سجی رہے تری دنیا یونہی دلہن کی طرح۔۔۔ از:حفیظ نعانی

Bhatkallys

Published in - Other

03:16PM Tue 26 Jul, 2016
از:حفیظ نعمانی کل 23جولائی کے سہارا میں ایک خبر بہت اہتمام سے چھاپی گئی ہے کہ ایک دولت مند خاندان نے سادگی سے شادی کر کے مثال قائم کردی ۔مہاراج گنج کے گاؤں پر تاول کے حاجی عبد الستار کی پوتی صبیحہ اکمل کی شادی انتہائی سادگی کے ساتھ ہوئی ۔مسجد میں نکاح ہوا اور صبیحہ کی لکھی ہوئی کتاب ’’شادی بیاہ کی موجودہ تقاریب‘‘ہر براتی کو دی گئی اور بیٹی کو رخصت کر دیا گیا ۔ کہنے کو تو یہ ایک شادی کی خبر تھی جس کا تعلق دو گاؤں سے ہے لیکن یہ ملک کے ہر مسلمان کے گھر کے لئے ایک روشن مثال ہے جسے چھوڑ کر انھوں نے اپنے کوتباہی کے غار میں ڈھکیل دیا ہے ۔ سیدی ومولائی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ اسلام کی دولت ہم سب کو ملی ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نکاح اتنا آسان مسئلہ تھا کہ حضرت مولانا یو سفؒ تبلیغی جماعت کے سابق امیر نے جو حیات صحابہ تصنیف کی ہے اسکی جتنی جلدیں بھی ہم نے پڑھیں ان میں صرف ایک نکاح کا ذکر ہے کہ ایک صحابیؓ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر نکلے تو حضور ؐ نے دیکھا کہ انکے کپڑوں پر زعفران کا ایک داغ لگا ہے ۔آقاؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟انھوں نے گردن جھکا کرعرض کیا کہ کل نکاح کیا ہے ۔آقائے کائناتؐ نے فرمایا کہ ’’ولیمہ ضرور کرنا چاہے ایک ہی بکری ذبح کرو‘‘ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ میں جو صرف چند سو مسلمان تھے وہ ان میں سے ایک تھے ۔لیکن انہوں نے نہ یہ ضرور ی سمجھا کہ حضرت ؐ سے نکاح پڑھانے کی درخواست کریں اور نہ یہ ضروری سمجھا کہ شرکت کی درخواست کریں ۔جیسے ہم نکاح پڑھانے کے لئے بڑے علماء کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ اگر حضور اکرم ؐ دریافت نہ فرماتے تو بتانے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جبکہ وہ انکا پہلا نکاح تھا ۔ ہمارے والد مولانا محمد منظور نعمانی فرمایا کرتے تھے کہ حضور اکرمؐ نے نکاح کو جس قدر غیر اہم اور آسان بنایا تھا ہم نے اسے اتنا ہی مشکل بنا لیا ۔انہوں نے ہم دو بھائیوں اور دو بہنوں کی شادی تو خاندان میں کی ۔اس لئے نہ بارات نہ رخصتی۔بس بہت سادہ ولیمہ۔اور بس۔ ایک بھائی حسان نعمانی کا رشتہ سنبھل میں کیا جو رشتہ دارتو نام کے تھے بس قریبی تھے ۔انکی پہلی لڑکی تھی۔ سنبھل کی کسی بیٹھک میں انھوں نے کہہ دیا کہ ایسا جہیز دونگا کہ لکھنؤ والے یا د کریں گے کہ سنبھل میں جہیز کیا دیا جاتا ہے ؟اڑتی اڑتی یہ خبر والد تک آگئی ۔انھوں نے ہونے والے سمدھی کو لکھا کہ جب گھر کے لوگ حسان اور دلہن کو لیکر لو ٹیں گے تو میں ڈیو ڑھی میں بیٹھا ہو ا ملوں گا ۔اور دلہن کے ایک سوٹ کیس اور ایک ہو لڈال کے علاوہ جو سامان اور ہوگا وہ سڑک پر پھینکوادونگا ۔اور آپکی بیٹی کو انشا ء اللہ زندگی میں کسی چیز کی تکلیف نہیں ہوگی ۔ انکی اتنی ہمت تو تھی نہیں کہ وہ رشتہ سے انکار کر دیتے ۔لیکن وہ اس خط کو ہمارے سنبھل کے پورے خاندان کو دکھا کر یہ معلوم کررہے تھے کہ ۔میر ے خاندان والے جو کہیں گے کہ تم نے بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت کردیا تو میں انہیں اوراپنی بیوی کو کیا جواب دونگا؟جو بڑے بڑے ارمان لئے بیٹھی ہے ۔ہمارے خاندان والوں نے ان سے کہہ دیا کہ یہ خط سنبھال کر رکھو اور جو کوئی کچھ کہے اسے یہ خط دکھا دینا ۔اور کہہ دینا کہ میں سڑک پر پھنکوانے کے لئے تو سامان دے نہیں سکتا ۔ اب بات اپنی عرض کرونگا کہ والد ماجد نے ایک حج وہ کیا جو ہماری والدہ مرحومہ کا حج بدل تھا ۔اور وہ اس رقم سے کیا جو مرحومہ کی تھی ۔اور جسکے بارے میں ہم دونوں بھائیوں سے ایک دن معلوم کیا کہ تمہاری ماں کی اتنی رقم میرے پاس ہے ۔یا تو وہ لے لو یا کہہ دو تو میں حج بدل کر آؤں ۔وہ اپنی صحت کی وجہ سے حج کی حسرت لئے چلی گئی تھیں ۔ہم دونوں نے عرض کیا کہ آپ حج کر آئیے ۔وہاں سے خط آیا کہ کل طواف کے دوران کعبہ مکرمہ کا پردہ نصیب سے ہاتھ میں آگیا ۔تم دونوں بھائیوں کی سعادت مندی یا د آئی اور بے ساختہ یہ دعا زبان پر آگئی۔کہ مولا انہیں کبھی اتنے روپے نہ دینا کہ یہ بگڑ جائیں ۔اور انکا کوئی کام روپے کی وجہ سے نہ رکنے دینا۔ میں لکھنؤ میں 70سال سے ہوں ۔ابھی مجھے دیکھنے والے باقی ہیں انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ دولت مند کبھی نہیں رہا ۔اور یہ بھی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بڑے سے بڑا کام کبھی پیسوں کی وجہ سے نہیں رکا۔ وہ جو پروردگار نے فرمادیا ہے کہ ’’وَیَرْ زُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ‘‘’’ایسی جگہ سے دونگا جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی ‘‘۔اور وہی ہو رہا ہے ۔کہ بریلی میں تھے تو 12روپے کے کرایہ کے مکان میں رہتے تھے ۔لکھنؤ میں 45برس75روپے مہینہ کرایہ کے مکان میں رہے ۔اور کئی برس 5ہزار روپے مہینہ کے کرایہ کے مکان میں بھی رہے ۔اور اب اس پروردگار کا کرم ہے جب مجھے ایک بہت بڑے اور کھلے ہوئے مکان کی ضرورت تھی تو اس نے وہ عطا فرما دیا جو میرے بچوں کی ملکیت ہے ۔ بات کہنا تھی انتہائی سادی شادی کی تو پروردگار نے چا ر بیٹے دئے ہیں میں نے برے بیٹے کا رشتہ کیا ۔اور جب معاملات پر گفتگو ہوئی تو سمدھیانہ میں ہر بات طے ہوجانے کے بعد کہا گیا کہ آپ کی شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا صرف ایک کہ جہیز نام کی کوئی چیز دلہن کے ساتھ نہیں آئے گی ۔سمدھن دو منٹ چپ رہیں پھر آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اور کہا اکلوتی بیٹی ہے شوہر ریلوے میں گارڈ ہیں مفت کا پاس ملتا تھا ۔پورے ملک میں گھومے اور جو چیز اچھی لگی بیٹی کے لئے خرید لی ۔آگے نہ پوتی ہے نہ نواسی تو کیا یہ گومتی میں پھینک دیں ؟میں نے قدم واپس لے لئے اور کہا کہ ایک وعدہ کر لیجئے کہ اب اور کچھ نہیں خریدیں گی ۔اور اسے انھوں نے مان لیا ۔بڑے سے چھوٹے کے لئے بھی اس پرصلح ہو گئی کہ ایک بیڈ ایک صوفہ اور کراکری کا ایک ڈبہ جو انکے والد نے برسوں پہلے لکھنو میں رکھوایا تھا بس وہ آئیگا ۔لیکن تیسرے اور چوتھے بیٹے کے بارے میں خدا نے سرخ رو کیا اور تن کے کپڑوں کے یا ضروری زیور سے زیادہ ایک چمچ بھی میر ے گھر میں نہیں آیا ۔اور آج ان دونوں کی حیثیت وہ ہے جو پوری عمر میں میری بیوی کی کبھی نہیں رہی دونوں کے پاس کاریں ہیں عالی شان مکان ہیں ۔اور دولت مندوں میں انکا شمار ہے ۔اور مجھے اسکا جواب دوسرے بیٹے کی سسرال سے یہ ملا کہ گذشتہ سال 25دسمبرکو جس نواسی کی شادی کی وہ دوسرے بیٹے کی سسرالی گھرانہ ہے ۔جب میری بیٹی اور داماد یہ دیکھنے کے لئے گئے کہ بیٹی کے ساتھ کیا کیا سامان جائے گا؟تو اسکی ہونے والی ساس نے وہ دو کمرے دکھائے جس میں نواسی کو رہنا تھا ۔اور کہا کہ ان میں جو کمی محسوس ہو وہ بھیج دیجئے گا ۔اور میرے بچے منہ دیکھتے رہ گئے کہ دونوں کمرے اس طرح سجے اور بھرے ہوئے تھے کہ اس میں ٹیلی فون رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی ۔یہ ہے انعام ۔ہر مسلمان اگر قسم کھا لے کہ بیٹا ہو یا بیٹی مسنون شادی کریگا تو پھر ہندو بھی اسکی نقل کرنے پر مجبور ہونگے ۔انشاء اللہ