[ یہ مضمون مارچ اننیس سو چھپپن کے ’نقوش ‘لاہور میں شآئیع ہوا تھا ،’مجاز ‘ کے اچانک انتقال کے تین ماہ بعد ]
’مجاز ‘ کی آخری زیارت ،اسکے مرنے سے تقریبا ً پچیس گھنٹے قبل اور بیہوش ہونے سے چند گھنٹے پہلے اس طرح ہوئیی کہ میں بس سے اتر کر ،تیزی کے ساتھ اپنے دفتر جا رہا تھا ، رات کے پونے نو بجے تھے ،’مجاز ‘ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ’سینٹرل ہوٹل [امین آباد ] کے نیچے سڑک پر کھڑا ،حسب معمول خوش گپیوں میں مصروف تھا، اسکا رخ ہوٹل کی عمارت کی طرف اور اسکے ساتھیوں کا منھ سڑک کی طرف تھا ۔بس سے اتر کر میں سڑک پر آیا تو اسکے ساتھیوں پر نظر پڑی اور میں نے ان سے نظر بچا کر گزر جانے کی کامیاب کوشش کی ۔ اے کاش ، کہ زرا بھی اندازہ ہوجاتا کہ ’یہ آخری بار اسکو چہچہاتا ہوا دیکھ رہا ہوں ‘،چاہے جتنی دیر ہوجاتی ، میں اس سے ضرور ملتا اور ہمت ساتھ دیتی تو خدا حافظ بھی کہتا ‘۔
اسکے کسی بھی ملنے والے کو یہ اندازہ کاہے کو ہوسکتا تھا ؟اگر چہ خود ’ مجاز ‘ کو جیسے ہو چکا تھا ،جب ہی تو اس نے مرنے سے دو دن پہلے اپنے قدیم یاروں سے ، جو ایک کانفرنس کے سلسلے میں بمبئ سے آۓ تھے ، روا روی میں کہا تھا ۔۔۔ ’اب تو ہر ملاقات ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آخری ہی ملاقات ہے۔‘ سب اسکے جاننے والے جانتے تھے کہ ’ ’مجاز ‘ مرنے جینے کی باتیں کرنے کا عادی کبھی نہیں رہا ۔۔۔‘ شاعری میں ضرور اس نے صراحتا ًبھی موت کا ذکر کیا ہے اور اشارتا ً بھی ۔۔۔
’اس محفل کیف و مستی میں ، اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ، ہم پی بھی گۓ ، چھلکا بھی گۓ
یہ رنگ بہار عالم ہے ، کیوں فکر ہے تجھکو ، اے، ساقی
محفل تو تری سونی نہ رہی، کچھ اٹھ بھی گۓ کچھ آبھی گۓ‘
مگر ، یہ تو تمام شعرأ کہا کرتے ہیں ،اور اگر آج ’ مجاز ‘ہمارے درمیان ہوتا تو اسکے ’ یہ اشعار‘ بھی وہ ’ ٹیس ‘ نہ پیدا کر سکتے جو اسکے گزر جانے کے بعد پیدا ہوکر جانے کا نام نہیں لیتی ہے ۔ زندگی اور موت ،دونوں کی قیمت اس کی نظر میں ’یک جو خر ‘ سے زیادہ نہیں رہتی تھی ۔ آخری ملاقات کا احساس ،پھر اسکا زبان سے اظہار ۔ ’اگر ’ مجاز ‘ بادہ خوار نہ ہوتا تو لوگ اسے ’ ولی ‘ سمجھ ’اسکی کرامات ‘ قرار دیتے ۔
میں نظر بچا کر دفتر پہنچ گیا اور ’ مجاز ‘ ’شہر کی رات میں ناشاد و ناکارہ پھرنے ‘ کی عادت کی طرف لوٹ گیا ، بہرحال، چوبیس گھنٹے گزر گۓ اور ’ مجاز ‘ کی کوئی خیر خبر نہیں ملی ۔
میرے عزیز اور ’مجاز ‘ کے کالج سے ابتک کے دوست فرحت اللہ انصاری نے ، کانفرنس ہال میں ،جہاں میں آخری نشست پر کانفرنس کی روئیداد قلمبند کر رہا تھا ،مجھے باہر بلوایا اور بتایا کہ ’مجاز ‘ کے بارے میں اطلاع ملی ہے کہ اسکی حالت خراب ہے اور وہ اسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے ، میں نے کانفرنس میں موجود بعض دوستوں سے خبر کی توثیق چاہی اور ہم دونوں فورا ً بلرام پوراسپتال پہنچے ۔وہاں دیکھا ’ مجاز آخری سفر کی تیاریوں میں ہے ‘۔ ڈاکٹروں نے ڈبل نمونیا اور ہیمریج تشخیص کیا تھا ، میں نے کوشش کی کہ ڈاکٹروں کی تشخیص پر دھیان ہی نہ دوں ،فرحت صاحب بولے ۔۔۔’ایک ہی صورت مجاز کے بچنے کی ہے وہ یہ کہ ڈاکٹروں کی تشخیص غلط ہو ‘۔ مجھے یقین سا ہوگیا کہ ڈاکٹروں کی تشخیص غلط ہی ہے ، اسپتال کے انچارج کی اجازت سے ، شہر کے تجربہ کار معالج ڈاکٹر عبدالحمید کو بلایا گیا مگر جب وہ پہنچے ہیں تو ’ مجاز ‘ نے گنتی کی دو سانسیں لیں ۔ پانچ دسمبر کی رات کے دس بج کر بایئس منٹ پر وہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا ۔
کسی کو یقین نہیں آرہا تھا ،سجاد ظہیر، حیات اللہ انصاری ، احتشام حسین ، عصمت چغتآئی، علی سردار جعفری ، نیاز حیدر سب کے سب دم بخود کھڑے رہ گۓ۔ میں ایک طرف اپنے صحافتی فرآئیض کو دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف ’اننیس سالہ تعلقات کی لاش کو جو اسپتال کے ایک پلنگ پر پڑی تھی ۔ اسپتال سے دوسرے اخباروں کو فون کے ذریعے اطلاع دینے کے ساتھ اپنے اخبار ’ قومی آواز ‘ کو بھی فون کیا اور تفصیل بتا دی کہ ’ شفٹ والے ‘ خبر بنا لیں گے ،میں محسوس کر رہا تھا کہ ’میری رپورٹری کی زندگی میں ایسا لمحہ کبھی نہیں آیا کہ جب جذبات کی شدت ،کسی واقعے کی رپورٹ تک مجھے لکھنے نہ دے ۔‘ سردار ، لا ش کے پاس چپکے کھڑے تھے ،ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور سردار مجھ سے لپٹ کر دھاڑیں مارنے لگے ۔
