اترپردیش کا انتخابی دنگل

Bhatkallys

Published in - Other

03:19PM Mon 31 Oct, 2016
از:حفیظ نعمانی سنا ہے اترپردیش کے الیکشن میں 30ریلی امت شاہ کریںگے اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی اتنی ہی ریلیوں سے خطاب کریںگے۔ اپنی پہلی ریلی امت شاہ نے اٹاوہ میں کی اور وہاں کے رہنے والوں کو وہ دن یاد دلائے جب صوبہ میں بی جے پی کی حکومت تھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ تھے جن پر سپریم کورٹ میں جھوٹا حلف نامہ دینے کا الزام ہے اور جن کی حکومت 6دسمبر 1992کی شام کو صدر نے برخاست کردی تھی۔ بی جے پی کے صدر صوبہ کو 25سال پرانی باتیں یاد دلا رہے ہیں جبکہ چوتھائی صدی میں کروڑوں ووٹر وہ ہوگئے جو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اوروہ کروڑوں اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے گئے جنھوںنے دسمبر 1992کا وہ کالا دن دیکھا تھا جسے یاد کرکے ایل کے ایڈوانی جیسے پتھر دل والے بھی کانپ جاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ امت شاہ کو صرف کلیان سنگھ یاد رہے جنھیں ان کے سابق صدر شری راج ناتھ سنگھ بھی کبھی حلق سے نہ اتار سکے۔ ۲۰۱۴ء میں امت شاہ اترپردیش میں الیکشن کے انچارج تھے۔ جس الیکشن میں اترپردیش کی ۸۰ سیٹوں میں ۷۳ بی جے کو ملی تھیں اور صرف ۲ سیٹیں ان کی مقابل کانگریس کو۔ اس بے مثال کامیابی پر مودی جی نے کم از کم اب تک امت شاہ کی پیٹھ پر دس کلو گڑ اور ۵ کلو کڑوا تیل تو ضرور مل دیا ہوگا اوراسی کا انعام تھا کہ صدارت کا تاج راج ناتھ سنگھ کے سر سے اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا۔ جس کا نتیجہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہی حربے آزماتے جن کے بل پر انھوںنے 90فیصدی سے زیادہ کامیابی حاصل کی تھی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہ کلیان سنگھ کی دم پکڑ کر اترپردیش فتح کرنا چاہ رہے ہیں۔ امت شاہ کے بارے میں معلوم ہواکہ ان کا پروگرام اٹاوہ سے لکھنؤ آنے کا تھا جہاں ان کے استقبال اور کھانے پینے کے سارے انتظامات ہوچکے تھے لیکن وہ لکھنؤ آنے کے بجائے دہلی چلے گئے۔ شاید انھیں کسی نے بتادیا کہ اترپردیش سماج وادی پارٹی کے صدر شیو پال یادو جاٹ لیڈر اجیت سنگھ سے ملے ہیں اور انہیں دعوت دی ہے کہ ۵؍ نومبر کو وہ لکھنؤ آجائیں جہاں ملائم سنگھ، ڈاکٹر لوہیا، جے پرکاش نارائن اور چودھری چرن سنگھ کے ماننے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کررہے ہیں تاکہ بی جے پی اترپردیش میں گھسنے نہ پائے۔ گھسنے نہ پائے کا جملہ ایسا ہی جیسے دن میں کئی بار یا توہمارے منہ سے نکلتا ہے یا ہمارے کانوںمیں پڑتا ہے کہ پھاٹک بند کرو تاکہ کوئی جانور نہ گھس پائے ،کتا، بلی نہ گھس پائے۔ اور گھس پائے یا نہ گھس پائے کسی سید نے، پٹھان نے، صدیقی نے، فاروقی نے یا انصاری نے نہیں کہا بلکہ ایک یادو، ایک جاٹ، ایک کرمی اور ایک تیاگی نے کہا ہے۔ وہ یہ تو برداشت کرنے پر تیار ہیں کہ دلت مایاوتی گھس آئیں لیکن اس پر تیار نہیں ہیں کہ بی جے پی گھس آئے ۔