مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۲)۔۔تحریر: عبد المتیبن منیری۔بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

07:19PM Tue 29 Dec, 2020

عثمان حسن ہیڈ ماسٹر کی نظر کرم

مولانا اقبال صاحب فرماتے ہیں (( سچی بات تو یہ ہے کہ میں ہائی اسکول میں ٹاپ پر تھا، اور میر ا ارادہ ایک ڈاکٹر بننے کا تھا، اس زمانے میں گاؤں میں ڈاکٹر نہیں تھے، اورجو تھے وہ نیک نام نہیں تھے، عثمان ماسٹر صاحب کی نظر کرم مجھ پر تھی،ابھی جامعہ کے قیام کی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی، اس زمانے میں ساتویں جماعت کے طالب علم کی صلاحیت نویں جماعت کے برابر ہوا کرتی تھی، میں نے اختیاری مضمون سائنس لیا تھا، عثمان ماسٹر صاحب تک منیری صاحب کی یہ بات پہنچی کہ وہ مجھے اعلی دینی تعلیم کے لئے ندوے بھیجنا چاہتے ہیں، تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، انہوں نے بھی میری خوب تعریفیں کیں،اس وقت تک انگریزی زبان آٹھویں جماعت کے بعد پڑھائی جاتی تھی، لیکن اسی سال چھٹی جماعت سے انگریزی زبان پڑھانے کا آغاز ہوا تھا، آپ نے مولانا عبد الباری ندویؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ وغیرہ گزرے ہوئے بڑے لوگوں کے بارے میں بتایا، اور کہا کہ اگر آپ بھی ویسے بن جائیں تو بہت اچھا ہوگا، عصری اور دینی علم یکجا ہوجائیں گے، میں تمھیں پڑھاؤں گا۔ میں ان کی باتوں میں آگیا، عثمان ماسٹر بہت مصروف انسان تھے، ہمیں قومی خدمت میں آپ کی زندگی سے سبق لینا چاہئے، وہ کسی کو پانچ منٹ وقت نہیں دے سکتے تھے، ان کی ترغیب دینے کا انداز دیکھئے، کہنے لگے میں تمھیں عربی پڑھاتا ہوں، اور انہوں نے اپنی یہ بات نبھائی، ((پیارے نبی کی باتیں، پیاری زبان میں)) نامی کتاب انہوں نے پڑھائی، یہ سوال الگ ہے کہ ان کتابوں کے علمی وزن برابر علم ہم نے مولانا عبد الحمید ندوی کے پاس ڈیڑھ ماہ میں سیکھا، ماسٹر صاحب کے پاس میں جمعہ کے روز صبح نو بجے سے دس بجے تک بیٹھتا تھا ، اس کا مجھے دہرا فائدہ ہوتا، گھر سے ناشتہ کرکے نکلتا، آپ کی اہلیہ محترمہ شہربانو صاحبہ مجھے دوبارہ ناشتہ پیش کرتیں، وہ تھوڑا سا سبق پڑھاتے، لیکن اس دوران ان کی الماری سے بہت ساری کتابیں لے کرمیں نے مطالعہ کیں، اللہ مغفرت کرے اسی زمانے میں یا کچھ پہلے مولانا اویس مدنی کے بھائی قادر میراں مرحوم(بنکاک مالیکا) نے مجھے عمرآباد بھجوانے کی ترغیب دی تھی، لیکن یہ نہ ہوسکا، ہمیں قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا تھا، ماسٹر صاحب نے اس کی راہ نکالی، انہوں نے بچوں سے کہا کہ وہ شام کو آکر قرآن سیکھیں، اسکول میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا، اس زمانے میں ہیڈ ماسٹر کی شخصیت بڑی رعب دار ہوا کرتی تھی، ان کے کمرے میں بلاوجہ داخل ہونے اور ان کی کرسی پر کسی کو بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی،باوجود اسکے انہوں نے اپنا کمرہ اس مقصد کے لئے دے کر اپنے کمرے کی کنجی مجھے سونپ دی، اس سے ہمیں بہت پریشانی ہوئی کہ ہیڈماسٹر کی کرسی پر کیسے بیٹھیں؟لہذا درخواست کرکے کھیلوں کا کمرہ اس کے لئے لے لیا، اس میں ہم طلبہ ہی پڑھاتے تھے، مولانا غزالی عبس وتولی پڑھاتے تو ساری کلاس پڑھتی، اس وقت قرآن پڑھانے کے لئے مولانا محمود خیال صاحب اور قاری محمد اقبال دامدا ابو صاحب کو بھی کئی ایک بار دعوت دی گئی تھی، ماسٹر صاحب کے ذہن میں ان بچوں کو قرآن سکھانے کی فکر تھی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ جامعہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کاموقعہ ملا، انہیں بھی اس کی بڑی خوشی تھی، اس وقت آخری دو کلاسوں دسویں اور گیارہویں کے طلبہ کو آپ نے جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر شریک ہونے کو کہا))۔

جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا آغاز

((اس زمانے میں میٹرک کی کلاس گیارہویں سال پرختم ہوتی تھی، میں دسویں میں تھا، اور مولانا غزالی خطیبی صاحب گیارہویں میں، ماسٹر صاحب نے ہمیں چھٹی دے کر جامعہ کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر حاضر ہونے کی ہدایت کی ، مولانا عبد الحمید ندوی ؒنے دریافت کیا،کہ کون داخلہ کے لئے آیا ہے؟، تو منیری صاحب نے دو بچوں کو پیش کردیا، جن میں ایک آپ کے دوست کا بچہ عبد اللہ کوبٹے، اور دوسرا یوسف، شیرور سے تعلق رکھنے والے آپ کے ایک ملازم کا بچہ، مولانا ارشاد احمد ؒ فیض آبادی ؒنے پڑھایا،رب یسر، ولا تعسر، وتمم بالخیر، اس کے بعد منیری صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ مولانا اگر اشارہ کریں تو آجانا، مولانا غزالی اور ان کے ایک ساتھی یس یم سید جعفر وکھلبے مرحوم سے بھی یہی کہا، آخر الذکر کبھی جامعہ کے طالب علم نہیں رہے، ہائی اسکول میں پڑھنے والے کرایہ کے یہ تین طالب علم اس وقت کام آئے، پھر بلانے پرمیں نے اور مولانا غزالی اور سید جعفر نے بھی پڑھا، اور مولانا ارشاد صاحب نے اعلان کردیا کہ پانچ بچوں کا داخلہ ہوا ہے(حالانکہ داخلہ الف باء پڑھنے والے صرف دو بچوں کا ہوا تھا)۔ اس کے بعد ہم اسکول لوٹ گئے۔ بسم اللہ خوانی کے دوسرے روز جو صورت حال تھی اس کا تذکرہ مولانا عبد الحمید ندویؒ یوں بیان کرتے ہیں: ۔کیسی حوصلہ شکن اور صبر آزما تھی،۲۰/ اگست کے بعد۲۱/اگست ۱۹۶۲ء کی صبح، آپ ہی آپ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا یہی درسگاہ تھی جس کی کل اوپننگ ہوئی تھی؟ کل اسی کے لئے وہ سارے پیام سنے گئے تھے؟ بزرگوں کی دعاؤں کا حاصل اور نیک تمناؤں کا مرکز یہی ہے؟ اسی کے لئے زبان ہلتے ہی دردمندان قوم نے سیکڑوں نہیں ہزاروں ہزار پیش کردئے، کیا عبد اللہ ہی کے لئے حضرت قبلہ مولانا ندوی مدظلہ کی خدمات کا ریزرویشن ہورہاتھا؟ علی ملپا، سعدا جعفری، ڈی اے اسماعیل کی دلی تمناؤں اور مخلصانہ آرزؤں کا حاصل یہی ہے؟ منیری صاحب کے زور قلم، سعی پیہم، اور حسن تدبیر کے نتیجہ میں عبد اللہ اور عبد الحمید کے سوا کچھ نہ تھا، بظاہر خواب اور افسانہ کے سوا، اس کا نام آپ اور کیا دیں گے؟۔۔ مولانا عبد الحمید ندوی جیسے جلیل القدر عالم دین، اور استاد الاساتذہ جیسکھ پور، بارہ بنکی، یوپی سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آئے تھے، الف باء پڑھنے والے دو ایک بچوں کو پڑھانا ان کامقام ومنصب نہیں تھا، نہ ہی کسی طرح یہ آپ کی عزت افزائی ہوسکتی تھی۔اس ضرورت کا مدا وا کس طرح نکالا گیا، اس بارے میں مولانا اقبال یوں بیان کرتے ہیں:۔ ۔((لہذا ماسٹر عثمان حسن سے مشورہ کیا گیا کہ جامعہ میں باقاعدہ تعلیم کے آغاز تک مولانا درس قرآن شروع کریں، اور ہائی اسکول کے بچے اس درس میں شریک ہوں، صبح سات سے آٹھ بجے تک درس قرآن جاری رہے، اس درس میں جولوگ شریک ہوتے تھے، ان میں محمد شفیع شابندری صاحب(موجودہ ناظم جامعہ) بھی شامل تھے، جامعہ کے باقاعدہ طالب علم نہ ہونے کے باوجود ہم آپ کو ابناء جامعہ میں انہی درسوں کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے شمار کرتے ہیں۔ ان دروس میں پہلا نام ان کا ہے پھرمیرا، اور آپ کی برکت سے دوسرے بڑی عمر کے لوگ بھی ان میں شریک ہونے لگے، چند روز بعد ششماہی امتحانات کا آغاز ہوا، جس کی تیاری میں محنت اور مصروفیت کی وجہ سے مولانا سے ہم نے رخصت لے لی، لیکن مولانا نے درس کا سلسلہ بند نہیں کیا، بلکہ اسے جاری رکھا، اس موقعہ پر ماسٹر شفیع صاحب پابندی سے اور بلاناغہ ان میں شرکت کرتے رہے، امتحان کے وقفہ کے بعد جب ہم دوبارہ درس میں حاضر ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ کئی سارے درس ہم سے چھوٹ گئے ہیں، ہم نے منہ چھوٹا کرکے مولانا سے اپنے اس تعلیمی نقصان کا اظہار کیا تو مولانا نے کہا کہ کوئی بات نہیں، عصر کے بعد پڑھائیں گے، مولانا نے عصر کے بعد ذوق وشوق سے پڑھانا شروع کیا، اس دوران جامعہ اردو علی گڑھ کے ادیب کامل کے امتحانات کا وقت قریب آگیا، اس کا فارسی نصاب بہت مشکل تھا، یہ سمجھ کر کہ ماسٹر سید عبد الرحمن باطن صاحب کو اردو بہت اچھی آتی ہیں اور وہ منجھے ہوئے شاعر ہیں، تو وہ فارسی بھی اچھی جانتے ہونگے، ان سے ادیب کامل کے فارسی ابواب پڑھانے کی خواہش ظاہر کی، باطن صاحب میرے براہ راست استاد نہیں رہے، لیکن انہیں میں نے ہمیشہ اپنا استاد ہی سمجھا۔ لیکن انہوں نے بھی مولانا ہی سے رجوع کرنے کو کہا، اور مولانا نے اس میں تعاون کیا۔اسی طرح سلسلہ چلتا رہا))۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/