یادمجذوب۔ قسط 03۔۔۔ تحریر: محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:40PM Wed 20 Feb, 2019

ایسی ہی ایک محفل میں مجذوب صاحب کی سحری کے لئے آم لائے گئے، عشاء کے بعد سے تین بجے رات تک وہ مولانا قطب میاں صاحب (مرحوم) کے یہاں سناتے رہے تھے۔ دوسرے دن مجذوب صاحب کو روزہ رکھنا تھا گھر جاکر سحری کرتے! مولانا قطب میاں صاحب نے اپنے یہاں انتظام کردیا تھا کہ تھوڑی دیر اور مجذوب صاحب کا سنانا جاری رہے۔ بمشکل سادی چائے پر مجذوب صاحب رضامند ہوئے۔ تھوڑے سے آم بھی تھے، تروتازہ، خوش رنگ، اور سڈول، بس مجذوب صاحب بیچپن ہوگئے اور جب ان پر چاقو چلا تو انہوں نے منہ پھیر لیا۔

 اسی وقت انھوں نے برملا حسن پرستی کے "جرم" کا اقرار کیا۔ کہنے لگے "میری چار پانچ مہینے کی ایک پوتی ہے، گوری گوری خوبصورت نرم نرم ہاتھ پاؤں، اس کو گود میں لے کر ایک دفعہ عجیب خواہش ہوئی، یعنی اس کے بدن کو منہ میں لے کر دانتوں سے خوب چباؤں۔"

 انسانی بدن کو دانتوں سے چبانے کا تصور ہے بہت کریہہ، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ وفورِ رغبت کے اظہار میں ‌‌"لب و دنداں" کی سرگرمیوں کا کتنا دخل ہوا کرتا ہے۔

 مجذوب صاحب نے تو نفسیات، جنسیات، اشارات، کنایات، کسی کا بھی سہارا لئے بغیر جو بات محسوس کی کہہ دی، مگر، اس طرح انہوں نے اپنی پوری شخصیت کو بے نقاب کردیا۔ ایسی شخصیت کے لیے ایک ہی جامع لفظ ہے یعنی "حسن پرست" وہ بلا کے حسن پرست تھے، مگر غضب کے محتاط، کہتے ہیں ؎

دیدہ جمال کے سوا کچھ مرا مدعا نہیں حسن پسند پاک ہو فاسق بے جا نہیں

حسن والوں سے وہ دور رہنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ مگر حسن کی بے حجابیاں انہیں سچ مچ پریشان رکھتی تھیں، نہ معلوم کتنی بار انہوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے ؎

برے لپٹے ہیں یہ غارت گرِ دنیا و دیں مجھ کو

 نہ رکھیں گے نہ رکھیں گے کہیں کا یہ حسیں مجھ کو

جہاں گردن اٹھی آیا نظر کوئی حسین مجھ کو

 بس اب ہر دم نگہ رکھنا ہے پیوند زمیں مجھ کو

یہ بت کرنے کو ہیں اب اے خدایا! مردود دیں مجھ کو

اٹھالے آسماں مجھ کو نگل جائے زمین مجھ کو

یا

پڑے اف کمسن حسینوں سے پالا

وہ معصوم نظریں وہ منہ بھولا بھالا

دہائی ہے دردِ محبت! دہائی!

ارے مار ڈالا!  ارے مار ڈالا

 ایک دوسری غزل میں کہتے ہیں

آتا ہے نظر حسن ہی جاتے ہیں جدھر ہم

 کیا پھوڑ لیں اب آنکھیں ہی اے حسن نظر ہم

اف پڑ ہی گئی اک بتِ کافر پر نظر آج

رکھتے تھے اسی ڈر سے تو نیچی ہی نظر ہم

ایک صاحب نے پوچھ لیا  "یہ کون بتِ کافر" ہے۔ فورا ہی مجذوب صاحب نے دوسرا شعر پڑھا؎

