پارلیمنٹ میں پھانسی کی سزا پر بحث منظور از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

03:28PM Sat 1 Aug, 2015
 از:حفیظ نعمانی ملک کی پارلیمنٹ کے ممبروں کے لئے یہ بھی ایک تفریح کا موضوع ہے کہ ایک مسلمان کو پھانسی دینے کے بعد یہ بحث شروع کردی جائے کہ کسی انسان کو پھانسی دینا صحیح ہے یا غلط؟ اس کی ابتدا گاندھی جی سے کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ مہاتما گاندھی کے دیس میں پھانسی پر اس لئے روک لگنا چاہئے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم جب کسی کو زندگی دے نہیں سکتے تو کسی کی زندگی لینے کا ہمیں کیا حق ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ پھر کوئی مسلمان ایسا مل جاتا ہے جسے پھانسی دینے کی گنجائش ہوسکتی ہے تو پھر اسے پھانسی دے کر یہ بحث شروع ہوجاتی ہے تاکہ پھانسی پانے والے کے تمام رشتہ دار اور ہم مذہب یہ سمجھ لیں کہ جب پھانسی پر پابندی لگ جائے گی تو پھر نہ کسی افضل کو پھانسی ہوگی نہ یعقوب کو اور وہ پھر لائن میں لگ کے ہمیں ووٹ دے دیں گے۔ پارلیمنٹ میں کیا ہو کیا نہ ہو؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم آخری سانس تک کہیں گے کہ سزائے موت کا حکم خدا نے دیا ہے۔ اپنے قرآن عظیم میں انّ النّفسَ بالنّفسِ۔ یعنی جان کا بدلہ جان ہے فرماکر قیامت تک کے لئے سزائے موت کو جائز نہیں بلکہ ضروری قرار دیا ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ اور یوروپ کے کئی ملکوں نے مشورہ دیا ہے کہ سزائے موت پر جو پابندی اس نے لگائی تھی اسے پھر لگادے اور پھانسی دینا بند کردے۔ ہر عیسائی پھانسی کی سزا کا اس لئے مخالف ہے کیونکہ یہ اسلامی شریعت کی سزا ہے اور جو ہندو مخالفت کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ اُن کے اندر سے عیسائیوں کی غلامی کے اثرات پوری طرح نہیں گئے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت صدر جمہوریہ کا عہدہ اور قصر صدارت ہے کہ اختیار اتنا ہے کہ جب اندرا گاندھی کے حکم سے آپریشن بلیو اسٹار کا حملہ ہوا اور سنہرا گرودوارہ کا ایک حصہ کھنڈر بن گیا تو صدر گیانی ذیل سنگھ ایک مذہبی سکھ کی حیثیت سے اُڑکر امرتسر نہیں گئے اور تینوں فوجوں کے سب سے بااختیار سربراہ ہونے کے باوجود فوج کے کمانڈر انچیف سے یہ نہ معلوم کرسکے کہ کیا ہورہا ہے؟ بلکہ اندرا گاندھی کے سکریٹری دھون سے کہا کہ وزیر اعظم سے کہو کہ ہم امرتسر جانا چاہتے ہیں۔ یعنی ہمیں اجازت مرحمت فرمادی جائے اور اندراجی امریکہ میں تھیں انہوں نے جواب دیا کہ کہہ دو کہ جب ہم آجائیں تب چلے جانا اور اُن کے لئے محل اتنا بڑا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبروں کے لئے 500 کوٹھیاں اس کے اندر بن سکتی ہیں اور ان کا خرچ اتنا ہے کہ جتنا آدھے وزیروں کا بھی شاید نہ ہوتا ہو۔ صرف اس لئے کہ انگریز اپنے جارج اور اپنی ملکہ کو اسی طرح رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نسل درنسل قصر بکنگھم میں رہتے ہیں اور ہمارے صدر پانچ برس کے بعد امریکہ جانے لگیں تو جوتے اترواکر تلاشی بھی دے دیتے ہیں۔ بات تھی سزائے موت کی اگر مسلمان قرآن عظیم کی چھوٹی سے چھوٹی ہدایت کی بھی پابندی سے انکار کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ جائے گا۔ آلِ سعود نے جب انگریزوں کے ایجنٹ شریف مکہ کی مٹھی بھر فوج کو مارکر بھگا دیا اور ملک پر قبضہ کرلیا تو اقوام متحدہ کے سکریٹری نے ان سے اُن کے ملک کا دستور طلب کیا۔ تو سلطان عبدالعزیز آلِ سعود نے کلام پاک کا ایک نسخہ بھیج دیا تھا کہ یہ ہے ہمارا دستور۔ اب اس کے بعد کوئی بھی مسلمان ملک سزائے موت پر اگر پابندی لگاتا ہے تو وہ پھر اپنے کو مسلم ملک کہنے کا حقدار بھی نہیں رہے گا۔ قرآن عظیم پاک پروردگار کی ان سیکڑوں کتابوں میں آخری کتاب ہے جو آسمان سے پیغمبروں علیہم اسلام پر نازل ہوئیں اور قرآن سے پہلے نازل ہونے والی انجیل بھی آج محفوظ نہیں ہے۔ اس لئے ان کی قیامت تک حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ اسے کاغذ پر بھی لکھوا دیا اور سینوں میں محفوظ کردیا آج صرف یہی ایک کتاب ایسی ہے جو شاید کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے اور کسی میں ایک حرف کا بھی فرق نہیں۔ یہ فیصلہ شاید پروردگار نے پہلے ہی کرلیا تھا اس لئے اسے اس طرح نازل فرمایا کہ اس میں ترنم اور نغمگی ہے یہی وجہ ہے کہ پورا قرآن ترنم سے پڑھا جاتا ہے سیکڑوں مثالوں میں سے صرف ایک لکھ رہا ہوں قرآن عظیم میں ہے ’’وما خلقت الجنّ ولانس الالیعبدون‘‘ ہم نے جنات اور انسانوں کو صرف اسلئے پیدا کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ اسی ایک مختصر سی آیت کو اگر پہلے انس اور بعد میں جنّ پڑھا جائے تو پڑھنے میں ترنم میں ہلکاسا فرق پڑجاتا ہے اور معنیٰ نہیں بدلتے۔ اسی طرح والذین معہ أشداء علی الکفار رحماء بینہم پہلے آتا اوأشداء بعد میں تو نغمگی میں فرق پڑتا ہے معنیٰ میں نہیں۔ ہر کسی کو اس کا تجربہ ہے کہ نثر چاہے کتنی ہی پرکشش ہو شعر کی طرح یاد نہیں رہ سکتی۔ قرآن عظیم وہ کتاب ہے جسے سیکڑوں نابینا لوگوں نے بھی یاد کیا اور قصبات میں اکثر مسلمان نابینا کو حافظ جی کہتے دیکھے ہیں۔ اب یہ سوچئے کہ جب قیامت تک قرآن ایک ہی رہے گا تو سزائے موت کا حکم بھی رہے گا۔ اب دنیا کتنی ہی بدل جائے قرآن کے اس حکم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کسی مسلمان کو نہ افضل کی پھانسی کی شکایت ہوسکتی ہے اور نہ یعقوب کی اور نہ کسی مسلمان ممبر پارلیمنٹ کو یہ حق ہے کہ وہ سزائے موت یا پھانسی کے خلاف ووٹ دے۔ ہماری شکایت صرف یہ ہے کہ یہ سزا کسی ہندو کو کیوں نہیں دی جاتی؟ کیا حکومت یا اس کی عدلیہ پنرجنم کے عقیدے کی وجہ سے ڈرتی ہے کہ نہ جانے کسے غلط پھانسی دے دی جائے اور وہ راون بن کر جنم لے لے اور ملک میں انارکی پھیلادے؟ ہمیں کوئی شکایت عدلیہ سے نہیں ہے۔ شکایت حکومت، پولیس اور سی بی آئی سے ہے۔ ان کے دل میں پیدا کرنے والے کا خوف نہیں ہے اور وہ شاید یہ سوچتے ہیں کہ ایک مسلمان کو اگر ہم کم کرادیں گے تو یہ ان کے پاپوں کو کم کردے گا۔ سردار پٹیل اور ان کے بعد ہر مرکزی اور صوبائی حکومت میں مسلمانوں کو پولیس میں بھرتی نہ کرنا اور انتظامیہ میں کوئی ذمہ دار عہدہ نہ دینا صرف اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہندو ساتھیوں کی بے ایمانیوں، ظلم اور جھوٹ کا گواہ بن جائے گا۔ 1947 ء میں پولیس میں مسلمان 40 فیصدی تھے۔ اب چار فیصدی ہیں تو ایسی جگہ ہیں کہ وہ یا کلرکی کررہے ہیں یا ڈرائیور ہیں یا پہرہ دے رہے ہیں اور مقدمہ بنانے والے اسے ایسا بنا دیتے ہیں کہ جج اسی نتیجہ پر پہونچتے ہیں جس پر وہ پہونچانا چاہتے ہیں۔ 1993 ء کے ممبئی میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے قتل کی انکوائری صرف تحقیقاتی کمیشن کو سونپنا اور اسی دن کے بم دھماکوں کی تحقیق سی بی آئی کو دینا ہی ثابت کرتا ہے کہ حکومت کا ہر وزیر بھی بے ایمان ہے اور مسلم دشمن ہے۔ آج افضل جیسے بے گناہ کو پھانسی دینے والی کانگریس کے دگ وجے سنگھ اور ششی تھرور کو کیا حق ہے کہ یعقوب میمن کے مسئلہ میں ایک بھی لفظ زبان سے نکالیں؟ ان کے وزیر داخلہ نے جو کچھ کیا وہ راج ناتھ سنگھ کے مقابلہ میں 100 گنا زیادہ شرمناک اور گھناؤنا تھا کہ نہ اس کے گھر والوں کو پہلے اطلاع کی اور نہ لاش سونپی۔ یعقوب کے جنازہ میں بھی جیسے ہزاروں ہزار کا مجمع تھا ایسا ہی افضل کے جنازے میں ہوتا اور جیسے کوئی اور بم دھماکہ ممبئی میں نہیں ہوا ایسے ہی کشمیر میں نہ ہوتا۔ اتنی بے ایمانی راج ناتھ سنگھ نے بھی کی آخری وقت کا فوٹو جاری نہیں کیا جس میں اس کی صورت پر نور برس رہا تھا اور ہر ٹی وی چینل کو شاید حکم تھا کہ وہ یعقوب کے جنازے کا جلوس نہ دکھائے اسی لئے ہر کوئی میزائل مین کی قبر پر کھڑے 15 آدمیوں کوفاتحہ پڑھتا ہوا دکھاتے رہے اور جو ایک لاکھ کے قریب مسلمان یعقوب کے لئے دعائے مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے ان پر اپنی ندامت کا پردہ ڈالے رہے۔ یعقوب کے معاملہ میں بھی اور افضل کے معاملہ میں بھی میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے وہ صحافت کو ماں کی گالی دینا جیسا ہے صرف دیسائی اور رویش کمار ثابت کرتے رہے کہ وہ صحافی ہیں باقی سب تو ایسا لگتا تھا جیسے ان کی بہن یا بیوی کو یعقوب بھگاکر لے گیا اور اسے قتل بھی کردیا اور ہم پھر لکھ رہے ہیں کہ ہزاروں بار بم دھماکوں سے گرنے والی عمارتوں کو دکھانے کے بعد کل اور پرسوں بھی دن بھر ان کو ہی دکھاتے رہے۔ اور ایک جھلک بھی اس کی نہیں دکھائی کہ زخمی خون میں لت پت مسلمان ٹرینوں میں بیٹھ کر بھاگ رہے ہیں اور لکھنؤ میں انہیں اتارکر انہیں منزل پر پہونچانے والے صرف مسلمان ہیں اور جنہوں نے راستے میں دم توڑ دیا انہیں ان کے وطن یا لکھنؤ میں ہی سپردِ خاک کیا جارہا ہے اور زخمیوں کو علاج کے لے اسپتال بھیجا جارہا ہے۔