اردو اکادمی کی کتاب پنچ ہزاری کتاب ’’پرسہ‘‘

Bhatkallys

Published in - Other

11:56AM Tue 29 Mar, 2016
حفیظ نعمانی اتر پردیش میں اردو کے لئے زبردست دباؤ کے جواب کانگرس کے شاطر اور اردو دشمنوں نے اردو اکادمی نام کا ایک کھلونہ دے دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو والے لڑائی لڑے لڑتے اتنے تھک گئے تھے کہ ۔ ’’بھس ہم غنیمت است‘‘کہہ کر اکادمی کو ہی یہ کہہ کر سینے سے لگالیا کہ لاؤ اپنی ذہنیت کی پستی اور کمینگی کی بھوک اکادمی سے ہی مٹا لیں گے بس۔ ہر ادارہ کی طرح اردو اکادمی بھی دس پندرہ برس اردو کے دانش وروں ادیبوں اور قلم کاروں کے ہاتھ میں رہی۔ اس کے بعد اس کا بھی وہی حشر ہوا جو ہر آبرو باختہ بدنصیب لڑکی کا ہوتا ہے۔ کہ پھر وہ غریب کی جورو سب کی بھابھی بن جاتی ہے۔ اترپردیش کی موجود ہ حکومت بننے کے بعد برسوں لگ گئے کہ اردو اکادمی کی تشکیل نہیں ہوسکی۔ بات صرف یہ تھی کہ وہ کون ہو جو اردو کو نام کے لئے اس کا حق بھی دے دے اور حکومت کے گن گانے والوں کو قدم قدم پر نوازتا بھی رہے؟ پھر عرصہ کے بعد شور ہو ا کہ منور رانا اور نواز دیوبندی جیسے ممتاز شاعر وں کا انتخاب ہو گیا۔ اور یہ کہانی سب کو یاد ہوگی کہ منور رانا تو بد دل ہو کر گھر جابیٹھے اور نواز دیوبندی اردو اکادمی ہو گئے۔ آج اخبارات میں وہ فہرست چھپی ہے جسے انعام کہاجاتا ہے۔ اس فہرست میں اسکا ذکر تو ہے کہ جن کتابوں پر انعام نہیں دیا گیا وہ ایسا نہیں ہے کہ انعام کے قابل نہیں تھیں بلکہ جیب کو دیکھتا تھا کہ کتنے پیسے ہیں ؟ اور مانگنے والے کتنے ہیں؟ لیکن اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون بقراط و سقراط دانشور، ادیب ،صحافی اور شاعر ہیں جن جاہلوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کس کتاب کو کتنا انعام دیا جائے؟ میرے سامنے ایک پانچ ہزاری کتاب ہے جس کا نام ’’پرسہ‘‘ ہے اور جس کے مصنف ندیم صدیقی ہیں جو 20سال انقلاب ممبئی میں رہے اور 12سال سے اردو ٹائمس ممبئی میں اردو کی چوٹی پر اپنے علم کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ پرسہ میں 229صفحات میں تو ان شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کا پرسہ ہے جو ندیم صدیقی کے دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ان کے علاوہ چند انتہائی اہم مضامین اور 144صفحات میں لکھا وہ کالم ہے جو (آجکل) کے عنوان کے تحت وہ مسلسل اردو ٹائمز میں برسوں سے لکھ رہے ہیں اور وہ ایسے ادب پارے ہیں کہ شاید ہی موٹی موٹی رقموں کا انعام پانے والی کوئی ایک کتاب ہی ان ڈیڑھ سو صفحات کا مقابلہ کر سکے؟ کتاب کی ضخامت سوا چار سو صفحات ہے۔ اور میرا دعویٰ ہے کہ کوئی الّو کا پٹھّا نہیں اردو کا پٹھا اس موضوع پر کوئی دوسری کتاب پیش کر دے تو میں اسے سلام کرلوں۔ ندیم صدیقی صرف صحافی ہی نہیں شاعر بھی ہیں۔ اور ایسے شاعر ہیں جن کی اس کتاب میں عمرمیں پہلی بار ’’تشطیر‘‘ لفظ پڑھا۔ (ہم نہ شاعر ہیں نہ عالم لیکن حلقہ میں ایسے بہت ہیں ۔ اس کے باوجود یہ سنا بھی نہیں تھا۔ندیم صدیقی برسبیل تذکرہ کہتے ہیں۔ آوارہ سلطان پوری کے ایک شعر پر بلال انصاری مرحوم کی تشطیر اس وقت بے طرح یاد آئی پہلے آوارہ صاحب کا یہ شعر دیکھیے ؂ عقل والو مرا معیار جنوں تو دیکھو اس پہ مرتا ہوں جسے آنکھ سے دیکھا بھی نہیں بلال انصاری نے اس شعر کی یوں تشطیر کی کہ شعر کی معونیت میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس میں ان کا فن تشطیر بھی پوری طرح جلوہ بنا ہوا ہے ؂ عقول والومرا معیار جنوں تو دیکھو ’’جاگزیں دل میں ہے وہ جس کا سراپا بھی نہیں میری بینائی پہ الزام نہ آجائے کہیں ‘‘ اس پہ مرتا ہوں جسے آنکھ سے دیکھا بھی نہیں ممبئی میں ہی ایک شاعر قیصرالجعفری تھے۔ بزرگ شاعر تھے کئی کتابیں چھپ چکی تھیں۔ ایک کتاب کا مسودہ جعفری صاحب نے ندیم صدیقی کو دیا کہ یہ چھپنے کے لئے جا رہا ہے آپ اس پر نظر ڈال لیں۔ ندیم صاحب نے از راہ انکسار عرض کیا کہ آپ سینئر ہیں، میں اسے کیا دیکھوں؟ جواب ملا کہ ادب میں سینئر وینئر نہیں ہوتا ہے۔ ادب ہی سینئر بناتا ہے۔ آپ اس پر نظر ڈال لیں۔ کئی دن بعد جعفری صاحب تشریف لائے تو ندیم صاحب نے ان کے ایک مطلع کی طرف توجہ دلائی ازل سے جا رہا تھا میں ابد کی سیر کے لئے ٹھہر گیا زمین پہ بھی تھوڑی دیر کے لئے جعفری صاحب سن کر خاموش رہے۔ چند منٹ کے بعد فرمایاکہ اس میں کیا بات ہے؟ ندیم نے کہا کہ اس شعر کے قافئے ہائے جعفری ہائے جعفری کی صدا لگا کے کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لئے نامحرم ہیں۔ ندیم صاحب نے کہا کہ پہلے مصرع میں قافیہ سیر ہے جس پر زبر ہے دوسرا قافیہ دیر ہے۔ دیر کے نیچے زیر ہے۔ جعفری صاحب نے جواب دیا کہ میں نے تو پوری غزل میں اس طرح کے قافیوں کا التزام کیاہے۔ ندیم کا جواب تھا کہ التزام حسن کا ہوتا ہے عیب کا نہیں اور یہ عیب اہل فن کے نزدیک ’’اقوا‘‘ ہے۔ یہ ہیں وہ ندیم جن کی کتاب ’’پرسہ‘‘ہے اور جسے اردو اکادمی نے 5ہزار کے انعام کے قابل سمجھا ہے۔ قیصر الجعفری کیسے شاعر تھے اس کا اندازہ کرنے کے لئے دوشعر ملاحظہ فرمائے جائیں ؂ کھلتے ہیں اندھیروں میں اجالوں کے دریچے آتی ہے سحر رات کی منزل سے گزر کر اور ہم اپنی زندگی کو کہاں تک سنبھالتے اس قیمتی کتاب کا کاغذ خراب تھا ندیم صدیقی نے ایک شعر کسی کو سنایا۔ اس نے کہا اس میں ’’ایطا‘‘ہے شعر یوں تھا ؂ حادثہ روز ہوتا رہتا ہے درس عبرت بھی کوئی لیتا ہے ندیم نے کوثرؔ جائسی سے معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں غالب کے اشعار بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا غالب نے اس غزل میں بیاباں، حیراں، نمکداں، پشیماں اور گریباں جیسے قافئے استعمال کئے ہیں۔ کیا غالب کو بھی قافیہ ناشناس مان لیا جائے؟ اور یہ ان کی نثر کا نمونہ ہے جو ساڑھے چار سو صفحات پر بکھری ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں۔ آوارہ سلطان پوری۔ جن کی آوارگی اس درجہ محترم تھی کہ کیا بڑا کیا چھوٹا انہیں آوارہ صاحب ہی کہنے پرمجبور تھا۔ اور اس میں ان کے علم کو ہی نہیں ان کے کردار کو بھی دخل تھا۔ شاعر اپنی ذہانت سے لفظ کے مروجہ معنیٰ بدل دیتا ہے۔مگر قاضی وصی احمد نے تو اپنے کردار سے لفظِ آوارہ کو اک حرمت بخش دی کبھی پڑھا تھا کہ علم عمل کو آواز دیتا ہے۔ اگر جواب لکھتا ہے تو قیام کرتا ہے ورنہ کوچ کر جاتا ہے حالانکہ آوارہ صاحب کے ہاں ان کے علم کو جواب ملا۔ اور وہ اپنی آخری سانس تک علم و عمل کی پونجی سنبھالے رہے۔ وہ کتاب کی ابتدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ سچ ہے ، بہت سے گزر گئے بہت سے گزر رہے ہیں، بہت سے گزر جائیں گے۔سو ایک گزرنے والا ۔ گزرنے والوں کا ۔ گزرنے والوں کو ۔ پرسہ دے رہا ہے۔ اور تذکرہ کی روایت ہماری زبان میں بہ انداز دیگر قدما سے چلی آرہی ہے۔ اس کتاب کے مضامین اسی روایت کی ایک کڑی ہیں۔اس کے آخری حصہ میں شخصی تذکروں کے ساتھ ’’آجکل‘‘ کے زیر عنوان ہماری بے حسی اور تہذیب و معاشرت کی ابتری کا بھی پرسہ شامل ہے۔ جاری