یاد مجذوب ۔ 01 ۔۔۔۔ تحریر: محمد رضا انصاری فرنگی محلی مرحوم

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Yadaun Kay Chiragh

01:39PM Sat 16 Feb, 2019

شخصیت نگاری، اور سوانح نگاری کے فرق کی بدولت مجذوب صاحب کے شخصیت نگار پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ ان کا سنِ پیدائش، عمر اورسالِ وفات وغیرہ کی تفصیل بھی بیان کرے۔ جن میں سے ایک چیز بھی بدقسمتی سے میرے علم میں نہیں ہے۔ سنِ پیدائش اور عمر کے معاملےمیں بڑی بڑی شخصیتیں گمنامی کا شکار پائی جاتی ہیں، لیکن کسی نمایاں شخصیت کا سالِ وفات نہ معلوم ہونا یقینا جہالت ہے، اس جہالت کا مجذوب صاحب کے بارے میں مجھے اعتراف ہے۔

عجیب اتفاق ہے آخر جولائی یا شروع اگست 1944 میں حیدرآباد کی ایک نجی صحبت میں جہاں کل ہند اردو کانگریس کے سلسلے میں حضرت جگر مرادآبادی کے ساتھ گیا ہوا تھا۔ مجذوب صاحب کا جن کے بیشتر اشعار مجھے یاد ہیں، ذکر آ گیا جگر صاحب نے تفننا "کہا"۔ آپ کوئی دو شعر ان کے سنائیے، دیکھئے آپ کے ذوق کا بھی امتحان ہے اس میں۔

ذوق کا ذکر جگر صاحب نے محض چھیڑنے کے لئے کیا تھا اس لئے کہ رسالہ نیا ادب(لکھنؤ) سے میری وابستگی اور ماہنامہ منزل(لکھنؤ) کی ادارت نے جگر صاحب کو جو "ترقی پسندوں کے ادبی ذوق" سے بدگمان سے رہتے تھے، میرے ذوق کا امتحان لینے کی دعوت دے دی، بہرحال دو شعر جو بروقت یاد آگئے میں نے سنائے 

گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلف عنبریں ساقی

ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمین ساقی

یہ مطلع جس غزل کا ہے اس کا مقطع بھی

الہی خیر ہو، مجذوب مے خانے میں آیا ہے

قدح کش، لاابالی، جام نازک نازنیں ساقی

دیر تک مجذوب صاحب کا ذکر ہوتا رہا۔ دونوں میں سے کسی کو ان کے بارے میں صحیح علم نہ تھا کہ وہ اب کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ خط لکھنا مجذوب صاحب نے گویا سیکھا ہی نہیں تھا ،حال معلوم ہو تو کیسے؟

واپسی پر کچھ دنوں کے بعد ایک دفعہ ضمنا مجذوب صاحب کا ذکر آیا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ اپنے وطن اورئی ضلع جالون میں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخِ انتقال بھی اگست 1944 کی کوئی تاریخ ہے۔ اس وقت ذہن پر زور دے کر حساب لگایا تھا اورغالبا وہی تاریخ یا ایک آدھ دن آگے پیچھے کی تاریخ تھی جب حیدرآباد میں مجذوب صاحب کی یاد ہم لوگوں کو آئی تھی۔

تاریخِ انتقال مجھ کو یا دوسرے لوگوں کو نامعلوم ہونے کی وجہ کھلی ہوئی ہے کہ آخر زمانے میں مجذوب صاحب ایسی جگہ قیام پذیر ہوگئے تھے جو خبروں کی راہگزر سے دور پڑتی تھی۔ لیکن اس کی وجہ بتانا مشکل ضرور ہے کہ مجذوب صاحب کا ایسا شاعر جو شعراء کی درجہ بندی میں حسرت، جگر اور اصغر وغیرہ کے طبقے کا غزل گو تھا عام طور پر نقادوں اور تذکرہ نویسوں کی نگاہوں سے کیوں پوشیدہ رہا۔

صفِ شعراء میں جب کبھی مجذوب صاحب کو دیکھا اساتذہ کے پہلو بہ پہلو دیکھا اور جب "محفل یکتائی" میں انہیں پایا تو آتش بجاں مغنی پایا۔ جب وہ "نالہ کناں" ہوتے تو اچھے سے اچھے شاعر خاموش سامع بن کر رہ جاتے۔ اس فضا میں جو مجذوب صاحب کی مترنم آواز اور بےچین جذبات سے ہمیشہ پیدا ہو جایا کرتی بڑے بڑے سخن شناس وارفتہ ہوجاتے یا گم صم اور سب اس دعوے کے موئید نظر آتے

یہ معانی، یہ حقائق، یہ روانی، یہ اثر

شاعری تیری ہے اے مجذوب، یا الہام ہے؟

شاعر سب ہی "پیدائشی" ہوتے ہیں۔ اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ مجذوب صاحب "پیدائشی" شاعر تھے، لیکن یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ مجذوب صاحب سرتا پا شاعر تھے۔

