سچی باتیں۔۔۔ مادری زبان۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:28PM Thu 21 Jan, 2021

1927-02-02

’’مردہ اور زندہ قوموں کی مثالیں سب آنکھوں کے سامنے ہیں۔اگر عربؔ اپنی ترقی کے عہد مین یونانی کو ذریعہ تعلیم بناتے، اور یورپؔ کی قومیں اپنی زبانون کو چھوڑ کر لاطینی میں تعلیم دیتیں، اور جاپانؔ انگریزی کے ذریعہ اپنے مُلک میں اعلیٰ تعلیم کا رواج دیتا، تو کیا وہی نتائج ہوتے، جو آج ہم دیکھ رہے ہیں؟ غیر زبان میں، غیر ماحول میں، غیر اصطلاحات میں جو تعلیم دی جائے گی، وہ بھی غیر ہی ہوگی، اپنی نہیں ہوسکتی‘‘۔ (مولانا سید سلیمان ندوی، دررسالۂ معارف، بابت دسمبر ۱۹۲۶ء) یہ خیالات آپ کوصداقت پر مبنی نظرآتے ہیں؟ اِن الفاظ میں آپ کو سچائی کی جھلک نظر آتی ہے؟ یا یہ آپ کے لئے محض اس لئے ناقابل قبول رہیں گے، کہ ان کا لکھنے والا مغرب کے کسی دار العلم کا سند یافتہ نہیں؟ کسی انگریزی کالج یا یونیورسٹی کا عہدہ دار نہیں؟ کیا اتنی صاف اور واضح حقیقت بھی آپ کے نزدیک کسی طویل استدلال کی محتاج ہے؟ کیا اتنی کھُلی ہوئی اور موٹی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی؟ پھر یہ کیاہے، کہ ڈیڑھ سو برس سے آپ کو اپنے ملک میں اسی غیر ملکی تعلیم کا تجربہ ہورہاہے، اور پھر بھی آپ کا جی نہیں بھراہے؟ ڈیڑھ صدی ہوگئی، کہ اپنے دیس میں رہ کر آپ پردیسی بنے ہوئے ہیں، اور اپنے بچوں کو اپنی اور ان کی بولی میں ’’علوم وفنون‘‘ سِکھانے میں آج تک ہچکچارہے ہیں! اپنے علوم آپ کی نظر میں حقیر، اپنے فنون آپ کی نگاہ میں قابل تحقیر، اپنے ہاں کے مصنفین آپ کے خیال میں بے وقعت، اپنے ہاں کی کتابین آپ کے نزدیک خرافات، سب سے بڑھ کر کمال یہ کہ خود اپنی زبان سے آپ کو وحشت، اور اپنی آواز سے آپ کو نفرت ! اس کے بعد بس یہی ایک درجہ باقی رہ جاتاہے، کہ اپنی صورت سے بھی آپ کو دہشت ہونے لگے، ورنہ غلامانہ ذہنیت کی ترقی وکمال کے اور سارے مراتب تو طے ہی فرمائے جاچکے ہیں! فرعونؔ کے زمانہ میںبنی اسرائیل کے خدامعلوم کتنے معصوم بچے تلوار کے گھاٹ اُتر گئے، لیکن اس ظالم وجابر کے زمانہ میں بھی، بنی اسرائیل کی ذہنیت اس قدر مسخ نہیں ہوئی تھی، کہ انھیں خود اپنی قوم، اپنے مذہب، اپنی تاریخ، اپنے علوم، اپنی زبان، غرض اپنی ’’اسرائیلیت‘‘ باعثِ شرم نظر آنے لگے! برطانیہؔ کو اگر یہ فخر حاصل ہے، کہ وسعتِ اثر، احاطۂ حکومت، اور شاطرانہ سیاست کے لحاظ سے بساطِ کائنات پر اس کا کوئی مد مقابل نہیں، تو ہم اہل ہند کی غیرت بھی اپنے اس شک میں کسی کو شریک نہیں دیکھ سکتی، کہ دماغی مرعوبیت، اور غلامانہ ذہنیت کو اس کی انتہا تک پہونچانے والے ہم ہی ہیں! ’’اپنے‘‘ علوم کو چھوڑ کر ’’ان کے‘‘ علوم آپ نے اس لئے حاصل کرنا شروع کئے تھے، کہ ’’دین‘‘ اگر بگڑتاہے، تو بگڑے، پر ’’دنیا‘‘ تو سنبھل جائے۔ لیکن کاش اسی خواب کی تعبیر پوری ہوئی ہوتی! دین اگر کھویا تھا، تو کاش دنیا ہی کچھ سُدھری ہوتی! انگریزی مدرسہ کا ہندوستانی طالب علم اپنی زبان بہ آسانی بھُلادیتاہے، لیکن اس آسانی سے وہ انگریزی زبان نہیں سیکھ پاتا۔ ہمارے بیشمار ہموطن جو اپنی جوانی ہی نہیں، ساری ساری زندگانی انگریزی زبان اور انگریزی علوم کے سیکھنے میں ختم کردیتے ہیں، اُن میں سے کتنے ایسے نکلتے ہیں، جن کی انگریزی دانی اور مہارت علوم انگریزی کو خود انگریز تسلیم کرتے ہیں؟ مستثنیات کا ذکر نہیں، سوال عام حالت سے متعلق ہے؟ یہ واقعات روزمرہ آپ کے مشاہدہ وتجربہ میں آتے رہتے ہیں، ان پر غور کرنے کے بعد آپ کی طرزِ عمل میں تبدیلی کا دن بھی آخر کبھی آئے گا؟ یا فرنگی زبان، فرنگی علوم، فرنگی درس گاہوں کے ساتھ آپ کی محبت وعقیدت خدانخواستہ ہمیشہ اسی طرح باقی رہے گی؟ الہ آباد کا پیر ظریف اپنے مخصوص رنگ میں کیا خوب کہہ گیا ہے ؎ مرزا غریب چُپ ہیں اُن کی کتاب ردّی بُدّھو اکڑ رہے ہیں، ’’صاحب‘‘ نے یہ کہا ہے! کیا یہ محض دل لگی ہے؟ کیا اس ہنسی کی بات پر آپ کا دل نہیں روتا؟