آدھے گھنٹے کے بعد دفتر پہنچا تو میرے ساتھی ہکا بکا بیٹھے تھے ۔ان سے حادثے کے سلسلے میں ایک سطر بھی نہیں لکھی جا سکی تھی ، فرآئیض کا یہ جبر دیکھ کر میں بھی پھوٹ پڑا ۔ اور اپنے دوست کی’ آخری خدمت ‘اسکے مرنے کی خبر مجھے ہی مرتب کرنی پڑی ۔ جب میں یہ خبر لکھ رہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ ابھی بیس ہی دن پہلے ’مجاز ‘ مجھے پوچھتا ہوا ، سر شام دفتر آیا تھا ، سترہ نومبر کی شام تھی ،’مجاز ‘ دفتر میں تھا اور نظر مل جانے کے بعد بھی تجاہل عارفانہ کے انداز میں اس نے پوچھا ۔۔۔۔ ’کہاں ہیں بھآئیی رضا انصاری ؟‘۔’مجاز ‘ اس وقت بیحد خوش تھا اور غیر معمولی طور پر خوش و خرم نظر آرہا تھا ، ایسی بشاشت اسکے چہرے پر کم از کم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شام کے مشغلے کے لئے جا رہا تھا ، کئی مہینوں بعد اس سے ملاقات ہوئیی تھی ،ہم دونوں بغل گیر ہوگئے۔’ مجاز ‘ نے کہا اور لہجہ شکایت کا قطعئ نہیں تھا ۔۔۔۔ ’ کہاں تو ہم دونوں دن میں آٹھ آٹھ گھنٹے ساتھ رہا کرتے تھے ،کہاں اب آٹھ آٹھ مہینے ملاقات نہیں ہوتی ہے ۔ ‘
یہ سن چالیس اور اکتالیس کا ذکر ہے جب ماہنامہ ’نیا ادب ۔ لکھنؤ ‘کی ترتیب اور اشاعت میں اسکے تین ارکان سید سبط حسن،علی سردار جعفری ، اور اسرارالحق ’ مجاز ‘کے ساتھ چوتھا رکن میں بھی جڑ گیا تھا ، اسی زمانے میں سردار جیل چلے گۓ اور اس سے پہلے لکھنؤ یونی ورسٹی میں طالب علمی اور یونین کی سکریٹری شپ کے فرآئیض میں مصروف ہوگئےتھے ، باقی تین کبھی کبھی اور ہم دو [مجاز اور میں ]اکثر اکٹھے رہا کرتے تھے ،’ نیا ادب‘ کے لئے فنڈ جمع کرنے میں ،جس کے بغیر کسی بھی مہینے میں اسکی طباعت ممکن نہیں ہوتی تھی ، سبطے مضامین لکھنے اور حاصل کرنے میں نیز انگریزی اخبار ’ نیشنل ہیرالڈ ‘ میں اپنی اپنی ڈیوٹی دینے میں مصروف رہتے تھے ۔
بہر حال، میں نے معذرت کی ،بھئ ہم دونوں اتنی دور دور رہتے ہیں کہ ارادہ کر کے تمہارے یہاں جآئییں بھی تو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جناب حسب معمول غآئیب نہ ہوں ‘۔
اس نے کہا ۔۔۔ ’اگر لکھنؤ میں ہوں تو دوپہر تک ہم گھر سے کہیں نہیں جاتے ۔‘
میں نے صلاح دی کہ ۔۔۔’جب کبھی باہر جانے لگو تو ایک پوسٹ کارڈ ہمیں ڈال دیا کرو ،اکثر لوگ تمہیں پوچھتے ہیں اور معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ تم آجکل کہاں ہو ؟ ہم تمہاری آمد و رفت اخبار میں دے دیا کریں گے ۔‘
’مجاز ‘ نے خاص منھ بنا کر کہا ۔۔۔ ’ابھی اتنے بڑے آدمی ہم نہیں ہوۓ ہیں۔‘پھر بھی اس نے وعدہ کر لیا کہ جب سفر پر جانے لگے گا تو مجھے اطلاع ضرور دے گا ۔ ‘
اس وعدے کے بیس دن کے بعد ہی وہ بڑے لمبے سفر پر چلا گیا اور اس طرح کہ کسی کو بھی ،اس کے گھر والوں تک کو اسکی تیاریوں کی اطلاع نہ مل سکی ، اگر اسپتال میں ایک جاننے والے کی نظر اس پر نہ پڑتی ، جس نے اسکے ایک عزیز کو فون کے ذریعہ اطلاع کردی،تو یقینا ً’مجاز ‘ کے مرنے کا بھی پتہ دو ایک روز بعد ہی چلتا ۔
دس سال سے ہمارے اس شہر میں سوسآئییٹی کا جو حال ہے ،اسکو دیکھتے ہوۓ ’مجاز ‘ کی ہر دل عزیزی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اسکے جنازے میں ایک ہزار کے قریب منتخب شہری ، ادیب ، اساتذہ، طلبا ٔاور سماجی کارکن شریک تھے ۔ حالانکہ اسی شہر میں پانچ سال قبل ’ریئس الاحرار مولاناحسرت موہانی ‘ نے بھی وفات پآئی تھی ،انکا جنازہ ’ایک غریب الوطن ‘ کا جنازہ معلوم ہوتا تھا خیر کہ وہ صوبآئیی مجلس قانون ساز کے ممبر بھی تھے ،جس کے سلسلے میں وہ سال میں کم از کم پانچ مہینے لکھنؤ ہی میں رہتے تھے اور لکھنؤ انکے دوستوں اور عزیزوں کی طرح ماننے والوں کی کثرت کے اعتبار سے انکا وطن ہی تھا ، اور اس سے پہلے ’صفی لکھنوی‘کے جنازے کا نظارہ بھی جن آنکھوں نے دیکھا ،وہ کسی طرح یہ تسلیم نہیں کر سکتی تھیں کہ یہ اس شاعر کا جنازہ ہے جو کم و بیش اسی سال تک ہر بڑی چھوٹی ادبی محفل میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا رہا ہے ، ’مجاز ‘ کا گھر شہر کے ایک دور افتادہ حصے میں تھا اور مدفن اس سے بھی زیادہ ویران جگہ بننے والا تھا ۔ ڈاکٹر عبدالعلیم نے قبرستان کی حالت دیکھ کر مجھ سے کہا تھا ۔۔۔’قبروں کی اس طرح درگت ہونے سے تو لاکھ درجے لاش کو جلانے کا طریقہ بہتر ہوگا ۔ ‘
