یاد مجذوب۔ قسط 02۔۔۔ تحریر: محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Yadaun Kay Chiragh

12:00PM Mon 18 Feb, 2019

مجذوب صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز ہوکر لکھنؤ میں متعین ہوئے تو ان کا قیام وکٹوریہ سٹریٹ میں ہوا۔ یعنی ہمارے اور ان کے گھروں کے درمیان صرف ایک سڑک حائل تھی۔ یہ نہیں معلوم اور نہ میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کب سے ہمارے پڑوسی تھے۔ لیکن سن 30 یا 31ء میں پہلے پہل ان کا ان کی شاعری اور ان کی والہانہ زندگی کا ذکر اپنے چچا مولانا صبغت اللہ شہید صاحب کی زبانی سنا جو ایک دوسرے عزیز سے کہہ رہے تھے اور میں اپنے ساتھیوں سے سمیت نحو میر یا فصول اکبری کا سبق پڑھنے بیٹھا ہوا تھا۔

انہوں نے کہا سڑک پر ایک ہجوم دیکھ کر میں اس طرف بڑھا تو دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے کھڑے جھوم کر اور رقص کر کر کے گا رہے ہیں، مجھے دیکھ کر چونکے اور بولے "آئیے آئیے  آپ حضرات اہل علم ہیں۔" میں قریب چلا گیا وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک کبھی اس غزل کے اور کبھی اس غزل کے اشعار بلا لحاظ ترتیب سناتے رہے۔"

عجیب وغریب تعارف تھا یہ! سڑک پر ایک آدمی جھومے ناچے! یہاں یہ تربیت دی گئی تھی کہ اکیلے سڑک پر نہ جاؤ کسی سے سڑک پر بات نہ کرو۔ شیروانی کے بغیر گھر سے قدم نہ نکالو، سودا خود نہ خریدو وغیرہ وغیرہ۔ بڑا زبردست تضاد تھا ہماری معاشرت اور شاعر کے طور طریقوں میں! ایک ولولہ سا اٹھا ایسے آدمی سے ملنے کا اس کی شاعری کے شوق میں نہیں، چودہ برس کی عمر اور نحو میر کی استعداد رکھتے کس کو شاعری کی سمجھ بوجھ ہو سکتی ہے؟  اس عجیب و غریب شخصیت کو دیکھنے کی گدگدی ضرور ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ آج رات کو وہ آئیں گے اور ایک نشست ہوگی تو ہم خوش ہوگئے۔

گرمی کا موسم تھا، مجذوب صاحب آٹھ ساڑھے-آٹھ بجے رات کو آگئے ہم کو سبق یاد کرنے اور مطالعہ دیکھنے کے بعد اجازت ملی۔فراٹے بھر کر مجذوب صاحب کو دیکھنے پہونچ گئے۔

دیکھا کیا؟  گورا چٹا، لمبی سفید داڑھی والا آدمی، سر پر شاہ صاحبوں والی چو گوشیہ ٹوپی، پرانے ڈھنگ کا لمبا کرتا جس میں بائیں سینے سے متصل گھڑی اور قلم وغیرہ رکھنے والی جیب جو لکھنؤ کے خوش پوشاکوں کے ذوق پر ہمیشہ بار رہی، آستینوں اور دامنوں میں لیس ٹکی ہوئی، تخت پر بیٹھا دونوں ہاتھ اٹھائے دائیں بائیں جھوم جھوم کر ایسے انداز میں شعر پڑھ رہا ہے کہ شاعر کے ساتھ سامعین جھوم جھوم رہے ہیں۔ اور کبھی کبھی چیخ پڑھتے ہیں۔ ہوں گے سب ملا کے15،16 سننے والے ان میں زیادہ تعداد علمائے فرنگی محل کی تھی، چھوٹی پود سب سے پیچھے ایک پلنگ پر بیٹھ گئی، میں پنسل کاغذ لے کر گیا تھا اشعار نوٹ کرنے، یہی سوچا کہ جس شعر کی زیادہ تعریف ہو اس کو لکھ لو۔

مگر ایک شعر بھی ایسا نہیں سنا جس پر اہل علم سامعین نے جی کھول کر تعریف نہ کی ہو کم از کم رسمی تعریف اور واقعی تعریف کا فرق میں اس وقت بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

مجذوب صاحب پڑھ رہے تھے۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی، اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

