مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ۔ برصغیر میں اسلامی کی اولین کرنوں کے امین۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری


ہندوستان میں اسلام کی ہزار سالہ تاریخ کا ذکر ہو اور مولانا قاضی اطہر مبارکپوری یاد نہ آئیں، یہ کیونکر ممکن ہے۔ آپ نے عمر عزیز کی اسّی سے زیادہ بہاریں دیکھیں، اور زندگی کا ایک وافر حصہ تحقیق وجستجو میں صرف کر کے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
قاضی صاحب کا نام پہلے پہل کب سنا تھا یہ کہناہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ جب شعور نے آنکھیں کھولیں اور حرفوں کی کچھ شدبد ہونے لگی تو البلاغ بمبئی کے شماروں پر تایا مرحوم الحاج محی الدین منیری صاحب کے نام کے ساتھ آپ کا بھی نام نظر آیا، اور جب اس کی کچھ کچھ عبارتیں سمجھ میں آنے لگیں تو آپ کے شذرات کا میں مستقل قاری بن گیا، اور یہ سلسلہ اسّی کی دھائی میں اس پرچے کے بند ہونے تک جاری رہا۔تایا مرحوم اس مجلہ کے مدیرمسؤل تھے اور قاضی صاحب اس کے مدیر تحریر، یہ مجلہ انجمن خدام النبی بمبئی کا تر جمان تھا۔ تایا مرحوم کے پچاس کی دھائی میں انجمن خدام النبی ﷺ سے منسلک ہونے کے بعد ہی اس کا آغاز ہوا تھا، اور جب آپ نے بھٹکل میں مستقل سکونت اختیار کی اور یہاں کے اداروں کو اپنی جدو جہد اور دلچسپیوں کا مرکز بنایا تو کچھ عرصہ بعد اس نے بھی دم توڑ دیا۔ یہ پرچہ قاضی صاحب کے اہل بھٹکل کے ساتھ عمومی اور ہمارے خاندان کے ساتھ خصوصی لگاؤ کا باعث تھا۔
ویسے قاضی صاحب صرف البلاغ کی ادارت کی وجہ سے متعارف نہیں تھے۔ بلکہ آپ شمالی ہند کے مردم خیز قصبہ مبارکپور کے ایک ایسے خاندان کے رکن رکین تھے جو عرصہ تک منصب قضاء پر فائز رہا تھا۔ اس خاندان میں قلمی مخطوطات اور نادر کتابوں کو جمع کرنے کا شوق مدت سے چلا آرہا تھا۔اور اس میں نامور وں کی کوئی کمی نہیں تھی۔
قاضی صاحب خود بھی ایک جید عالم تھے۔ آزادی سے قبل آپ کی فراغت مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد سے ہوئی تھی۔ جہاں آپ کو اپنے دور کے عالم اجل شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدینؒ کی شفقتیں اور عنایتیں نصیب ہوئی تھیں۔آ پ بعد میں شیخ الا سلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی رحلت پر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور جمعیت علمائے ہند کے صدر بنے، ۱۹۷۱ء میں آپ کے انتقال کے بعد دارالعلوم میں شیخ الحدیث کی جو مسند خالی ہوئی تھی وہ شایدپھر اپنا وہ مقام نہ پاسکی ، مولانا بقیۃ السلف تھے، آپ کے بعد اساتذہ حدیث تو کئی ایک آئے لیکن ہر کسی کے نصیب میں جانشین شیخ الھند ہونا تھوڑے لکھا ہوتا ہے ؟
