حج کا سفر۔۔۔ کچھ حج کمیٹی کے طریقہ کار کے بارے میں (۲  )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:10AM Tue 5 Jul, 2022

اس زمانے میں ریاستی حج کمیٹی کے صدر مرحوم سید صدیق حسن صاحب آئی سی ایس، تھے جن کا دروازہ ہرقسم کے حاجت مند کے لئے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا۔ اجنبی بیگانے تک بغیر کسی وسیلے اور سفارش کے ان کی حاجت روائی کی ہمہ گیر خصلت محمود سے بے تکلف مستفید ہوتے رہتے تھے، یہاں تو شناسائی اور تعلقات کا ایک حق بھی تھا ان ہی کے دروازہ پر دستک دی ۔

 یہ جانتے تھے کہ وقت گزرچکا ہے گنجایش بالکل نہ ہوگی، لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ صدیق حسن صاحب کے یہاں دوسروں کے کام آنے کے سلسلے میں کسی مانع یا رکاوٹ کا کبھی خیال نہیں کیا جاتا ہے، ان کے پاس پہنچ گئے.۔

 کسی طرح نہیں بھولتا وہ عالم جب ضرورت لے کرجانے والا موانع اور عوائق پر نظر کر تے ہوئے ضرورت کہتے ہوئے ہچکچائے لیکن صدیق حسن صاحب کا سا ہمدرد اور غمگسار  کسی بات کی پروا نہ کرتے ہوئے مشکل کشائی کے لئے تیار نظر آئے۔

مرحوم نے کہا، "بھئی دیر تو بہت ہوگئی خیر میں ابھی گول انداز کوخط لکھتا ہوں"۔

گول انداز صاحب اس وقت پورٹ حج کمیٹی کے چیرمین تھے جن صاحب کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو ٹکا سا جواب دیدیتا۔ "جناب! آخری تاریخ گزرے تین مہینے ہو چکے جہازوں کی روانگی بھی شروع ہوگئی۔ حج میں بھی اب صرف ڈیڑھ مہینہ رہ گیا آج آپ درخواست دینا چاہتے ہیں، کیسے ہوگا آپ کا کام ؟ "

 گر مرحوم حسن صاحب نے اسی وقت ہمارے سامنے  ( 31 مارچ 61 ) کو اسٹینوگرافرکو بلا کرخط کا مضمون املا کرایا اور ہم دوسری ادھر ادھر کی باتیں کر کے واپس چلے آئے۔

ایک ہفتے کے بعدجناب گول انداز صاحب کا اپیل کا لکھا ہواخط آیا کہ "سید صدیق حسن آئی سی ایس ایڈمنسٹریٹیو مبر بورڈ آف ریونیو یوپی  کی خواہش پر آپ کو جہاز پر نشست محفوظ کرانے کا ایک فارم بھیجا جارہا ہے اور مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ جلد از جلد جہاز کے درجہ اول کے منتظر امید واروں میں اپنا نام درج کرالیں۔"

 فورا فارم بھر کر اور حسب ہدایت دس روپے کا پوسٹل آرڈر منسلک کر کے درخواست بھیج دی اور حسن صاحب سے جاکر شکوہ کیا کہ آپ کی سفارش سے گول انداز صاحب نے ہمیں بھی شاید آئی سی ایس سمجھ لیا وہ فرسٹ کلاس میں نام اندراج کرانے کامشورہ مرحمت فرما دیا ۔

خدا رحمت نازل فرمائے مرحوم حسن صاحب کی تربت پر اس شکوہ پر ہنسنے ہنسانے کے بعد انھوں نے تسلی دی کہ پہلے جگہ مل جانے دو پھر عین وقت پر فرسٹ اور تھرڈ کا قصہ بھی طے ہو جائے گا۔

فرسٹ اور تھرڈ کا قصہ طے کرانے کی ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ 22/ اپریل کو ہمیں پورٹ حج کمیٹی کےاے اے  وظیفہ دار کی طرف سے خط ملا کہ " گزارش ہے کہ امسال کسی بھی جہاز میں جگہ ملنے کی امید بہت کم ہے لہذا آپ کا پوسٹل آرڈر آپ کو واپس کیا جارہا ہے درخواست رکھ لی ہے اگر کوئی جگہ ہو گی تو فوراً آپ کو مطلع کیا جائے گا۔

چلیئے قصہ ہی پاک ہو گیا ۔ اگرچہ پوسٹل آرڈر ابھی تک واپس کیا جار ہا ہے اور واپس ہو نہیں پایا ہے۔

اس کے بعد 1962 کے حج کے لئے وقت مقررہ پر ہماری امی کی اور پھوپھو کی درخواستیں روانہ کردی گئیں ،اس  زمانے میں جس ترتیب سے درخواستیں مغل لائن کو موصول ہوتی تھیں اسی ترتیب سے جہاز پر جگہیں الاٹ ہوجاتی تھیں، ہماری بدقسمتی کہ وقت مقررہ کے اندر مگر جہازوں کی جگہیں پر ہوجانے کے بعد ہماری درخواستیں مغل لائن کو ہم دست ہوئیں۔