دل میں داغوں کی یہ کثرت ہوگئی، رونما ایک شان وحدت ہو گئی

یاس ہے اب دل کی فطرت ہوگئی، آرزو جو کی وہ حسرت ہوگئی 

سوگ میں یہ کس کی شرکت ہو گئی، بزم ماتم بزمِ عشرت ہوگئی

پڑ گئی تھی ان پر بھولے سے نظر، بات اتنی سی قیامت ہوگئی 

ایسی ضد کا کیا ٹھکانا ہے بھلا، بات جو کہہ دی وہ قسمت ہو گئی

جی رہا ہوں موت کی امید میں، مر ہی جاؤں گا جو صحت ہو گئی

رنج دینے سے وہ باز آئے تو کب، جب کہ غم کھانے کی عادت ہو گئی

خاک میں کس نے ملایا یہ تو دیکھ ، شکر کر مٹی صورت ہو گئی

کر چکے رندی بس اب مجذوب تم

ایک چلّو میں یہ حالت ہو گئی

ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا سب ہی اشعار ایک درجے کے نہیں یا سب بلند پایہ شعر نہیں کہے جاسکتے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب مجذوب صاحب خود سنا رہے ہوں تو بڑے سے بڑے منکر کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ اس کیفیت میں جذب ہوکر جو خود مجذوب صاحب پر طاری رہتی تھی، ایک ایک شعر پر سر نہ دھننے لگے ؎

ذرا اے ناصح فرزانہ!  چل کر سن تو دو باتیں

نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوب کا دیوانہ، دیکھوں گا! 

مجذوب صاحب کے پڑھنے کا انداز بالکل نرالا تھا۔ ٹھیک وہی جس کی طرف میر سوز کے تذکرے میں شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد نے "آب حیات" میں اشارہ کیا ہے، لکھتے ہیں:۔

"انہوں نے(میر سوز نے) علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ جس سے کلام کا لطف دو چند ہو جاتا تھا، شعر کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود مضمون کی صورت بن جاتے تھے۔ اور لوگ بھی نقل اتارتے تھے۔ مگر وہ بات کہاں؟ آواز دردناک تھی،  شعر نہایت نرمی اور سوزوگداز سے پڑھتے تھے، اور اس میں اعضاء سے بھی مدد لیتے تھے، مثلا شمع کا مضمون باندھتے تو ایک ہاتھ سے شمع اور دوسرے سے آ وہیں فانوس تیار کرکے بتاتے، بے دماغی یا ناراضی کا مضمون ہوتا تو خود بھی تیوری چڑھا کر وہیں بگڑ جاتے۔"

آگے چل کر میر سوز کے بارے میں آزاد نے جو بات لکھی ہے وہ وہ ہے جو مجذوب صاحب کے بارے میں میرے دل میں تھی۔ مگر مجھے اس مفہوم کے اظہار کے لئے موزوں الفاظ نہیں ملتے تھے، آزاد لکھتے ہیں:۔

"تم خود خیال کر کے دیکھ لو ان کے اشعار اپنے پڑھنے کے لئے ضرور حرکات انداز کے طالب ہیں۔"

مجذوب صاحب کے اشعار "حرکات و انداز" کے کہاں تک طالب ہیں ممکن ہے یہ بحث طلب مسئلہ ہو لیکن اس کے حرکات و انداز سے شعر کا اثر یقینا دو چند ہو جاتا تھا، یہ تجربے کی بات ہے۔

 ایک دفعہ حضرت جگر مرادآبادی نے مجذوب صاحب کے مجموعہ کلام کے بارے میں بالکل یہی بات مجھ سے کہی۔ انہوں نے مجذوب صاحب کو مولانا مجذوب کہہ کر یاد کیا اور کہا "دیکھئے مولانا کا یہ مجموعہ کلام کیسا بے جان نظر آرہا ہے، اصل بات یہ ہے کہ مولانا کے اظہار میں مولانا کے حرکات اور ان کی بے چینی کو جب تک شامل نہ کیا جائے صحیح معنوں میں ان سے لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا۔"

 شعر سنانے میں میں نے مجذوب صاحب کو بے ہوش ہوتے یا غش کھاتے نہیں دیکھا۔ جس طرح بقول مولانا آزاد نے ایک خاص موقع  پر عجب انداز میں حسب ذیل قطعہ پڑھا۔

گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے سلام اللہ خان صاحب کے ڈیرے وہاں دیکھے کئی طفل پری رو ارے رے رے ارے رے رے ارے رے 

چوتھا مصرعہ پڑھتے پڑھتے وہیں زمین پر گر پڑے گویا پری زادوں کو دیکھتے ہی دل بے قابو ہو گیا ہے اور ایسے نڈھال ہورے کہ ارے رے رے کہتے کہتے غش کھا کر بے ہوش ہو گئے۔"

