تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل (ساتویں قسط) ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

جیسا کہ میں نے گزشتہ قسط میں کہا کہ اب ہمارے یہاں محترم جوکاکو شمس الدین اور ایس ایم یحییٰ جیسی سیاسی شخصیات نہیں رہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کا سماجی ماحول بھی اب نہیں رہا جہاں غیر مسلم برادران وطن اورمقامی مسلمانوں کے بیچ سماجی قربت ، سیاسی ہم آہنگی اورباہمی تعاون کے راستے آسانی سے دستیاب تھے۔مسلمانوں کی قیادت کوپروان چڑھانے اوربرداشت کرنے کا جذبہ دیگر برادران وطن کے اندر موجود تھا۔ ڈاکٹر چترنجن نے آر ایس ایس کے نمائندے اور بی جے پی کے قائد کی حیثیت سے یہاں کے عوام میں مذہبی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے امتیاز و تفریق کے جو بیج بوئے تھے اب اس کی فصل کاٹی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے اندر ہی طبقاتی کشمکش اور تفریق کو ہوا دینے والوں نے بھی بعض علاقوں میں اپنے قدم جمانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے ۔ بیرونی مقامات سے اپنی روزی روٹی کے لئے یہاں آکر بسنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ اور ان کے ساتھ ہمارے سماجی روابط کی کمی کا عنصر بھی اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔جبکہ مقامی اجتماعیت سے متنفر کرنے والے اپنی جگہ پوری طرح سرگرم ہوگئے ہیں۔ اس لئے اسے ہم نوشتۂ دیوار سمجھیں کہ ہماری سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی فضاپانی کے بلبلے کی طرح نازک اور fragileہوگئی ہے۔ایسی حالت میں کہنا پڑتا ہے کہ:
پیار کا موسم بیت چکا تھا ، بستی میں جب پہنچے ہم لوگوں نے پھولوں کے بدلے تلواریں منگوا لی تھیں
سیکیولر طبقہ بھی ہمارے ساتھ نہیں: ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ فسطائی طاقتیں تو چھوڑیئے ، مقامی طور پرغیر فسطائی اور سیکیولر کہلانے والا برادران وطن کا طبقہ بھی اب ہمارے لئے سیاسی قیادت ابھارنے میں معاون اور مددگارنہیں بن رہا ہے۔ جیسا کہ تقریباً پورے ملک میں مسلمان صرف ایک ووٹ بینک بن کر رہ گئے ہیں ، وہی حال بھٹکل اور اطراف کے مسلم سیاسی وزن کا ہوگیا ہے۔ الٹے یہاں پر ہمارا سیاسی متحدہ موقف ہی ہمارے لئے ایک طرح سے نقصان کا سبب بن گیا ہے ۔ کیونکہ مجلس اصلاح و تنظیم کی قیادت میں مسلمانوں کے ارتکازیاpolarization کو نام نہادسیکیولرسیاسی پارٹیاں اپنے حق میں استعمال تو کرلیتی ہیں، مگر اس کے بدلے میں مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو پورا کرنے سے کنّی کاٹ جاتی ہیں۔نتیجتاً ہم اپنے اتحادی اور اجتماعی سیاسی فیصلے کے ذریعے ان سیاسی پارٹیوں کے لئے آسانی پیدا کرنے اور ان کے امیدوار کی جیت کو یقینی بنانے کا سبب تو بن جاتے ہیں ، لیکن ان سے ہماراملی مفاد حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ پارٹی سطح پر بھی غیر مسلم ساتھ نہیں ہیں !: ہمیں بجا طور پر یہ زعم ہے کہ تنظیم کی آواز پر ہم متحدہوکر اسمبلی الیکشن میں بیک وقت20تا 25ہزار ووٹ ایک ہی پارٹی یا امیدوار کے حق میں پول کراسکتے ہیں۔مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جیتنے کے لئے کچھ اتنی ہی بڑی تعداد میں غیر مسلم برادران وطن کے ووٹ بھی درکار ہوتے ہیں۔اس لئے جب تک غیر مسلم برادران کا ساتھ نہیں ملتا ، صرف ہمارے ووٹوں کے بل پر کوئی بھی امیدوار الیکشن جیت نہیں سکتا۔چاہے پارٹی بنیاد پر ہو یا آزاد امیدوار ہو۔یہی صورتحال پارلیمانی الیکشن کی بھی ہوتی ہے۔ایسے میں اگر ہم اپنی پسند کے یا خود اپنے مسلم سیاسی امیدوار کو میدان میں اتاریں گے توہوتا یہ ہے کہ سیکیولر غیر مسلم برادران وطن سے ہمیں ہرگز وہ تعاون نہیں ملتاجو کہ ملنا چاہیے۔یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ سیکیولر ہونے کے باوجود غیر مسلم برادران وطن چاہے کانگریسی ہوں یا جنتا دل سے وابستہ ہوں، صرف اپنی پسند کے اس امیدوار کو جیت دلانے کے لئے کوشاں ہوجاتے ہیں جو کہ کاسٹ کارڈ کی بنیا د پر ان کے لئے اہم ہوتا ہے۔ اگر ان کی پسند یا ان کا اپنا امیدوار میدان میں نہ ہوتو وہ اپنی پارٹی سے بے وفائی کرتے ہوئے فسطائی یا آزاد امیدوار کو بھی کامیاب کرانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ اس طرح کی مثال گزشتہ اسمبلی الیکشن میںآزاد امیدوار منکال وئیدیا کی جیت اورہمارے اپنے تائید کردہ جنتا دل ایس امیدوار عنایت اللہ شاہ بندری کی شکست فاش کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔اس سے پہلے 1994میں کانگریسی امیدوار لکشمی بائی کی مثال بھی موجود ہے جسے غیر مسلم، نامدھاری اور کانگریسی ہونے کے باوجود صرف اور صرف ہماری برادری کے ووٹ ہی ملے تھے اور وہ بی جے پی کے امیدوار ڈاکٹر چترنجن سے ہارگئی تھیں۔اس پس منظر میں کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ شعر گونجنے لگتا ہے ، اور سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے!: میاں ! وہ سانپ ہے فطرت بدل نہیں سکتا ہزار دودھ پیئے ، زہر ہی اگلتا ہے
