سچی باتیں۔۔۔ ماہ رمضان مبارک۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:21PM Sat 2 Apr, 2022

 1932-12-30

وهو شهرُ الصبرِ - والصبرُ ثوابُه الجنةُ -، وشهرُ المُوَاساةِ، وشهرٌ يُزادُ فيه رِزْقُ المؤمنِ، من فَطَّرَ فيه صائمًا ؛ كان له مغفرةٌ لذنوبِهِ، وعِتْقُ رقبتِهِ من النارِ، وكان له مِثْلُ أجرِهِ من غيرِ أن يَنْتَقِصَ من أجرِهِ شيءٌ، قلنا : يا رسولَ اللهِ ! ليس كُلُّنا نَجِدُ ما نُفَطِّرُ به الصائمَ ؟ ! فقال رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - : يُعْطِي اللهُ هذا الثوابَ من فَطَّرَ صائمًا على مَذْقَةِ لَبَنٍ، أو تمرةٍ، أو شَرْبَةٍ من ماءٍ، ومن أَشْبَعَ صائمًا ؛ سَقَاهُ اللهُ من حَوْضِي شَرْبَةً لا يَظْمَأُ حتى يدخلَ الجنةَ ؛ وهو شهرٌ أولُهُ رحمةٌ، وأوسطُه مغفرةٌ، وآخِرُهُ عِتْقٌ من النارِ، ومن خَفَّفَ عن مَمْلُوكِهِ فيه ؛ غفر اللهُ له وأعتقه من النارِ

یہ مہینہ صبر کا ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھادیاجاتاہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، اُس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا، اور روزہ دار کے ثواب کے مانند اُس کو ثواب ہوگا مگراُس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیاجائے گا۔ صحابہ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتاکہ روزہ دار کو افطار کرائے، توآپ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ جل شانہ ، ایک کھجور سے کوئی افطار کرادے یا ایک گھونٹ پانی پلادے یا ایک گھونٹ لسی پلادے اُس پر مرحمت فرمادیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے، اور درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ آگ سے آزاد ی ہے۔

یہ ارشاد رسولؐ کا ہوا۔

’’نبی اکرم ﷺ نے اس مہینے کی کچھ خصوصیتیں اور آداب ارشاد فرمائے۔اوّلًا یہ کہ یہ صبر کا مہینہ ہے، یعنی اگر روزہ وغیرہ میں کچھ تکلیف ہو توا ُسے ذوق وشوق سے برداشت کرنا چاہئے، یہ نہیں کہ ماردھاڑ، ہول پکار، جیسا کہ اکثر لوگوں کو گرمی کے رمضان میں عادت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر اتفاق سے سحر نہ کھائی گئی، تو صبح ہی سے روزہ کا سوگ شروع ہوگیا۔ اسی طرح رات کی تراویح میں اگر دقّت ہوتو اس کو بڑی بشاشت سے برداشت کرنا چاہئے، اس کو مصیبت وآفت نہ سمجھیں۔ پھر ارشاد ہے کہ یہ غمخواری کا مہینہ ہے، یعنی غرباء ومساکین کے ساتھ مدارات کا برتاؤ۔ اگر دس چیزیں اپنے افطار کے لئے تیار کی ہیں ، تو دوچار غرباء کے لئے کم از کم ہونی چاہئیں۔ ورنہ اصل تو یہ تھا کہ اُن کے اپنے سے افضل نہ ہوتا تو مساوات ہی ہوتی۔ غرض جس قدر بھی ہمت ہوسکے، اپنے افطار وسحر کے کھانے میں غرباء کا حصہ ضرور لگانا چاہئے……افطار کرانے کی فضیلت ارشاد فرمانے کے بعد فرمایا ہے، کہ اس مہینہ کا اول حصہ رحمت ہے یعنی حق تعالی شانہ‘ کا انعام متوجہ ہوتاہے، اور یہ رحمت عامّہ سب مسلمانوں کے لئے ہوتی ہے، اس کے بعد جو اُس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اُ ن کے لئے اس رحمت میں اضافہ ہوتاہے۔ اور اس کے درمیانی حصہ سے مغفرت شروع ہوجاتی ہے، اس لئے کہ روزوں کا کچھ حصہ گزرچکاہے، اس کا معاوضہ اور اکرام مغفرت کے ساتھ شروع ہوجاتاہے۔ اور آخری حصہ تو بالکل آگ سے خلاصی ہے ہی ۔…بندۂ ناچیز کے خیال میں آدمی تین طرح کے ہیں۔ایک وہ جن کے اورپر گناہوں کا بوجھ نہیں، اُن کے لئے شروع ہی سے رحمت اور انعام کی بارش ہوجاتی ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو معمولی گنہگار ہیں، اُن کے لئے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد اُن روزوں کی برکت اور بدلے میں مغفرت اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے۔ تیسرے ہو جو زیادہ گنہ گار ہیں اُن کو زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد آگ سے خلاصی ہوتی ہے، اور جن لوگوں کے لئے ابتدا ہی سے رحمت تھی، اُن کا تو پوچھنا ہی کیا‘‘۔

یہ ارشادات ایک شارح حدیث کے تھے۔

حدیث ، اور شرح حدیث، دونوں آپ نے سُن لیں؟ جس ماہِ مبارک کی بابت یہ بشارتیں ہیں، وہ اب شروع ہوچکا۔ کیا آپ بڑھ بڑھ کر رحمتوں اور برکتوں کی اس لوٹ میں حصہ نہ لیں گے؟ جو اِن مبارک گھڑیوں کو پاکر انھیں غفلت میں گنوادے، اُس کی محرومی اور کم نصیبی میں کیا شبہ رہ سکتاہے؟ مبارک ہیں وہ ، جو اِس مبارک مہینہ سے پورا فیض اٹھائیں۔ خوش نصیب ہیں وہ، جو خوش نصیبوں کے یہ وروز ضائع نہ جانے دیں!