خبرلیجئے زباں بگڑی۔۔۔ ایک کالم طوعا و کرہا ۔۔۔تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

10:43AM Sat 7 Oct, 2017

سمندر پار سے محترم عبدالمتین منیری کے توسط سے ایک خاتون عابدہ رحمانی کا خط یا اعتراض موصول ہوا ہے۔ کاکسس بازار کے حوالے سے وہ لکھتی ہیں ’’یہ نام کاکسس بازار ہے اور اسی نام سے معروف ہے cox's bazar۔ ۔ ۔ اطہر ہاشمی صاحب زیبِ داستان کے لیے کاسس بازار اور کاکس بازار لکھ رہے ہیں۔ ہم 1969ء کے آخر میں مشرقی پاکستان کے زمانے میں وہاں گئے تھے۔ انتہائی شفاف اور خوبصورت ساحلِ سمندر ہے۔ ریت میں بے انتہا مونگے اور سیپیاں ہیں، وہاں موجود مونگے سے آرائشی اشیا بنانے والے ٹوکری میں ریت بھر کر پانی میں ڈالتے اور مونگے سیپیاں چھان کر لے آتے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم نے ان سے ٹوکریاں خریدیں اور ایک ڈھیر جمع کرلیا۔ تازہ پامفرے مچھلی میں نے پہلی مرتبہ یہیں کھائی اور بہت لطف آیا۔ یہ ایک طویل ساحل ہے جو برما میں ٹیکناف تک جاتا ہے۔ دلچسپ یا افسوس ناک امر یہ ہے کہ مکتی باہنی کے ستائے ہوئے بہت سارے بہاریوں اور پنجابیوں نے اسی راستے برما کی طرف ہجرت کی۔ انسانی المیوں اور منافرتوں کی داستان کافی طویل ہے۔ وطیرہ اور ناتا یا ناطہ سب ہی لکھنے میں آتا ہے۔ یہ پیغام ہاشمی صاحب کو ضرور بھیج دیں۔ والسلام عابدہ رحمانی‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بی بی عابدہ رحمانی! ہم نے لکھا تھا کہ پاکستان کے اردو اخبارات اسے ’کاکس بازار‘ لکھ رہے ہیں جب کہ یہ ’کاسس‘ ہے۔ بریکٹ میں مزید وضاحت کے لیے انگریزی ہجے بھی دے دیے تھے۔ لیکن یہ خط ملنے پر کالم دوبارہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ کمپوزنگ کی غلطی نے کاکسس کو ’’ کاسس‘‘ کردیا۔ یہی غلطی عنوان میں بھی ہوئی ہے اور ہمارا مقصد خبط ہوگیا، اصلاح بے کار گئی۔ لیکن یہ زیبِ داستان کی وجہ سے نہیں ہوا اور چوں کہ کالم کی پروف ریڈنگ خود ہم نے کی تھی اس لیے اس غلطی کے ذمے دار ہم بھی ہیں۔ عابدہ رحمانی گرفت نہ کرتیں تو ہم اپنی غلطی سے آگاہ نہ ہوتے کہ چھپنے کے بعد ہم خود نہیں پڑھتے۔ ایک بار پھر وضاحت کردیں کہ یہ ’’ کاک سس ہے۔ جسارت اخبار میں تو کئی بار درست کیا گیا۔ پامفرے مچھلی غالباً وہی ہے جسے عوام کی زبان میں ’’پاپلیٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بہرحال بی بی عابدہ رحمانی کا شکریہ۔ لیکن یہ خوب کہا کہ وطیرہ اور ناطہ سب ہی لکھتے ہیں۔ کیوں لکھتے ہیں؟ کیا صحیح لفظ لکھنا غلط ہے؟ جب کہ وتیرہ عربی ہی کا لفظ ہے اور ناتا ہندی کا۔ سب ہی لکھتے ہیں کو بطور دلیل مان لیا جائے تو پھر جو جیسا چاہے لکھے۔ لیکن کیا انگریزی کی تحریر میں املا اور زبان کی غلطیاں تسلیم کی جاتی ہیں؟ اسکول میں تو غلط انگریزی لکھنے پر پٹائی ہوجاتی تھی، البتہ اردو جیسے چاہے لکھ دو، لغات کو آگ لگادو۔ نجیب ایوبی صاحب جسارت کے سنڈے میگزین میں برصغیر کی سیاست کے حوالے سے مضامین لکھ رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ’’رانا‘‘ لکھ کر راجپوت بنادیا اور رانا ثنا اللہ کی برادری میں شامل کردیا (سنڈے میگزین 17تا 23 ستمبر)۔ یہ کمپوزنگ کا سہو نہیں ہے کیوں کہ ایک سے زاید بار ’’رانا لیاقت‘‘ شائع ہوا ہے۔ ایک نوجوان صحافی یہ مضمون پڑھ کر کہہ رہا تھا کہ ہم تو آج تک بیگم صاحبہ کا نام غلط لکھتے پڑھتے رہے، آج اصلاح ہوگئی۔ پچھلے کسی کالم میں ہم نے ’’طوعاً و کرہاً‘‘ کے مطالب قارئین پر چھوڑ دیے تھے۔ لیکن کچھ قارئین کی فرمائش ہے کہ یہ کام بھی ہم ہی کرڈالیں۔ (آپس کی بات ہے کہ لغوی معنی ہمیں بھی نہیں آتے تھے چنانچہ لغت ہم ہی نے دیکھ ڈالی) مطلب تو واضح ہیں یعنی اطاعت کرنے والا اور کراہت کرنے والا، چاروناچار۔ عربی کے الفاظ ہیں اور اردو میں ایک ساتھ ہی آتے ہیں۔ طوعاً کا مادہ ’’طوع‘‘ ہے (بفتح اول، مونث) مطلب ہے رغبت، رضامندی، خوشنودیٔ خاطر۔ کراہت اور کریہہ کا استعمال اردو میں عام ہے۔ سعودی عرب میں مطوع ہوتے ہیں جن کو مذہبی سپاہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ غیر شرعی کاموں کی گرفت کرتے ہیں اور نماز کے وقت خاص طور پر صلّی صلّی کی صدا بلند کرکے لوگوں کو مسجد کی طرف کھینچتے ہیں۔ ان سے بااثر طبقہ بھی کتراتا ہے اور ان کا زور توڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان کی تنظیم طوع الاسلامیہ کہلاتی ہے۔ بے نمازیوں کو پکڑ کر بند بھی کردیا جاتا ہے۔ پانچ نمازیں پڑھوا کر چھوڑا جاتا ہے۔ بطور لطیفہ یہ بھی سننے میں آیا کہ نماز نہ پڑھنے پر سکھ کو بھی پکڑ لیا گیا۔ طوع کا مطلب رضامندی ہے چنانچہ مطوّع کو رضا کار کہا جاسکتا ہے۔ عربی کا ایک لفظ ’’طِیْب‘‘ ہے بروزن بیم۔ ہم بربنائے جہالت اسے طیّب پڑھتے رہے یعنی بالفتح و تشدید دوم بمعنیٰ پاک، حلال۔ جمع طیبات۔ اردو میں طِیب عموماً خاطر کے ساتھ آتا ہے مثلاً ’’آپ نے بطیب خاطر یہ بات منظور کی تھی‘‘۔ طِیب کا مطلب ہے خوش، خوشی، رضامندی۔ ہماری طرح جو لوگ طِیب کو طیّب پڑھتے ہوں وہ بھی اصلاح کرلیں۔ مدینہ منورہ کے لیے مدینہ طیبہ کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی بغیر تشدید کے ہے۔ استاد جلیل کا شعر ہے: ہند میں تن ہے مرا، جان مری طَیبہ میں اس کو عشاق غریب الوطنی کہتے ہیں مدینہ منورہ ہی کے لیے طیّبہ کا لاحقہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا طِیب، طیّب اور طَیبہ تین الگ الگ الفاظ ہیں۔ ’’افراتفری‘‘ اردو میں بہت عام ہے، یعنی یہ ترکیب ہی نہیں بلکہ جو اردو لکھی اور بولی جارہی ہے اس میں بھی افراتفری نمایاں ہے۔ لغت کے مطابق افراتفری افراط و تفریط سے بگڑ کر اس صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ اردو کو دنیا کی تیسری بڑی زبان قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اُن ممالک میں بھی پرورش پارہی ہے جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت نہیں۔ لیکن جہاں اردو نے جنم لیا اور گنگا جمنا کی وادیوں میں پل کر جوان ہوئی وہاں اردو اتنی مظلوم ہے کہ اس کا رسم الخط بدلا جارہا ہے۔ جو زبان رسم الخط سے محروم ہوجاتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔ بھارت میں رسم الخط کی سطح پر اس کا نمبر مسلسل گررہا ہے۔ ہندوستان کی واحد اردو جامعہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی مکمل ویب سائٹ صرف انگریزی میں دستیاب ہے۔ یہی نہیں مسلم اقلیتی یونیورسٹیوں اور ملّی و سماجی تنظیموں کی بیشتر ویب سائٹس صرف انگریزی ہی میں دستیاب ہیں (بحوالہ سہ روزہ دعوت، دہلی)۔ لیکن اس کے ساتھ ’’ریختہ ڈاٹ آرگ‘‘ پر ایک ہزار سے زاید شاعروں کی دس ہزار غزلیں اور بہت سی کمیاب و نادر اردو کتابیں موجود ہیں۔ اس ویب سائٹ پر جو کچھ ہے وہ اردو رسم الخط کے ساتھ رومن اور دیوناگری میں بھی ہے۔ لیکن خود پاکستان میں اردو کے ساتھ کیا ہورہا ہے جس کی یہ قومی زبان ہے۔ لیکن قوم کہاں ہے؟

فرائیڈے اسپیشل

www.akhbaroafkar.com