 اتنی تو خبر ہے کہ کوئی ہوشربا تھا

 رکھتے نہیں کچھ اس کے سوا اور خبر ہم

اسی غزل میں ایک شعر ہے

درپردہ کوئی پردہ نشین دیکھ لیا ہے

اب حور بھی آجائے تو ڈالیں نہ نظر ہم

محترم مولانا عبدالماجد دریابادی تشریف فرما تھے۔ ٣٢ء يا ٣٣ء  کی بات ہے مولانا کی غیرت دینی معمولی بھول چوک پر بھی گرفت کیے بغیر نہیں رہ پاتی وہ جن مرحلوں سےگزر کر آئے تھے غالبا اسی کا فطری نتیجہ تھا کہ سخت قسم کا تقشف ان کا نگہبان بن جائے، ہم فرنگی محلیوں کا مسلک یہ کہ سماع، عرس، اور زیارت قبور کے لئے شدرحال وغیرہ بھی ممنوع نہیں۔ غرض مولانا عنایت اللہ صاحب (فرنگی محلی) اور مولانا دریابادی میں کچھ شعر و شاعری کے مضمرات پر نوک جھوک ہو رہی تھی۔ مجذوب صاحب نے جب کہا اب "حور بھی آجائے تو ڈالے نہ نظر ہم۔" مولانا عنایت اللہ صاحب نے تعریف کرتے ہوئے مولانا دریابادی سے کچھ کہا۔ مولانا عبدالماجد صاحب نے جواب میں فرمایا۔" بے شک اس میں اللہ کی بڑی نعمت کا استخفاف تو پایا ہی جاتا ہے۔" استخفاف کے لفظ نے جو میرے کانوں کے لیے نیا نیا تھا مولانا کو پورا جملہ ذہن نشین کر دیا۔

مجذوب صاحب خود راوی تھے کہ وہ اپنی موٹر پر جا رہے تھے، حسب عادت متوسط رفتار سے خود ہی ڈرائیو کرتے ہوئے، پیچھے سے زور زور سے ‌‌"پوں پوں" ہوا اور ایک موٹر تیز رفتاری کے ساتھ ان کے داہنے طرف سے نکل گئی۔ تیزرفتار موٹر کی چلانے والی ایک فیشن ایبل خاتون تھیں اور شاید انہوں نے دقیانوسی صورت والے مجذوب صاحب کو ڈرائیور سمجھ کر، دیر میں سائیڈ دینے پر چلتے چلتے آنکھیں بھی نکالیں، بس مجذوب صاحب اس ادا میں گم ہوگئے اور فرمایا ؎

 اس ناز سے اس شان سے اس تیز روی سے

 گزرو گے تو دنیا ہی سے جائیں گے گزر ہم

 وکٹوریہ اسٹریٹ جس پر مجذوب صاحب کا 30-33ء قیام تھا، وہی سڑک  ہے جو مزار حضرت مخدوم شاہ مینا کو علاقہ چوک سے ملاتی ہے۔ مزار شریف پر ہر مہینے دھوم دھام کی نوچندی اس وقت بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے، نوچندی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ اس میں چوک اور سڑک کی "بالا نشیناں" کافی تعداد میں شریک ہوا کرتی ہیں ہر جمعرات کو عام طور پر اور نوچندی جمعرات کو خاص کر شام ہی سے یہ "شام اودھ" کی ذریات آب و تاب اور تام جھام کے ساتھ اس سڑک سے مزار شریف کی سمت جاتی نظر آ جاتی ہے۔