لیکن مجذوب صاحب کے حرکات و سکنات تھے کچھ اسی طرح کے، غزل سنا رہے تھے "کہیں ہوتی" "نہیں ہوتی" جب یہ شعر پڑھا؎ ہٹاتے ہم نشیں ہرچند لیکن چشم گریاں پر 

کبھی یہ آستیں ہوتی کبھی یہ آستیں ہوتی 

تو پہلے داہنی آستین چشم گریاں پر رکھ لی، گویا ہم نشین نے ہاتھ ہٹا دیا تو بائیں آستین اس کی جگہ رکھ لی۔

 ایک دفعہ یہ شعر پڑھا ؎

ہنس بھی دو ہنس بھی، ہاں ہاں چلو بس روٹھ چکے 

اب ہنسے، اب ہنسے، دیکھو وہ ہنسی آئی ہے 

"دیکھو وہ ہنسی آئی ہے" جب بھی کہا اس طرح کہا کہ جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا اس کو ہنسی آ کے رہے۔

 انہوں نے جواب سنایا ؎

 کسی کی یاد میں بیٹھے جو سب بے غرض ہو کر 

تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تخت سلیمان تھا 

تو اپنی نشست پر اس طرح اکڑ کر بیٹھ گئے جیسے واقعی تختِ سلیمان پر بیٹھتے ہیں۔

یا جب یہ شعر پڑھا؎

اٹھاؤں گا نہ زانو سے میں ہرگز اپنا سر ہمدم 

ارے میں اپنی آنکھوں سے انہیں جاتا نہ دیکھوں گا 

تو اس قدر جھک گئے کہ واقعی سر بہ زانو نظر آنے لگے۔

 مجذوب صاحب کی یہ پہلی نشست تھی ہمارے یہاں۔ میں سامع سے زیادہ منشی بن کر اس میں شریک ہوا تھا، وہ خود ہر شعر دو تین بار پڑھتے تھے اور بیشتر اشعار ان سے بار بار پڑھوائے جاتے۔ مجھے نقل کرنے میں کوئی زحمت نہیں ہوئی، ٨ بجے رات سے مجذوب صاحب نے سنانا شروع کیا تھا۔ نہ وہ سنانے سے ھکے اور نہ سننے والے سننے سے، فجر کی نماز کے وقت بادلِ نخواستہ محفل برخاست ہوئی اور سننے والے ایک تشنگی لے کر اٹھے۔

محفل برخاست ہونے کا مطلب پڑھنے والے جو سمجھے وہ یقیناً صحیح نھیں ہے، مجذوب صاحب کی محفل نرالی شان سے برخاست ہوتی تھی، لوگ اٹھ کھڑے ہوئے مگر گنگناتے اور شعر سناتے ہوئے، جوتا پہن رہے ہیں اور شعر سنا رہے ہیں، گھر سے نکل رہے ہیں گنگناتے شعر سنا رہے ہیں جوتا پہن رہے ہیں اور شعر سنا رہے ہیں اور گھوم گھوم کر شعر سنا رہے ہیں۔ کچھ بڑے اور باقی لڑکے اور ان کی مشایعت کو تھوڑی دور گئے۔ مجذوب صاحب شعر سناتے چلے جا رہے ہیں اور اگر زوروں پر ہیں تو راستے میں کھڑے ہوجائیں گے اور سناتے رہیں گے، مشایعت کرنے والوں کو ان کے اشعار کشاں کشاں ان کے گھر تک پہنچا دیں گے۔ جب تک گھر کا دروازہ کھلے مجذوب صاحب سناتے جائیں گے یہاں تک کہ وہ گھڑی دیکھ کر ایک دفعہ زور سے استغفر اللہ کہیں گے گویا نماز کا وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے اور جلدی جلدی اپنے مکان کے سینے پر چڑھ جائیں گے، اس طرح محفل برخاست ہوتی تھی ایک دو بار کی بات نہیں ہے ہمیشہ یہ بھی ہوا کہ  مجذوب صاحب کو سکون نہیں ہوا۔ بے چینی اور اضطراب کا عالم طاری ہے، دیکھا نماز فجر کے بعد پھر گنگناتے چلے آ رہے ہیں اور پھر ان کی صدا پر یا اطلاع پر ہر طرف سے لوگ لپک لپک کر آرہے ہیں۔ بقول مجذوب صاحب کے ؎

آ رہے ہیں ہر طرف سے طالبان درد دل! 