ایسے ویران قبرستان تک ’ مجاز ‘ کو پہنچانے اردو ہندی کے ادیب اور ہندو مسلمان سبھی امنڈ آۓ تھے ، نماز جنازہ ،دعاۓ مغفرت کے لئے جتنوں نے پڑھی ،پڑھی ،شریک سب ہی ہوگۓ تھے ، اپنے رخصت ہونے والے دوست کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے جذبے سے اور جب وہ سپرد خاک کیا گیا تو زار زار رونے والوں میں اسکے اسی سالہ بدقسمت باپ نہیں تھے ، وہ تو صبر و ضبط کا پیکر بنے خاک گورستان پر بیٹھے تھے ،بلکہ وہ لوگ تھے جن میں سے اکثر کو ’ مجاز ‘سے اسقدر متعلق پہلی اور آخری بار دیکھا گیا ۔
دفن سے لوٹتے ہوۓ سب ہی متأثر اور رنجیدہ تھے ، بہتوں کی طرح میرے حافظے میں بھی ایک عمر کی یادیں ابھر ابھر کر ہیجان برپا کررہی تھیں ، ’مجاز ‘ سے پہلے اسکے چھوٹے بھآئی انصار سے میری شناسآئیی سن چھتتیس میں اس وقت ہوئیی تھی جب بننے والے ’مسلم اسٹوڈنٹ فرنٹ کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے علی گڑھ کے طالب علموں کے ساتھ لکھنؤ کے مسلمان طلبا ٔ اور خاص کر فرنگی محل اور ندوے کے عربی طالب علم اکٹھے ہوۓ تھے ۔لکھنؤ کی بڑی نمآئیش میں [جنوری سینتیس ] ایک شاندار مشاعرہ ہوا ،جس میں پہلے پہل ’مجاز‘کو سنا ، ’رات اور ریل ‘ سنآئیی تھی ۔ آواز کی گرفتگی کی وجہ سے پوری نہیں پڑھ سکا ۔ مہمان شعرأ ٹھہراۓ گۓ تھے ، فرنگی محل کے سامنے اور میرے مردانے مکان سے متصل ایک بڑے مکان میں ۔ ’مجاز ‘ بھی انہی مہمانوں میں تھا ۔ دوسرے مہمانوں کے چلے جانے کے بعد وہ ایک دو روز فرنگی محل میں فرحت اللہ انصاری کے یہاں ٹھہرا ۔ مجھے اب معلوم ہوا کہ وہ انصار کا بھآئیی ہے اور میرے عزیز حیات اللہ انصاری اور فرحت اللہ انصاری کا کلاس فیلو ہے ۔’مجاز ‘ سے میری پہلی شناسآئیی ان واسطوں کی بدولت دوستی میں جلد ہی تبدیل ہو گئ ،مگر اس کو میرے نام کے سلسلے میں دلچسپ مغالطہ رہا ، مخاطب کرنے میں تو صرف ’ رضا ‘ کافی تھا،لکھنؤ سے جانے کے بعد میں نے خط لکھ کر اس سے وہ نظم مانگی تھی ،جو اس نے حیات اللہ انصاری سے [جو اس وقت مارکسی زیادہ تھے ]طویل تبادلۂ خیالات کے بعد لکھنؤ ہی میں لکھنا شروع کر دی تھی یعنی ’ اندھیری رات کا مسافر‘یہ جون یا جولآئیی سینتیس کی بات ہے ۔’ مجاز ‘ نے علی گڑھ سے ردولی شریف جاتے ہوۓ پنجاب میل پر یہ نظم مکمل کی تھی اور ٹرین ہی پر سے مجھے جواب لکھا جس کے ساتھ ’ انقلاب ‘ اور’ اندھیری رات کا مسافر‘ نظمیں بھی اس نے بھیجی تھیں ،اس سلسلے کی دو باتیں مجھے اب تک یاد ہیں۔ ایک تو اس نے پتے پر میرا نام ’ رضا انصاری صاحب ‘لکھا مگر نام کے اوپر کونے میں اس نے چھوٹا سا ’ اللہ ‘بھی لکھ دیا ۔جب ملاقات ہوئیی تو میں نے اپنے نام کی صحت کی طرف اسے متوجہ کیا ، کہنے لگا ۔۔۔ ’ حیات اللہ اور فرحت اللہ کا بھتیجا سمجھ کر میں نے خیال کیا کہ ’اللہ ‘ آپکے نام کے ساتھ بھی لگا ہوگا ،مگر پورا یقین نہیں تھا ،اسی لئے تو چھوٹا سا ’ اللہ ‘ لکھ دیا تھا ۔‘
دوسرا جملہ ’حیات اللہ انصاری ‘ نے ’اندھیری رات کا مسافر ‘پڑھ کر کہا تھا ۔۔۔ ’ دیکھو ، اس کے مصرعے ’ مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں ‘میں ریل کی رفتار اور کوچ کی کیفیت کس طرح نمایاں ہے ، جیسے عربی ادب میں ملتا ہے کہ عرب شاعروں کی بحریں اونٹ کی چال کے ردم پر مبنی ہیں ۔ ‘
اس نظم میں ایک مصرعہ تھا ،’ خدا سویا ہوا ہے اہرمن محشر بداماں ہے ‘،فرنگی محل کے ہمارے بزرگوں نے اس مصرعے کا برا مانا اور جب میں نے یہ نظم پنڈت جواہر لال نہرو کے سامنے سنآئیی جو اس وقت [سینتیس میں] کانگریس کے صدر تھے اور فرنگی محل میں ہم لوگوں کے قآئیم کردہ ’ اسٹیڈی سرکل ‘ میں آۓ تھے ،تو بعد میں مجھے ڈانٹ بھی پڑی ،کچھ دنوں کے بعد ’ مجاز ‘ لکھنؤ آیا تو اس نے بتایا کہ ’ ایک موقع پر پنڈت نہرو کے سامنے اس کو نظم پڑھنے کے لئے مدعو کیا گیا تو اس نے ایک پرانی نظم سنا دی ،یہ نئی نہیں سنآئیی ،اس لئے کہ پنڈت جی اسے سن چکے تھے ،وہ سمجھتے کہ یہ دوسروں کی نظم سنا رہا ہے ۔، ہم دونوں اس ’ احتیاط ‘ پر کافی مسرور ہوۓ۔ واقعہ یہ تھا کہ حیات اللہ انصاری نے جو سرکل کے انچارج تھے ، پنڈت جی سے کہا کہ ’مجاز ‘ کی نظم اب پڑھی جاۓ گی۔ مگر ’ مجاز ‘ کو خوش طبعی اور ظرافت کے لئے مواد درکار رہتا تھا ،وہ ہر واقعے میں کوئیی نہ کوئیی ہنسنے ہنسانے کا پہلو بہرحال پیدا کر لیتا تھا ۔
