سچی باتیں۔۔۔ باقی کے ساتھ لگاؤ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:18PM Thu 1 Jul, 2021

1941-12-08

غالبؔ کوئی زاہد نہیں، شیخ وقت نہیں، ایک شاعر وادیب تھے ۔ اور وہ بھی رندانہ مزاج اور لااُبالی مذاق کے۔خطوط غالب (’’مولوی‘‘ مہیش پرشاد کی مرتب کی ہوئی تازہ کتاب) تصوف ومعرفت، اخلاق وموعظت کی نہیں، خالص ادب وانشا کی کتاب ہے۔ لیکن کیا مضائقہ ہے گر کوئی کام کی بات کسی رندِ لا اُبالی کی زبان سے سُن لی جائے، اور عبرت کا ٹکڑا کسی ادیب وانشاپرداز کے کلام میں نظرآجائے؟……غالب صاحب ۲۰؍جنوری ۱۸۶۱ ء کو اپنے ایک نہایت عزیز ہندو شاگرد مرزا تُفتہ ؔکو لکھتے ہیں:۔

’’سنبلستان کا چھاپا خدا تم کو مبارک کرے، اور خدا ہی تمہاری آبرو اک نگہبان ہے۔ بہت گزر گئی ہے۔ تھوڑی رہی۔ اچھی گزری ہے، اچھی گزر جائے گی۔ میں تو یہ کہتاہوں کہ عرفیؔ کے قصائد کی شہرت سے عرفیؔ کے کیا ہاتھ آیا، جو میرے قصائد کے اشتہار سے مجھ کو نفع ہوگا؟ سعدیؔنے ’’بوستانؔ‘‘ سے کیا پھل پایا جو تم ’’سنبلستان‘‘ سے پاؤ گے؟ اللہ کے سوا جو کچھ ہے موہوم ومعدوم ہے، نہ سخن ہے نہ سخنور ہے، نہ قصیدہ ہے نہ قصہ ہے۔ لاموجود الا اللہ‘‘۔  (جلد اول، مصطفائی، ص:  ۵۲)

غالب اب بوڑھے ہوچکے ہیں، کلام جتنا پھیلنا تھا پھیل چکاہے، اردوبھی، فارسی بھی۔ شہرت جتنی حاصل ہونی تھی، سب حاصل ہوچکی ہے۔ قدرشناس نواب صاحب رامپور کے اُستاد رہ چکے ہیں، دہلی کے شاہی دربار میں،انگریز کی سرکارمیں، جتنی عزت ملنی تھی، مل چکی ہے۔ ان سب تجربوں کے بعد فرماتے ہیں تو کیا، وہی کہ دُنیا ہیچ ست وکارِ دُنیا چہ ہیچ!۔

دُنیا اور اُس کے سارے کاروبار کی، اس کے دولت واعزاز کی، اس کے منصب وجاہ کی بے ثباتی، بے حاصلی، بے حقیقتی!۔

’’اللہ کے سواجو کچھ ہے موہوم ومعدوم ہے، نہ قصیدہ ہے نہ قصہ ہے۔ لا موجود الا اللہ‘‘!۔

کیا کسی صوفی عارف نے اس سے زیادہ کچھ کہاہے؟ وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرورکی تفسیر اس سے بڑھ کر کچھ ہوگی؟……انھیں غالب صاحب نے ایک بار ایک بڑا پُرزور قصیدہ فارسی میں شاہ نصیر الدین حیدروالیِ اودھ کی مدح میں لکھ کر ایک صاحب کے توسط سے لکھنؤ بھیجا۔ قصیدہ پہونچا۔ تیر اپنے نشانہ پر بیٹھا۔ حکم ہوا کہ فورًا پانچ ہزار کی رقم انعام میں دی جائے۔ شاعر کی آواز آئی، قسمت جاگ گئی، لیکن آگے سنئے۔پانچ ہزار میں سے تین ہزار تو وزیر سلطنت نواب روشن الدولہ بہادر کی نذر ہوئے۔ دوہزار اُن متوسط صاحب کے ہاتھ آئے، وزارت پناہ کے اس ارشاد کے ساتھ کہ جو کچھ مناسب سمجھنا غالبؔ کو دے دینا!……اُن صاحب کو مناسب یہی نظرآیا، کہ ان دوہزار میں سے دور وپیہ بھی غالب تک نہ پہونچائے جائیں! شاعر غریب کی قسمت جھک مارتی رہ گئی۔ جاگ کر پھر سوگئی!

لکھنؤ میں غالب کی کمک پر اُستاد ناسخؔ تھے۔ دہلی سے لکھنؤ خط آیا کہ بھائی تم مدد کرو، اور اس معاملہ میں میری دادرسی کراؤ۔ داد فریاد دردولتِ سلطانی تک پہونچاؤ……مطلع جس شان کا تھا، مقطع بھی اُسی آن بان کا ملاحظہ ہو:-

’’یہ خط لکھ کر میں نے ڈاک میں روانہ کیا۔ آج خط روانہ ہوا، تیسرے دن شہر میں خبر اُڑی کی نصیر الدین حیدر مرگیا! اب کہو میںکیاکروں، اور ناسخ کیا کرے؟‘‘  (ص:  ۷۰)

یہی قصیدہ اگر نعتیہ ہوتا ، جب بھی یہ انجام کسی صورت میںممکن تھا؟ شاعری کی یہی قوت اپنے مالک ومولیٰ کی حمد ومناجات میں صرف ہوئی ہوتی، یہ طبع آزمائی توحید کے مضمون پر کی ہوتی، کوئی امکان صلہ سے محرومی کا تھا؟……فانیوں کے بجائے باقی سے لَو لگانے والوں میں کوئی آج تک محروم رہاہے؟ کوئی اُس در سے کبھی محروم پھراہے؟ فرشتوں سے بھی کوئی ارادی غبن، کوئی غیر ارادی نسیان ممکن ہے؟……سچ کہا ہے اُس سچے نے جس نے شعر کی زبان میں حکمت ومعرفت کے دریا بہادئیے ہیں   ؎

عشق برمردہ نہ باشاد پائدار۔ عشق را بر حیّ وقیوم دار!۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/