فسطائیت کا گھناؤنا چہرہ۔۔۔ہجوم کے ہاتھوں"انصاف اور قتل "کا نیا سلسلہ! ۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

04:50AM Fri 7 Jul, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  haneefshabab@gmail.com آج ہندوستانی سیاست نے جو رخ اختیار کیا ہے اور اکثریتی فرقے کی ایک مخصوص فکر اور سوچ نے اقلیتوں کے خلاف جبر و استبداد کا جوبازار گرم کر رکھا ہے ، اور اس پر امن و انصاف کی فضا چاہنے والے اپنی خواہش اور کوشش کے باوجود روک لگانے کے سلسلے میں جس طرح بے بس اور لاچار ہوگئے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ بالآخر یہاں جمہوریت پر فسطائیت غالب آتی جارہی ہے۔اب اس فسطائیت کا عروج یہ ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں "انصاف اور قتل "کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو فاشزم کا ایک سیاہ اور گھناؤنا چہرہ ہے۔ایسے میں جمہوریت کی آس پر جینے والے عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ: غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں نویدِ امن کے سورج کو ڈھونڈتے ہوئے دن فاشزم کیا ہے ؟: فاشزم یا فسطائیت کی توضیحات مختلف مفکرین اور ماہرین سماجیات وسیاسیات نے مختلف طریقوں سے کی ہے۔ منجملہ اس کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک انتہا پسندانہ،تنگ نظر، متعصب غیر متحمل اور عدم روادا ری پر مبنی انداز فکرideology، تحریکmovement ، رجحان tendencyہے اوراس کے تحت قائم ہونے والانظام حکومت ہے دائیں بازو right wing گروہوں کی شاونیتchauvinismیعنیnationalism aggressive جارحانہ یا جنگجویانہ وطن پرستی یا پر مبنی ہوتا ہے۔ اس فاشسٹ نظام حکومت کے زمرے میںآمرانہ/dictatorial authoritarian،نسل پرستانہracist اور پروہت پرستانہ/ پیشوائی hierarchical نظام ہائے حکومت بھی آتے ہیں۔مطلق العنانیت despotism،یک حِزبی ؍ ہمہ گیرحکومت totalitarianism کہلاتی ہیں۔ فاشزم کی اناٹومی: برٹش ڈکشنری کے مطابق فسطائیت کی تعریف یوں ہے : ایک ایسا نظریہ یا تحریک جو اٹالین فاشزم یا جرمن نیشنل سوشلزم سے متاثر ہو۔ دائیں بازو کی تحریک یا نظریہ جو آمرانہ یا پروہت شاہی والاطرز حکومت پر مبنی ہو۔جس کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ وہ جمہوریت اور شخصی آزادی libertyکا کٹر مخالف ہوتا ہے۔اس لفظ کی بنیاد اطالوی زبان کے fascismoپر ہے اور یہ لفظ0 192سے انگریزی لغت میں مستعمل بتایا جاتا ہے۔فاشزم کی مزید تشریح کرتے ہوئے رابرٹ او پیاکسٹن "دی اناٹومی آف فاشزم " میں لکھتا ہے کہ: "یہ ایک جنونی سیاسی رویہ ہے جس میں جمہوریت اور شخصی آزادی کو طاق پر رکھتے ہوئے کچھ متحدہ گروہ یا فرقے اپنی قوم کے خلاف ماضی میں ہوئے مفروضہ ظلم و ستم اور تذلیل کا حساب چکانے کے لئے بطورکفارہ تشدد violence redemptive کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کسی بھی قسم کے اخلاقی ضابطے یا قانون کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ " فاشزم کا آغاز: اس سیاسی نظام کا آغاز1920 میںیوروپ میں ہوا اور جرمنی کے ایڈولف ہٹلر، اٹلی کے مسولینیBenito Mussolini اور اسپین کے فرانسسکو فرانکو Francisco Francoکی سرپرستی میں دوسری جنگ عظیم تک پھلا پھولا اور ان ممالک نے فاشسٹ اسٹیٹس کے طور پر اپنی پہچان بنالی۔فسطائی حکومتوں کی شناخت اس طرح ہوتی ہے کہ اس پر آمروں dictatorsکا قبضہ ہوتا ہے جو عام طور پر اپنے اندر ایک کرشماتی شخصیت کی جھلک پیش کرتے ہیں۔وہ اپنی طرف متوجہ کرنے والے اور ٹھاٹ بھاٹ والے showyلباس زیب تن کرتے ہیں۔اپنے حامیوں کی بڑی بڑی ریالیاں کرکے ان سے کٹر وطن پرستیstrident nationalism کی اپیل کرتے ہیں اور غیر ملکیوں یا اپنے ملک میں ہی موجود دوسرے طبقوں کو "ناپاک"قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف شکوک و شبہات اور نفرت کو ہَوا دیتے ہیں۔جیسے کہ جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کے خلاف کیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ مسلمانوں کے لئے کٹر ہندتووادی "ملیچھ" یعنی ناپاک ، وحشی اور غیرملکی کی اصطلاح ہی استعمال کرتے ہیں! سابق امریکی صدر کی تنبیہ: اٹلی کے ڈکٹیٹرمسولینی نے بیسویں صدی کے بارے میں کہا تھا کہ" ہم یہ ماننے کے لئے پوری طرح آزاد ہیں کہ یہ آمریت کی صدی ہے ، دائیں بازو کی سوچ کی طرف جھکتی ہوئی صدی ہے یہ (عوام کی نہیں) حکومت کی صدی ہے اور یہ فاشسٹ صدی ہے۔"جبکہ سابق امریکی صدر فرانکلین ڈی روزویلٹ(1923 -1945ء )نے فاشزم پر مختصر مگر جامع ترین تبصرہ کرتے ہوئے تنبیہ کی تھی کہ" اولین سچائی یہ ہے کہ اگر عوام نجی سوچ والے گروہوں کی طاقت اور اقتدار کے فروغ کو اس حد تک بڑھنے دیں گے کہ وہ جمہوری حکومت سے زیادہ مضبوط اور مستحکم تو پھر ایسے میں جمہوری آزادی محفوظ نہیں رہ سکتی۔حکومت کے معاملات پر کسی فرد یا گروہ یا کسی دوسری نجی قوت کا کنٹرول ہونااور حکومت ان کی ملکیت بن جانا ہی فاشزم ہے!" تو کیا ہندوستان میں فسطائیت غالب آگئی!: فسطائیت کے تعلق سے مندرجہ بالا تشریحات کے بعد ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت پر بہت بڑی حد تک فسطائیت غالب آگئی ہے۔کیونکہ آر ایس ایس کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے ایک بے لوث رضاکارسے ترقی کرتے کرتے وزیر اعظم کے طور پرنریندرمودی نے جس دن سے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی ہے تب سے آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی تدبیریں بے روک ٹوک جاری ہوگئی ہیں۔اور ہندوراشٹرا کا نظریہ اور اس کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لینے پر بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ یہ فسطائی سوچ اور عمل پر ہی مبنی نظریہ ہے۔اس کے علاوہ آر ایس ایس کے قائدین کی ہٹلر اور مسولینی کے نظریات سے الفت اور قربت کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے ۔