 یہ میری آہ و فغاں ہے یا اذن درد دل

یہ تو آٹھ نو گھنٹے کی نشست تھی ایک دفعہ لگاتار ٤٨ گھنٹے کی نشست ہوئی جس میں نماز اور کھانے کے علاوہ کوئی وقفہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد بھی یہی محسوس ہوا کہ نہ سنانے والا تھکا اور نہ داستان مکمل ہوئی۔

 ٤٨ گھنٹے کی نشست فرنگی محل کے ایک قدیم متوسل قاضی وحید الدین صاحب کے یہاں سترکھ ضلع بارہ بنکی میں ہوئی تھی، اور سب لوگ لکھنؤ سے لد پھند کر وہاں پہنچے تھے۔

قاضی صاحب کے ایک قدیم ملازم نے گھر والوں اور مہمانوں کا جو یہ حال دیکھا کہ نہ کھانے کا ہوش نہ سونے کی فکر بس ایک "بڈھا" گا رہا ہے اور سب میاں لوگ جھوم رہے ہیں تو اسے عجیب معلوم ہوا۔ اس نے بڑی حیرت سے کہا "ایک سڑی تو خیر رہے(تھا ہی) اس کے ساتھ یہ سب میاں لوگ کاہے( کیوں) سڑی ہو گئے؟" مجذوب صاحب چاہے ایک گھنٹہ سنائیں یا ٤٨ گھنٹے سب کچھ زبانی سنایا کرتے تھے ان کو سارا کلام حفظ تھا، نہ بیاض کا جھگڑا نہ نوٹ بک کی قید، یہ بات پہلے پہل میں نے مجذوب صاحب ہی میں دیکھی اس کے بعد جگر صاحب کو دیکھا کہ وہ جو کچھ سناتے ہیں زبانی سناتے ہیں۔ خواہ کتنی پرانی غزل ہو۔

مجذوب صاحب کبھی ایک دفعہ میں کوئی غزل پوری نہ سنا سکے ایک غزل سناتے سناتے کوئی اور شعر کسی وجہ سے یاد آ گیا وہ سنایا اور اسی غزل پر چل نکلے، بیچ میں یاد آ گیا یہ کسی نے یاد دلایا کہ فلاں غزل ہو رہی تھی فورا چونکے اور سابقہ غزل کی طرف پلٹ گئے یہ سب ان سے اضطراراً ہوتا تھا۔

 غزل ہو رہی تھی ؎

یہ نالہ کناں کون؟ بآوازِ حزیں ہے 

دیکھو کہیں مجذوب غزل خواں تو نہیں ہے 

اس اثناء میں چائے آگئی، چھوٹے چھوٹے حسین فنجانوں میں۔ مجذوب صاحب بے قرار ہو گئے۔ غزل چھوڑ چھاڑ گنگنانے لگے۔ اب جوشعر انہوں نے پڑھا وہ دوسری غزل کا مطلع تھا اور بے پناہ مطلع ؎

آ گئیں یاد وہ آنکھیں مجھے پیمانوں سے 

غم میرا اور بڑھا عیش کے سامانوں سے 

پھر اسی غزل پر چل دیے ؎

اجنبیت نہیں دل کو تیرے پیمانوں سے کچھ وہ گھل مل گئے ایسے میرے ارمانوں سے 

یا تو ہم کو بھی اجازت ہو نہیں بہر کرم 

اس تصور کو بھی رکوائیے دربانوں سے 

شوق سے مٹھیاں بھر بھر کے مجھے مٹی دی 

آج تو لاد دیا اپنے احسانوں سے 

کس قدر خوش ہو رہا ہوتا ہے پردرد کلام 

پوچھئے گفتہ مجذوب کے دیوانوں سے 

ابھی گفتہ مجذوب کے دیوانے ہوشربائی کی کارفرمائیوں سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ مجذوب صاحب پہلی غزل کی طرف لوٹ گئے اور ایک نیا مطلع سنایا ؎

 عمر سے الجھن میں مری جانِ حزیں ہے

 یہ بھی ہے کوئی بات کے "ہاں" ہی نہ "نہیں" ہے 

اسی غزل میں انہوں نے کہا تھا۔؎

 اف عکس کش حسین کیسی مری آنکھیں 

کپ جاتا ہے نظروں میں ذرا بھی جو حسین ہے 

درحقیقت مجذوب صاحب حسن کے دیوانے تھے، انسانوں سے لے کر فنجانوں تک جہاں بھی انہیں حسن کا جلوہ نظر آتا وہ آپے سے باہر ہو جاتے۔

کمپوزنگ: بشارت نواز۔ خانیوال