اپنے لخت جگر یعلیٰ محتشم کے اچانک انتقال پر پہلی شب ایک عالم دین باپ کا درد خود اسکے جذبات اسکے احساسات

ہاے ! میرے لعل، تیرے بغیر یہ رات کیسے بیتے گی؟
تجھے چھیڑے بغیر ہمیں نیند نہ اتی ، تیرا نیند میں اپنی امی کو تلاش کرنا بار بار کہنیاں پکڑکر اپنا معصوم ساہاتھ پھیرتے رہنا، بسا اوقات نیند میں باتیں کرنا، صبح صبح اپنی نیند پوری ہوتے ہی بغیر کسی اہٹ کے روم کے باہر تنہا کھیلتے رہنا، گود میں اکر اچھلنا کودنا، اپنے بھائیوں سے لڑنا جھگڑنا اور کچھ ہی پلوں میں کبھی انکی گود میں تو کبھی انکی کے سر پر چڑھ جانا، کبھی پیاری پیاری شکلیں بناکر پیار کرنے پر مجبور کرنا، اپنی کچھ خاص اداوں اور باتوں سے اپنی بات منوانا، اپنے چھوٹے ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھانا، اپنے بڑے بھائی کو باپ کا درجہ دیکر اس سے اپنے شوق کی چیزوں کا مطالبہ کرنا، اس کے گھر داخل ھوتے ہی دن بھر کی کارگذاری بڑے شوق سے سننا، اور اس کے کئ ایک دوستوں کا نام لیکر ان کے بارے میں پوچھنا اور ان کے ساتھ شام، سیروتفریح کے لئے جانے کی خواہش کرنا، واپسی پر کچھ دینے دلانے کے لئے ایسے مجبور کرنا جیسے سیروتفریح میں جاکر گویا بھائ پر احسان کیا ہو،
اپنے دوسرے بھائ سے اپنی ضرورت پر مدد کے لئے مجبور کرنا، اس کے ہر کام یا حکم کو اپنی ضرورت پر معلق کرنا کہ اگر تم میرا یہ کام کروگے تو میں تمہارا فلاں کام کرونگا، نئے نئے بچوں کے سوفٹ ویر ڈاون لوڈ کرنے کے لئے منت سماجت کرنا۔
اپنے سے بڑے بھائی سے چھیڑ چھاڑکرتے رہنا، پل پل میں جھگڑنا پل پل میں بھول جانا، اگر وہ ذرا سی دیر کےلئے نظر نہ ائے بار بار تلاش کرتے اور اواز دیتے رہنا، اپنے چھوٹے ہونے کا حق جتانا۔
اذان کے ختم ہوتے ہی چیخ چیخ کر دعائیں پڑھنا، کھانا شروع کرنے سے پہلے دعا کی یاد دہانی کرنا، کبھی مسجد میں کھجور ملے یہ کہتے ھوئے گھرمیں داخل ہونا کہ اج ہمارے گھر میں برکت ہوگی، رات میں سوتے وقت انبیاء و صحابہ کے قصوں کی فرمائش کرنا،، اور جنت وجہنم کے بارے میں بار بار سولات کرنا، جنت کی نعمتوں کے بارے میں اس شوق سے پوچھنا جیسے اسے اختیار مل جائے تو فورا چلا جائے، اور بار بار جنت میں جانے کے ذرائع معلوم کرنا،انبیاء شہداء اور دیگر مرحومین اور خاص کر اپنے دادا سے (جن کی صرف تصویر ہی دیکھاتھا البتہ ہر دفعہ فون پر دادا کی طرف سے خیریت پوچھنے کی بات پر )جنت میں ملاقات کے تذکرے سے پھولے نہ سمانا اور جب تک دعا نہ پڑھائے تب تک نیند سے نڈھال ہونے کے باوجود انتظار کرتے رہنا، اسکول میں کبھی ایک ادھ ٹافی یا چاکلیٹ مل جائے اسکو بڑے اھتمام سے گھر میں سب کے حصے بناکر ہر ایک کو ان کا حصہ اپنے ہی ہاتھ سے دینا، سلام کیساتھ گھر داخل ہوتے ہی ہر ایک کے بارے میں معلوم کرنا، اگر کوئی موجود نہ ہو توجب تک وہ نہ پہونچے اس کے بارے میں پوچھتے رہنا، ابني چیزوں کی حفاظت کرنا، چیخ کر چلاکر اپنے گھر موجود ہونے کا ثبوت دینا۔
