علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ: کب پہچان سکیں گے ہم اپنے محسنین کو

۔ڈاکٹر جسیم محمد
سرسید علیہ الرحمۃ کا قائم کردہ مدرسۃ العلوم1920ء میں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قالب میں ڈھلا تو اس کی فضاؤں میں نہ جانے کون سا بیج گھل گیا کہ کسی بھی وائس چانسلر کی آمد پر اس کا روح اور دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کیاجائے اور جب اس کے جانے کا وقت قریب آنے لگے تو اس میں دنیا زمانے بھر کے کیڑے نکالے جانے لگیں۔ اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تومشکل سے دو ایک کو چھوڑ کر کوئی وائس چانسلر اجلا دامن لے کر یہاں سے رخصت نہیں ہوسکا۔ کئی کے ساتھ تو یہ تک ہوا کہ انہوں نے دہلی میں بیٹھ کر اپنا استعفیٰ پیش کیا اورملتِ اسلامیہ کی آرزوؤں کے مسکن اس ادارہ کی سربراہی سے دامن چھڑالیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موجودہ وائس لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے چار سال قبل جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وا ئس چانسلر کا عہدہ سنبھالا اس وقت ادارہ عجیب بحرانی دور سے گزر رہا تھا اور ہر سطح پر ادارہ کی صورت حال غیر یقینی تھی۔ اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر پی کے عبدالعزیز پر شاید ہی کوئی الزام ہو جس سے وہ مبرا رہے ہوں۔ ایسے حالات کے پیشِ نظر اے ایم یو کی ایکزیکیوٹو کونسل اور اے ایم یو کورٹ نے لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے حق میں اپنا فیصلہ صادر فرمایا اور یونیورسٹی کے وزیٹر کی حیثیت سے صدر جمہوریۂ ہند نے بھی جنرل شاہ کو ہی وائس چانسلر مقرر فرماکردانش گاہِ سرسید کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دی۔
وائس چانسلر کے عہدہ کا چارج لیتے ہی لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ(ریٹائرڈ) نے سب سے پہلے ادارہ میں ڈسپلن کی صورتِ حال کو بہتر بنایا اور کیمپس سے غنڈہ گردی کا نام و نشان مٹاکر تعلیمی فضابحال کی۔ اپنے چار سالہ دور میں جنرل شاہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ملک کی نمبر ایک یونیورسٹی بنانے کی سمت میں جو مثبت اقدامات کئے ان سے سارا زمانہ بخوبی واقف ہے۔ جنرل شاہ کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اے ایم یو کو’’ نیک‘‘ کی رینکنگ میں’’ اے‘‘گریڈ حاصل ہوا، یہاں کئی نئے کورسیز متعارف ہوئے، کئی شعبوں اور فیکلٹیوں کے قیام کے ساتھ تعمیرات کا عظیم الشان سلسلہ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے امتیاز میں اضافہ کا سبب ہے جنرل شاہ کی ہی مثبت کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ بھی جنرل شاہ کی کاوشوں، سرسید سے ان کی عقیدت اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ان کی محبت کا ہی کمال ہے کہ آج عالمی سطح پر لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب نہ صرف متوجہ ہو رہے ہیں بلکہ اس ادارہ کے وقار و افتخار میں اضافہ کے لئے دامے درمے قدمے سخنے حاضرہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترقیاتی عمل میں جنرل شاہ نے صرف اور صرف ادارہ پر نظر رکھی جس کے نتیجہ میں چند لوگوں کے ذاتی مفادات کو ٹھیس پہنچنا لازمی امر تھا۔ ادھر جنرل شاہ کے یہاں ذاتی مفادات کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ان کا ہدف صرف اور صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ترقیاتی عمل تھا جس کے نتیجہ کے طور پر جنرل شاہ کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا جو دھیرے دھیرے دراز ہوتا چلا گیا۔ ان کے دامن پر بدعنوانی کا داغ لگانا تو مشکل ہی نہیں ناممکن تھا اس لئے مخالفین نے جنرل شاہ کی مخالفت کے لئے بہانے تلاش کرنے شروع کئے۔
مسلمان نہایت معصوم قوم ہے جسے گمراہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ اسی کا فائدہ جنرل شاہ کے مخالفین نے اٹھانا شروع کیا۔ وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے مرکز میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترقیاتی عمل سے نئی حکومت کو روشناس کرانے اور یونیورسٹی کے مسائل کے حل کے لئے حکومت کے ذمہ داران تک رسائی کی کوشش کی تو مخالفین نے انہیں بی جے پی کا ہرکارہ قرار دے کر بدنام کرنا شروع کیا اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ گزشتہ دنوں وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے دہلی میں منعقدہ آر ایس ایس کی شاخ’’ مسلم راشٹریہ منچ‘‘ کے افطار پروگرام میں شرکت کرکے برسرِ اقتدار طبقہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے درمیانی فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کی تو گویا کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہر جانب سے ان مخالفین نے جنرل شاہ کے خلاف ایک مہم شروع کردی اور مذکورہ افطار پروگرام میں وائس چانسلر کی شرکت کو ایک بڑا مدّا بنادیا۔
