کیا مسلمان واقعی متحدہ محاذ بنا رہے ہیں ؟

Bhatkallys

Published in - Other

04:30AM Fri 3 Jun, 2016
حفیظ نعمانی کسی بھی اخبار میں اس خبر کو شاہ سرخی کے ساتھ چھاپا جاتا ہے جو اس دن کی سب سے اہم اور معتبر خبر ہو ۔لیکن استفہامیہ نشان ؟یا کہا جارہا ہے ۔یا یقین ہے ۔یا سمجھا جارہا ہے ۔جیسے اشاروں کے بعد جو خبر ہواسے وہ مقام دیتے ہوئے نہیں دیکھا ۔انقلاب ایک پرانا اخبار ہے ۔ہر چند کہ اب اسکے مالکان بدل گئے ہیں ۔اور صرف مالکان ہی نہیں بدلے مالکان کا مذہب بھی بدل گیا ہے ۔اسکے باوجود بھی یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ جس چڑیا کا ایک پر بھی نہ ہو اسکے مصنوعی پر لگا کر اسے شام کی اڑان کا کبوتر بنا دیا جائے ۔ کل کے انقلاب کی بینریہ تھی کہ اعظم اویسی اور بخاری کا اتحاد متوقع ؟اور خبر کی تفصیل میں کہیں یہ نہیں تھا کہ ان تینوں کی کہیں اتفاق سے یا منصوبہ بند طریقہ پر ملاقات ہوئی ۔اسکے بر عکس کہایہ گیا ہے کہ ۔اسد الدین اویسی صوبہ کی مسلم لیڈر شپ کو اپنے ساتھ لانے کی جد وجہد کررہے ہیں ۔چناچہ اتر پردیش کے موجودہ پس منظر میں انہیں بڑی کامیابی مل سکتی ہے ۔کیونکہ کم از کم مشترکہ پروگرام کے ساتھ جہاں شاہی امام سید احمد بخاری آنے کے لئے تیار ہورہے ہیں ۔وہیں دوسری جانب سماج وادی پارٹی سے ناراض چل رہے اتر پردیش کے وزیر اعظم خاں صاحب ایم آئی ایم کی کمان سنبھال سکتے ہیں ۔ اسکے بعد اسکی تفصیل ہے کہ کون کیا ہے اور کون کس سے کس وجہ سے ناراض ہے ؟وغیرہ وغیرہ اور وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ راجیہ سبھا کے لئے سات امید وار میدان میں اتارے ان میں کوئی مسلمان نہیں ہے ۔اور اعظم خاں صاحب امر سنگھ کے پارٹی میں آنے اور انہیں راجیہ سبھا کا ٹکٹ دینے کی وجہ سے اب پارٹی میں رہنا نہیں چاہتے ۔ اس بات کے لئے کہ ملائم سنگھ نے مسلمان کو راجیہ سبھا میں نہیں بھیجا امام بخاری صاحب ناراض ہیں ۔اور ہمارے نزدیک اسکی ذرا سی بھی اہمیت نہیں ہے ۔راجیہ سبھاکے پچھلے الیکشن کے موقع پر ملائم سنگھ نے اعظم خاں صاحب کی بیگم کو راجیہ سبھا بھجوایاتھا ۔جنکے ابھی چار سال باقی ہیں ۔لیکن ہم نے تو نہ کہیں ٹی وی پر دیکھا اور نہ کسی اخبار میں پڑھا کہ بیگم اعظم نے مسلمانوں کے لئے کیا مانگا اور کیا کہا؟اسکی وجہ یہ ہے کہ کوئی پارٹی جب کسی کو راجیہ سبھا بھیجتی ہے تو اسکے منہ میں لگام بھی لگادیتی ہے جسکی رسیاں راجیہ سبھا میں جو پارٹی لیڈر ہوتا ہے اسکے ہاتھ میں رہتی ہیں۔اگر کسی ممبر کو کچھ کہنا ہے تو اپنے لیڈر سے اسے اجازت لینا ہوتی ہے ۔اور کون لیڈر ہے جو کسی مسلمان کوچھوٹ دیکر اسے ہیرو بنا دے ؟رہی مسلمان کی بات تو کانگریس نے بھی کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ۔