بدقسمتی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ اسی لکھنو سے دفتر معلومات حج سے ہماری درخواستوں کی رجسٹری 24 نومبر 1961 کو گئی اور مغل لائن کو یکم دسمبر کو موصول ہوئی اور اسی دفتر معلومات حج سے کچھ درخواستوں کی ایک رجسٹری 26 نومبر کو بھیجی گئی وہ 30/ نومبر کو مغل لائن کے رجسٹر میں درج ہوجاتی ہو! یہ ہماری دوسری اور امی اور پھوپھی جان کی پہلی ناکامی تھی، پھر 1963 کے حج کے لئے مقررہ وقت پر درخواستیں دی گئیں معلوم ہوا منتظر امیدواروں کی فہرست تک ہماری قسمت نے رسائی حاصل کرلی ہے، گویا ہم اتنا سوچنے کے جائز حق دار ہو گئے کہ ہم بھی اس سال حج کو جاسکتے ہیں۔

دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے

 اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں؟

 امید واروں کی فہرست میں اندراج کی خوش بختی پر ہماری مسرت چشم زدن میں ختم ہوگئی، جب معلومات حج کے دفتر نے ہمیں بڑی مسرت کے ساتھ اطلاع دی کہ آپ کی تینوں نشستیں مل گئی ہیں، براہ کرم تین دن کے اندر آپ بمبئی پہنچ جائیں ۔

یا اللہ! حج کے اتنے لمبے سفر کے لئے تین کے اندر نہ صرف یہ کہ تیاریاں کی جاسکتی ہیں، بلکہ بمبئی پہنچ کر اپنے کو حاضر بھی دکھایا جاسکتا ہے! انجکشن ٹیکے، ریل کا ریزر ویشن، کپڑے لتوں کی درستی، آخر یہ سب تین چار دن میں کیسے ممکن ہے۔ مانا کہ انجکشن ٹیکے میں جھانسا پٹی چلاہی کرتی ہے۔ یہ بھی سہی کہ ریل میں دے دلا کر ریزرویشن بھی ہوجائے گا، جیسا کہ عام دستور بن چکا ہے۔ کپڑے لتے بھی سمیٹ کر بکس میں بھر لئے یہ اعزا و احباب ہیں ان سے خطا قصور معاف کرانے کے لئے وقت کہاں سے لائیں گے۔ اپنا نا نیہال اور والدہ کا گھر کاکوری میں ہے آخر وہاں سے رخصت ہونے اور نانیہالی بزرگوں سے ملنے کی کوئی سبیل بھی تو ہونا چاہیے، پھر کچھ محترم خانوا دے قرب وجوار میں ہیں جہاں روانگی سے پہلے حاضری دینا خاندان فرنگی محل کا ڈھائی سوسالہ قدیم دستور ہے۔ تین چار دن میں یہ سب ہو بھی گیا تو بمبئی پہنچنے میں بھی تو وقت لگے گا۔

 اڑ کے بمبئی پہنچ سکتے تو پہنچ جاتے ۔ اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ، کیا کیفیت اس خط ملنے کے بعد اپنی ہوئی بیان سے باہر ہے، سب کچھ ہو گیا اور کچھ نہیں ہو پا رہا ہے، اس سفر سے پہلے یہ عالم جب کبھی یاد آجا تا تھا تو روئے رلائی نہیں آتی تھی، بہر حال اپنی بدقسمتی پر صبر کرکے بیٹھ ر ہے اور طے کر لیا کہ ہم کم ہمت لوگ ایسے مبارک سفر کے اہل ہی نہیں ہیں۔

کر لیا شرمندہ ہوکر، بندہ خود باب قفس!!

 سامنے تھا آشیاں ، پرواز کی طاقت نہ تھی

 ظاہر ہے کہ جب جہازون کی تعداد متعین اور جہازوں پر جگہیں محدود ہیں تو مقررہ تعداد سے زیادہ درخواستوں کا نامنظور ہونا بھی ناگزیر ہے۔ نا کام عازمین حج کے سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا گیا اس کا مدعا حج کمیٹی یا مغل لائن کے ذمہ داروں کی نیت پر شبہ کرنا نہیں۔

سوال صرف اس طریقہ کار کا ہے جس کے نتیجے میں اس کی کوئی ضمانت نہیں کی جا سکتی کہ ایک عازم حج سو سال لگا تار درخواست دینے کے بعد بھی صحیح قرعہ اندازی کے ذریعہ منتخب ہو جاۓ گا ۔

ناقل:          محمد ارشد قاسمی

(جاری)