مجذوب صاحب نے اسی غزل میں ایک شعر ایسے ہی ایک موقع کے لئے کہا تھا

ہم بھی سرِراہ کھڑے آج حسینو

بن ٹھن کے نہ نکلو کہ لگادیں گے نظر ہم

 ایسے شوخ اشعار مجذوب صاحب کی چلبلی طبیعت نے بہت سےکہے ہیں، اس غزل کا ایک مطلع ہے

جانے تو تمھیں دینگے نہ اب تابہ سحر ہم

شب ہائے جدائی کی نکالیں گے کسرہم

پیری میں حسینوں سے لڑائی تو نظر کیا؟

دزدیدہ مگر ڈال ہی لیتے ہیں نظر ہم

 یہ شوخی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی جس کی لگام مجذوب صاحب خود بھی کسے رہتے تھے اور جب منہ زوری زیادہ کرنے لگتی تھی تو خود اپنے مرشد (مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) کو اس کیفیت کے اطلاع کرتے تھے وہاں سے مناسب ہدایتیں آجاتی تھیں جس پر مجذوب صاحب عمل پیرا ہو جاتے تھے، وہ زمانہ ان کے لئے سخت مصیبت اور کشاکش کا ہوتا تھا، مرشد کی ایک ہدایت کا علم تو دوسروں کو بھی ہوجاتا تھا، یعنی ان کی شعر خوانی کی ممانعت کردی جاتی تھی، دوسروں کے لئے بھی یہ ممانعت مصیبت سے کم نہ ہوتی، لوگ طرح طرح سے اصرار کرتے تھے اور مجذوب صاحب خاموش رہتے۔ لیکن یہ کہتے جاتے تھے کہ "آپ لوگوں کو کیا علم، یہاں کلیجے پر چھریاں چل رہی ہیں۔"

 ایک دفعہ یہی توبہ کا زمانہ چل رہا تھا، سب لوگ سنانے کا تقاضا کر رہے تھے کہ ایک صاحب غالبا مفتی عبدالقادر صاحب (فرنگی محلی)نے موقعہ کا شعر پڑھ دیا؎

 بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی

کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی

مجذوب صاحب بےقابوہوگئے، توبہ ٹوٹنے لگی مگر انہوں نے ضبط کیا اور اٹھ کر چل دیے۔یہ صبح کی بات تھی، شام کو جو آئے تو جھومتے اور رقص کرتے نہیں غزل کے ساتھ ؎

زاہدوں پر مے اچھالی جائے گی

جان ان مردوں میں ڈالی جائے گی

شیخ پینے کا ارادہ تو کرے

حوض کوثر سے منگا لی جائے گی

اور تو نکلیں ہی گے خرقے سے کام

 اس میں بوتل بھی چھپالی جائے گی

40،50  اشعار اس غزل کے شام تک ہو گئے تھے اور اس انداز سے انہوں نے سنائے جیسے کہیں سے رسی تڑا کے بھاگے ہوں۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجذوب صاحب عام شاعروں کی طرح شعر گوئی میں "ریاض" کرنے کی زحمت بھی نہیں کبھی پھنسے، ایک بال کی طرح ان کے جذبات ابلتے اور موزوں قالب اختیار کرتے چلے جاتے تھے، کبھی کبھی جذبات کا دھارا اتنا تیز ہوتا کہ ایک زمین میں ڈیڑھ سو دو سو شعر تک کہہ ڈالتے تھے اور بلا انتخاب سناتے چلے جاتے تھے کم از کم تین غزلیں تو مجھے یاد ہے جو ڈیڑھ دو سو اشعار کی ہیں ایک میں 35 مطلع ہیں، دوسری دو غزلوں میں بھی بیس سے اوپر مطلع کہے ہیں۔

٣٥ مطلعوں والی غزل کا پہلا مطلع ؎

اب بھی مجذوب جو محروم پذیرائی ہے

کیا جنوں میں ہے آمیزشِ دانائی ہے؟

 اتنا کہنے والا اور اس قدر بد مستی کے ساتھ سنانے والا مجذوب عام محفلوں سے اور خصوصا ان تقریبوں سے جو اس کے اعزاز میں کی جائیں دور بھاگا کرتا تھا، اپنا اعزاز وہ کسی طرح پسند نہیں کرتے تھے، کہتے تھے؎