اور اسی دلت خاتون نے تو امت شاہ سے کہا ہے کہ وہ کلیان سنگھ کا نام لینے کے لیے معافی مانگیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ملائم سنگھ نے کلیان سنگھ سے چند روزہ دوستی کرنے پر قوم سے معافی مانگی تھی۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے شہرت کی حد تک ایک کروڑ چھوٹے غریب بچوں کو ایک تھالی اور ایک گلاس دینے کا اعلان کیا ہے اوراس کی ابتداء کربھی دی ہے۔ جس پر اکھلیش کی بواجی مس مایاوتی نے ناراض ہو کر کہا ہے کہ میری حکومت آئی تو میں اس خرچ کا حساب لوںگی جس کے جواب میں بھتیجے نے یاد دلایا کہ پہلے ان سیکڑوں ہاتھیوں کی تو خبر لیجئے جو ۹ سال سے ایک ہی حالت میں ہیں کہ جو کھڑے تھے وہ اب تک کھڑے ہیں اور جو بیٹھے تھے وہ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ سیاست کی دنیا میں اس طرح کے تفریحی جملوں کے تبادلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو جہاں ہے اسے اطمینان ہے کہ وہ وہیںرہے گا۔ مودی جی، راج ناتھ سنگھ جی اور امت شاہ کوشش کریںگے کہ اترپردیش میںکسی طرح گھس جائیں  اور جن طاقتوں نے ان کے اوپر دروازے بند کر رکھے ہیں انھیں اطمینان ہے کہ وہ کچھ بھی کریںگھس نہیں سکتے۔ اترپردیش کی اکھلیش حکومت برابر شکایت کررہی ہے کہ مرکز اس کے ساتھ سوتیلا برتائو کررہا ہے اور اس کے حصہ کی رقم اسے نہیںدے رہا ۔ دوسری طرف امت شاہ نے الزام لگایا ہے کہ اترپردیش کو دوسری ریاستوں سے زیادہ روپیہ دیا گیا لیکن انھوں نے کام کرنے کے بجائے وہ کھالیا۔ یہ اختلاف کوئی نیا نہیں ہے۔ صوبوں میں اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوا کرتی تھی تو اس کے حساب سے نقشہ بنا تھا۔ ۱۹۶۹ء کے بعد سے مختصر وقت کے لیے ۱۹۷۷ء میں اور اس کے بعد ۱۹۸۰ء میں بہت حد تک دونوںجگہ ایک ہی پارٹی رہی اس کے بعد سے تو فرق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں جس انداز سے مودی لہر چلی تھی اس کے بعد اچھے اچھے سیاست دانوں کو یقین ہوگیا تھا کہ اب ایک لمبے عرصہ تک ملک میں بی جے پی کی حکومت رہے گی۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ جتنے گھوٹالے ۱۹۵۲ء کے بعد سے ۲۰۱۴ء تک پورے ملک میں ملا کر ہوئے ہیں ان سب سے زیادہ بڑا گھوٹالا ایک الیکشن میں ہی نریندر بھائی مودی کردیںگے کہ بے ایمانی کرنے والے ٹھیکے دار تو ایک مٹھی سیمنٹ میں آٹھ مٹی بالوملاتے ہیں تب عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ لیکن مودی جی نے تو الیکشن کی پوری عمارت بالو سے ہی بنادی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند مہینے کے بعد جب مہاراشٹر لڑنے کے لیے گئے تو عمارت لرز رہی تھی اور صرف ایک سال کے بعد وہ دہلی میں اوندھے منہ گرگئی اور جو نتیجہ لوک سبھا کے الیکشن میں اترپردیش میںدنیا کو دکھایا تھا ویسا ہی نتیجہ صرف ایک سال کے بعد خود دہلی میں پھر بہار میں دیکھ لیا کہ ۷۰ میں ۳۰۔ اب پھر الزام پر ا لزام چل پڑا۔ اس کے لیے اب ضرورت نقشہ بدلنے کی ہے کیونکہ اب پورے ملک میں ایک پارٹی کا دور کبھی نہیںآئے گا اور بات بگڑی تو بغاوت ہو کر ملک صوبوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ خدا اس دن سے بچائے۔ موبائل نمبر:9984247500