ا ب کیا ضرورت رہ گئی بوچڑ خانوں کی۔۔۔از: حفیظ نعمانی

گؤ پوجا اور گؤ رکشا ہوتے ہوتے ملک میں اس کی قربانی پر آخرکار پابندی کا مودی سرکار نے اعلان کر ہی دیا اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ گائے بچھڑا بیل بھینس اور اونٹ پر یہ پابندی لگائی ہے کہ اس کو خریدتے وقت یہ لکھ کر دینا پڑے گا کہ ان کو ذبح نہیں کیا جائے گا۔ اب سوال ہے ان گایوں اور بھینسوں کا جو بوڑھی ہوگئی ہیں اور اس بیل اور اونٹ کا جو کھیتی اور باربرداری کے لائق نہیں رہ گئے ہیں ان کا کیا ہوگا؟
ایسے جانوروں کو گھروں میں کوئی رکھ نہیں سکتا یہ ہندوستان ہے یہاں جانور کی تو بات ہی کیا 70 سال پہلے جب ملک تقسیم ہوا تھا تو نہ جانے کتنے بوڑھے اور ناکارہ باپ اور ماں کو انسان چھوڑکر پاکستان چلے گئے اور جب ان سے کہا کہ ان کو کیوں نہیں ساتھ لے جاتے تو جواب دیا کہ ہم روزی روٹی تلاش کریں گے یا ان کو لادے لادے پھریں گے؟
آج بازاروں اور سڑکوں پر ہزاروں گائیں جو یا تو بیمار ہیں یا دودھ سے بھاگ گئی ہیں ماری ماری پھر رہی ہیں اور گندہ کوڑا کھاکھاکر مررہی ہیں۔ گؤشالے جو بنے ہیں صوبائی حکومت اس کا بجٹ دے دیتی ہے لیکن وہ بجٹ اس بے ایمان وزیر کے پیٹ میں جاتا ہے جو ہندوتو ہے مگر گائے کو جانور اور بوجھ سمجھتا ہے۔ وہ صرف جاہل گنوار اور ہر چیز کو بھگوان سمجھنے والے کروڑوں ووٹروں کے لئے گؤ ماتا ہیں جو ہندو کی حکومت بنواتے ہیں۔
لکھیم پور سے ہی ایک خبر آئی تھی کہ کھیتوں میں لہلہاتی فصلوں پر اب صرف نیل گایوں کا جھنڈ ہی نہیں وہ گائیں بھی ٹوٹی پڑرہی ہیں جنہیں ان کے مالکوں نے گاؤں کے پاس لاکر چھوڑ دیا ہے۔ پہلے جو کانجی ہاؤس کا نظام تھا وہ نہ جانے کیوں ختم ہوگیا؟ گؤشالے بی جے پی کے دفتروں میں ہیں اور گنے کی لہلہاتی فصل یہ گائیں جو آدمی کو دیکھ کر نیل گائے کی طرح بھاگتی بھی نہیں چٹ کئے جارہی ہیں۔
اب تک تو صرف گایوں اور بچھڑوں کی مصیبت تھی اب بوڑھے بیل بوڑھی بھینس اور بوڑھے اونٹ بھی گاؤں کی طرف ہنکادیئے جائیں گے اور شہر میں صرف بکرے اور مرغ کا گوشت ملے گا جن کی قیمت آج جتنی ہے اس کی دوگنی ہوجائے گی۔ اور اسے صرف وہ ہندو کھاسکیں گے جو حکومت چلا رہے ہیں۔
ماحولیات کی وزارت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جانور کی خریداری کرتے وقت یہ ثابت کرنا ہوگا کہ خریدار کسان ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزارتِ ماحولیات میں وہ کون کون ہیں؟ جنہوں نے اپنی وزارت کی رشتہ داری جانوروں سے ڈھونڈ نکالی اس وقت صرف لکھیم پور کی خبر کا ہم نے حوالہ دیا ہے۔ پندرہ بیس برس پہلے جب شکار پر پابندی نہ ہونے کے برابر تھی ہم سنبھل میں اپنے عزیزوں کے ساتھ جنگل میں تھے۔ نیل گائے کا شکار اچھے شکاری اپنے لئے نہیں کرتے ہیں۔ لیکن گاؤں کے جو لوگ ساتھ ہوتے ہیں ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ایک نیل گائے ماردو۔ ایک جگہ گنے کے کھیت میں آہٹ ہوئی ہمارے ایک چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی صاحب ذرا دیکھ کر فائر کیجئے گا۔ اب ہمارے جنگل میں گائیں بھی ہیں جو نیل گائے کے ساتھ کھیتوں میں گھسی رہتی ہیں۔ گولی اس وقت چلایئے گا جب یقین ہوجائے کہ یہ گائے نہیں ہے۔
