تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (تیسری قسط) ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

02:58PM Tue 25 Oct, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔ بات ہورہی تھی انتخابی سیاست میں کھیلی جانے والی غیر اخلاقی اور بعض دفعہ غیر شرعی چالوں کی۔ ایسابھی نہیں ہے کہ سیاسی لیڈران اورپارٹی کے ہمہ وقتی کارکنان اس سے ناواقف ہوتے ہیں یا اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے باکل پرہیز کرتے ہیں۔گندگی کے اس کھیل میں کون کس حد تک ملوث ہوتا ہے یہ جاننے کے لئے بس ایک واقعہ کی طرف مبہم اشارہ کردیتا ہوں۔عرصہ پہلے ایک اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن کے اختتام پر خاص علاقے میں سیاسی پارٹی سے وابستہ کارکنوں کے ایک غیر مقامی مسلم لیڈر نے مجھے بتایا کہ الیکشن سے دو دن پہلے آدھی آدھی رات کو ام الخبائث کی پاکٹوں سے بھرے ہوئے تھیلے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پارٹی کی طرف سے غیر مسلم علاقوں میں وہ تقسیم کیا کرتاتھا۔پھر صبح نمازسے ذرا پہلے مسجد پہنچ کروہ لوگ توبہ کرلیا کرتے تھے!۔۔۔(اور اہم بات یہ ہے کہ تنظیم نے اسی سیاسی پارٹی کے امیدوار کی اجتماعی حمایت کا اعلان کیا تھا) تنظیم کیوں مداخلت کرتی ہے؟: اسی طرح ایک مرتبہ ضلع پنچایت کے الیکشن کا موقع تھا۔ تنظیم نے اپنی حمایت سے ایک امیدوارمیدان میں اتارا تھا۔ اس کی انتخابی مہم کا جائزہ مسلسل لیا جارہا تھا۔ بعض افراد کی طرف سے شکایتیں موصول ہونے لگیں کہ الیکشن جیتنے کے لئے ہمارے تائید کردہ امیدوار کی طرف سے مندروں اور چرچ وغیرہ کو عطیہ جات دئے جارہے ہیں۔ افواہیں کچھ اور غیر شرعی حرکات کی بھی تھیں۔ ان باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس امیدوار کو تنظیم کی جائزاتی نشست میں طلب کیا گیا۔ جب الزامات اور افواہوں کی بات ان کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے الزامات کا جواب دینے کے بجائے براہ راست تنظیم سے یہی سوال کیا کہ اگر یہ اسلامی، شرعی اور اخلاقی پابندیوں کا خیال رکھنا ہی ہے تو پھر تنظیم انتخابی سیاست کے میدان میں اترتی کیوں ہے؟! ان کی یہ بات سن کر سب لوگ ایک لمحے کے لئے ہکا بکا رہ گئے۔مگر یہ ایک ایسا تلخ گھونٹ تھاجسے پینے کے سوااس وقت بھی کوئی چارہ نہیں تھا، اور آج بھی نہیں ہے کیونکہ یہی انتخابی سیاست کا حقیقی چہرہ ہے۔یعنی بقول غالب ؂

ہاں وہ نہیں وفا پرست ، جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں!

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ضلع پنچایت الیکشن میں ہمارے اس متحدہ و متفقہ امیدوارکے خلاف شہر کے ایک رئیس اور تاجر نے کھلے عام مورچہ سنبھالا تھا، اور وہ اپنی مہم میں کامیاب بھی ہوگئے جس کے نتیجے میں تنظیم کے حمایت کردہ امیدوار کو بری طرح شکست کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔ایسابھی نہیں ہے کہ صرف غیر قانونی اور غیر شرعی تگڑم بازی ہی اس انتخابی سیاست کا کھیل ہے۔ اس محاذ پرتنظیم کوبعض زاویوں سے قانونی پیچیدگیوں کا بھی عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ تنظیم کے خلاف مفاد پرستانہ چال: جیسا کہ اس مضمون کی پہلی قسط میں کہا جا چکا ہے کہ ا گر ملکی قانون کے دائرے میں دیکھا جائے تو انتخابی سیاست میں تنظیم کی طرف سے صرف عوامی شعور بیدار کرنے اور اقدار پر مبنی سیاست کو فروغ دینے کے لئے عوام کی رہنمائی کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔اس سے آگے جو بھی ہوگا وہ ہمارے دائرۂ اختیار سے باہر کی بات ہوگی۔ چونکہ باہمی اتحاد اور اتفاق کی ایک انمول دولت ہمارے پاس موجود ہے ، اسی بنیاد پر تنظیم ہر ممکنہ قائدانہ رول ادا کرتی ہے۔ اور کرنا بھی چاہیے۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد کو دیمک بن کر چاٹنے والے ہر دور اور ہر زمانے میں رہے ہیں۔اور آج کل کے روشن خیال اور ترقی یافتہ دور میں مفاد پرستانہ جذبات کو ملت دشمن عناصر کی طرف سے کچھ زیادہ ہی فروغ ملا ہے۔ لہٰذا موجودہ جالی پٹن پنچایت الیکشن کے پس منظر میں تنظیم پر کھلے عام دباؤ بنانے اور بے جا انتہا پسندانہ رویہ اپنانے والوں کو جان لینا چاہیے کہ اس طرح کی صورتحال سے ماضی میں خود غرض عناصر نے کس طرح فائدہ اٹھایا ہے اور تنظیم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کیاسازش کی جاچکی ہے۔اور اب کے بھی ہم نے احتیاط اور ہوشمندی سے کام نہیں لیا تو پھر کہیںآگے چل کر ملّی مفاد کے زاویے سے یہ ہمارے لئے خسارے کا سبب نہ بن جائے۔کیونکہ ؂

