سفر حجاز۔۔۔(الف)۔۔۔ الوداع۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:16PM Tue 1 Jun, 2021

الوادع

لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک

یہ الوداع ہے، ماہِ رمضان کی سالانہ ’’الوداع‘‘ نہیں، ناظرینِ سچ سے ان کے خادم مدیر سچ کی الوادع ہے۔

حج بیت اللہ چند شرائط کے جمع ہو جانے پر ہر مسلمان پر اسی طرح فرض ہے جس طرح ہر روز پانچ وقت کی نماز، یہاں نماز ہی کا فریضہ کب خوش دلی اور اپنے شرائط کے ساتھ ادا ہو پاتا ہے جس میں نہ کچھ خرچ ہے اور نہ کوئی خاص محنت، جو فریضہ حج کے نہ ادا کرنے کا رونا رویا جائے! عمر کی گھڑیاں خاموشی اور تیزی کے ساتھ گزرتی رہیں، دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں، مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے رہے اور اس فریضے کی ادائیگی کا خیال تک نہ آیا، کلامِ مجید کی آیات میں اور رسول برحق کی احادیث میں خدا معلوم کتنی بار ادائے حج کی فرضیت اور تاکید نظر سے گزری اور عدمِ ادائے حج کی وعیدیں بار بار پڑھیں، پر قلب کی غفلتوں اور نفس کی شرارتوں اور ہوش و خرد کی ہرزہ کاریوں نے ہمیشہ مشورہ یہی دیا کہ یہ اوامر و احکام دوسروں ہی کے لیے ہیں، اپنے سے ان کو کیا تعلق اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ عمر کی کتنی بیش بہا فرصتیں اور زندگی کی کتنی جا کر نہ آنے والی مہلتیں، ایسی غفلت، اسی بے حسی اور اسی قساوت قلب کی نذر ہوگئیں

ہندوستان کے طول و عرض میں بے شمار سفر بہ ضرورت اور بلا ضرورت کر ڈالے لیکن جو ایک ہی جگہ سفر کرنے اور حاضری دینے کی تھی، وہاں سر کے بل چلنا کجا، پیروں کے بل بھی جانا نصیب نہ آیا! بنگلوں اور کوٹھیوں، حویلیوں اور ڈیوڑھیوں کے گرد چکر لگانے میں ایک عمر گزر گئی، پر وہ آستانِ پاک جو اس قابل تھا کہ اس کے گرد طواف کرنے میں ساری عمر تمام کر دی جاتی اور اس پر پروانہ وار اپنی جان نثار کر دی جاتی، گردشِ تقدیر نے محروم رکھا تو اُسی کی جبیں سائی سے! ملک کے گوشہ گوشہ کی سیر کر ڈالی، پر نہ توفیق ہوئی تو ایک اُس سرزمین کی زیارت سے مشرف ہونے کی، جس کی سر بلندی پر آسمان کو بھی رشک ہے، جہاں کھڑے ہو کر اللہ کے خلیل (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے اپنے رب کی توحید کی منادی کی تھی، اور جس کی ریگ کے ذروں پر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم ممکن ہے کہ آج تک ثبت رہ گئے ہوں!

محرومیوں کی حکایت دراز، اور نکتہ سنجیوں  کا سلسلہ طویل، لیکن رحمت باری بے حساب اور فضلِ خداوندی بیکراں، بڑے بڑے مجرم اپنی سیہ کاریوں کی پوٹ کی پوٹ لے  کر آئے اور بحرِکرم کے قطرے نے سارے دفتروں کی سیاہیاں دم بھر میں سفیدی سے بدل دیں، روتے کانپتے آئے اور ہنستے کھل کھلاتے واپس گئے، اقلیمِ سخن کے تاجدار، خسروِ نامدار نے اسی مضمون کو یوں ادا کیا ہے:

قطرۂ از آب رحمت تو بس است

شستنِ نامۂ سیاہ ہمہ

اور ایک قصباتی کج مج زبان نے اپنی زبان میں یوں عرض کیا ہے

سمجھے تھے سیاہ کاری اپنی ہے فضوں حد سے

دیکھا تو کرم تیرا اس سے بھی سوا پایا

بالآخر جس کی رحمت ابرِ کرم بن کر سو کھ کھیتیوں کو آن کی آن میں سرسبز و شاداب کر دیتی ہے، اس کی مشیت اس کے متقاضی ہوئی کہ ایک محروم عمل، مُردہ قلب کو اپنے حرمِ محترم کی حاضری و طواف اور اپنے حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ کی زیارت سے مشرف فرمادے، چنانچہ ارادہ ہوا، منصوبے بندھے اور زبان پہلی بار لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک کے تلفظ پر کھلی! ملکوتیوں کی سجدہ گاہ، اور ایک سراپا عصیاں کی جبیں! ایاز قدر خود بشناس عقل اس خوش قسمتی

اے آرزو کہ ابروِ پر ہم کو دیکھئے

اس حوصلے کو دیکھئے اور ہم کو دیکھئے

لیکن ربوبیت کے عجائب کاروبار ہیں، اپنا نام رب العالمین ارشاد فرمایا ہے، رب الصالحین نہیں فرمایا، مرتبہ فلاح پر صرف اتقیاء و صالحین، ابرار و اخیار ہی نہیں پہونچائے جاتے، ربوبیت کا تعلق اشرار و فجار سے بھی ہے، دستگیری صرف نیکوں ہی کی نہیں، بدوں اور بدتر سے بدتر بدوں کی بھی ہوتی رہتی ہے، ہوائے بہار جب جلتی ہے تو چمن کے خوشبو دار پھولوں اور چراگاہ کی گھاس کی پتّیوں دونوں کو مہکا دیتی ہے!:

اے بدر ماندگی پناہ ہمہ

کرم تست عذر خواۂِ ہمہ

https://telegram.me/ilmokitab/