ٍ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے محب وطن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا عظیم بہی خواہ ہونے میں کوئی بھی شبہہ نہیں ہوسکتا ہے۔ وائس چانسلر جنرل شاہ نے مسلم یونیورسٹی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی پالیسیوں کو خصوصی طور پر مسلمانوں کے لئے وضع کی گئی پالیسیوں کو نافذ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ملتِ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فلاح کے لئے ہر سطح پر کسی بھی اقدام سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ان کی فکر قومی مفاد میں ہے اور اس کے لئے مرکزی حکومت کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا بہت ضروری ہے جسے ان کے مخالفین نہیں سمجھ پاتے۔ یہ مخالفین یہ بھی نہیں یاد کرتے کہ برطانوی دورِ اقتدار میں ملتِ اسلامیہ کو امتیاز و افتخار دلانے اور ملت کی زبوں حالی کو دور کرنے کی غرض سے سرسید نے جب مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی تو انہوں نے بھی حکومت کے ساتھ تعاون کا رویہ اختیار کیا تھا جب کہ تاریخِ ہند شاہد ہے کہ انگریزوں کے ہاتھوں ہزاروں علمائے دین جامِ شہادت نوش کرچکے تھے۔ اگر سرسید ان داغوں اور ان تکلیفوں کو یاد کرکے حکومت سے دوری اختیار کرتے تو آج نہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہوتی اور نہ ہی ہندوستانی مسلمان اس عظیم امتیاز کو حاصل کر پاتے جو ان کا طرۂ امتیاز ہے۔
وائس چانسلرلیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے دہلی میں منعقدہ مسلم راشٹریہ منچ کے افطار پروگرام میں اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے شرکت نہیں کی تھی بلکہ اے ایم یو اور قومی مفادکو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وائس چانسلر مذکورہ افطار میں شریک ہوئے تھے ۔اب ملک و ملت کے مخالفین ان کی مذکورہ افطار میں شرکت کو ایک بڑا مدّا بناکر پیش کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وفادار ہیں اور
نہ ہی ملک کے ۔ یہ لوگ محض گھٹیا بیان بازی کرکے اپنی دکانیں سجانے میں یقین رکھتے ہیں ، ملت کی ترقی، قوم کے نوجوانوں کی بہبود اور زمینی حقائق سے ان کا دور بھی واسطہ نہیں ہے۔
اگرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ مرکزی حکومت کے سوچھ بھارت ابھیان( شفاف ہندوستان مہم)، یوگا اور اسی قبیل کے دیگر پروگراموں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نافذ کرتے ہیں تو کیا اس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلمانوں کی فلاح مضمر نہیں ہے؟ کیا یہ امر مسلم یونیورسٹی کے لئے فالِ نیک نہیں کہ جنرل شاہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مسائل کے تعلق سے بذاتِ خود وزیرِ اعظم مسٹر نریندر مودی سے ملاقات کرکے مرکزی حکومت کی گنگا صفائی مہم میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شراکت داری کی پیش کش کی جوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ملک کے لئے ایک تاریخی اقدام ہے؟ کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کی تعریف کرنے اور ملک کے وزیرِ اعظم کی ستائش میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اگر وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ وزیرِ اعظم مسٹرنریندر مودی کی صلاحیتوں اور کارگزاریوں کی ستائش کرتے ہیں تو کسی کو اس پر اعتراض کیوں ہے؟ کیا ملک کے بڑی تعداد میں مسلمان مسٹر نریندر مودی کی ستائش اور انہیں بحیثیت وزیرِ اعظم پسند نہیں کرتے؟ اگر نریندر مودی کی ستائش کرکے اپنے ادارہ کے لئے ترقی کی راہیں وا کرنا گناہ ہے تویہ لوگ سعودی حکومت کو ہدف تنقید کیوں نہیں بناتے جس نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے سرفراز کیا، ان اسلامی ممالک پر نکتہ چینی کیوں نہیں کرتے جو نریندر مودی کی پالیسیوں سے اتفاق ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے تیار ہیں اور اگر یہی ستائش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے کردی تو کون سا غضب ہوگیا جو ان کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی برادری اور مسلمانوں کو سرسید کے افکار و نظریات سے ترغیب حاصل کرنی چاہئے جنہوں نے ذاتی مفادات کو نظر انداز کرکے قوم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا عظیم تعلیمی ادارہ قائم کیا لیکن وہ ایسا بڑا کام اس لئے کر سکے کہ انہوں نے اس دور کی حکومت کے ساتھ تعاون کیا بھی اور حکومت سے تعاون لیا بھی۔ وائس چانسلرلیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مفاد ات کے لئے خود کو وقف کرچکے ہیں اس لئے وہ اس ادارہ کی ترقی کے لئے ہر سطح تک جائیں گے اس کے علاوہ ملک کی مرکزی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہر شہری کا آئینی فریضہ ہے لہٰذا وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی برادری اور ملک کے دیگر مسلمانوں کو بھی ملت کی فلاح و بہبود کے نام پرتعاون کرنا چاہئے اور وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کو یہ سوچ کر کام کرنا چاہئے کہ ملت کی فلاح کے لئے ہر دور میں سرسیدّآکر ہدفِ تنقید بنتے رہے ہیں مگر وہ اپنے مشن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے توجنرل شاہ ملتِ اسلامیہ کی فلاح کے لئے ہدف تنقید بننے کے باوجود اپنے مشن سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ یہ اصول ہے کہ سرسید آتے رہیں گے اور تنقید کا نشانہ بنتے رہیں گے مگر ملت کی فلاح کا عمل نہ رکا ہے نہ رکے گا۔ مخالفین نے ہمیشہ منھ کی کھائی ہے اور ہمیشہ منھ کی کھاتے رہیں گے کیونکہ ملتِ اسلامیہ کی ترقی اللہ کے اختیار میں ہے مخالفین کے نہیں۔(ڈاکٹر جسیم محمد)
سابق طالب علم
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
09997063595