جمہور نوازی کا دعویٰ تو زباں پر ہے تیور میں ہے چنگیزی ، انداز میں دارائی

فسطائیت کے عام مظاہر: فسطائی دورِحکومت کے جو اہم مظاہر ہیں اس میں حکمراں پارٹی اور اس کے کارکنان کی طرف سے اپنے مقصد کی تشہیر کے لئے جھوٹا پروپگنڈہ کرنا، حکمراں ٹولے کے نظریات کو عوام پر ٹھونسنے کے لئے جنونی حمایتی گروہوں کی طرف سے دھڑلّے سے امن و قانون کی دھجیاں اڑانا،سرکاری سطح پر اپوزیشن پارٹیوں کو حاشیے پردھکیلتے ہوئے یکطرفہ فیصلے صادر اور نافذ کرنا،اپنے نظریے سے اختلاف رکھنے والوں کو قوم دشمن اور غدارقرار دے کر انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کرنا،سرمایہ دار اور تجارتی گھرانوں کے مفاد پورے کرنے والے اور کمزور طبقات کے حق میں نقصان دہ معاشی فیصلے کرنا،ہر مسئلے کوحب الوطنی سے جوڑتے ہوئے عوام میں بھرم قائم کرنا، میڈیاکو خریدنا اور اپنے حق میں استعمال کرنا، میڈیا کا جو طبقہ بھی سرکار اور حکمراں پارٹی پر تنقید کرے اس کی آواز دبانا اور اسے قوم دشمنوں کے زمرے شامل کرنا، میڈیا پر بالواسطہ سنسر شپ اور عوام کے لئے غیر معلّنہ ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کرنا وغیرہ شامل ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں انصاف اور قتل!: اور دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ہمارے ملک میں سرکاری طور پر مذکورہ بالا تمام باتیں عملاً رونما ہوچکی ہیں۔اس طرح موجودہ حکمران ٹولے کے چہرے ، چال اور چرتر کے ہر ہر زاویے سے فاشزم پوری طرح جھلکتا نظر آرہا ہے۔ یہ ٹولہ اپنے ہمنواؤں کی بھیڑ کو جس قسم کے جنون میں پہلے سے مبتلا کرچکا تھا ، اس کے اثرات ملک کے کونے کونے میں ظاہر ہونے لگے ہیں، جس میں عوام کے ہاتھوں قانون کے ساتھ کھلواڑ اور بے خوفی کے ساتھ کھلے عام پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کے ساتھ"انصاف اور قتل "کے ذریعے اقلیتوں کو دہشت میں مبتلا کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوگیا ہے ،(جس کے لئے mob lynchingکی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے) وہ فاشزم کا انتہائی سیاہ اور گھناؤنا چہرہ ہے۔حالانکہ اس جارحانہ رویے کے خلاف ملک بھر میں ایک نئی عوامی لہر #NotInMyname "میرے نام پر نہیں"کے عنوان سے بڑی تیز رفتاری سے چل پڑی ہے ، لیکن فاشزم کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا اضطراب اس سے بہت زیادہ کم نہیں ہورہا ہے کیونکہ ایسی تحریکوں کوطاقت کے جارحانہ استعمال سے پسپا کرنا بھی فاشزم کی پالیسی اور پروگرام کا ایک حصہ ہوتا ہے۔لہٰذا گزشتہ چند مہینوں کے دوران اقلیتوں کے خلاف بھگوا بریگیڈ کی پرتشدد کارروائیاں اور mob lynchingپر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے آنے والے دنوں کی تصویر مزید بھیانک بن کر سامنے آتی ہے ۔

یہ خزاں کی ایک جھلک ہی تھی نہ ہوں غافل اہلِ چمن ابھی کہ بلا تمام نہیں ہوئی ، فقط ایک رقصِ شرار تک

( ۔۔۔ mob lynching۔۔پر اجمالی نظر۔۔۔۔سلسلہ جاری ہے۔۔۔ آئندہ قسط ملاحظہ کریں۔)