کیا کیا چہرے چیخ رہے ہیں یادوں کے انبار تلے دل پر ایسا بوجھ دھرا ہے جو ہٹنے کا نام نہ لے

ٹائمز آف انڈیاکا مثبت رول: ایک دن کی بات ہے کہ بنگلورو کے ٹائمز آف انڈیادفتر کی ایک سینئر نامہ نگار نے مجھے فون کرکے بتایا کہ چند لوگ تنظیم کے خلاف ایک مضمون لے کر ان کے دفتر آئے ہوئے ہیں۔ وہ ایک مسلم خاتون تھیں جن سے بھٹکل کے حالات کے پس منظر میں میرابڑا اچھا رابطہ تھا۔ اس خاتون نامہ نگار کی غیرت نے گوارہ نہیں کیا تھا کہ تنظیم کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا مواد ان کے اخبار میں شائع ہو۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے چیف سے فون ملاکر دیتی ہوں آپ انہیں تنظیم کے تعلق سے صحیح انداز میں بریفنگ کریں۔ الحمدللہ کافی طویل گفتگوہوئی جس سے ایڈیٹر مطمئن ہوگیا اور اس نے وہاں پہنچنے والے ٹولے کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم یہ مضمون نہیں چھاپیں گے۔ مگرانڈین ایکسپریس میں مضمون چھپا: لیکن مفاد پرستوں کوبھلااطمینان کیا ہوتا۔ حالانکہ ایک غیر مقامی اور جدید تعلیم یافتہ پروفیشنل صحافی ہونے کے باجود ٹائمز آف انڈیا کی خاتون نامہ نگارکی ملّی غیرت جاگ اٹھی تھی، مگر ہمارے اپنے شہر کے ملّی مفاد پرستوں کو ذرا شرم نہیں آئی ۔وہ اپنی چال چل گئے اور چنددنوں بعد انڈین ایکسپریس میں اس مضمون کو بڑے ہی اہتمام سے چھاپا گیاجس میں الزام تھا کہ بھٹکل میں مجلس اصلاح و تنظیم کوئی رجسٹرڈ سیاسی پارٹی نہ ہونے کے باوجود انتخابی سیاسی سرگرمیوں میں عملی حصہ لیتی ہے اور کسی ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے اسے ماننے پر عوام کو مجبور کرتی ہے۔ اور نہ ماننے والوں کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرتی ہے۔اس طرح دستور ہند کے ذریعے دئے گئے انسانوں کے شہری بنیادی حقوق چھیننے کا غیر دستوری کام انجام دے رہی ہے۔اس کے ساتھ ثبوت کے طور پر تنظیم کی طرف سے جاری ایک مراسلہ کا عکس بھی دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے پاس شکایت: بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔اسی انتخابی مفاد پرستی نے تنظیم کو وہ دن بھی دکھائے کہ اس کے خلاف بڑے انگریزی اخبارمیں مضمون چھاپنے کے علاوہ الیکشن کمیشن کے دفتر بنگلورومیں بھی شکایت درج کروائی کی گئی۔ اور ان مفاد پرستوں کے جھانسے میں مساجدکمیٹیوں میں شامل ذمہ داران تک کے آجانے کے اشارے مل گئے۔کیونکہ ثبوت کے طور پر تنظیم کے مرا سلہ کا جو عکس چھاپا گیا تھا وہ الیکشن کے تعلق سے خاص ہدایت نامہ تھا جو مساجد کو بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ اس کا عکس چھاپتے ہوئے اخبار نے مسجد کا نام ، امیدوار کا نام وغیرہ مٹا دئے تھے، مگر ایک جگہ ایک نمبر تھا جسے وہ مٹانا بھول گئے تھے اور اس سے ہمیں پتہ چل گیا کہ آخر وہ مراسلہ کس مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے تنظیم کو نوٹس بھی جاری ہوئی اور تحقیق بھی ہوئی۔ لیکن الحمد للہ اس زمانے میں جو لوگ تنظیم کی قیادت کررہے تھے ، انہوں نے احتیاط اور دانشمندی کے ساتھ اس مسئلے کوہینڈل کرلیا۔اور تنظیم پر کسی قسم کی قانونی گرفت کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی۔بقول قیصرالجعفری: ؂

میں زہر پیتا رہا زندگی کے ہاتھوں سے یہ اور بات ہے ، جسم مرا ہَرا نہ ہوا

(آخر تنظیم کیا کرے ؟!۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کریں) haneefshabab@gmail.com ضروری وضاحت: اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