مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۲)۔۔تحریر: عبد المتیبن منیری۔بھٹکل
تھی، اس زمانے میں ساتویں جماعت کے طالب علم کی صلاحیت نویں جماعت کے برابر ہوا کرتی تھی، میں نے اختیاری مضمون سائنس لیا تھا، عثمان ماسٹر صاحب تک منیری صاحب کی یہ بات پہنچی کہ وہ مجھے اعلی دینی تعلیم کے لئے ندوے بھیجنا چاہتے ہیں، تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، انہوں نے بھی میری خوب تعریفیں کیں،اس وقت تک انگریزی زبان آٹھویں جماعت کے بعد پڑھائی جاتی تھی، لیکن اسی سال چھٹی جماعت سے انگریزی زبان پڑھانے کا آغاز ہوا تھا، آپ نے مولانا عبد الباری ندویؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ وغیرہ گزرے ہوئے بڑے لوگوں کے بارے میں بتایا، اور کہا کہ اگر آپ بھی ویسے بن جائیں تو بہت اچھا ہوگا، عصری اور دینی علم یکجا ہوجائیں گے، میں تمھیں پڑھاؤں گا۔ میں ان کی باتوں میں آگیا، عثمان ماسٹر بہت مصروف انسان تھے، ہمیں قومی خدمت میں آپ کی زندگی سے سبق لینا چاہئے، وہ کسی کو پانچ منٹ وقت نہیں دے سکتے تھے، ان کی ترغیب دینے کا انداز دیکھئے، کہنے لگے میں تمھیں عربی پڑھاتا ہوں، اور انہوں نے اپنی یہ بات نبھائی، ((پیارے نبی کی باتیں، پیاری زبان میں)) نامی کتاب انہوں نے پڑھائی، یہ سوال الگ ہے کہ ان کتابوں کے علمی وزن برابر علم ہم نے مولانا عبد الحمید ندوی کے پاس ڈیڑھ ماہ میں سیکھا، ماسٹر صاحب کے پاس میں جمعہ کے روز صبح نو بجے سے دس بجے تک بیٹھتا تھا ، اس کا مجھے دہرا فائدہ ہوتا، گھر سے ناشتہ کرکے نکلتا، آپ کی اہلیہ محترمہ شہربانو صاحبہ مجھے دوبارہ ناشتہ پیش کرتیں، وہ تھوڑا سا سبق پڑھاتے، لیکن اس دوران ان کی الماری سے بہت ساری کتابیں لے کرمیں نے مطالعہ کیں، اللہ مغفرت کرے اسی زمانے میں یا کچھ پہلے مولانا اویس مدنی کے بھائی قادر میراں مرحوم(بنکاک مالیکا) نے مجھے عمرآباد بھجوانے کی ترغیب دی تھی، لیکن یہ نہ ہوسکا، ہمیں قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا تھا، ماسٹر صاحب نے اس کی راہ نکالی، انہوں نے بچوں سے کہا کہ وہ شام کو آکر قرآن سیکھیں، اسکول میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا، اس زمانے میں ہیڈ ماسٹر کی شخصیت بڑی رعب دار ہوا کرتی تھی، ان کے کمرے میں بلاوجہ داخل ہونے اور ان کی کرسی پر کسی کو بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،باوجود اسکے انہوں نے اپنا کمرہ اس مقصد کے لئے دے کر اپنے کمرے کی کنجی مجھے سونپ دی، اس سے ہمیں بہت پریشانی ہوئی کہ ہیڈماسٹر کی کرسی پر کیسے بیٹھیں؟لہذا درخواست کرکے کھیلوں کا کمرہ اس کے لئے لے لیا، اس میں ہم طلبہ ہی پڑھاتے تھے، مولانا غزالی عبس وتولی پڑھاتے تو ساری کلاس پڑھتی، اس وقت قرآن پڑھانے کے لئے مولانا محمود خیال صاحب اور قاری محمد اقبال دامدا ابو صاحب کو بھی کئی ایک بار دعوت دی گئی تھی، ماسٹر صاحب کے ذہن میں ان بچوں کو قرآن سکھانے کی فکر تھی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ جامعہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کاموقعہ ملا، انہیں بھی اس کی بڑی خوشی تھی، اس وقت آخری دو کلاسوں دسویں اور گیارہویں کے طلبہ کو آپ نے جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر شریک ہونے کو کہا))۔