نیبر ہڈ میں والد صاحب قبلہ : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

03:37PM Tue 27 Oct, 2015

 خبر لیجئے زباں بگڑی

اطہر علی ہاشمی

ایک اچھے کالم نگار نے، جن کو عربی پر بھی عبور ہے اور فارسی کی شد، بد بھی…… اپنے کالم میں انکسار کا اظہار کرتے ہوئے ’’ہیچ مند‘‘ لکھا۔ ضرورت مند، خواہش مند وغیرہ تو سنا تھا، ہیچ مند نیا لفظ تھا۔ احتیاطاً لغت میں بھی تلاش کیا کہ شاید ایسا کوئی لفظ ہو۔ یہ دراصل ’’ہیچ مداں‘‘ ہے یعنی کچھ نہ جاننے والا۔ بطور عاجزی و انکساری اپنے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صرف ’ہیچ‘ کا مطلب ہے: معدوم، جس کا وجود نہ ہو۔ ’ہ‘ زیر اور زبر دونوں کے ساتھ صحیح ہے، مثلاً یہ شعر: کمر کو کہوں کیونکے میں اس کی ہیچ نہ آوے نظر، تو ہے قسمت کا پیچ ہیچ کا قافیہ پیچ بالفتح یعنی زیر کے ساتھ ہی بنتا ہے۔ ہیچ نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک مصرع ہے ’’کشاکش میں تھا، ورنہ جینا تو ہیچ‘‘۔ یعنی جینے کی امید نہیں تھی۔ یہ فارسی کا لفظ ہے۔ اس کے مزید معانی: کم، قلیل، نکما، ناکارہ ، قابلِ نفرت، زبوں، پوچ وغیرہ ہیں۔ لغت میں فارسی کا ایک محاورہ ہے ’’ہیچ آفت نہ رسد گوشۂ تنہائی‘‘۔ یعنی جو سب سے الگ ہوگیا وہ رنج سے بچ گیا۔ لیکن یہ بہادری تو نہیں۔ یہ ’’پوچ‘‘ کالفظ بھی اب متروک ہوتا جارہا ہے۔ رشید حسن خان نے ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ میں ’’ہیچ‘‘ کو زیر کیا ہے یعنی ’ہ‘ بالکسر ہے۔ ہیچ سے اور الفاظ بھی بنتے ہیں جیسے ’’ہیچ میرز‘‘ یعنی کسی قیمت کا نہیں، کسی قابل نہیں۔ ناچیز (بہ طور انکسار عموماً اپنے لیے استعمال کرتے ہیں)۔ اس کا کوئی تعلق میر و میرزا سے نہیں۔ ایک اور لفظ بلکہ الفاظ کا جوڑا ہے ’’ہیچ و پوچ‘‘۔ بے مغز، بے ہودہ، فضول۔ اہلِ پنجاب ’’بے فضول‘‘ بھی کہتے ہیں، اچھا لگتا ہے۔ اسی طرح ’’بے عزتی خراب ہوگئی‘‘ بھی عوامی زبان ہے۔ ’’پوچ‘‘ کا مطلب بھی لغو، بے ہودہ، مہمل، ذلیل، حقیر، پاجی، کمینہ، نیچ وغیرہ ہے۔ فارسی کا لفظ اور اسم صفت ہے بشرطیکہ یہ کسی کی صفت نہ ہو۔ اسی سے پوچ گو اور پوچ مغز ہے، یعنی فضول بکنے والا۔ اب اس کا استعمال کم کم نظر آتا ہے، البتہ ’’پوچا‘‘ گھر گھر عام ہے جس کا کوئی تعلق پوچ سے نہیں۔ ’’کھلی چھٹی‘‘ سے پیچھا نہیں چھوٹ رہا۔ منگل کو ایک کثیر الاشاعت اخبار میں شائع ہونے والے کالم کی ذیلی سرخی ہے ’’اگر اسکول بند رہیں گے تو جہالت کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔‘‘ یہ ٹھیک ہے کہ اسکول بند رہنے اور چھٹی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، لیکن مذکورہ جملے میں ’’کھلی چھوٹ‘‘ کا محل تھا۔ معروف کالم نگار آفتاب اقبال اپنے ٹی وی پروگرام میں زبان کی اصلاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ بہت اچھا کام ہے۔ لیکن وہ خود بھی اگر ’’سمجھ نہیں آئی‘‘ نہ لکھیں تو اچھا ہے کہ یہ ’’سمجھ میں نہیں آیا‘‘ یا ’’یہ بات سمجھ میں نہیں آئی‘‘ ہونا چاہیے۔ سمجھ کا مطلب ہے: عقل، دانائی، فہم، ادراک، دانش، گمان۔ اس پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے اور ایک مصرع بھی پیش کیا تھا کہ سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی لغت میں بھی ’’سمجھ میں آنا‘‘ (اردو محاورہ) ہے یعنی خیال میں آنا، ذہن نشین ہونا۔ البتہ ایک محاورہ ’’سمجھ پر پتھر پڑنا‘‘، اور ’’سمجھ کا پھیر‘‘ بھی ہے۔ ’علاوہ‘ اور ’سِوا‘ کا جھگڑا بھی فیصل نہیں ہوا۔ تحریکِ انصاف کے ارکان اسمبلی کو ’’بے نشست‘‘ کرنے کا جھگڑا چل ہی رہا ہے۔ اسی حوالے سے منگل 4 اگست کو ایک ٹی وی چینل پر شاہ محمود قریشی کا جملہ چل رہا تھاکہ ’’جے یو آئی اور ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی پارٹی ڈی سیٹ نہیں کرنا چاہتی‘‘۔ یہاں ’’علاوہ‘‘ کی جگہ ’’سِوا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ اب یہ ’’ڈی سیٹ‘‘ بھی اردو میں جم کر بیٹھ گیا ہے۔ کوئی مناسب ترجمہ میسر نہیں۔ ایک اور لفظ ہے ’’سیوریج کا پانی‘‘۔ سیلاب کے پیش نظر اس کا ذکر بھی زیادہ ہورہا ہے۔ اس کا ترجمہ ’’گنداب‘‘ کیا گیا تھا لیکن رائج نہیں ہورہا۔ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ لکھنا اور کہنا شروع کردیں تو عام ہو ہی جائے گا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک صحافی نے عرصہ پہلے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ایک اصطلاح ’’پاکبان‘‘ وضع کی تھی مگر یہ بھی مقبول نہ ہوسکی۔ مرزا غالب سے کسی نے کہا تھا کہ جب کسی کا کلام فقیر اور طوائف کے منہ پر آجائے تو مقبول ہوجاتا ہے۔ اُس زمانے میں ٹی وی چینل تو کیا، ریڈیو کا وجود بھی نہیں تھا، مذکورہ شخصیتیں ہی ذریعہ ابلاغ تھیں۔ کراچی کے ایک شاعر حکیم ناصر کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ اُن کی دو غزلیں عابدہ پروین نے کیا گائیں کہ اچانک مشہور ہوگئے۔ بعض لوگوں نے یہ کلام ناصر کاظمی سے منسوب کردیا۔ آج کل کے فقیر ایسے ادب شناس نہیں کہ میر و غالب کا کلام پڑھ کر بھیک مانگیں۔ لاہور میں اہلِ قلم کانفرنس 4 اگست کو ہوگئی۔ اس کے دعوت نامے میں لکھا ہے کہ یہ عطاء الحق قاسمی کی پریزیڈنسی (Presidency) میں منعقد ہورہا ہے۔ ہمارے محترم افتخار مجاز نے لاہور ہی سے استفسار کیا ہے کہ کیا یہاں پریزیڈنسی کا استعمال صحیح ہے؟ افتخار مجاز پی ٹی وی کے ریٹائرڈ کنٹرولر ہیں۔ وہ اب بھی کنٹرول کرنے کی فکر میں ہیں۔ بھائی مجاز، یہ انگریزی کا معاملہ ہے، ہم تو ابھی اپنی اردو ہی صحیح نہیں کرسکے۔ بار بار لغت اٹھاتے اور رکھتے ہیں۔ مذکورہ تقریب جناب عطاء الحق قاسمی کی صدارت میں ہورہی تھی جو خود ایک بڑے استاد ہیں، اردو، انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔ ان کی منظوری ہی سے ان کی ’’پریزیڈنسی‘‘ میں تقریب ہوئی ہے تو اس لفظ کا استعمال صحیح ہی ہوگا، ورنہ سب سے پہلے وہ خود اعتراض کرتے۔ اس تقریب کا احوال تو اُن کے کالم میں آہی جائے گا، لیکن تقریب کی صدارت کے لیے یہ لفظ نامانوس ہے۔ لغت کے مطابق Presidency کا مطلب صدر کا دفتر (آفس)، مدتِ صدارت کے علاوہ ’’صدارت‘‘ بھی ہے۔ لیکن اس کا مطلب کسی تقریب کی صدارت نہیں۔ جب برعظیم پاک و ہند پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ تھا تو اس کے زیرتسلط کسی بھی صوبے کو پریزیڈنسی کہا جاتا تھا۔ اسیم کاویانی کے مضمون ’’روزمرہ و محاورۂ زبان‘‘ کا حوالہ پہلے بھی کہیں آیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جدید دور کے اساتذہ نے جو طالب علم پیدا کیے، اُن سے زبان کا وہ حشر ہوا اور نثر ان حالوں کو پہنچی کہ ایک بار محمد حسن عسکری کو یہ لکھنا پڑا ’’اردو نثر نئی صلاحیتیں تو کیا پیدا کرتی، جتنی صلاحیتیں خود اس کے اندر موجود تھیں انہیں بھی پھپھوندی لگ رہی ہے‘‘…… ہم آج کل جو نثر لکھ رہے ہیں وہ اردو کے ابتدائی قاعدے کی نثر ہے: کتا آیا، بلی گئی، اور خواجہ احمد فاروقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے بچے کا یہ قصہ سناتے نظر آئے کہ جب وہ کراچی کے انگریزی اسکول میں پڑھتا تھا، ایک روز بدایوں کے ایک بزرگ ان کے یہاں پہنچے اور اس بچے سے پوچھا: ’’میاں! والد صاحب قبلہ تشریف رکھتے ہیں!‘‘ بچہ اندر گیا اور ماں سے پوچھا ’’ممی ہمارے نیبرہڈ (ہمسائے) میں کوئی والد صاحب قبلہ رہتے ہیں! ایک آدمی پوچھتا ہے۔‘‘ لیکن اس میں بچے سے زیادہ والدین قصوروار ہیں۔ انگریزی اسکول میں ضرور داخل کیجیے لیکن گھر میں اردو کا داخلہ ممنوع قرار نہ دیں۔ وہ تو بچہ تھا، کسی کالج اور جامعہ کے طالب علم سے لیث (ابواللیث) کا مطلب پوچھ دیکھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ’’علمی اردو لغت‘‘ میں لیپ اور لیس ہی نہیں LATE بھی موجود ہے مگر لیث کا ذکر نہیں۔ لیس بمعنی کمربستہ، مستعد، کیل کانٹے سے درست ہی نہیں، انگریزی کی LACE بھی موجود ہے مگر لیث غائب ہے۔ قارئین لغت دیکھیں اور ہمیں بھی بتائیں۔