مثلا ً میں سن چوالیس میں میں دلی گیا ہوا تھا ،’مجاز ‘ بھی وہیں تھا ۔اسے اپنی بہن صفیہ [مرحومہ ] کے عقد کے سلسلے میں لکھنؤ جانا پڑا ،’ جذبی ‘ اور میں دلی اسٹیشن پر سوار کرنے گئے ، اس زمانے میں ریل پر جگہ ملنا ،پھر تیسرے درجے میں ،’ تین جواں مردوں ‘کی کوشش کے باوجود آسان نہ تھا ،خوش قسمتی سے قلی نے یہ مشکل آسان کر دی ، مختصر سامان کے بارہ آنے لیۓ اور ایک روپیہ دو کانسٹبلوں کو دلایا جو ایک خالی ڈبے کے سامنے کھڑے تھے۔ اس طرح ’ مجاز ‘ کو سپاہیوں کے ڈبے میں اوپر بچھونا بچھانے کی جگہ مل گئ ۔ ہم دونوں گاڑی چھٹنے سے پہلے اسٹیشن سے چلے آۓ ۔لکھنؤ آکر ’ مجاز ‘سے ملاقات ہوئی تو وہ دلی اسٹیشن کو یاد کر کے خوب لطف لے رہا تھا ،یعنی اسکو رات بھر بیٹھے بیٹھے سفر کرنا پڑا ۔وہ سپاہی جو اپنا ڈبہ ظاہر کر رہے تھے ہر مسافر سے ایک روپیہ لیکر بڑی فراخ دلی سے جگہ تقسیم کر رہے تھے ۔گاڑی چھوٹنے سے چند منٹ قبل وہ ’اپنا ڈبہ ‘کھچا کھچ مسافروں کو سونپ کر آرام سے اپنے اپنے گھر چلے گۓ،۔’مجاز ‘ نے جب بھی اس حادثہ کا ذکر کیا ،اس انداز میں کیا کہ خود بھی ہنسا اور دوسروں کو بھی ہنسایا ۔
ظرافت کا لطیف احساس اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ،وہ اپنی ظرافت کا اپنے کو بھی شکار بناتا تھا ۔اس کی نظم ’ شہر نگار ‘ سن تینتالیس میں مکمل ہوئی تھی ۔اسی سال لکھنؤ سے ایک ماہنامہ ’ منزل ‘ کے نام سے میں نے نکالنا شروع کیا تھا،اس میں یہ نظم شآئیع ہوئی ۔ہمارے دوست سبط حسن نے ،جو اس زمانے میں بمبئ میں تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے اردو اخبار ’ قومی جنگ ‘ میں کام کرتے تھے ،’منزل ‘ پر ایک تبصرہ لکھ کر بھیجا جو نکتہ چینیوں سے بھرا تھا ،،اس کی زد میں ’ مجاز ‘ کی نظم ’شہر نگار ‘ بھی آگئ ۔ یہ تبصرہ ’ منزل ‘ ہی میں شآئیع ہوا ۔سبط حسن نے لکھا تھا ۔۔۔’ ’مجاز ‘ کی نظم ’ شہر نگار ‘[رخصت اے ہمسفروں ۔ شہر نگار آہی گیا ]بڑی بھرپور نظم ہے ، میں اسے اکثر پڑھتا رہتا ہوں لیکن، پہلا شعر مجھے ہمیشہ کھٹکا ہے ،بھئ ہم سفروں کی یہ شان تو نہیں کہ دوستوں کو ’ خدا حافظ ‘ کہہ دیا جاۓ اور اب تو راہ روز بروز کٹھن ہوتی جاتی ہے اور ضرورت ہے کہ تمام ہمسفر ساتھ ملکر چلیں ۔عجیب اتفاق ہے کہ انقلاب سے پہلے روس میں گورکی اور دوسرے ادیبوں نے ملکر ایک تحریک چلآئی تھی اور اسکا بھی یہی نام تھا یعنی ’ہم سفروں کی تحریک ‘۔
’مجاز ‘نے تبصرہ پڑھا اور بولا ۔۔۔ ’ بھئ سید صاحب [سبط حسن ] کی یہ زیادتی ہے ،یہاں ’ ہم سفر ‘ اس مفہوم میں استعمال نہیں ہوا جو روس میں گورکی اور دوسرے ادیبوں نے لیا تھا ۔یہ تو ریل کے بھرے ہوۓ ڈبے کے مسافر ہیں جن میں مارواڑی بھی ہیں ، میواتی بھی ،بنیۓ بھی ،کلرک بھی اور چنا جور گرم بیچنے والے بھی ۔ ان سب ’ہمسفروں ‘کو لےکر ’ شہر نگار ‘ میں جانے کا کیا تک ہے ؟‘ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل پڑ گۓ۔ اس نے نہ نکتہ چینی پر غصہ کیا نہ ایک قریبی دوست کے اعتراض پر دل شکنی کا احساس ظاہر کیا ،وہی شگفتہ خاطری اور وہی ہنسوڑ پن ۔ہاں ، محفل مزاج کے مطابق نہ ہو تو سنجیدگی بلکہ ’ با ادب با ملاحظہ ‘ والی کیفیت اسکے جوتے سے لے کر منڈھی ہوئی ٹوپی تک سے ظاہر ہوا کرتی تھی ۔
’شہر نگار ‘ پر یاد آیا کہ مجاز نے یہ نظم مرادآباد کے مشاعرے میں پڑھی تھی ۔ تینتالیس میں اپریل کی آخری تاریخوں میں وہاں ایک ادبی اجتماع ہوا تھا ،جسکے منتظم ایک ڈپٹی کلکٹر صاحب تھے ۔ مولوی عبدالحق صاحب ،سیکریٹری انجمن ترقیٔ اردو [ ہند ] بھی اس میں شرکت کے لئے آۓ تھے ، اس موقع کی چند باتیں یاد آرہی ہیں ۔مولوی صاحب اس زمانے میں ان ادبی تقریبوں میں جاتے تھے ،جہاں سے انجمن کی عمارت فنڈ کے لئے عطیہ دینے کا وعدہ کیا جاۓ،مرادآباد سے بھی وعدہ ہوا تھا ،میں بھی مراد آباد گیا تھا اور ’ مجاز ‘ کے ساتھ مولوی صاحب سے ملنے گیا ، وہ اور پنڈت دتاتریہ ’ کیفی ‘ایک مقامی وکیل کے مکان میں ٹھہراۓ گۓ تھے ۔ہم دونوں ملنے پہنچے تو دیکھا کہ آمنے سامنے آرام کرسی پر مولوی صاحب اور پنڈت جی بیزار سے بیٹھے حقے پی رہے ہیں ۔ بیزاری یوں تھی کہ منتظمین ان دونوں مہمانوں کو ٹھہرا کر بےخبر ہوگئےنہ چاۓ کا پتہ نہ کھانے کا ۔ مولوی صاحب نے باتوں باتوں میں ایک مزیدار فقرہ کہا ۔۔۔’وہ بتا رہے تھے کہ صبح سے ہم دونوں کو کسی بھی منتظم کی صورت تک نہیں دکھآئیی دی ۔ ‘ اس گھر میں ڈیوڑھی کے پاس بھینسیں بھی بندھی تھیں ۔ مولوی صاحب کہنے لگے ۔۔۔ ’ بھینس والا تک اپنی بھینسیں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا ہے ، ‘۔ ’مجاز‘ نے اس پر لطف فقرے سے اتنا مزہ لیا کہ جب کبھی مراد آباد کا ذکر آتا ،وہ بھینس والے کے بھاگ جانے کا ضرور ذکر کرتا ۔
