مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر سے کئی شکار (دوسری قسط)۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
یہ جو ذبح کرنے کے لئے گائے کے سنتان سے منسلک تمام بڑے جانوروں کے ساتھ اونٹ کو عام مارکیٹ میں فروخت کرنے کی پابندی کا قانون لاگو کیا جانے والا ہے اس پر ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف طبقات کی جانب سے احتجاج اور مخالفت کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور اس مخالفت کو دبانے کی کوشش بھی سنگھ پریوار اور فاشسٹ تنظیموں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ا یک طرف مدراس ہائی کورٹ نے اس قانون پر ایک مہینے کا عارضی امتناع لگایا ہے تو دوسری طرف کیرالہ ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت سے انکار کردیا ہے کہ اس قانون کو غلط سمجھا گیاہے،کیونکہ اس قانون کا مطلب گوشت کھانے پر پابندی نہیں ہے ، بلکہ ذبح کرنے کے مقصد سے کھلے بازار میں مویشیوں کی فروخت پر پابندی لگائی گئی ہے۔تیسری طرف راجستھان ہائی کورٹ کے جج نے مہیش چندرا شرما نے مرکزی حکومت سے یہ سفارش کرڈالی ہے کہ گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اور گؤ کشی کے مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے۔
اور گجرات میں عمر قید کی سزا نافذ ہوگئی: ریاست گجرات میں جب نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے تو گؤکشی پر مکمل پابندی لاگو کی گئی تھی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق موجودہ گجرات حکومت نے قوانین کومزید سخت کرتے ہوئے 'The Gujarat Animal Preservation (Amendment) Bill 2017' بل پاس کردیا ہے جس کی رو سے اب وہاں گؤونش کے جانورذبح کرنے پر عمر قید کی سزا دی جائے گی۔خیال رہے کہ اب تک گجرات میں گؤ کشی کے لئے 7 سال قید کا قانون نافذ تھا، جسے بڑھا کر 14سال یعنی عمر قید میں بدل دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جرمانہ کی رقم بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 5لاکھ روپے کردی گئی ہے۔غیرقانونی طور پر گؤ ونش کے جانورٹرانسپورٹ کرنے پر3سے7سال کی سزا تھی اسے بڑھا کر 7سے 10کردی گئی ہے۔پولیس کو ایسی گاڑیاں ہمیشہ کے لئے ضبط کرنے کے اختیارات بھی دئے گئے ہیں، جبکہ پہلے ایف آئی آر درج ہونے کے 6مہینے بعد گاڑیاں ریلیز کرنے کی گنجائش تھی۔
کیایہ عوام کی آواز ہے ؟!: گؤکشی پر عمر قید کی سزا مقرر کرنے والی ملک کی سب سے پہلی ریاست گجرات کے ہوم منسٹر پردیپ سنگھ جڈیجہ کے مطابق اب گجرات میں انسان کے قتل اور گائے کو ذبح کرنے کے لئے سزا کو یکساں کردیا گیا ہے۔جڈیجہ کا کہنا ہے کہ "ایک ہندو ہونے کے ناطے گؤ کشی کی وارداتوں سے مجھے بہت ہی دکھ ہوتا تھااورمیں بڑی شرمندگی محسوس کیا کرتاتھا۔ یہ نیا قانون جو لایا گیا ہے ،یہ ہماری ثقافت ، ہمارے مذہب اور ہماری معیشت کے تحفظ کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور یہ پورے ملک کے عوام کی آواز ہے!"جبکہ حالات پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں امسال گجرات میں منعقد ہونے والے اسمبلی الیکشن کے پیش نظریہ ہندو ووٹ بینک کو محفوظ اورمضبوط کرنے کی کوشش ہے ۔