سیاسی پارٹیاں بھی دامن بچاتی ہیں: سیکیولر کہلانے والے غیر مسلم ووٹرس کا یہی وہ رویہ ہے جسے دیکھتے ہوئے سیاسی پارٹیاں بھی ہمارے حلقے میں مسلمان امیدوار میدان میں اتارنے سے دامن بچاتی ہیں۔وہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے اتنے بھاری بھرکم ووٹ بینک کے باوجود یہاں مسلم امیدوار کی جیت تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ کانگریس پارٹی تو یہاں مسلم امیدوار کھڑا کرنے کا جوا کھیلنے کے لئے نہ پہلے تیار تھی نہ آئندہ اس سے امید کی جاسکتی ہے۔ رہی جنتادل (ایس) پارٹی تو اس نے بھی تنظیم کے متحدہ سیاسی موقف اور عوام کی تائید کو نظر میں رکھتے ہوئے گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ایک رِسک لیا اور عنایت اللہ شاہ بندری کو اپنا نمائندہ بنایا ۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔اس کے بعد پھر نہیں لگتا کہ جنتا دل اس قسم کی بے وقوفی یا خود کشی دوبارہ کرے گی۔ ویسے بھی جنتا دل (ایس) کوئی بڑی سیاسی طاقت نہیں رہی۔ اب اسے صرف باپ اور بیٹے کی پارٹی کے طور پر ہی جانا جاتاہے جیسا کہ ایک زمانے میں کانگریس سے الگ ہوکر اپنی کرناٹکا کانگریس پارٹی (کے سی پی) بنانے والے مسٹر بنگارپّا کا حال ہوا تھا کچھ ایسا ہی معاملہ جنتا دل کا بھی نظر آتا ہے۔کیونکہ بنگلورو میں جنتا دل کاجو مسلم چہرہ ضمیر احمد خان کے طور پر مقبول تھا، وہ باپ بیٹے کی سیاست سے دور ہوتا جارہا ہے جبکہ ہمارے یہاں صرف عنایت اللہ شاہ بندری صاحب بچے ہوئے ہیں جو جنتا دل کے گن اب بھی گار ہے ہیں۔ اس سے ہٹ کرپوری ریاست میں کوئی قابل ذکر چہرہ اس پارٹی کے ساتھ نظر نہیں آتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعض لیڈر اب بھی اپنی پارٹی کی مقبولیت کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں اورآئندہ اسمبلی انتخابات میں اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کی باتیں کررہے ہیں۔ لیکن سیاسی شعور رکھنے والوں کے لئے اس پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے۔بہرحال اس سچویشن میں اپنا وجود منوانے کی کوئی نہ کوئی کوشش کرنی تو لازمی ہے ۔مگر اس شرط کے ساتھ کہ: کبھی آسمان ٹوٹا تو قدم کہاں رکیں گے جسے خواب دیکھنا ہو وہ زمیں پہ آ کے دیکھے
نامدھاری طبقے کے ساتھ روابط: ہمارے سیاسی اتحاد کی طاقت کا غیر مسلم برادران کی طرف سے ناجائز اور مفاد پرستانہ استعمال دیکھتے ہوئے ماضئ قریب میں ہم نے ایک تجربہ کرنے کی کوشش کی تھی۔پچھلے چند سال قبل ہماری ٹیم جب تنظیم کی قیادت کررہی تھی تو ہم نے سیکیولر کہلانے والے نامدھاری طبقے کی اجتماعیت کو اعتماد میں لے کر نیا سیاسی منظر نامہ لکھنے کی طرف قدم بڑھایاتھا۔اس ضمن میں پہلے ہم نے تنظیم کی طرح ان کے اپنے اجتماعی پلیٹ فارم نامدھاری ایسوسی ایشن کے قائدین کے ساتھ کچھ نجی نشستیں کیں اور فسطائی طاقت کو ہمارے علاقے میں مستحکم ہونے سے روکنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کی ضرورت واضح کی ۔ پھر ان کی آمادگی پر تنظیم کے ٹیبل پر ان کے کئی نامور لیڈروں کو جمع کیا گیا۔یہاں کے سیاسی حالات اور بگڑتے ماحول پر مختلف زاویوں سے گفتگو ہوئی۔ دو چار نشستوں میں ایک واضح نقشہ یہ سامنے آیا کہ پارٹی بنیاد سے ہٹ کرمجلس اصلاح و تنظیم اور نامدھاری ایسو سی ایشن مل کر یہاں کی مقامی سیاسی قیادت کو ابھارنے کی سمت میں کوشش کرنا سخت ضروری ہے ۔ اصولی طور پر سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ نامدھاری اور مسلم طبقے کو باہمی مفاہمت سے ایک متفقہ اور متحدہ سیاسی لائحۂ عمل بناناچاہیے۔مگر کچھ دنوں بعد جو صورتحال بنی اس کو دیکھ کر بس یہی کہا جاسکتا تھا: ترے وعدے پہ جیئے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
(نامدھاری قائدین کی چال۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔آخری قسط ملاحظہ کریں)
haneefshabab@gmail.com
ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