کلکٹر صاحب کے عمارت فنڈ میں عطیہ دۓ جانے کا ذکر آیا تو میں نے مولوی صاحب سے کہا ۔۔۔’ نیا ادب ‘ کو بھی ،’مجاز ‘ کی دوستی میں عطیہ دیا تھا ،بصورت چیک ، جو بینک سے کیش ہی نہ ہوسکا ۔‘ مولوی صاحب نے کہا ۔۔ ’ اچھا ، یہ بھی بات ہے ؟‘’مجاز ‘ کے چہرے سے شگفتگی ایک دم غآئیب ہو گئ ،اسکی فطری شرافت کو یہ غیبت پسند نہ آئی ، باہر نکل کر اس نے کہا بھی ۔۔۔ ’ کہ تم کو یہ نہیں کہنا چاہیۓ تھا ۔‘وہ کسی کی غیبت نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ کسی کی غیبت کر ہی نہیں سکتا تھا جبتک کوئی لطیف پہلو ایسا نہ ہو کہ غیبت یا برآئی کا پہلو اس میں دب جاۓ ۔ میں بات کہہ چکا تھا ، مگر بھینس والے جملے کی یاد نے ’ مجاز ‘ کا تکدر دور کر دیا اور ہم دونوں اس سے لطف لینے لگے ۔
’مجاز ‘ سن سینتیس کے بعد ایک سال تک ادھر ادھر رہا پھر اپنے والدین کے ساتھ لکھنؤ میں مقیم ہو گیا ، اب ہم لوگوں کو ایک ادبی تحریک ’ انجمن ترقی پسند مصننفین ‘ نے ایک دائرےمیں لیکر قریب تر کر دیا ، سبط حسن بھی حیدرآباد چھوڑ کر آگۓ تھے ، انجمن ترقی اردو [ ہند ] کی صوبائی شاخ کے آرگنائییزر بن کر علی سردار جعفری نے علی گڑھ اور دلی کے بعد لکھنؤ یونی ورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، حیات اللہ انصاری قوم پرور ہفتہ وار اخبار ’ ہندوستان ‘لکھنؤ سے نکال رہے تھے ۔سن انتالیس میں ’جذبی ‘ بھی ایک عارضی ملازمت کی وجہ سے لکھنؤ آگۓ تھے ،وہ تو فرنگی محل ہی میں مقیم رہے ، سجاد ظہیر الہ آباد چھوڑ کر قریب قریب لکھنؤ ہی میں رہ پڑے تھے ، پروفیسر علی احمد، ڈاکٹر عبدالعلیم ،پروفیسر سید احتشام حسین تو لکھنؤ یونی ورسٹی میں ملازم ہی تھے ،’ مجاز ‘ ان سب کا محبوب شاعر اور عزیز دوست تھا ۔ مارچ سن انتالیس میں سبطے ،سردار اور مجاز نے ملکر ’ نیا ادب ‘ لکھنؤ سے نکالا ،جولائی انتالیس میں شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی ثم پاکستانی بھی لکھنؤ آبسے اور انکا ماہنامہ ’کلیم [ دہلی ] ‘’ نیا ادب میں مد غم ہوگیا ۔ ترقی پسند مصنفین کے ترجمان کی حیثیت سے ’نیا ادب اور کلیم ‘ کا مرتبہ جتنا بلند تھا اسی قدر انتظامی حالت اس کی ابتر تھی ۔اس پہلو کے استحکام کے لئے چاروں سواروں [جوش ، سبطہ ، سردار اور مجاز] میں میں بھی شامل کرلیا گیا ۔ اب ایک دوسرے قریب ترین دائرے نے ہم لوگوں کو ایک کر دیا ۔ دوسری عالم گیر جنگ چھڑ گئ اور ترقی پسند ادیبوں کی گرفتاریاں ہونے لگیں ۔ سجاد ظہیر ، علیم صاحب ، سردار جعفری اور علی جواد زیدی ،جو اس وقت ترقی پسند تحریک میں دلچسپی رکھتے تھے[ اور آجکل ’نظامت اطلاعت ۔یو پی ‘ کے ڈپٹی ڈآئیریکٹر ہیں ] گرفتار ہوگئے۔ ’ جذبی ‘ نوکری چھوڑ کر ایم ۔۔ اے کرنے کے خیال سے علی گڑھ چلے گۓ ،سارا شیرازہ بکھر گیا ۔ ’مجاز ‘ نہ اس وقت گرفتار ہوا اور جنگ کے ’ قومی جنگ ‘ بن جانے کے زمانے میں ملازم ہی ہوا ، ہاں ۔۔ اسکے دماغ پر اثر اسی زمانے میں ہو گیا تھا ، یہ کیفیت اکتالیس بیالیس میں اس کی رہی ، مگر ، ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ دماغی خلل کے زمانے میں بھی اس کی گفتگو کی نوعیت ایسی رہتی کہ عام آدمی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ ’توازن کی کمی ہے یا ظرافت کی زیادتی ؟۔
پہلی بار صحت یاب ہونے کے بعد وہ کچھ دنوں دلی میں رہا پھر لکھنؤ آ گیا ۔سن تینتالیس میں دلی میں اسے ملازمت مل گئ۔اب خط و کتابت ہونے لگی اور آنے جانے پر ملاقاتیں بھی ، سن بیالیس کے شروع میں سردار جعفری جو ایک سال کی سزا بھگت کر رہا ہو چکے تھے ،مرکزی کمیونسٹ پارٹی کے بلاوے پر بمبئ چلے گۓ ،سجاد ظہیر بھی رہائی کے بعد معہ اہل و عیال بمبئ میں مقیم ہوگئے،سبط حسن بھی کچھ دنوں بعد بمبئ باسی ہوگئے۔ لشتم پشتم ’ نیا ادب ‘ لکھنؤ سے نکلا ،بالآخر اس کو بھی بمبئ بھیجنا پڑا ۔
اب ’ مجاز ‘رہ گیا تھا تو اسے بھی دلی کی کشش کھینچ لے گئ ۔ فروری تینتالیس میں اس نے دلی سے خط لکھا ۔۔
’ بھیا رضا ۔۔۔ شرمندہ ہوں ، کیا کروں حالات ہی ایسے تھے ،دو غزلیں لکھ چکا ہوں ، ایک نظم لکھ چکا ہوں ،ایک نظم کل شروع کی ہے جسکا ریکارڈ بی بی سی لندن سے براڈ کاسٹ ہوگا ، اب لندن تک مشاعرہ پہنچا دیا گیا ہے ، ان حالات کی روشنی میں تم میری ہر خطا معاف کردوگے ۔ مجھے یقین ہے ۔ ’جوش ‘ کا کوئی خط نہیں ملا ۔لکھنؤ میں اب کیا رہ گیا ہے ؟سواۓ تمہارے اور ۔۔۔۔۔ مجھے ابھی رہنا ہے، گھر لکھ دیا ہے ۔یہاں ایک اسکیم ہے ،مطلع کروں گا اور حالات ’الحمد للہ ‘۔
اپریل تینتالیس میں دہلی میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تھا، میں لکھنؤ سے، سجاد ظہیر بمبئ سے اور عبداللہ ملک لاہور سے رپورٹروں کی حیثیت سے وہاں اکٹھے ہوۓ۔ ’ مجاز ‘ اس وقت دلی میں تھا مگر بے روزگار ۔ اجلاس کے بعد میں مرادآباد کے ادبی اجتماع میں شریک ہونے پہنچ گیا ، وہاں ’ مجاز ‘ بھی آیا ، مگر الگ الگ ٹھہرنے کی وجہ سے ایک آدھ بار وہاں ملاقات ہوئی ن م راشد کے کمرے میں جو دہلی ریڈیو کی طرف سے مشاعرہ ریلے کرنے کے انتظام میں آۓ تھے ، میں وہاں سے لکھنؤ آگیا ۔
