سچی باتیں ۔۔۔ عورت سے مصافحہ ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ


قال معمرٌ: فأخبرَني ابنُ طاووسٍ، عن أبيهِ، قالَ: ما مَسَّت يدُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يدَ امرأةٍ إلَّا امرَأةً يملِكُها - جامع الترمذی کتاب التفسیر
جامع ترمذی، حدیث کی مشہورومستند کتابوں میں سے ہے، اس میں معمرروایت کرتے ہیں ابن طاؤس سے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی زندگی بھر کسی عورت کے ہاتھ کو مس کیا ہی نہیں، بجز اپنی بیوی صاحبوں کے۔
راوی نے "امراۃ یملکھا" (بجز اس عورت کے جو آپ کے ملک میں تھی) کہہ کر عالم انسانیت کی جو ناقابل برداشت توہین کر دی ہے اس سے قطع نظر اصل روایت کو تو دیکھئے وہ جو سارے عالم کا مصلح ہے، مردوں سے آخر برابرمصافحہ کیا ہی کرتاہے، غیر عورت سے کبھی زندگی بھر مصافحہ کیا ہی نہیں، ترکی اور مصر کی اور خود ہندوستان کی”روشن خیال“ خواتین اگر(نعوذ باللہ) ایسے خشک مزاج سردار کو چھوڑ کر،بیسویں صدی کے ”لازوال سردار“ کی طرف رخ نہ کریں تو آخر بیچاریاں کیا کریں۔
اور آگے چلیے ترمذی سے بھی بڑھ کر معتبر بخاری میں حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ
قالت عائشہ فمن اقر بھذا الشرط من المؤمنات قال رسول اللہ صلیﷺ اللّٰہ علیہ وسلم قد بایعتک کاملا الا واللّٰہ ما مست امراۃ قط فی المبایعۃ ما یبایعھن الا بقولہ قد بایعتک علی ذالک(بخاری، کتاب التفسیر)
حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں سورہ ممتحنہ کی آیت ”اذا جاء کم المؤمنات مھاجرات“ کے ماتحت جو مسلمان عورت اقرار شرائط کرتی، آپ اس سے فرماتے کہ میں نے تجھ سے بیعت لے لی، اس کلام سے اور قسم ہے خدائے تعالی کی کہ بیعت میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا، بس آپ تو فقط زبان سے بیعت لیتے۔
بیعت کا وقت تو خاص ہاتھ سے ہاتھ ملانے کا ہوتا ہی ہے، آپ اس وقت بھی اس سے احتیاط و احتراز فرماتے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا اس واقعے کو خاص طور پر نوٹ کر کے نہ صرف بیان فرماتی ہیں بلکہ شدتِ تاکید سے اس کو قسم کها کر بیان کرتی ہیں۔ جاہلیت قدیم جاہلیت جدید دونوں کی حیرت زدہ دنیاے سوال کے یقین دلانے کے لیے۔
اور محدث ابن حجر رحمہ اللہ علیہ تو دوسرے معتبر اسناد کے ساتھ یہاں تک لکھ گئے ہیں کہ عورتوں کی اس جماعت نے آکر کہا بھی کہ (فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ابسط یدک نصافحک فقال انی لا اصافح النساء(فتح الباری) یارسول اللہ اپنے دست مبارک بڑھائے کہ ہم بیعت کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتوں سے مصافحہ میں نہیں کیا کرتا۔
”شیک ہینڈ“ جیسی عام اور معمولی چیز سے انکار اور یہ شدومد انکار اور وہ بھی بیان جیسے اہم موقع پرجاہلیت عرب جو جاہلیت فرنگ ہی کی طرح، ”حریت نسواں“ کی قائل و پرستار تھی، اس پر کیسی کچھ دنگ رہ گئی ہوگی؟ اور آج بھی مساوات مرد وزن کے مدعی، آخر کس طرح اپنے دل کو سمجھا کر اپنے حسن عقیدت کو باقی رکھیں؟