قاضی صاحب فراغت کے بعد لاہور کی اردو صحافت سے منسلک ہو گئے، اور اپنے وقت کے نامور اخبارات میں خدمات انجام دیں، وہیں مشہور مزدور شاعر احسان دانش سے اصلاح سخن بھی لی ، لیکن وطن کی محبت نے آپ کو لاہور کا ہو کر رہنے نہ دیا، اور تقسیم کے بعد جو بمبئی میں سکونت اختیار کی تو اسی کے ہو کر رہ گئے، اور جب تک اعضاء نے جواب نہ دے دیااور انگلیاں چلتی رہیں، یہیں رہ کر علم و معرفت کے موتی بکھیرتے رہے۔بمبئی میں عبدالحمید انصاری مرحوم نے آپ کی قدر و قیمت جانی، اور اپنے روز نامہ انقلاب میں آپ کا دینی و معلوماتی کا لم جاری کیا جو بلا ناغہ آپ کی مبارکپور آخری منتقلی تک جاری رہا۔ خدا کا شکر ہے انقلاب کے ناشران نے رواداری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے آپ کی یاگار کے طور پر اس کالم کی دوبارہ اشاعت کو جاری رکھ کراردو کے دوسرے لکھنے والوںکی طرح آپ کے نام کو مٹنے سے بچاد یا ہے۔ بمبئی کے قیام کے دوران آپ انجمن اسلام ہائی اسکول میں تدریس کے شعبہ سے بھی وابستہ رہے اور جمعیت علماء ہند کی مہاراشٹر شاخ کے صدر بھی رہے۔ ساتھ ہی ساتھ تصنیف و تالیف کے سلسلہ کو بھی سینے سے لگائے رکھا۔
آپ کا بنیادی موضوع تاریخ تھا، جس سے آپ نے آخری دم تک وفاداری نبھائی اور اس میدان میں اپنے ایسے تابندہ نقوش چھوڑے کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی ؒ جیسی عظیم شخصیات نے آپ کو عصر حاضر میں مسلم ہند کا سب سے بڑا مؤرخ قرار دیا ۔
یوں تو بر صغیر میں کبھی مور خین کی کوئی کمی نہیں رہی ہے، لیکن اپنی جگہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر مورخین کی دلچسپی کا محور درخیبر کی راہ سے آنے والے فاتحین یا پھر عجم سے وارد ہونے والے مشائخ رہے، رہے چشمہ نبوت سے براہ راست فیضان اٹھانے والے، عجمی افکار سے غیر آلو د، صاف و شفاف دین سے اہل وطن کو آشنا کرنے والے خیرالقرون کے داعی و مبلغ تو ان کے سنہرے کارناموں سے باخبر رکھنے والے مورخ خال خال ہی ملتے ہیں۔ قاضی صاحب نے یہ اہم فریضہ انجام دیا، اور ’’رجال السند و الہند‘‘ ’’ العقد الثمین ‘‘۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔’’ عرب و ہند عہد رسالت میں‘‘’’ عرب و ہند عہد خلافت میں‘‘‘‘ عرب و ہند عہد امیہ میں‘‘’’ عرب و ہند عہد عباسیہ میں‘‘ وغیرہ لکھ کر ایک اہم قرض قوم کے کاندھوں سے اتاردیا ۔
اول الذکر دو کتابیں آپ کی عرب دنیا میں شہرت کا سبب بنیں ، اورتیسری کتاب کو یہ شرف حاصل ہوا کہ کسی عرب نژاد اسکا لرنے پہلی مرتبہ کسی اردو کتاب کا عربی ترجمہ کر کے شائع کیا۔ بدنام زمانہ محمود احمد عباسی کی کتاب’’ خلافت معاویہ ویزید ‘‘کے رد میں لکھی آپ کی کتاب’’ علیؒ وحسینؒ‘‘ کو بھی اپنے وقت میں شہرت ملی، ایڈٹ کردہ کتابوں میں ’’جواہرالا صول‘‘ اہم ہے۔
قاضی صاحب کو اپنے دور میں یہ امتیاز حاصل رہا کہ آپ نے علم رجال کی کتابوں کی اہمیت اپنے مضامین و تبصروں میں اجاگر کی، ورنہ اس وقت بیشتر مشا ہیر علماء، مسلمانوں کے اس عظیم ورثہ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے تھے۔
