خوشخبری سے شرمندگی تک

Bhatkallys

Published in - Other

11:50AM Thu 3 Mar, 2016
حفیظ نعمانی ارون جیٹلی کے بجٹ میں تو بعد میں کہا گیا کہ کسانوں کی آمدنی 2022 ء تک دوگنی ہوجائے گی۔ ؂ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ لیکن مودی صاحب نے بریلی کی کسان کلیان ریلی میں یہ خوشخبری ایک دن پہلے ہی کسانوں کو سنادی تھی کہ بجٹ میں کسانوں کے لئے کیا کیا ہے؟ ہم بجٹ کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس بھیڑ کا ذکر کررہے ہیں جو آتی نہیں لائی جاتی ہے۔ ریلی میں تاحد نگاہ آدمی ہی آدمی کیسے نظر آتے ہیں؟ یہ بات کم از کم ان سے تو چھپی نہیں ہے جن کی مقبولیت اور محبوبیت ثابت کرنے کے لئے پانی کی طرح روپیہ بہایا جاتا ہے۔ ہم کیسے مان لیں کہ 2014 ء کے لوک سبھا الیکشن میں مودی صاحب کو سننے کے لئے جو ہر جگہ لاکھ دو لاکھ اور تین لاکھ انسان آتے تھے وہ صرف یہ سن کر آتے تھے کہ بھاجپا کے وزیر اعظم کے امیدوار کی تقریر ہوگی اور جو لاکھوں آتے تھے وہ صرف اسی شہر کے یا پڑوس کے گاؤں کے نہیں ہوتے تھے بلکہ دور دراز کے شہروں سے بھی آتے تھے۔ جنہیں ریل یا بس سے آنا پڑتا تھا۔ اس کے بارے میں مختلف لوگوں نے لکھا بھی اور کہا بھی لیکن ملک کے اس وقت سب سے بزرگ صحافی کلدیپ نیر نے تو لکھ دیا تھا کہ مودی صاحب کے لئے مجمع اکٹھا کرنے پر پانچ لاکھ کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے۔ چند مہینے پہلے بہار میں الیکشن ہورہے تھے۔ وزیر اعظم کی ہر تقریر میں لاکھ سے زیادہ مجمع لایا جاتا تھا اور بار بار ذکر آیا کہ دوسرے ضلع سے نہیں دوسرے صوبوں سے بسیں بھربھرکر لائی گئی تھیں اور ان بسوں کی وجہ سے ہر اس شہر میں دن بھر جام لگا رہتا تھا۔ جہاں مودی صاحب کی ریلی ہوتی تھی۔ بی جے پی کے ٹھیکیداروں کو اس سے مطلب نہیں تھا کہ جو لائے جارہے ہیں ان کا ووٹ ہے بھی یا نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جب مقامی ووٹر دیکھیں گے کہ بی جے پی کے امیدوار کے نیتا کی تقریر سننے کے لئے لاکھوں آدمی آئے ہیں۔ تو وہ بی جے پی کو ہی ووٹ دے دیں گے۔ بہار کے بدترین نتیجے کے بعد بھی اگر بی جے پی کے ورکر وہی کریں اورمودی صاحب بھی اپنے کو اسی طرح جہلا ناپسند کریں تو اپنا برا بھلا وہ جانیں۔ لیکن پھر اگر انجام بھی بہار جیسا ہو تو اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اُترپردیش میں بی جے پی کی حالت برسوں سے خستہ ہے ضرورت اس کی تھی کہ بریلی شہر میں جس جس ذریعہ سے اعلان کرایا جاسکتا تھا کرایا جاتا جیسے اٹل جی کے لئے اعلان ہوا کرتا تھا کہ اٹل بہاری بولے گا۔ سارا بھارت ڈولے گا۔ یا اٹل بہاری بول رہا ہے اور سارا بھارت ڈول رہا ہے۔ اور اس کے بعد دیکھتے کہ مجمع کتنا ہوتا ہے؟ اس کے بعد حکمت عملی تیار کرتے۔ لیکن جب اخبار مزہ لے لے کر چھاپیں کہ ریلی میں لانے کے لئے فی مزدور چار سو روپئے طے کئے گئے تھے اور بعد میں انہیں صرف سو سو روپئے دیئے گئے اور جب وہ شور مچانے لگے کہ ہم چار چار سو لیں گے تو بی جے پی کی خاتون لیڈر ریتو چودھری نے دھمکی دی کہ میں ابھی اپنے کپڑے پھاڑکر شور مچا دوں گی کہ مزدور منھ کالا کرنا چاہ رہے تھے اور اس کے بعد وہ غریب مزدور سو سو روپئے لے کر ہی روتے ہوئے چلے گئے۔ کیا وہ وزیر اعظم نریندر مودی جن کے کاندھوں پر 125 کروڑ کو سکھ چین دینے کے لئے حکومت کا بوجھ بھی ہے اور اس کے ساتھ آر ایس ایس اور پوری بھاجپا کا بھی بوجھ ہے۔ انہیں اندھیرے میں رکھنا مقامی لیڈروں کی وفاداری ہے یا پارٹی سے دشمنی؟ ایک سال کے بعد بریلی میں الیکشن ہوں گے اس کا ٹکٹ لینے کے لئے یہ حرکتیں کی جارہی ہیں۔ اور یہ صرف بریلی میں ہی نہیں ہوگا ہر شہر اور ہر تحصیل میں بھی یہی ہوگا۔ اب یہ مودی صاحب کے سوچنے کی بات ہے کہ اس بھیڑ کو دیکھ کر خوش ہونا چاہئے یا۔ چار سو روپئے فی مزدور دے کر لائی جانے والی بھیڑ کے ذمہ داروں کو پارٹی سے نکال دینا چاہئے؟ مودی صاحب نے بریلی کی ریلی میں وہی انداز اختیار کیا جو وہ ہر جگہ کرتے ہیں کہ ہر مقام سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہہ دیا کہ وہ گجرات میں جب پتنگ اُڑاتے تھے تو مانجھا بریلی کا ہوتا تھا۔ ہم نے گجرات میں پتنگیں اُڑتی ہوئی دیکھی ہیں۔ وہاں کہیں سے کہیں تک سدی مانجھا اور کاٹم کاٹ والی پتنگیں نہیں اُڑتیں۔ بس وہ ایک رسم ہے جس میں سارا زور خوبصورتی پر ہوتا ہے۔ اس میں مانجھا کہیں نہیں استعمال ہوتا۔ رہا جھمکا یا سرمہ۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہر کسی کو معلوم ہیں۔ اور یوں بھی کسان ریلی تھی اور کسانوں کو نہ مانجھا چاہئے نہ سرمہ۔ وزیر اعظم نے 2022 ء کہہ کر اور بعد میں وزیر مالیات نے اس کی تصدیق کرکے ثابت کردیا کہ وہ جو چار فصلیں برباد ہوگئیں اس پر توجہ کرنا چاہئے۔ اور بی جے پی لیڈروں نے اسے کانگریس کی بے وقوفی قرار دیا کہ کسانوں کا آٹھ ہزار کروڑ کا قرض انہوں نے معاف کردیا۔ عقلمندی یہ ہے کہ اب سڑکیں بنیں گی۔ تالاب کھودے جائیں گے۔ بجلی آئے گی۔ رہی یہ بات کہ چھ برس تک کیا ہوگا؟ اس کی فکر اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ ہر کوئی اولاد کے لئے کرتا ہے اور اولاد کے بڑے ہوتے ہوتے 2022 ء آجائے گا۔ اب تک وزیر اعظم 2022 ء تک ہر کسی کے سر پر چھت اور مکان دینے کی بات کرتے تھے اب کسان کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی خوشخبری سنانے لگے اور وہ جو ہر گھر میں فلیش کی مہم چلی تھی اس کا نہ جانے کیا ہوا کہ اقتصادی جائزہ میں تسلیم کرنا پڑا کہ 61 فیصدی سے زیادہ انسان آج بھی کھلے میں رفع حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ اور بیت الخلاء کا دیہاتوں میں رواج آج بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ وزیر اعظم نے 18 مہینے تو یہ کہہ کر گذار دیئے کہ وہ ایک چائے والے اور چائے والے کے بیٹے ہیں۔ اب انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ وہ کسان ہیں۔ اس سے پہلے ان کے کسان ہونے کی بات ان کے منھ سے کم از کم ہم نے نہیں سنی تھی۔ سیاسی مبصر کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے پیش نظر اس سال اور اگلے سال ہونے والے صوبائی الیکشن ہیں۔ اور یہ مشہور ہے کہ آر ایس ایس کی دیہاتوں میں پکڑ نہیں ہے اس لئے اب مودی صاحب صرف کسانوں کی بات کررہے ہیں۔ اور اس لئے انہوں نے 2022 ء کو پکڑ لیا ہے کہ 2019 ء کے پارلیمانی الیکشن بھی ہوجائیں اور اُترپردیش کا 2022 ء کا الیکشن بھی ہوجائے۔ ہم اپنے ملک کو دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار کرتے ہیں لیکن جو چیز انسانیت کا نشان ہے اس کی پردہ پوشی کرنے کے بجائے کھیتوں میں، تالابوں کے کنارے، ریل کی پٹریوں کے پاس اور میدانوں میں اس کی نمائش کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ ہم پوری دنیا میں سب سے پسماندہ ہیں۔ دنیا کا سب سے پچھڑا ہوا ملک کینیا (افریقہ) میں بھی صرف 15 فیصدی باشندے کھلے میں فراغت کرتے ہیں۔ اور ایشیا کے ملکوں میں بنگلہ دیش جو انتہائی غریب ہے اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے بھی نجات پالی۔ شری لنکا بھی پردہ میں آگیا اور نیپال و پاکستان میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جو کھلے میں فراغت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان کی کسی حکومت نے اسے جنگی پیمانے پر اپنا موضوع نہیں بنایا۔ اور دنیا میں سب سے زیادہ جانور ہم ہی رہ گئے۔ یعنی 61 فیصدی۔ ہمارے ایک دوست جو گونڈہ کے نیپالی سرحد کے پاس لکھوری نام کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ بہت باحیثیت تھے اور اس زمانہ میں سواری کے لئے ہاتھی تھا۔ ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ اس رواج نے دیہات کی کسی لڑکی کو کنوارہ نہیں رہنے دیا ہے۔ گاؤں میں صفائی مزدور ہیں۔ لیکن بڑے گھروں کی صفائی کرتے ہیں۔ چھوٹے اور غریب لوگ گھروں میں پیخانہ بنانا ہی نہیں چاہتے۔ یہ تو غربت اور جہالت کی بات ہے۔ لیکن یہ پڑھنے کے بعد کہ کھلے میں رفع حاجت سے جراثیم پھیلتے ہیں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ پھر گاندھی جی نے سابرمتی آشرم میں کیوں کسی بھی طرح کا بیت الخلاء نہیں بنوایا؟ اور جو جاتا تھا اسے بتایا جاتا تھا کہ یہ کھرپی ہے اور یہ پانی کی لٹیا ہے۔ قریب کے کسی کھیت میں جاکر چھوٹا سا گڈھا کھودیئے اور فراغت کے بعد اس پر مٹی ڈال دیجئے۔ اپنا تو جانا نہیں ہوا لیکن جو جاتے تھے وہ تفصیل بتاتے تھے۔ معلوم نہیں وہاں مہمانوں کے لئے کسی نے کوئی نیا طریقہ کیوں نہیں سوچا؟ بہرحال اب اتنا تو نشانہ مقرر کرنا چاہئے کہ دنیا میں سب سے زیادہ غیرمہذب اور گنوار کا داغ دُھل جائے۔ مودی سرکار کے 21 مہینوں میں بہت کچھ ہوسکتا تھا اگر وزیر اعظم پٹری بدلنے کے بجائے شوچالیہ  پر جمے رہتے۔ فون نمبر: 0522-2622300