’ مجاز ‘ کا آٹھ مئ تینتالیس کا خط مجھے لکھنؤ میں ملا ۔وہ دہلی میں ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔
’بھیا رضا ۔۔۔ تم بھی عجیب چیز ہو ،مرادآباد اسٹیشن پر ہم سے رخصت ہونے بھی نہ آسکے ،حالانکہ ہم تم سے قریب ہی خرابات میں بیٹھے ہوۓ تھے ، تمہارا آنا آسان تھا ، میرا اٹھنا دشوار ،خیر، یہ تو جملۂ معترضہ تھا، حساب دوستاں در دل رکھو۔
اب صورت حال یہ ہے کہ وہی ہوا جسکا اندیشہ میری طرف سے تھا یعنی پھر نوکری کر لی مگر اس سے قبل ’بنے ‘ [ سجاد ظہیر ] وغیرہ سے مشورہ کر لیا تھا ، لہذا ضمیر اور دل مطمئن ہیں ۔ معاملہ سرکاری نہیں ہے اس لئے کوسنا نہیں ، کوسنے کی اور کوئی وجہ ہو تو دریغ بھی نہ کرنا ۔ اب صورت یہ ہے کہ پندرہ سے کام شروع کر رہا ہوں اس شرط پر کہ بمبئ کی کانفرنس [ ترقی پسند مصنفین کی تیسری کانفرنس ، جو بمبئ میں ہوئی تھی ] کے لئے چار پانچ دن کی چھٹی مل جاۓ گی ، اس عرصے میں یہ کر رہا ہوں کہ ’ کل نو کو ایک دن کے لئے امرتسر کے ترقی پسندوں کے مشاعرے میں پھر دس گیارہ کو لاہور میں ’اپنی وفا ‘ کا حتی الامکان ثبوت دیاجاۓ گا ،پھر بالکل اسی سلسلے میں تیرہ کو دلی واپسی ہو جاۓ گی ۔ اور پندرہ کو ذمہ داریوں کے قبرستان میں دفن ہو جانے کا مصمم اور غالباً نیک ارادہ ہے ۔‘
اب سوال یہ ہے کہ تم بمبئ کن تاریخوں میں جا رہے ہو ؟ یہاں اکیس کو روانگی کا ارادہ ہے ،اختر راۓ پوری بھی شاید ساتھ ہو جاۓ ،وعدہ تو کیا ہے ، اگر اسکو چھٹی مل گئ تو ،یہ امرتسر جاکر معلوم ہوگا ، شاید یہاں سے کچھ اور لوگ بھی چلیں ،جنکے چلنے کا کبھی کوئی اعتبار نہیں ، میں بہر حال جاؤں گا ’کہ مرا عہد وفا ہے ابدی ۔‘
اگر تم لکھنؤ سے براہراست جاؤ تو لکھو اور اگر بغیر کسی دقت کے دہلی ہوتے ہوۓ جا سکو تو اچھا ہو، میرے نزدیک کوئی زیادہ فرق نہ ہوگا ، سوچ لو ، ’فیض ‘ کل آیا تھا وہ بمبئ نہ جا سکے گا ، ’راشد ‘ کا البتہ خیال ہے مگر وہ فی الحال سکینڈ کلاس کا کرایہ مانگ رہا ہے ،ہے مشکل مسٔلہ ۔جلد مطلع کرو اور اپنے فیصلے سے جلد مطلع کرو ،ساتھ چلتے تو سفر اور ’ رفیقان سفر ‘ دونوں ساتھ رہتے ، دوسرا حصہ سبط کو دے دینا ، اگر وہ ہوں تو ۔’جذبی کا آپریشن کامیاب رہا،پرسوں رات گیا تھا آج پھر جاؤں گا ۔انکے والد سے بیماری نے سمجھوتہ کرا دیا ہے ، وہ بھی آگۓ ہیں ، پندرہ دن میں بالکل ٹھیک ہو جاۓ گا ۔ آجکل چہرے پر بڑی آب و تاب ہے ،اسپتال میں ’ نورائیں ‘ تلاش کر لی ہیں مگر جرأ ت رندانہ نہیں ہے ۔ تم کو دلی بلانے میں ایک خود غرضی یہ ہے کہ لکھنؤ سے اپنی سآئییکل منگوانا چاہتا ہوں ۔ ‘
اننیس مئی، ’مجاز ‘ کا خط میرے جواب میں آیا ۔۔۔
’ پیارے رضا ۔۔۔ تمہارا خط ملا ، جو میری عدم موجودگی میں یہاں آیا تھا۔ میں ان دنوں لاہور چلا گیا تھا ،ابھی آیا ہوں ،نوکری کر لی ہے ،تفصیل سےملاقات ہونے پر بتاؤں گا،جواب میں دیر ہونے کی بھی یہی وجہ ہوئی کہ ابھی آیا ہوں ،اچھا تو حالات یہ ہیں کہ یہاں سے ایک شاندار قافلہ یعنی شوکت [ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری ]،مادام زہرہ ، ایک آدھ کامریڈ اور ہم خود بھی اکیس کی صبح کو جمعہ کے دن جی ۔ آئی ۔ پی سے روانہ ہو رہے ہیں ، یہ جھانسی سے شام یا رات کو گزرے گی ،تم بھی اس طور پر چلو کہ جھانسی میں ہمیں مل جاؤ ،وہی گاڑی تمہیں جھانسی سے بمبئ کے لئے ملے گی ، وقت دریافت کر لینا، یہاں سے تو نو بجے صبح روانہ ہوتی ہے ، ساتھ ہو جاۓ تو سفر اچھا ہی ہوگا ،تو گویا جھانسی میں مل رہے ہو ، سبطے کو کیا کہا جاۓ ،ہم تو چار دن ہی کام کرکے چھٹی لے کر جا رہے ہیں ،لہذاسعادت مندی مسلم ۔ اچھا ، فی الحال ،خدا حافظ ۔
تمہارا
’مجاز ‘
ہم لوگ [ ڈاکٹر عبدالعلیم ، ڈاکٹر بلاس رام شرما ، اور میں ] لکھنؤ سے وقت مقررہ پر بمبئ کے لئے روانہ ہوگئےمگر ’ مجاز ‘ نہ جھانسی میں ملا نہ بمبئ میں ۔ بمبئ اسٹیشن پر سجاد ظہیر آگۓ تھے ،وہ ہم لوگوں سے ملکر ’ مجاز ‘ اور اسکے شاندار قافلے کو دوسرے ڈبوں میں تلاش کرنے لگے ، مگر تلاش بے سود رہی ۔ لطف یہ کہ ’ مجاز ‘ کو ’جن کے چلنے کا کبھی کوئی اعتبار نہیں ‘ تھا ،وہ دوسرے دن بمبئ میں نظر آۓ یعنی ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری اور انکی بیگم ۔
