سچی باتیں ۔۔۔کیا یہ بزدلی اور پست ہمتی ہے۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:44AM Sat 4 Dec, 2021

1927-11-18

’’صحابۂ کرام کے دلوں میں قیامت کا خوف اس قدر سماگیاتھا، کہ اس کے ڈرسے ہروقت کانپتے رہتے تھے۔ ایک بار دفعۃً اندھیرا ہوگیا۔ ایک صاحب نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا، کیا عہد نبوت میںبھی ایسا ہوتاتھا، بولے، معاذ اللہ، اگر ہوابھی تیز ہوجاتی تھی ، توہم سب قیامت کے ڈرسے مسجد کی طرف بھاگ دوڑتے تھے‘‘۔  (اسوہ صحابہ، مولوی عبد السلام ندویؒ ، جلد ، ص:  ۱۲۹)‘‘۔ صحابۂ کرام پر وقائع اُخروی کے ذکر سے رقت طاری ہوہوجاتی تھی، بیہوش ہوہوجاتے تھے، گرگرپڑتے تھے‘‘۔  (ایضًا) ’’قبر، سفرآخرت کی پہلی منزل ہے، اس لئے صحابۂ کرام اس منزل کو نہایت کٹھن سمجھتے تھے، اوراُس کے دشوار گزار اور پُرخطر راستوں سے ہمیشہ لرزتے رہتے تھے، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے قبر کی آزمائش اور امتحان پر خطبہ دیا ۔ صحابۂ کرامؓ چیخ اُٹھے‘‘۔  (ایضًا، ص:  ۱۳۲) ایک بارآپ نے خطبہ دیا، جس میں فرمایا، کہ جو کچھ میں جانتاہوں، اگر تم جانتے ، تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ تمام صحابہ بے اختیار مُنہ ڈھانک ڈھانک کررونے لگے‘‘۔  (ایضًا ، ص:  ۱۳۳)

یہ طرز عمل، یہ طریق زندگی کِن کاتھا؟ اُن لوگوں کا، جنھیں آپ بعد انبیاء کرام کے بہترین خلائق کہتے رہے ہیں، اور جن کا نام آپ اپنی تقریروں اور تحریروں میں باربار ادب واحترام سے لیتے ہیں۔ اگرآپ کے دل میں (خدا نخواستہ) اُن کی کوئی وقعت وعظمت نہیں، اور آپ اُن کا شمار عرب کے اَن پڑھ عوام میں کرتے ہیں، توآپ سے کوئی سوال نہیں۔ لیکن اگرفی الواقع آپ اُنھیں اپنا مخدوم وسردار تسلیم کرتے ہیں، اوراُنھیں بہترین خلائق محض سمجھتے کہتے ہی نہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں، اور اُن کی عظمت وعقیدت محض آپ کی زبان کے اوپر نہیں بلکہ دل کی اندر بھی موجود ہے، تو خدارا یہ فرمائیے، کہ آپ کی زندگی کو اُن کی زندگی سے کوئی مناسبت ہے؟ وہ رونے کی عاشق تھے، آپ ہنسنے پر فریفتہ ہیں۔ وہ آنسوؤں کے بھوکے تھے، آپ قہقہوں کے خریدار ہیں۔ وہ مَوت کے ڈرسے اپنے دلوں کو زندہ کئے ہوئے تھے، آپ اُدھر سے بے خوف ہوکر’’زندہ دلی‘‘ کی تلاش میں اپنے دلوں کو مُردہ کئے ہوئے ہیں۔ اُن کے ہاں گریہ وبُکاتھا، اور آہ وزاری، دلوں میں خشیت تھی، اور ہیبت ، قیامت کا خوف تھا اور قبر کا ہَول، مَوت کا ڈرتھا اور حساب کی دہشت۔ آپ کے ہاں قہقہوں کا شور ہے اور تالیوں کی گونج ، ہارمونیم کا نغمہ ہے اور زیوروں کی جھنکار۔ تھیٹر ہے اور سینما، میلہ ہے اور مشاعرہ۔ گھوڑدوڑ کی بازیاں ہیں، اور بٹیروں کی پالیاں۔ اور پھر بھی آپ کو شکایت اپنے آپ سے نہیں بلکہ اپنے خدا سے ہے، کہ ہرطرف سے آپ ہی ذلیل وپامال ہورہے ہیں!

نوبت یہ پہونچی ہے کہ رونا رُلانا آپ کے نزدیک مضحکہ انگیز ہوگیاہے، اور ہنسنا ہنسانا تہذیب کی ایک سند اعلیٰ قرارپاگیاہے۔ یہ اس لئے کہ آپ کے ’’حکماء وعقلاء‘‘ نے ، آپ کے ’’ماہرین فن‘‘ نے ، آپ کے مدعیان دانش وحکمت نے یہ فتویٰ دے رکھاہے، کہ رونے سے پست ہمتی اور بُزدلی پیداہوتی ہے، رونا بیماری کی علامت ہے، اور ہنسی صحت کی دلیل ہے! جنت کی نعمتوں ، اور مذہب کے وعدوں سے اِ س وقت قطع نظر کیجئے، صرف دنیا کی نعمتوں ، اور تاریخ کے واقعات کو پیش نظر کرلیجئے۔ مِصرؔ کس نے فتح کیا؟ شامؔ کی تسخیر کس نے کی؟ ایرانؔ پر قبضہ کس نے کیا؟ قیصرؔ کی سپاہ کو کس نے پامال کیا؟ کسریٰ کے لشکر کو کس نے شکست دی؟ عراقؔ پر اسلام کا پرچم کس نے نصب کیا؟ فلسطینؔ کی زمین پر اسلام کی حکومت کس نے قائم کی؟ اپنے سے کئی کئی گنی زائد تعداد اور اپنے سے بدرجہا زائد سامان جنگ، رکھنے والے لشکروں کو بارہا کن لوگوں نے زیر کیا؟ انھیں رونے والے، اِنھیں روز قیامت سے ڈرنے والے ، انھیں خوفِ خدا سے کانپنے والے صحابیوں نے ، یا ہنسنے والے، گانے اورناچنے والے ، زندہ دلی اور بے فکری کے ساتھ عیش ونشاط کی زندگی بسر کرنے کا دعویٰ رکھنے والے محمد شاہ رنگیلے اور واجد علی شاہ جان عالم کے درباریوںنے؟یہ وہی ’’زندہ دلی‘‘تھی، جو نہ دہلی کی سلطنت کو بربادی سے بچاسکی، نہ اودھ کو، آج بھی حق انتخاب آپ کو حاصل ہے۔ خواہ اس ’’زندہ دلی‘‘ کا راستہ اختیار کریں، اور خواہ حضرات صحابہؓ کی وہ روش اختیار کریں ، جس نے ان کو ، خالص دنیوی حیثیت سے بھی، اوج کامیابی وعروج کامرانی پر پہونچادیاتھا۔ اگراسی کانام ’’پست ہمتی وبُزدلی ہے، تو پروردگار عالم آج بھی پست ہمتی وبُزدلی پھر امت اسلامیہ میں پیداکردے!