حد یہ ہے کہ محترمہ محسنہ قدوائی اس سال رٹائرہورہی ہیں انہیں بھی دوبارہ نہیں لیا جبکہ بی جے پی نے مختار عباس نقوی کو جھارکھنڈ ی بنا کر انہیں وہاں سے ٹکٹ دیدیا ۔اور ایم جے اکبر کو ایم پی سے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسد الدین اویسی پوری تیاری کے ساتھ اتر پردیش میں الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن یہ حلق سے نہیں اترا کہ وہ سید احمد بخاری کو ساتھ لے سکتے ہیں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ مسلمانوں پر انکا کوئی اثر نہیں ہے ۔اور یہ بہت معمولی بات تھی کہ انھوں نے2012میں سہارنپور سے اپنے داماد کو سماج وادی پارٹی کا ٹکٹ دلادیا ۔اور ایسی فضا میں دلادیا کہ مسلمان تو لگ بھگ اسی فیصد ملائم سنگھ کے ساتھ تھے ۔ایسی فضا میں بھی وہ اپنے داماد کو نہ جتا سکے ۔اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ دہلی میں جس وقت اس کارپوریشن کا الیکشن ہو رہاتھا جسکی 13سیٹوں کا ضمنی الیکشن اس مہینہ میں ہواہے اور جسکی صرف تین سیٹیں بی جے پی کو ملی ہیں تو ان تینوں کا جشن ایسے منا یا گیا ہے جیسے آسام فتح کرنے کا منایا تھا ۔اور اروند کیجروال کی عام آدمی پارٹی کو پانچ سیٹیں ملیں تو ہر پارٹی ان سے کہہ رہی ہے کہ آپ کوعوام نے مسترد کردیا ۔اس کارپوریشن کے پورے وقت۔ شاہی امام کہلانے کے شوقین اور پورے ملک کے مسلم ووٹوں کا اپنے کو ٹھیکہ دار سمجھنے والے مولانا احمد بخاری لکھنو میں نظر آئے جو صرف اس مہم میں لگے تھے کہ انکے شکست خوردہ داماد کو کونسل کا ممبر بنا دیا جائے ۔اور آخر کا ر انھوں نے ملائم سنگھ کو مجبور کرکے داماد کو ایم ایل سی بنوادیا ۔ رہے اعظم خاں صاحب تو پارٹی میں ناراض تو اکثر ہوئے ہیں ۔لیکن وہ اسد الدین اویسی کی قیادت میں مسلم سیاسی پارٹی بنائیں یا اویسی انہیں قائد مان لیں ۔یہ حلق سے نہیں اترتا ۔انقلاب کی اس خبر کو ہم نظر انداز بھی کر سکتے تھے لیکن آج پھر اس خبر کو چھاپا ہے ۔اور اپنے معتبر نمائندے سے ممتاز عالم رضوی کی ہی رپورٹ ہے کہ مولانا توقیر رضاخاں صاحب نے ایسے اتحادکو امت مسلمہ کے لئے بہت اچھا بتا یا ہے ۔اور ان کے ساتھ چلنے پر اپنے کو تیار بتایا ہے ۔مولانا جو خود بھی ایک پارٹی اتحاد ملت کونسل کے صدر ہیں انھوں نے بھی نقطۂ اتحاد اس کو بنایا ہے کہ ان تینوں پارٹیوں نے جو اپنے کو سیکولر کہتی ہیں 23ممبر راجیہ سبھا بھیجے جن میں کوئی مسلمان نہیں ہے ۔ سابق ممبر راجیہ سبھا محمد ادیب صاحب نے انقلاب بیوروسے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر یوپی میں اس قسم کا اتحاد قائم ہوتا ہے تو یہ ہندوستان کی تاریخ میں مسلم سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ہوگا ۔