تیتالیس اور چوالیس میں ’ مجاز ‘دلی میں رہا مگر ملازمت کی جکڑ بندیوں سے اس نے جلد ہی نجات حاصل کر لی ۔ یہ ملازمت ’ ہارڈنگ لایئبریری دہلی کے لائبریرین کی حیثیت سے تھی۔ اور ایک ماہنامہ ’ادیب ‘[دہلی ] کی ترتیب بھی اس سے متعلق تھی ، یہ رسالہ مرحوم فصیح الدین احمد ،ایس ۔ ایم ۔ آئی واحدی اور مس نجمہ تصدق کی ادارت میں بڑے سائز پر نکلتا تھا ، ’منزل ‘ لکھنؤ کی طرح یہ بھی ایک سال سے زیادہ نہ نکل سکا ۔
’ مجاز ‘ نے یہ جو لکھا تھا کہ ’ میرا عہد وفا ہے ابدی ‘ تو یقینا ً اسکا عہد وفا ابدی تھا ،جسکو کوئی لالچ یا کوئی خوف بدل نہیں سکتا تھا ، حیرت ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں غیر سنجیدہ رہنے والا ’ مجاز ‘عقیدے اور یقین میں اسقدر ایمان دار کیسے رہا ؟ ترقی پسند نظریے پر اسکا عقیدہ تھا مگر ، اس کی فطری شاعری کسی نظرۓ کی پابندی برداشت نہیں کر سکتی تھی ، ایک آدھ غزل یا نظم اس نے کہی اور کسی نے کہہ دیا ’ پارٹی لآئین سے الگ ہے ‘تو ہمیشہ جواب دیا کرتا تھا کہ ’تھوڑی پٹری سے اتر گئ ہے ۔ ‘بات یہ تھی کہ اسکا ذوق سلیم ،مسیحائی میں اس غیر ضروری آمیزش کو فوراً گرفت میں لے لیتا تھا جو مصلحت یا مبالغے کے تحت اکثر صداقتوں کے ساتھ لگ جایا کرتی ہے ۔ ایک دفعہ اس نے ترقی پسند ادیبوں کی غیر مخلصانہ ’ غریب نوازی ‘پر بڑا اچھا جملہ کہا تھا ۔۔۔ ’اس سے ترقی پسندوں کی کانفرنس میں تقریر کرنے پر اصرار کیا جا رہا تھا ،وہ اس وقت ’ دوسرے عالم ‘ میں تھا ۔ بہر حال اس نے ایک ہی جملہ میں تقریر کردی ، اس نے کہا ۔۔۔ ’اب تک لوگ جھوپڑیوں میں رہکر محلوں کے خواب دیکھتے تھے ، اب ہم محلوں میں رہ کر جھوپڑیوں کے خواب دیکھتے ہیں ۔‘ بڑی جچی تلی بات اس کے منھ سے نکلی تھی ،خاص کر ان لوگوں کے لئے جو طبقاتی شعور سے یکسر خالی ہونے کے باوجود ’ مزدور اور غریب ‘کی چھاپ لگا کر اپنے ادب کو ’چلتا سکہ ‘ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔
’مجاز ‘ نے بھی مزدور اور کسان کے گیت گاۓ ہیں مگر پورے شعورا ور احساس کے ساتھ اور سرشتہ ٔ ادب کو کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے ۔
اس کی ایمانداری کی ایک مثال ،ہزاروں مثالوں میں سے پیش کرنا چاہتا ہوں ،کانپور میں ایک وقت میں دو مشاعرے ہوۓ ، ایک کا اہتمام مل مالکوں کی طرف سے تھا ،دوسرے کا مل کے مزدوروں کی طرف سے ، ’ مجاز ‘ نے دونوں میں شرکت کا وعدہ کر لیا ،لیکن ، پہلے مزدوروں کے مشاعرے میں گیا ،جس کی نشست طویل ہوتی جا رہی تھی،دوسرے مشاعرے سے بلاوے پر بلاوے آرہے تھے ، موٹریں دوڑآئی جا رہی تھیں ،بہترین کھانا اور سب سے بڑھ کر شراب کی پیش کش ، یہاں ، چند دوستوں کے چندے سے تھوڑی بہت منگائی گئ تھی ،اچانک ’ مجاز ‘ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ مل مالکوں کے مشاعرے میں نہیں جاۓ گا ،پھر، وہ نہیں گیا ، اسکا فیصلہ اچانک ہوتا تھا مگر وہ ’راج ہٹ ‘ کی طرح قایم رہتا تھا ، دلی کے ایک مشاعرے میں اس نے جانے کا وعدہ کیا ،بلانے والے نے میرے ساتھی ’ مکین احسن کلیم [ جو اب لاہور میں ہیں ]‘اور حبیب الرحمان[ قومی آواز ] کو زادراہ بھیج کر متعین کر دیا کہ وہ ’مجاز ‘ کو لکھنؤ سے سوار کرا دیں ،’مجاز ‘ نے حتمی ارادہ کر لیا تھا ،عین وقت پر اسکو معلوم ہواکہ دلی میں اسکے ٹھہرنے کا انتظام [ جوش ‘ صاحب کے یہاں کیا گیا ہے ،اس زمانے میں وہ ’ جوش ‘ صاحب سے خوش نہیں تھا[ انکے پاکستان چلے جانے کے بعد تو وہ سخت ناراض ہوگیا ،کہتا تھا ’ جوش ‘ نے ہم سب کو ذلیل کر دیا ہے ] بہرحال ، اس نے دلی جانے سے ہی انکار کر دیا ۔ لاکھ لاکھ دونوں نے کہا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ اس کی ایک غیر مطبوعہ غزل کا مطلع بھی ’جوش ‘ اور ’فراق ‘ سے اسکی نا خوشی ظاہر کرتا ہے ۔۔۔۔
’ فراق ہوں میں نہ جوش ہوں میں
’مجاز ‘ ہوں ، سر فروش ہوں میں ‘
اسکی سرفروشی کا دعوی۱ محض سخن سازی نہیں ،وہ اپنے نقطۂ نظر یا عقیدے کے اظہار میں سرفروشی کی حدوں تک پہنچ جاتا تھا ،ملازمت کے سوا اسکا ذریعہ ٔ معاش اور ہو بھی کیا سکتا تھامگر جب اسکے بعض ادیب دوستوں نے سرکاری ملازمتیں دوران جنگ میں حاصل کر لیں تو اسکو بڑی ناگواری ہوئی اور جب اسکے سامنے سرکاری ملازمت کا سوال آیا تو اس نے بڑی صفائی سے انکار کر دیا ، ریڈیو کے ایک مشاعرے میں تو اس نے کمال ہی کردیا ،جب اسکی پڑھنے کی باری آئی تو اس نے سرکاری ملازمت کر لینے والوں کی ہجو شروع کر دی ۔۔۔
’ شاعر ہوں اور امیں ہوں عروس سخن کا میں
کرنل نہیں ہوں خان بہادر نہیں ہوں میں ‘