جس سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ ناکارہ گایوں کو گاؤں کی طرف ہنکانے کا رواج مغربی اضلاع میں بیس برس سے ہے اور مشرقی اضلاع میں اب یہ وباء شروع ہوئی ہے۔ فصلوں کو قدرت کی طرف سے کبھی سوکھے، کبھی سیلاب، کبھی بے موسم اولہ اور بارش اور کبھی طوفانی آندھی ہی کیا کم تھی کہ اب یہ زندہ عذاب آئے گا۔ شہروں میں ہر طرف بوڑھی اور پالتو گائیں گھوم رہی ہیں۔ جو لوگ سڑکوں کے کنارے سبزی بیچتے ہیں وہ اپنے پاس ایک لاٹھی بھی رکھتے ہیں کہ جہاں گائے نے منھ مارا اس کے ایک لاٹھی بھی پڑجاتی ہے اور مارنے والا بھی گؤ رکشک ہوتا ہے لیکن وہ اپنی سبزی کے لئے اس کی رکشا نہیں کرتا بلکہ کسی اور کی سبزی اور پھل کی طرف بھگا دیتاہے۔
رہی وزارتِ ماحولیات کی یہ بات کہ خریداری کرتے وقت اپنے کو کسان ثابت کرنا پڑے گا تو یہ کیا مشکل ہے؟ نہ جانے کتنے کسان ایسے ہیں جو صرف 50 روپئے لے کر گائے، بھینس اور اونٹ سب خرید کر آپ کے گھر پہونچا دیں گے۔ اور ہمیشہ کہیں گے کہ ہاں ہم نے خریدے تھے اور خریدار سے کہیں گے کہ شیخ جی کیا جانور خریدنے مویشی بازار نہیں جاؤگے؟ ملک کا قانون ہے کہ دلت زمین کوئی دلت ہی خرید سکتا ہے اور بیچنے والے پر یہ پابندی ہے کہ اگر اس کے پاس دس بیگھہ سے زیادہ زمین ہے تو وہ کسی ضرورت کے لئے تھوڑی سی فروخت کرسکتا ہے۔ ایک دلت کی زمین دو جگہ تھی ایک چھوٹاسا تین بیگھے کا ٹکڑا الگ تھا وہ اسے فروخت کرنا چاہ رہا تھا لیکن کوئی دلت تیار نہیں تھا۔ ہمارے ایک جاننے والے کو ایک عمارت بنانے کے لئے چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے کی ضرورت تھی لیکن وہ دلت نہیں تھے۔ اب ایسے دلت کی تلاش ہوئی جس کے پاس اپنی زمین ہو اور دس بیگھہ سے زیادہ ہو۔ اور آخرکار نوٹوں نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ جو زمین فٹ اور گز کے حساب سے بکنا چاہئے تھی وہ چونکہ دلت تھی اس لئے بیگھے کے حساب سے بکی اور اس کو غیردلت نے خریدا یہ الگ بات ہے کہ جتنے کی زمین تھی اس سے زیادہ روپئے رجسٹریوں میں اور دلتوں کو خوش کرنے میں خرچ ہوگئے۔
برسوں سے بندوق والوں کو کسان کارتوس کے پیسے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بابو نیل گائے مار دو۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ریوڑ کی ایک مرجائے اور وہ ڈر جائیں کہ دھماکہ ہوتا ہے تو میرا کھیت بچ جائے گا۔ وہی کسان پکڑ پکڑکر انہیں دیں گے جو ویرانے میں کاٹ کر ان کا گوشت اور کھال فروخت کردیں گے اور نہ مودی کا ہندو بولے گا نہ یوگی کا۔ اس لئے کہ گائے بھی ہندو کی، زمین بھی ان کی اور حکومت بھی ان کی۔ بس مودی کی بات رہ جائے گی کہ انہوں نے گائے پر پورے ملک میں پابندی لگادی اور بڑے جانوروں کی خرید فروخت بند کردی۔ اب ملک میں انسان کم جانور زیادہ ہوں گے۔ اب ان خبروں کا انتظار ہے جو کیرالہ، بنگال، منی پور، پوروانچل اور گوا سے آئیں گی کہ صوبائی حکومت نے مرکزی حکومت کا حکم مانا یا نہیں؟
نوٹ:۔ اب انشاء اللہ یکم جون کو ملاقات ہوگی۔
Mobile No. 9984247500