کیو ں کہ اب ملک کی تمام سیکولر پارٹیاں کھل کر 14کریٹ کا سیکولر ازم چلا رہی ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم آج کے حالات میں راجیہ سبھا میں ایک مسلمان کو بھیجنے نہ بھیجنے کو اتنا اہم نہیں سمجھتے کہ اس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کے مستقبل کو داؤں پر لگادیں ۔لیکن یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ کہیں بھی ہماری آواز نہیں ہے کیونکہ ہم انکے پابند ہیں جنکی پارٹی کی مہر ہمارے اوپر لگی ہوئی ہے ۔ انقلاب نے یہ خبر کہاں سے لی اور اسے اتنی اہمیت کیوں دی یہ تو وہ جانے ۔لیکن ہم یہ بات برابر لکھتے رہے ہیں کہ ہر صوبہ میں جہاں مسلمان اس قابل ہیں کہ وہ اپنے بل پر اتنی سیٹیں کامیاب کرالیں تو کسی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے الیکشن لڑنا چاہئے ۔تاکہ اگر حکومت بنانے کی پوزیشن ہو جائے تو اپنے وزیر کسی کے پابند نہ ہوں ۔اتر پردیش میں مسلمان وزیر کئی ہیں ۔لیکن وہ مسلمانوں کے کم اور پارٹی کے زیادہ ہیں ۔یہی وزیر اگر اسی حکومت میں کسی مسلم گروپ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہوتے اور ایک سمجھوتہ کے ساتھ ایس پی سے ملے ہوتے تو ہر بات کے لئے مسلمان یہ نہ کہتے کہ اتنے وعدے پورے کئے اور اتنے نہیں کئے ۔اگر اویسی صاحب مولانا توقیر رضاخاں صاحب ڈاکٹر ایوب صاحب جمعیۃ العلما کے ذمہ داروں اور اہم اور بااثر حضرات کے ساتھ ملکر ایک پارٹی بنالیں اورملائم سنگھ یادو جی سے معاہدہ کریں کہ وہ اترپردیش کی مسلم آبادی کے حساب سے سیٹیں ان کے لئے چھوڑدیں اور انکے حلقوں میں بھی اسی طرح تقریر کریں جیسے کانگریس کے لئے بہارمیں لالو یادو اور نتیش بابو نے کی تھیں ۔پھر خدا کامیابی دے تو اسی کے طرز پر مسلمانوں کو وزارت دے دیں اور محکموں کا بھی تصفیہ کرلیں تو یہ کہانی ختم ہو جائے گی کہ مسلمان ایک بار ایس پی کی حکومت بنوادیں اور دوسری بار بی ایس پی کی ۔اور جب حکومت بن جائے تو 5برس اسپر افسوس کرتے رہیں کہ ہم نے جو کیا اسکا انعام نہیں ملا۔ انقلاب دینک جاگرن گروپ کا اخبار ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے لئے سب کچھ کر گیا ۔کیونکہ اسکے مالکان بی جے پی کے خیر خواہ ہیں ۔لیکن اخبار کو مقبول بنانے کے لئے وہ مسلمانوں کے مسائل بھی اٹھائیگا ۔یہ خبر اتنی اہمیت کے ساتھ چھاپنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہندو سمجھ لیں کہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آرہے ہیں ۔اس لئے انہیں بھی بی جے پی کے ساتھ آجانا چاہئے ۔لیکن مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ ہے اور ہندوؤں کا بھی ایک طبقہ ہے جو اخبار کی سرخیوں پر سیاست کرتا ہے ۔اب اگر مسلمان واقعی ایک گروپ یا محاذ بنالیں اور وہ مقصد پورا ہوجائے جو ہمارے پیش نظر ہے تو ہم تو انقلاب کے شکر گزار ہوں گے ۔