اسکی آواز ریڈیو والوں نے فورا ً دبا دی ، اس کے بعد اسپر ریڈیو کے دروازے بند کر دیۓ گۓ ۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ دہلی میں جب ریڈیو اسٹیشن کھلا ہے [سن پینتیس میں ]تو پہلا ادیب ’ مجاز ‘ ہی تھا جس نے پروگرام کا آ غاز اپنی ایک غزل سے کیا تھا ۔۔۔۔
’ سارا عالم گوش بر آواز ہے
آج کن ہاتھوں میں دل کا ساز ہے ‘
اسی ریڈیو کے دروازے اس پر بند کر دیۓ گۓ ۔ لوگوں نے اصرار کیا کہ ’کنٹرولر صاحب تمہارے قدردان اور پرانے دوست ہیں ، ان سے معذرت کر لو ،اور حقیقت بھی یہی تھی کہ نشے کی ترنگ میں اس نے ہجو پڑھ دی تھی ،ورنہ وہ ’ ذاتیات ‘ پر حملے کرنے کا قایل ہی نہیں تھا ،جب اصرار حد سے بڑھا تو اس نے ایک نظم کہی جسکا مقطع تھا ۔۔۔۔
’ کرنل سہی میں خان بہادر سہی ’ مجاز ‘
اب دوستوں کی ضد ہے تو شاعر نہیں ہوں میں ‘
وہ تو زمانہ بدیسی حکومت کا تھا ۔قومی حکومت کے زمانے میں ابھی کچھ مہینوں پہلے کی بات ہے کہ بعض قدردانوں کی کوشش سے ’ مجاز ‘ کو دو سو روپۓ ماہانہ وظیفہ پر مرکزی حکومت نے رضا مندی ظاہر کر دی تھی ،قدردانوں نے وظیفے کا فارم بھر بھرا کر ’ مجاز ‘ کو دستخط کے لئے دیا ، اس نے دوستوں کی دل شکنی کے خیال سے انکار نہیں کیا مگر دستخط بھی کر کے نہیں دیۓ۔ ’مجاز ‘ اس کیریکٹر کا آدمی تھا ، عجیب طرح کی غیرت اس میں تھی۔ تمام با اثر اور دولت مند اشخاص سے اسکے تعلقات تھے مگر کبھی اپنا دکھڑا کسی کے سامنے وہ لیکر نہیں بیٹھا ،نہ چاپلوسی کی ، نہ اپنے عقیدے کی بھینٹ چڑھآئی ، اور نہ بعض ادیبوں کی طرح اترا کر یا اکڑ دکھا کر اس نے اپنی اہمیت جتانے کی کوشش کی ، اس کی شاعری کی طرح اسکی حرکات اور عادات بھی بے ساختہ تھیں ۔
’شراب اور شاہد ‘ اسکی دو کمزوریاں تھیں ، میرا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی طرح اپنی ان دونوں کمزوریوں کو ڈھانپنے چھپانے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا ، ساتھ ہی یہ بھی نہ تھا کہ جہاں بیٹھے وہاں فخریہ اپنے ان کارناموں کو بیان کرے ،وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی خواہش ضرور رکھتا تھا،اگرچہ جانتا تھا کہ اس کی صاف و شفاف طبیعت ایسی پوشیدگی کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے ، اس نے شروع زمانے میں کہا تھا ۔۔۔۔۔
’ آپکی مخمور آنکھوں کی قسم
میری میخواری ابھی تک راز ہے ۔ ‘
لیکن ، یہ ایسا کھلا راز تھا کہ اسکے گھر والے بھی جلد ہی واقف ہوگئےتھے ، پھر بھی اس سلسلے کے ایک واقعے نے ’ مجاز ‘ کو ایک دم کافی برہم کر دیا ، یہ واقعہ ’ مجاز ‘ اور شوکت تھانوی دونوں نے الگ الگ مجھ سے بیان کیا ،شوکت صاحب نے دل لگی میں اور ’ مجاز ‘ نے تکلیف کے ساتھ ۔ شوکت تھانوی نے مجاز کے والد سے ملاقات کے دوران میں اس طرح ذکر کیا جیسے دو بزرگ بیٹھ کر ہونہار لڑکوں کا ذکر کرتے ہیں ، انہوں نے ’ مجاز ‘ کی سعادت مندی، صلاحیت اور خوش اخلاقی کی تعریف کی [شوکت صاحب اور مجاز کے والد سے ، مجاز کے واسطے کے بغیر تعلقات تھے ]اور یہ بھی کہہ دیا کہ شراب کی لت اس کے پیچھے بری لگ گئ ہے ‘۔ شوکت صاحب نے محض دل لگی میں یہ کہہ دیا ، یقینا ًانکی نیت بری نہ ہوگی ۔ ’مجاز ‘ کو شوکت صاحب کی زبان سے اور پھر اپنے گھر میں غالبا ًوالدہ یا والد سے شوکت صاحب کی گفتگو کا علم ہوا اور اسے بہت تکلیف ہوئی ، مجھ سے ’مجاز ‘ نے واقعہ کا ذکر کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔ ’ میں نے شوکت سے کہہ دیا کہ باپ اور بیٹے دونوں سے دوستی رکھنا خطرناک بات ہے ، آپ ایک ہی سے دوستی رکھئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی طبیعت تمام عقیدوں اور نظریوں کے با وجود ماحول کو دکھی بنانے سے انکار کرتی تھی ۔ خواہ وہ گھر کا ماحول ہو یا بیرون خانہ ۔
بہر حال ’ مجاز ‘ جو کچھ ، تھا ، سن چوالیس کے بعد اس سے ایک طرح کی دوری ہوگئ،یعنی وہ آٹھ آٹھ گھنٹے والی ملاقات کا موقع نہیں رہا ۔کچھ تو اس لئے کہ وہ دلی میں زیادہ رہا اور کچھ اس لئے کہ اسپر دوسرا دورہ دماغی بیماری کا پڑ گیا ، جو نہایت سخت تھا ۔اس سے سنبھلنے کے بعد اسے ایک حادثہ اسکی محبوب بہن صفیہ اختر کے انتقال کا پیش آگیا ، جس کے بعد جیسے اسے چپ لگ گئ ، دیکھنے والوں کو اسپر ترس آتا تھا کہ ایسا باغ و بہار انسان کیسا بدل گیا ،ادھر میرا جان کا عذاب پیشہ اخباری رپورٹری ،دوستوں عزیزوں ہی سے نہیں گھروالوں تک سے مجھے دور رکھتا رہا ، اور مجھے ’ مجاز ‘ کے آخری زمانے کے احساسات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا ۔