اس صورتحال پر ذہن میں خیال آتا ہے کہ نریندر مودی نے گجرات ماڈل کو ملک بھر میں لاگو کرنے کی جوبات کہی تھی وہ دھیرے دھیرے ثابت ہوتی جارہی ہے، لہٰذا خدشہ ہے کہ گؤ کشی پر گجرات کے اس سخت قانونی کی پیروی دیگر ریاستوں میں بھی جلد ہی شروع ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں :
بے رنگ ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے جزیرے طوفان کی یہ آب و ہوا ہے کہ نہیں ہے
کیرالہ کے چیف منسٹر نے کیا خوب کہا: بہرحال بات مرکزی حکومت کے نوٹی فکیشن کی چلی تھی ۔مغربی بنگال، کیرالہ اور کرناٹکا کے وزرائے اعلیٰ نے مرکز کے اس اقدام کو ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کہی ہے۔ لیکن کیرالہ کے چیف منسٹر مسٹر وجیانن نے بڑے پتے کی بات یہ کہی ہے کہ" ریاست میں عوام کو کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے اس کا انتخاب کرنے کا حق دہلی اور ناگپور کو نہیں ہے"۔ اور شاید کیرالہ ہائی کورٹ مفاد عامہ کی عرضی پر فیصلے دیتے وقت اسی نکتے تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے۔ورنہ ہائی کورٹ کے جج کی کرسی پر بیٹھے اعلیٰ دماغوں کے لئے ایک طرف اس کے دوررس ہمہ جہتی منفی نتائج اور دوسری طرف زعفرانی مرکزی حکومت کی نیت اور پوشیدہ ایجنڈے کو سمجھنا ایسی بھی کوئی مشکل بات نہیں تھی۔کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ بگل تو ناگپور سے ہی بجتا ہے اور مارچنگ دہلی سے شروع ہوتی ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈہ اور بھاگوت کا مطالبہ: ہندوستان میں گؤکشی پر پابندی کا مسئلہ آزادی سے قبل ہی سرخیوں میں آچکا تھا۔ اوریہ ہمیشہ سے آرایس ایس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے ۔اسی لئے سنگھ پریوار سے وابستہ کٹرہندتووادی تنظیمیں وقتاًفوقتاً گؤکشی پر ملک گیر پابندی کی تحریکیں چلاتی رہی ہیں۔ اور اب تومودی سرکار کے آتے ہی گؤ رکھشا کے نام پر تشدد کا بازار بہت زیادہ گرم ہوگیا ہے ۔ مسلمانوں اور دلتوں کو خاص طور پر نشانہ بناتے ہوئے دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سارے فساد کی جڑ جیسے یہی دو طبقات ہیں۔اسی لئے جانکار وں کا کہنا ہے کہ گؤرکھشا کے نام سے دراصل مسلمانوں اور ہندوؤں کے خلاف ملک کے اندر ایک درپردہ جنگ proxy war چھیڑی گئی ہے۔ اس بات کو تقویت اس سے مل جاتی ہے کہ آر ایس ایس کے چیف مسٹر بھاگوت نے شرافت اور انسانیت کی نئی نقاب اوڑھتے ہوئے امسال اپریل میں ہی میں ایک بیان دیا تھاکہ:" گؤ رکھشکوں کی طرف سے تشدد اختیار کرنا درحقیقت گؤ رکھشا کی تحریک کو بدنام کرنے جیسا ہے۔گؤ رکھشا کے عمل میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے جس سے دوسرے کے جذبات مجروح ہوں۔ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے جوپُرتشدد ہو۔گائے کی حفاظت کا کام قانون اور دستور کے دائرے میں کرنا چاہیے۔" پھر دوسری سانس میں بھاگوت نے کہاتھا: "گؤکشی ایک ایسی برائی ہے ، جسے ختم کیا جانا چاہیے۔ ہماری خواہش ہے کہ پورے ملک میں گؤ ونش کی ہتھیا بند ہو"اس کے ساتھ انہوں نے مطالبہ کیاتھا کہ" چونکہ پابندی لگانا حکومت کے اختیار میں ہے اس لئے اسے ایک ایسا قانو ن لانا چاہیے، جس کے تحت ملک گیر پیمانے پر گؤ کشی پر پابندی لاگو ہوجائے۔"کہاں ملے گی بھلا اس ستم گری کی مثال ترس بھی کھاتا ہے مجھ پر ، تباہ کرکے مجھے