 ہم خاک نشینوں کو نہ مسند پر بٹھاؤ

 یہ عشق کی توہین ہے، اعزاز نہیں ہے

سرکاری اعزاز کا جو "خان صاحب" کے خطاب کی شکل میں ملا تھا خود انہوں نے مذاق اڑایا ؎

ہوئے خواجہ صاحب سے ہم خان صاحب

بڑی خاک عزت گھٹی شان صاحب

این خان بہادر دوست کو خطاب ملنے پر لکھ بھیجا؎

 کیا شان دکھاتے ہو تم اے خان بہادر

تم خان بہادر ہو ہم ایمان بہادر

شاباش ہے شاباش ہے اے خان بہادر

دنیا پہ کیا دین کو قربان بہادر

محفلوں سے گریز کی وجہ تو ان کی بے قید و بند طبیعت تھی، دوسری وجہ ایک واقعہ کے بعد ظاہر ہوئی، یعنی دوسروں کے ہاں کھانا کھانا اس احتیاط کے پیش نظر جو اکلِ حلال کے پابندوں کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے مجذوب صاحب پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجذوب صاحب اودھ کے ایک مسلمان تعلق دار کے یہاں زبردستی پہونچائے گئے۔ جہاں انہوں نے مجبورا کھانا بھی کھایا، رات بھر کی شعر خوانی کے بعد جب وہ واپس ہوئے تو ایک صاحب سے انہوں نے پوچھ لیا کہ تعلقدار صاحب کی آمدنی میں کوئی ناجائز ذریعہ تو شامل نہیں ہے۔ اطمینان دلایا گیا کہ وہ سود وغیرہ نہیں لیتے ہیں۔ جزئیات تک مجذوب صاحب نے پوچھ ڈالے اور جب یہ معلوم ہوا کہ لگان وغیرہ کی وصولی میں ان تعلقدار صاحب کے یہاں بھی عام زمینداروں اور تعلقداروں کی طرح کاشت کاروں پر ظلم کیا جاتا ہے تو مجذوب صاحب نے سب کی نظروں سے بچ کر گرم پانی کرا کے استفراغ کیا اور جب اطمینان ہوگیا کہ رات کی غذا کا کوئی ذرہ معدے میں باقی نہیں رہا تو ہلکان ہو کر بستر پر پڑ گئے۔ اس تکان کا علم دوسروں کو بھی ہوا اور بڑی دیر میں تکان کا راز کھل پایا۔

 یہ تو مجذوب صاحب کے لئے معمولی واقعہ تھا، کمال تو یہ کیا کہ انہوں نے بی اے کرنے کے بعد نوکری ملی ان کو ڈپٹی کلکٹری کی، کچھ دنوں اس عہدے کو جو آج سے چند سال قبل بادشاہی کے مترادف تھا انہوں نے گوارا کیا۔ اس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا کیوں اس لیے کہ اس ملازمت میں قانونِ شریعت کے خلاف دوسرے قوانین پر انہیں فیصلے کرنے پڑتے تھے۔

ان کی خدمات حکومت یوپی نے محکمہ تعلیمات کو منتقل کر دیں یہاں ان کے اس عہدے کی تنخواہ ڈپٹی کلکٹری کی تنخواہ سے آدھی تھی مگر وہ راضی اور مطمئن تھے آخر میں جب وہ ایک ریجن کے انسپکٹر آف سکول ہوگئے اور ایک ہزار کے قریب تنخواہ ملنے لگی تو اکثر سنایا کرتے تھے

عیش ہے عزت ہے موٹر کار ہے

اور اس دنیا میں کیا درکار ہے؟

جس جہاں کی نعمتیں بھی ہوں عطا

اے خدا تیری بڑی سرکار ہے

کمپوزنگ: بشارت نواز۔ خانیوال