سچی باتیں۔۔۔ تجدید جاہلیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:13PM Fri 28 May, 2021

1941-10-20

’’ہندوستان کی خاتون جدید نے احساس کرلیاہے، کہ حُسنِ خیال اور رعنائی قامت اُس کا نہ صرف سب سے قیمتی حربہ ہیں،بلکہ اس کا پیدائشی حق ہیں۔ سنسکرت کے عالموں نے عورت کو کنول سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ عورت کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو، اس کا جسم پھول کی طرح نازک ہو، جلد نرم وملائم ہو سنہری کنول کی طرح اور آنکھیں بکری کی جیسی ہوں۔ چال بھینس کی طرح ہو۔ لباس شوخ رنگ کا ہو اور زیوروں سے لدی ہو۔ اس تخیل کو پیش نظر رکھ کر خاتونِ نَو نے ہندوستان کے بہترین مظہر حسن سے اپنی لو لگائی ہے، یعنی ناچ سے۔ وہ دن گئے، جب یہ فن لطیف حقیر وذلیل سمجھا جاتاتھا۔ اب اس فن نے اپنا پھر وہی عروج واعزاز حاصل کرلیاہے، جو زمانۂ قدیم میں اس کا تھا۔ اب لڑکیاں علی العموم رقاصی کو اپنے کمال خاص میں شمار کرنے لگی ہیں، اور اس کے ذریعہ سے اُن کے بلند سے بلند حوصلے اب پھر پورے ہوتے نظرآرہے ہیں‘‘۔ (ہندو، مدراس ، ۶؍اکتوبر   ۴۱ء)

یہ آواز تعلیم یافتہ ہندو دنیا کے مشہور ومعزز ترجمان انگریزی روزنامہ ہندو کے مقالہ نگار خصوصی کی ہے۔ اور آواز تنہا اُسی کی کب ہے؟ کلکتہ ، بمبئی، الہ آباد، جہاں کہیں، اورجو بھی معزز ہندو روزنامے ہیں، سب اسی کے ہم آواز ہیں……ہندو عورت پڑھ لکھ کر بِی اے، ایم اے، کی ڈگریاں لے کر، یونیورسٹی کی بڑی سے بڑی سندیں لے کر، اب ناچے گی،تھرکے گی۔ باپ ،بھائی، شوہر سب کے سامنے اپنے رقص کے کمالات دکھائے گی۔ اپنوں بیگانوں سب سے اپنی رقاصی کی داد لے گی۔ آخر ہزارہا سال قبل اُن کی مائیں اور دادیاں بھی تو اسی طرح ناچی تھیں۔ دیویوں اور دیوتاؤں کو ناچ ہی ناچ کر خوش کیا تھا۔ دیوی اور دیوتا خود بھی ناچے تھے……آج وہ خوش ہے کہ اُس کی پُرانی تہذیب زندہ ہورہی ہے۔ وہ شرما نہیں رہی ہے، فخر کررہی ہے کہ اُس کی مذہبی تہذیب اور طرز عبادت کے قالب مردہ میں نئے سرے جان پڑرہی ہے؟ ’’ملیچھوں‘‘ کی لائی ہوئی تہذیب کے اثرات آخر کار دُور ہوئے، اور ہندی تہذیب کو فرنگی تہذیب سے مل کر، ایک بار پھر پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ جاہلی تہذیب کے زیر سایۂ حمایت برطانیہ از سرنو ترقی اور آزادی نصیب ہوئی!۔

ہندی تہذیب اس باب میں اکیلی کب ہے؟ ناچ کا درجہ، اونچا درجہ، تو مصری تہذیب، کلدانی تہذیب، یونانی تہذیب، رومی تہذیب، ہرپُرانی تہذیب کا ایساہی رہاہے۔ فنون لطیفہ میں ایک ممتاز مرتبہ اس ’’فن لطیف‘‘ کا تو ساری ہی جاہلی تہذیبوں نے قرار دیا ہے۔ اور اب ’’صاحب‘‘ کے دیس میں اس کی جیسی قدر ہورہی ہے، بالکل ظاہرہے۔ اس پرضرب تو اسلام نے آکر لگائی تھی، اورگانے ، بجانے، مصوّری، نقاشی کی طرح اسے بھی حرام ٹھہرایاتھا۔ مبارک ہو دین جاہلی کے پیروؤں اور پرستاروں کو، کہ اُن کے دین وآئین کے دن پھر ایک بار پھرآئے!مبارک ہو دین تجدد کے علمبرداروں کو، اسلام کے اندر کے ’’پانچویں کالم‘‘ کو، کہ اُن کی محنت ٹھکانے لگی، ان کی کوششیں بارآورہونے لگیں، ان کے مسلسل پروپیگنڈا نے دختران اسلام کو پردے سے نکال نکال کر اُن جاہلی کی ترقی یافتہ صفوں کے کتنا قریب لاکھڑا کردیا!۔

ہاں خدایانِ کُہن، وقت است وقت!۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/