ائے میرے لعل! ائے میرے جگر کے ٹکڑے تیری کس کس اداوں کو یاد کروں اور کس کس اداوں کو چھوڑدوں؟ اب تیرے بنا یہ گھر گھر نہیں لگ رھا بلکہ ماتم کدہ لگ رہاہے۔
ہر ایک کے چہرے کی رونق چھن گئی اب کوئی خوشی تیرے بغیر تصور میں بھی نہیں۔ تو تھا تو چمن لہلہارہاتھا اب تیرے بغیر یہاں سناٹا ہی سناٹا ہے۔
میں تو ایک باپ ہی ٹہرا، تیری ماں پر کیا بیت رھی ہوگی جس نے تجھے نو ماہ تک اپنی کوکھ میں رکھا اپنی ہر تکلیف اور درد تمہارے خاطر برداشت کیا، ایام حمل میں جو برداشت کیا وہ ناقابل بیان ہے، ویسے بھی تو عمر کے اس حصہ میں تو پیٹ میں پروان چڑھ رہاتھا جب اسکا جسم کمزور ہو رہاتھا، اور پھر حمل کی تکلیف؟ اللہ کی پناہ!
پھر بھی اتنی جلد داغ مفارقت کا درد سہنا پڑیگا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اب بھی یقین نہیں اراہاہے، لگ یہی رھاھے حسب معمول ہمارے ہی بستر ایک جانب سورہاہے۔
اگر واقعی تو ھم سے ہمیشہ ہمیش کے لئے جدا ھوگیاہے تو پھر تقدیر کے فیصلہ پر راضی برضا ہوں، البتہ اتنی درخواست ضرور ھے میرے اقا صلی اللہ علیہ وسلم تک میرا سلام پہونچا دینا اور ھماری موت پہلے ہمیں جنت کا حقدار اور جہنم و قبر کے عذاب سے نجات کا پروانہ تیار رکھنا۔
لله ما اعطى و ما اخذ ، و كل شي عنده بمقدار.
وانا بك بابني(يعلى) لمحزونون
ائے میرے لعل،
تجھ سے کئی امید لگائے ھوئے تھا۔ تجھے حافظ قران و عالم دین بنانے فیصلہ کرچکاتھا، اگر حالات ناسازگار نہ ہوتے تو تو اج سے چھ ماہ قبل ہی جامعہ میں ہوتا، جامعہ کی عظیم الشان عمارت کی تصویر دیکھکر تو حیرانی کے عالم پوچھ رہاتھا کیا بھٹکل میں بھی اتنی بڑی بڑی عمارتیں ھوتی ہیں؟
جب تجھے اپنے ذاتی زیر تعمیرگھر کے بارے میں بتایا تو تجھے یقین نہیں ارہاتھا کہ ہم اپنے علاقے میں فیلا نما گھر میں رہیں گے؟ ، تیرا یہ بار بار پوچھنا کہ باہر مٹی بھی ھوتی ھے؟ اور دو سے زیادہ کمرے بھی ہوتے ہیں؟ تب تمہاری ایک ہی رٹ تھی کہ میرے لئے بھی الگ کمرہ ہو۔
جب تمہیں اپنے اور رشتہ داروں کے بارے میں بتایاگیا تو تم ہر روز انڈیاکے بارے میں پو چھتے تھے۔
بیٹا ! میں تیری اس بات کو کبھی بھول نہ پاوں گا جب بھٹکل سے تیری پھوپھی نے کچھ گھریلو سامان بھیجاتھا اور تمہارے پوچھنے پر پھوپھی اور خالہ کا تعارف کرایاگیاتھا تب تم نے بڑی معصومیت سے پو چھاتھا کہ میری پھوپھی male/ female ھے؟
اس وقت سے مجھے یہ احساس کھائے جارہاتھا کہ اولین فرصت میں اپنی اولاد کے ساتھ بھٹکل جاناھے۔ لیکن تقدیر کا لکھا کسے پتا تھا
انا لله وانا اليه راجعون اللهم اجعله فرطا لابويه واجعله ذخراله امين يارب العالمين