اور مودی جی نے کہا :جی حضور!: اب مودی جی کا سینہ بالفرض 56انچ کا ہوگا تب بھی وہ اپنے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کے سامنے اسے پھلاکر دکھانے کی جرأت تو نہیں رکھتے۔حالانکہ انہوں نے پچھلے دنوں گؤ رکھشا کے نام پر ہونے والی پرتشدد کارروائیوں پر دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا تھا کہ" گؤ رکھشا کی کارروائیاں کرنے والے سماج دشمن عناصر ہیں"۔لیکن ناگپور کے ہیڈگیوار بھون(آر ایس ایس ہیڈکوارٹر) سے نقارہ بجے اور مودی سرکار کان دھرے ! ایسا کوئی سپنے میں بھی سوچ نہیں سکتا۔سونریندر مودی جی کے لئے "جی حضور!"کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔(ویسے کچھ لوگوں کو خیال یہ بھی ہے کہ مگر مچھ کے آنسو بہانے میں نریندر مود ی کا ہاتھ کوئی بھی پکڑ نہیں سکتا!) مگر ناگپور کے اشارے پر دہلی سے احکام جاری کرنے میں ایک دستوری رکاوٹ تھی۔ کیونکہ دستور ہند کے مطابق گؤ کشی پر پابندی کا معاملہ ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اوراس میں مرکز مداخلت کر نہیں سکتا۔ لیکن اس پیچیدہ سچویشن سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ نکالنا فاشسٹ کیمپ کے عیار دماغوں کے لئے مشکل ثابت نہیں ہوا۔ انہوں نے شاطرانہ چال چلی اور جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک اور ظلم وستم روکنے کا جو اختیار مرکزی حکومت کے پاس تھا اس کا استعمال کرتے ہوئے جانوروں کے ساتھ رحمدلی اور تحفظ کے پردے میں ملک بھر میں گؤکشی پر پابندی لاگو کرنے کی جانب نپا تلا قدم اٹھایا اور Prevention of Cruelty to Animals (Regulation of Livestock Markets) Rules, 2017 نامی نوٹی فکیشن جاری کردیا۔ اس بھولے پن کا کیا جواب؟!: جب چاروں طرف سے اس حکم کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج ہونے لگے اور بعض ریاستوں نے اسے اپنے حقوق میں مرکزی سرکارکی مداخلت سے تعبیرکیا تو مودی حکومت بڑے بھولے پن سے وضاحت کرنے پر آگئی کہ ہم نے گوشت کھانے پر پابندی تھوڑی لگائی ہے، ہم نے تو جانوروں کی سلامتی اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کے برتاؤ پرپابندی عاید کرنے کے لئے انہیں کھلے بازار میں فروخت میں کرنے پر روک لگائی ہے۔شایدچچا غالبؔ کو بھی پتہ تھا کہ دہلی میں بیٹھی ہوئی سرکار کبھی ایسی چالیں بھی چلے گی کہ اس پر ان کا یہ شعر صادق آجائے گا:اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں !
اب ان سے کون پوچھے!: اب اس ظالم حکومت سے کون پوچھے کہ جب بازار میں جانور ہی دستیاب نہ ہونگے تو پھر ذبح کرنے، گوشت کھانے، چمڑے اور ہڈیوں کے علاوہ اس کے دیگر اجزاء سے چلنی والی صنعتوں کے پنپنے یا باقی رہنے کا سوال ہی کہاں سے اٹھتا ہے۔ یہ جو ذبح کرنے کے لئے فارم ہاوس سے جانور خریدنے کی گنجائش قانونی طور پر دکھائی جارہی ہے تو اس کے بارے میں عام کاروباری تو یہی کہے گاکہ نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ البتہ بیف کے ایکسپورٹ کاروبار میں لگے ہوئے بی جے پی کے قریبی بگ شاٹس اور کارپوریٹ سیکٹرکمپنیوں کو جو فائدہ ہونا ہے اس کے علاوہ قانون کے اس ایک تیرسے مودی سرکارنے کتنے شکار کیے ہیں، ان سب کی تفصیل میں جانے کی کوئی حاجت یوں نہیں ہے کہ یہ سب جگ ظاہر ہے۔ گؤ رکھشا کے سلسلے میں سب سے بڑا نکتہ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ہندوؤں کے مذہبی عقیدے اور آستھا کا معاملہ ہے۔ ان کے یہاں چونکہ اس جانور کو مقدس ترین ماناجاتا ہے اور اس کی پوجا کی جاتی ہے، لہٰذا گائے اور اس کے سنتان کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔ اور دوسرے باشندوں کو ہندوؤں کے ان جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے اسے کاٹنے اور کھانے سے کُلّی طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔ بات واقعی اگر آستھا کی ہے ۔۔تو۔۔۔!: واقعی اگر مذہبی عقیدے ہی کی بات ہے تو پھر ان ہندوکٹر پنتھیوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ و شنو Vishnuکے دس اوتاروںDashavtara میں شامل وراہا یعنی جنگلی سورboar ،مچھلیMatsya،کورمہKurmaیعنی کچھوے وغیرہ کابھی اسی طرح احترام کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ بات اگر آستھا ہی کی ہے تو پھر بازار میں چوہے مار دوا اور چوہے کے پنجروں کی فروخت پر پابندی لگنی چاہیے اور چوہو ں کو لیباریٹری سائنسی تجربات کے لئے تختۂ مشق بنانے پر سزا ہونی چاہیے کیونکہ چوہا بھی گنیش جیسے زبردست دیوتا کی سواری ہونے کی وجہ سے مقدس ٹھہرتا ہے۔ سائنسی لیباریٹری میں بندروں کو بھی تختۂ مشق بنانا قانونی طور پر جرم قراردیا جاناچاہیے ،کیونکہ اسے بجرنگ بلی یعنی ہنومان کا اوتار مانا جاتا ہے اور دیومالائی کہانی کے مطابق بندروں نے سیتا کو ڈھونڈنے میں بھگوان رام کی مدد کی تھی ۔ہاتھی کو جنگلوں میں مشقت پر مجبور کرنے ، زنجیروں سے باندھ کر رکھنے اور سرکس میں تماشائیوں کو خوش کرنے کے لئے استعمال پر بھی پابندی لگنی چاہیے ، اس لئے کہ ہاتھی گنیش کا اوتار ہے۔سانپوں کو ہلاک کرنے والوں کو بھی عمر قید کی سزا ہونی چاہیے کیونکہ یہ شیو کے گلے کا ہار ہے اور اسے بھی دیوتا کادرجہ حاصل ہے۔ مگریہ سب کیوں ہوگا؟!: بات اگر آستھا ہی کی ہے تو پھرگھوڑوں کی بھی پوجا ہونی چاہیے کیونکہ ویدوں کے مطابق گھوڑے بھی ان دیوتاؤں Asvins کے اوتار ہیں جو مصیبت زدہ اور گم شدہ لوگوں کی مدد کو آتے ہیں۔ ان ہندتووادیوں کوکتوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لینی چاہیے ،کیونکہ نیپال کے علاوہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں تیہار یعنی دیپاولی کے موقع پر کتوں کی بھی خصوصی پوجا کی جاتی ہے۔انہیں شیوا کی سواری ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ بات اگر تقدیس کی ہے تو پھراُلّوOwlکو بھی تقدس ملنا چاہیے کیونکہ یہ لکشمی کی سواری ماناجاتا ہے۔ غیر آختہ یعنی خصی نہ کیے ہوئے بھیڑ کو بھی مقدس سمجھ کر اس کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسے ذبح کرنے اور اس کاگوشت کھانے پر پابندی لگنی چاہیے کیونکہ یہ تو اگنی fireدیوتا اور بعض روایات کے مطابق چندراmoonدیوتا کی سواری ہے۔ مگریہ سب کیوں ہوگا؟!جبکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہاں اصل مقصد آستھا کے بجائے اشانتی پھیلانا اور اقلیتوں کو دہشت میں مبتلا کرنا ہے۔لیکن فسطائیت کے ان علمبرداروں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ :تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا سورج کی بس ایک کرن سے گھُٹ جا تا ہے دَم
haneefshabab@gmail.com (۔۔۔گؤ رکھشا کے کے حامیوں کا پارلیمنٹ پر حملہ۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔ آئندہ قسط ملاحظہ کریں)