سچی باتیں: شیخ عبد القادر جیلانی ؒ اور مقام عبدیت۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:14PM Thu 26 Nov, 2020

1925-10-30

شیخ سعدیؒ کی مشہور ومعروف کتاب گلستاںؔ سے کون واقف نہیں، اس کے دوسرے باب کی تیسری حکایت میں، وہ الفاظ ذیل درج فرماتے ہیں:۔ ’’عبد القادر گیلانیؒ رادیدند رحمۃ اللہ علیہ در حرم کعبہ روئے برحصاتہا وہ بود، و می گفت اے خدا وند بخشاے، واگر مستوجب عقوبتم، مراروز قیامت، نابینا برانگیز تاومدارے نیکاں شرمسار نہ باشم روے بر خاک عجز می گویم ہر سحر گہ کہ بادمی آید اے کہ ہرگز فرامشت نہ کنم ہیچت از بندہ یا دمی آید عبد القادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگوں نے دیکھا، کہ حرم کعبہ میں کنکریوں پر منہ رکھے ہوئے کہہ رہے ہیںتھے کہ ’’اے خداوند مجھے بخش دے ، اور اگر میں عذاب کا مستحق ہوں ، تو قیامت کے دن مجھے نابینا اُٹھانا کی نیکوں کو دیکھ کر شرمندہ نہ ہوں ہر صبح تڑکے جب نسیم چلتی ہے،۔ میں انتہائی عاجیز سے مناجات کرتاہوں،۔ کہ اے میرے مالک جسے میں کبھی نہیں بھولتا،۔ کبھی تجھے اپنے بندہ کیا یاد آتی ہے؟ یہ ربیع الثانی کا مہینہ ہے، جسے عورتوں کے اصطلاح میں ’’بڑے پیر کا چاند‘‘ کہاجاتاہے۔ گھر گھر گیارہوں کی محفل ہورہی ہوگی، حضرت غوثؒ کے فضائل وکرامات بیان ہورہے ہوں گے، کیا یہ مناسب نہ ہوگا، کہ ہم آپ بھی ا س زمانہ میں حضرت شیخ ؒ کی روحانیت سے فیض حاصل کریں، اور بجائے غیر معتبر اور فرضی قصہ کہانیوں کے ، شیخ سعید جیسے بزرگ وکامل کی بیان کی ہوئی حکایت پر غور کریں ، جو علاوہ اپنی ذاتی بزرگی کے، ایک ہی درمیانی واسطہ ہے، حضرت شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مُرید بھی تھے۔ حکایت کے اصل الفاظ مع اُردو ترجمہ کے اوپر گذر چکے۔ ذرا غور فرمائیے ، کہ حضرت سعدیؒ اپنے پیرومرشد کی عظمت وفضیلت کس طریق پر بیان کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے ، کہ اُن کے لاکھوں کروروں مُرید تھے، یہ نہیں فرماتے کہ وہ ہوا پراُڑتے تھے، یہ نہیں بیان کرتے کہ وہ مُردوں کو زندہ کردیتے تھے، یہ بھی ہدایت نہیںکرتے ، کہ ہر مصیبت کے وقت حضرت شیخؒ کے نام کی تسبیح پڑھنا چاہئے، اس قسم کی کوئی روایت ، جیسی عمومًا یازدہم شریف کی محفلوں اور مجلسوں میںبیان کی جاتی ہیں، نہیں بیان فرماتے، بلکہ دکھلاتے یہ ہیں، کہ حضرت شیخؒ ، باوجود اپنی بزرگی وعظمت کے، باوجود اپنے مرتبۂ کمال وفضیلت کے، باوجود اپنی انتہائی ریاضتوں اور عبادتون کے، عبدیت کے دائرہ سے ایک بال برابر بھی باہر نہ تھے، اور اپنے مالک ومعبود کے آگے انتہائی عاجزی وبیچارگی ، انتہائی خاکساری وفروتنی کے ساتھ خود اپنی نجات ومغفرت کے لئے التجا کرتے رہتے تھے! حضرت شیخ جیلانیؒ یقینا بہت بڑے بزرگ تھے، وہ جس مرتبۂ کمال پر تھے، اگر اُس کا ایک ہلکا ساپرتَو بھی ہم میں سے کسی پر پڑجائے، تو ہمارے فخر وشرف کے لئے کافی سے زائد ہے۔ لیکن خوب سوچ لیجئے، کہ انھیں یہ مرتبۂ کمال کیونکر حاصل ہوگیاتھا؟ بلاوجہ؟ خودبخود؟ خواہ مخواہ؟ یا یہ کہ اُنھوں نے اس مرتبہ کو اپنی محنت وکوشش سے حاصل کیاتھا، اس کے لئے اپنے تئیں عبادت وریاضت کے واسطے وقت کردیاتھا، اللہ کی خوشی کے سامنے اپنی ذاتی خوشی، ہر قسم کی، بالکل مٹادی تھی، رسول خدا ﷺ کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے کی دُھن میں اپنے آپ کو یکسر فنا کردیاتھا۔ اگر ان طریقوں کے اختیار کرنے سے حضرت شیخؒ ولایت کے درجۂ کمال پر پہونچے تھے، توآپ بھی، اپنی بساط وظرف، اپنی حیثیت وطاقت کے مطابق، کیوں انہیں کی راہ پر نہیں چلتے؟ مجنوں کو لیلیٰ کے ساتھ محبت محض مادی وجسمانی حیثیت سے تھی، اُس پر بھی اس قسم کے روایتیں مشہور ہیں، کہ اُدھر لیلیٰ فصد لیتی تھی ، اور ادھر مجنوں کے جسم سے خون جاری ہوجاتاتھا۔ پھرآپ حضرت شیخؒ کے ساتھ جس محبت کا دعوٰی کرتے ہیں، وہ تو روحانی حیثیت رکھتی ہے، اور بہت اعلیٰ قسم کی ہے، پھر یہ کیا ماجرا ہے، کہ حضرت محبوب سبحانیؒ تو عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے تھے، اور آپ، شب بیداری وتہجد گزاری الگ رہی، فریضۂ عشا وفجر کے بھی پوری طرح پابند نہیں! آپ کے محبوبؒ تو پوری پوری رات دست بستہ کھڑے رہ رہ کر اور سجدہ میں گِر گر کر صبح کردیتے تھے، اور آپ کی ساری ساری راتیں یا تو خواب غفلت کی نذر ہوجاتی ہیں،ا ور یا پھر عیش وعشرت کے مشغلوں کی! ایک وہ اللہ کا پیارا اور برگزیدہ بندہ تھا، جو باوجود ہر قسم کے پورے سازوسامان رکھنے، اپنے تئیں سب سے چھوٹا سمجھتاتھا، اور ایک آپ ہیں، کہ باوجود انتہائی بے سروسامانی کے، فرعونیت کے ہروقت دعویدار! کیا عشق ومحبت، تعظیم وعقیدت، الفت ودوستی کے یہی معنی ہیں، کہ جس کے ساتھ اِن جذبات کے رکھنے کے آپ زبان سے دعویدار ہوں، عمل میں ہرہر قدم پر اُس کے طریقوں کی، اُس کی ہدایتوں کی، اُس کی پسندیدہ باتوں کی مخالفت کرتے رہئے؟ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/