محمد علی روڈ پر قائم مکتبہ شرف الدین کتبی اپنے بانی کے دور میں عالم عرب و بیرونی ممالک میں چھپنے والی نئی کتابوں کا اہم مرکز رہا ہے۔ آپ نے اس مکتبہ سے خوب استفادہ کیا۔ صدیوں کے غبار سے چھٹ کر منظر عام پر آنے والی نئی مطبوعات سے آگا ہی کے لئے آپ کا کالم اہم ذریعہ تھا، مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ جیسی شخصیات جن کی ایڈٹ کروہ کتابیں عالم عرب میں بڑی قدر وعزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ان جیسے محققین مولانا ابو الوفا افغانی وغیرہ کی تحقیقات سے وطن کے اہل علم کو متعارف کرانے میں آپ کا وافر حصہ رہا ہے۔
قاضی صاحب کو مختلف قدیم کتابوں سے جوا ہر پار ے ڈھونڈھ نکالنے میں بڑی مہارت حاصل تھی، امام خطیب بغدادیؒ کی تاریخ بغداد کو تو آپ نے گھوٹ گھوٹ کر پیا تھا، آپ نے اس جیسی دوسری انسائیکلو پیڈیائی طرز کی کتابوں سے جس طرح استفادہ کیا اور ان کے مطالب کو عام قاری کے لئے مفید بنا یا اردو صحافت میں اس کی مثالیں شاذونادر ہی ملتی ہیں۔
قاضی صاحب کو پہلی مرتبہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے دوسرے اجلاس عام ۱۹۶۷ء کے موقعہ پر دیکھنے کا موقعہ ملا، جامعہ آباد کے سنگ بنیادکی تقریب میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی دامت برکا تھم ، مولانا محمد الحسنیؒ، کے جلو میں آپ بھی تشریف فرما تھے۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے گراؤنڈ میں جو عظیم الشان جلسہ ہوا تھا، اس کے دوسرے روز آپ کی بھی تقریر رکھی گئی تھی،آپ کے ہاتھوں انعام پانے والوں میں ایک خوش نصیب میں بھی تھا، مولانا منظور نعمانی کی بابرکت کتاب ’’اسلام کیا ہے؟ ‘‘ میرے حصہ میں آئی تھی۔ جامع مسجد میں بھی آپ کی تقریر ہوئی تھی۔لیکن قاضی صاحب تو قلم کے دھنی تھے، جلسے جلوسوں سے انہیں کوئی نسبت نہیں تھی، رہن سہن میں گاؤں کی سادگی جھلکتی تھی، زندگی تصنع و تکلف سے پاک تھی، ان میں مشیخیت کے عادات و اطوار بھی نہیں تھے، ان کی بھٹکل آمد اور تقاریر یادداشت سے جلدغائب ہو گئیں، البتہ ان کا سفرنامہ بھٹکل ایک دستاویز بن کا منظر عام پر آیا۔
قاضی صاحب سے براہ راست استفادہ کا موقع مجھے اس کے سات سال بعد ۱۹۷۵ء میں نصیب ہوا۔ جب جمالیہ سے فراغت کے بعد چند ماہ میراممبئی میں قیام رہا، اس وقت آپ کا مبیکر اسٹریٹ میں جامع مسجد سے قریب ایک سہ منزلہ عمارت کی پہلی منزل پر ایک کمرہ میں رہتے تھے، باہر سے اس پر مرکز علمی کا بورڈ آویزاں تھا۔ دیکھنے میں تو یہ دیہاتی رنگ کا ایک سیدھا سادہ کمرہ تھا، جس کے ایک طرف کتابوں کی دو الماریاں سجی ہوئی تھیں، دوسری طرف ایک کھٹیا اور پاندان ، نیچے چٹائی اور اس پر ایک چھوٹی سی دری ، لیکن بمبئی جیسے مادہ پرست شہر میں یہ کمرہ واقعی مرکز علمی کہلانے کا مستحق تھا، یہاں پر دور دور سے اہل علم آتے،بے تکلف اورپرلطف مجلسیں ہوتیں، آپسی تبادلہ خیال ہوتا، نئی کتابوں کا علم ہوتا، تبصرے ہوتے، ان مجالس نے آئندہ دنوں میں بر صغیر کے علماء ودانشوروں کی نفسیات کو سمجھنے میں میری بڑی رہنمائی کی۔ اس میں قاضی صاحب کی چھیڑ چھاڑ کا بھی بڑا دخل تھا۔ چونکہ قاضی صاحب کا دل ایک آئینہ تھا جس پر کوئی غبار نہیں تھا ، اس میں کوئی چیز چھپ کر نہیں رہ سکتی تھی، مزاجاً بھی آپ فقیر منش واقع ہوئے تھے۔ انہیں کسی سے لینا دینا نہیں تھا ، اسکول اور انقلاب کے کالم سے ان کی گذر بسر ہنسی خوشی ہو جاتی تھی۔
قاضی صاحب سے مل کر احساس ہوا کہ اردو داں حلقہ کس قدر کٹھور دل واقع ہوا ہے، لہو جلا کر لکھی جانے والی کتابوں کی یہ کیسی بے قدری کرتا ہے۔ اور مصنف کو اپنی محنت کا مادی معاوضہ تک نہیں ملتا، قاضی صاحب کو چھیڑ نے میں مجھے بڑا مزہ آتا تھا، ایک مرتبہ میں نے کہا کہ آپ کے پاس تو خوب جمع پونجی ہو گی، ہزارہا کی تعداد میں چھپنے والی کتابوں کی اچھی خاصی رائلٹی آتی ہوگی، کہنے لگے اس کے لئے مصنف کا کسی ایسی جماعت کا سر براہ بننا ضروری ہے جس کے پیرو کاراس کی کتابوں کو پھیلائیں، ہم تو ٹہرے دیوانے، چار پانچ سال کی محنت سے ایک کتاب لکھ دیتا ہوں، اسے........ صاحب چھاپ کر اسکے سو نسخے مجھے بھیجدیتے ہیں، جسے تم جیسے مفت خوردوست ہدیہ میں اڑا لے جاتے ہیں ،رہے نام اللہ کا۔ ساری محنت کا یہی صلہ ہے۔
قاضی صاحب کو جاہ و منصب سے کوئی مطلب نہیں تھا، وہ کسی منفعت کے لئے اپنے مسلک میں تبدیلی کے قائل نہیں تھے، اس زمانے میں اردو کے ایک معروف دینی مجلہ میں وقفہ وقفہ سے مقالات کے دو سلسلے شروع ہوئے، پہلے میں امام ابن تیمیہؒ اور علمائے دیوبند کے موقف کی وضاحت کی گئی تھی، اور دوسرے میں امام محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کے مسلک کی، مقالہ نگار نے ان مقالات میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی یہ دونوں شخصیات علمائے دیوبند کی محترم شخصیات ہیں، اور ان دونوں کا مسلک دیوبند سے ملتا جلتا ہے۔
ان مقالات سے بیشتر مولانا خلیل احمد سہانپوریؒ ،مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ نے ان دونوں شخصیات کے بارے میں جو لکھا تھا، یہ ہم جیسے طالب علموں کی سمجھ سے بالا تر تھا، اور ہم جیسے کم فہم مخمصہ میں پڑے ہوئے تھے،کیونکہ مسلک دیوبند بر صغیر میں وہابی مسلک کے مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن ان بزرگوں کی رائے اس کے بارے میں مختلف محسوس ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے جزیرۃ العرب میں مسلک دیوبند کے سلسلے میں شبہات پائے جاتے ہیں، کیونکہ یہاں کے اکثر علماء و مشائخ ان دونوں اماموں کے مسلک ہی کو علی منھاج السنۃ سمجھتے ہیں۔میں نے قاضی صاحب کے سامنے ان مقالات پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ،کہنے لگے علمائے دیوبند کا مسلک وہی ہے جس کی ان مقالات میں تردید کی گئی ہے۔
