ہماری غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

01:17PM Tue 2 May, 2017
ممتاز صحافی سہیل انجم ایک ایسے دوست ہیں جن کی دوستی قابل فخر ہے۔ وہ آج کے ان چند صحافیوں میں ہیں جو اُردو صحافت پر چھائے ہوئے ہیں۔ مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کی وہ مہم جو بنگال میں بی جے پی نے لوجہاد کے جواب میں چلائی ہے۔ اس کی رپورٹ پر انہوں نے فکر کا اظہار کیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان کو وہ چاہے جس پیشے سے وابستہ ہو اس خبر سے تکلیف ہوگی۔ لیکن ہندوستان ایک ملک کے بجائے ایک چھوٹی سی دنیا ہے اور مختلف علاقوں کے اپنے اپنے حالات ہیں۔ مغربی بنگال وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں میں غربت اور جہالت سب سے زیادہ ہے۔ اس علاقہ میں اکثریت ایسے مسلم خاندانوں کی ہے جو نہیں جانتے کہ اگر مسلمانی نام ہیں تو اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اور یہ ہماری کمزوری ہے کہ آزادی کے بعد اپنے کو بچانے میں ہی ساری صلاحیت کام آجاتی ہے دین کو بچانے کا وقت اور وسائل کہاں سے لائیں؟ لوجہاد کی مہم وہاں چلائی گئی تھی جہاں ہر درمیانہ طبقہ کے ہندوگھر میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ وہ رکشے اور ٹھیلے والے سے شادی کر نہیں سکتیں اور جو اُن کے قابل یا برابر ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ اب تک لڑکے کی پرورش تعلیم اور دوسرے معاملات میں جتنا خرچ ہوا ہے وہ تو نقد دے دیجئے اور اس کے بعد جو لڑکی کو دینا ہے وہ بتایئے کیا کیا ہے؟ میں نے ایک ایسے گھر میں ایک ہندو لڑکی کو آتے ہوئے دیکھا ہے جس کی زندگی کی کہانی اور اس کی آمدنی کے ذریعہ کے بارے میں لکھ دوں تو سہیل انجم اس لئے معاف نہیں کریں گے کہ یہ تفصیل مجھے کیسے معلوم ہوئی؟ بس اتنا سن لیجئے کہ حرام ذرائع میں جو سب سے زیادہ حرام اور گھناؤنا ذریعہ ہوسکتا ہے وہ ذریعۂ معاش تھا مگر اکلوتے بیٹے کو انگلش میڈیم اسکول میں پڑھایا دماغ اس بچہ کا کلاس میں سب سے تیز تھا۔ اچھے اچھے گھر کی لڑکیاں اس سے پڑھنے آتی تھیں اور ان میں سے ہی ایک ٹنڈن برادری کی بہت خوبصورت لڑکی نے اس سے شادی کرلی اور ایک آواز بھی مخالفت میں نہیں اُٹھی ورنہ وہ سماجی اعتبار سے اتنا کمزور گھرانہ تھا کہ سپاہی تو بہت بڑی چیز ہے ہوم گارڈ کا چپراسی بھی پورے گھر کو چاہتا تو بند کرادیتا۔ اور یہ بھی آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ ایک بہت بڑے خاندان کے میرے دوست کے لڑکے کی کسی ہندو لڑکی سے دوستی ہوئی اور پھر ملنا جلنا اتنا بڑھا کہ ایک دن میری موجودگی میں وہ لڑکی آئی اور ہم لوگ جو سامنے بیٹھے تھے ان کو نمستے کرتی ہوئی اوپر زنانہ حصہ میں چلی گئی۔ چند منٹ کے بعد لڑکا آیا اس نے کہا پاپا گیتا گھر چھوڑکر چلی آئی ہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے ممی کو بتا دیا ہے۔ یہ سن کر میں نے ہی اسے ایک دوست کے ہوٹل میں بھجوایا اور سمجھایا کہ کیوں اپنی عزت نیلام کرنا چاہتے ہو؟ بعد میں تھانہ اور پولیس سب ہوا لیکن وہ دونوں دہلی جاچکے تھے اور گھر والے بھی برادری کو دکھانے کے لئے شور مچا رہے تھے ورنہ پانچ لاکھ دہیج کے لئے کہاں سے لاتے اور کوٹھی کار والا گھرانہ تب بھی نہ ملتا۔ آج جیسا عیش وہ کررہی ہے اس کی کسی بہن کو نصیب نہیں۔ سہیل انجم صاحب مذہبی خاندان کے مذہبی آدمی ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ نہ جانے کتنے مسلمان ایسے ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی جیسے ہیں ان کی تفصیل کیا لکھی جائے۔ مسلمان اگر مسلمان ہے تو اسے معلوم ہے کہ ایک دن مرنا ہے اس کے بعد یا تو دہکتا ہوا جہنم ہے یا ایسی حسین دنیا ہے اور وہ سب ہے جو کھایا تو کیا دیکھا اور سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اور اگر مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہماری کوتاہی سے اسے کچھ نہیں معلوم تو وہ مسلمان کیا اور ہندو کیا؟ پورے ملک کا ہندو یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ مرکزی حکومت میں دو وزیر ہیں اور دونوں کی بیوی ہندو ہیں۔ ان سے پہلے بھی شاہ نواز حسین وزیر تھے یا اور پہلے سکندر بخت تھے تو ان کی بھی بیوی نہیں دھرم پتنیاں تھیں۔ اور ایک زمانہ میں جب اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں تو انہوں نے مہاراشٹر میں عبدالرحمن انتولے، بہار میں عبدالغفور، راجستھان میں برکت اللہ چوہان اور آسام میں انورہ تیمور کو زیر اعلیٰ بنایا تھا۔ اس وقت مرکز کے ایک مسلمان وزیر نے مجھ سے کہا تھا کہ اندرا گاندھی کو وہ پسند ہیں جن کی بیویاں ہندو ہوں یا شوہر ہندو ہو۔ اس وقت بھی انورہ تیمور کے علاوہ سب کی دھرم پتنیاں تھیں۔ اگر لوجہاد کا حساب برابر کرنا ہے تو حکومت میں چہرے تبدیل کرنا پڑیں گے۔ بی جے پی بہار اور بنگال کو اُترپردیش جیسا بنانا چاہتی ہے اور ان دونوں صوبوں میں وہ ہزاروں کروڑ پھونک دینا چاہتی ہے۔ اور یہی بی جے پی ہے جس کی سب سے زیادہ بری حالت جنوب میں تمل ناڈو میں ہے کہ نہ اسمبلی میں آواز ہے اور نہ پارلیمنٹ میں۔ اور اس وقت جیسا سوکھا وہاں پڑا ہے اور وہاں کے کسان جنترمنتر پر اس سڑی گرمی میں ننگے پڑے ہیں انہیں مودی گلے سے لگالیتے لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہاں دال نہیں گلے گی اس لئے اس طرف رُخ نہیں کرتے اور بنگال میں ساری طاقت جھونکے ہوئے ہیں اس مہم میںیہ بھی ہے کہ ممتا بنرجی کی طاقت عورتیں اور مسلمان ہیں ان میں سے مسلمان کم کردو۔ اور ہم بھی سمجھ رہے ہیں کہ کچھ اثر ہوگا لیکن اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جتنا انجم صاحب ہورہے ہیں۔ مسلمانوں نے ایک غلطی ایسی کی ہے کہ اب اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سب سے پہلے عرب سے مسلمان آئے تو کیرالہ کے ساحل پر اُترے اور پھر آنے جانے کا ایسا سلسلہ قائم ہوا اور قیام کے دوران انہوں نے جو اسلام کا تعارف کرایا وہ دلوں میں اُتر گیا اور چھ فٹ کے عربوں سے ساڑھے چار فٹ کی لامذہب لڑکیوں نے شادی کرنا شروع کردیں۔ ان عربوں سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ رُکے نہیں انہوں نے کلمہ پڑھواکر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور موٹی موٹی باتیں بتادیں وہ اسلامی طرز زندگی جو اُن کے پاس تھا اس سے وہ ناواقف رہیں۔ اور پھر ہم جیسے ترک جو روس ترکستان سے آئے یہی غلطی انہوں نے کی اور یہی غلطی ان سے ہوگئی جو اس کے بعد شادی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورتوں میں مزار کا تقریباً وہی مقام ہے جو مندر کا تھا۔ جبکہ مردوں میں کم ہے۔ اور وہ رسمیں جو انہوں نے نانی دادی کو کرتے دیکھا وہ بھی عورتوں کے ذہن میں رہ گئیں۔ جیسے مرنے کے بعد فاتحہ، تیجا، دسواں، چالیسواں اور پھر برسی۔ یا مغربی اضلاع میں آج بھی شادی میں جہیز پھر شادی کے بعد چوتھی اور چالا پھر گود بھرائی اور پھیرے۔ یہ سب ان مردوں کی کوتاہی ہے اور کچھ اس کا اثر ہے کہ دوسرے ملکوں سے جو مسلمان آئے وہ یہ تہذیب لے کر آئے کہ مرد گھر کے باہر اور عورتیں اندر۔ اور ہم مردوں نے رسموں کو ختم کرنے کی ایسی کوشش نہیں کی جیسی روزہ نماز کی یا افطار و سحری کی اس کا نتیجہ ہے کہ جاہل مسلمان عورتیں نہیں سمجھ پائیں کہ ہم مسلمان تھے تو کیا تھے اور ہندو بن کر گیتا اور کملا بن گئے تو کیا ہوگیا؟ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ فکر کی بات نہیں ہے۔ بس فکر یہ ہے کہ ہم اب تک ہر جگہ حکومت سے ٹکرا رہے ہیں اور تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں اور یہ بھی ہندو دھرم سے نہیں ہندو حکومت سے ٹکراؤ ہے اور یہاں کے حالات نے سب کو باندھ رکھا ہے۔ پھر بھی کوشش اور دعا جیسی ہوسکے کرنا چاہئے۔ Mobile No. 9984247500