یہ دعویٰ مجذوب صاحب کے بہت سے جاننے والوں کو محض دعویٰ نظر آئے گا جس کا بظاہر واقعیت سے کوئی تعلق نہیں، بے شک مجذوب صاحب ایک زمانے میں ڈپٹی کلکٹر رہے ہیں، پھر اس سے مستعفی ہو کر محکمہ تعلیمات (یو،پی)میں اسسٹنٹ انسپکٹر ہوئے۔ آخر میں انسپکٹر آف اسکولس کے عہدے پر پہنچ کر سبکدوش ہو گئے۔

مجذوب صاحب سخت قسم کے متشرع بھی تھے اور صوفی بھی، صوفی صرف شاعرانہ حد تک نہیں، بلکہ واقعتا اپنے وقت کے ایک بڑے شیخ طریقت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مرید خاص اور خلیفہ بھی تھے۔ شیخؒ کے انتقال کے بعد خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ میں متوسلین کے حالات و کوائف کے نگران اور مشیر بھی۔

تو وہ مذہبی بھی تھے، صوفی بھی، سرکاری افسر بھی تھے اور سرکاری فہرستوں میں "خان صاحب" اور "خان بہادر" بھی۔ پھر بھی میں انہیں سرتاپا شاعر کہنے کی جرات کر رہا ہوں۔ شاعری اگر صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں، بلکہ اس کیفیت، اس شعور اور اس احساس کا نام ہے جو ہر شعر میں کم و بیش پایا جاتا ہے اور اس سے شعر کہلاتا ہے تو مجذوب صاحب پر یہ کیفیت اور یہ جذبہ ہمہ وقت طاری رہتا تھا۔ اگر ان کے دوسرے فرائض اس کیفیت کے اظہار میں رکاوٹ بنتے تو ایک سخت قسم کی بے چینی ان کے ہربنِ مو سے ٹپکتی دکھائی دیتی تھی۔ اس بے چینی کو محسوس کرنے والا پوری طرح جان لیتا تھا کہ اس میں نہ بناوٹ ہے اور نہ دکھاوا۔

ہم دو تین "صاحبزادگان" فرنگی محل(بہ لحاظ عمر نہ بغرض احترام) مجذوب صاحب کی تلاش میں ان کے مکان واقع بنارسی باغ مغرب کے بعد پہنچے، سن 40 ء کے آس پاس کی بات ہوگی، اس وقت مجذوب صاحب انسپکٹر آف اسکولز ہوچکے تھے اور خان صاحب خواجہ عزیزالحسن غوری انسپکٹر آف سکولز (یو،پی) کہلاتے تھے۔ مکان یعنی سرکاری بنگلے میں وہ ملے نہیں، معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے گئے ہیں۔ دیر تک ہم نے ٹہل ٹہل کر انتظار کیا آخر اس مسجد تک پہونچ گئے جہاں وہ نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ وہ مسجد کے صحن میں دوزانو بیٹھے ایک طرف گردن ڈھلکائے اور اسے شانے پر ٹکائے تسبیح پڑھ رہے تھے۔

تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی اور پڑھنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ بالکل قریب جاکر سنا تو وہ گنگنا رہے تھے 

پروانہ ہے، بلبل کا سا انداز نہیں ہے

جاں باز ہے مجذوب سخن ساز نہیں ہے

کیا مسکنت اور کیسی عاجزی تھی ان کی آواز میں! یہی جی چاہا کہ جس بے نیاز کو اپنی سچائی کا یقین دلارہے ہیں، اس کے سامنے پہونچ کر ہم سب مجذوب صاحب کی صداقت کی فورا گواہی دیں مگر وہ تو "عالم السر والشہادۃ" سے مصروف راز و نیاز تھے۔ جس کے سامنے سوگند اور گواہ کی حاجت ہی نہیں ہوتی۔

عربی زبان میں ایک لفظ "حنین" ہے جس کے معنی کسی کے شوق میں بیقراری کے ہیں۔ مجذوب صاحب ہمہ تن اشتیاق اور سراپا شوق تھے، نماز میں ہوں، سرکاری کام میں ہوں، خالی بیٹھے ہو یا انجمن میں ہوں، لَو ایک ہی لگی رہتی تھی، مجذوب نہ تھے استن حنانہ تھے، انہوں نے خود کہا تھا۔ ع

غم فرقت میں ہوں میں استن حنانہ برسوں سے

"استن حنانہ" مسجد نبویﷺ کے درخت کا تنا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وعظ اور خطبہ دیتے وقت سہارا لیا کرتے تھے۔ پھر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ممبر بن گیا اور آپ اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے، کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی درخت کے اس تنے کو بہت شاق گزری اور لوگوں نے اس لکڑی سے "حنین" (صدائے اشتیاق) سنی۔ اس لیے اس کو استنِ حنانہ یا "نالہ ستون" کہا جاتا ہے۔

 مجذوب صاحب تھے بھی تو ستون کی طرح دراز قد "استن حنانہ" کی تشبیہ ان کے ظاہر و باطن دونوں کے عین مطابق تھی۔۔۔جاری۔۔۔۔۔

کمپوزنگ: بشارت نواز۔ خانیوال

مختلف آوازوں میں خواجہ صاحب کا کلام سننے کے لئےاردوآڈیو ڈاٹ کام کی مندرجۃ ذیل لنک پر کلک کریں۔