا تھا، آپ کے والد ماجد حضرت مولانا  محمد نعمان اعظمی مرحوم آپ کے کھانے پینے کا اہتمام کرتے تھے، اور خرد عمری میں آپ   کومولانا کی خدمت پر مامور کیا تھا، پھر معلوم ہوا کہ آپ  نے ہمارے مادر علمی مدرسہ جمالیہ  میں بھی کچھ وقت گزارا ہے، ہمارے مشفق اساتذہ میں سے مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ، او ر مولانا عبد الباری معدنیؒ بھی آپ نے استفادہ کیا ہے، اور یہاں کے  ہمارے دوسرے اساتذہ  میں سے شیخ محمد غزالیؒ اور مولانا عبد الرافع باقویؒ   سے  بھی آپ کے مراسم رہے ہیں، اب ان شخصیات سے  لوگ ناواقف ہیں،   فرق مراتب اور ہماری عمروں میں بڑا  تفاوت رہنے کے باوجود آپ  ٹیلفون پر  بڑی محبت اور شفقت سے باتیں  کیا کرتے تھے، بڑی خواہش تھی کہ مولانا سے ملاقات کرنے کی غرض سے عمرآباد کا  اب خصوصی سفر کیا جائے، لیکن گزشتہ سالوں میں کورونا کی مہماری نے رخت سفر کی گنجائش نہیں چھوڑی ، اور آج خبر آئی کہ اب کبھی اس دنیا میں مولانا سے ملاقات نہیں ہوسکے گی۔ مولانا ایک طویل زندگی علم دین کی خدمت اور اعلاء کلمۃ اللہ میں گذار کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں، اسی طرح سب کو اس دنیا سے جانا ہے، البقاء للہ (جاری)

2022-05-24