۱۹۷۹میں تلاش معاش کے سلسلے میں جب میرا دبی آنا ہوا ،قاضی صاحب کی خدمت میں دعائیں لینے کے لئے خاص طور پر حاضر ہوا۔ انہیں ہمارے گھر کے معاشی حالات سے واقفیت تھی ، ہم پر معاشی ترقی کی راہ کھلنے پرآپ نے جس مسرت و خوشی کا اظہار کیا اور یہ خبر سن کر ان کی آنکھوں میں جو چمک نمودار ہوئی آج بھی اسے بھول نہیں پایا ہوں،چھوٹوں سے شفقت کی ایسی مثالیں شاذ و نادر ہی ملیں گی ۔ اس کے بعد میرا جب بھی ممبئی جانا ہوتا تو قاضی صاحب سے شرف ملا قات کی ضرور کوشش کرتا۔ قاضی صاحب جس پایہ کے مصنف اور مورخ تھے، زندگی میں اتنی ان کی قدر نہیں ہوئی ۔ البتہ آخری ایام میں پاکستان کے سابق حکمران حبزل ضیاء الحق ؒ نے آپ کو خصوصیت سے دعوت دے کر اعزازات سے اس وقت نوازا جب سندھ کے راستے بر صغیر میں اسلام کی اولین کرنوں کے داخلہ کی تقریبات منائی جارہی تھیں، اور ان تقریبات میں اعزاز کا حقدر ان سے بڑھ کر کوئی اور نہ تھا۔حکومت کو یت نے بھی آپ کی بڑی پذیرائیکی۔
آخری ایام میں اپنے وطن مبارک کپور لوٹنے پر آپ نے الجامعۃ الحجازیۃ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی رحلت کے بعد کچھ عرصہ برہان دہلی کی ادارت بھی سنبھالی تھی۔
مولانا مفتی عتیق الرحمان عثمانی نے جب دارالمصنفین کے طرز پر ندوۃ المضفین کی بنا ڈالی اور تاریخ و تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے فضلائے دیو بند کی تصنیفات کو منظر عام پر لانےکا پروگرام کیا، تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ مولانا زین العابدین سجاد میر ٹھیؒ اور قاضی صاحب اس میدان میں نمایاں ہو کر ابھرے جو کبھی صرف دارالعلوم ندوۃ العلماء کا امتیاز سمجھا جاتا تھا ، اور ان حضرات نے تصنیف و تحقیق کے میدانوں میں وہ کا رہا ئے نمایاں انجام دیئے جو اپنی قدر و قیمت میں کچھ کم نہیں تھے۔ لیکن ندوۃ المصنفین کے یہ چاروں ستون یکے بعد دیگرے گر گئے،اور یہ عمارت قاضی صاحب کی رحلت کے بعد تو زمین بوس ہو گئی۔رہی سہی کسر آگ کی لپیٹوں نے مفتی صاحب کے قیمتی کتب خانہ کو خاکستر میں تبدیل کر کے پوری کی۔
قاضی صاحب ان لوگوں میں تھے جو دنیا کے شور شرابے سے دور کسی کونے کھدرے میں پڑے رہتے ہیں۔دنیا سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی ، وہ اس شمع کی طرح ہوتے ہیں جو اندھیرے میں خود جلتی رہتی ہے ، لیکن دنیا کو اپنی روشنی سے منور کرتی ہے ۔ ان کے اٹھ جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بڑا خلا واقع ہوا ہے، کوئی بڑی نعمت ہم سے چھن گئی ہے ،پیاس بجھا نے کا کوئی اہم سر چشمہ سوکھ گیا ہے۔ خدا مغفرت د کرے۔
دبی ۔ ۱۹۹۵ء
whatsapp:+971555636151