یاد ایام۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

07:13AM Sat 12 Feb, 2022

 (یہ مولانامرحوم کا آخری نشریہ ہے،جو اگست ۱۹۷۶ءمیں لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا تھا۔ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)

 "ع         ”ہم جھوٹے ہیں توآپ ہیں جھوٹوں کے بادشاہ“

مصرعہ آپ نے سناہویانہ سناہو، ایک زمانہ میں خاص وعام کی زبان پر ایساتھا جیسے کہاوت یاضر ب المثل بن گیاہو،اورشان نزول یہ ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں ایک وائسرائے بڑی آن کابڑی شان کابڑے ہمہمہ کا، بڑے طنطنہ کالارڈکرزن تھا، اس کی شامت جوآئی تووہ کہیں یہ کہہ گذراکہ ”ہندوستانی بڑے جھوٹے ہیں۔“ یہ مصرعہ اسی زیٹ کا جواب تھا اودھ پنچ کی طرف سے ، اوراودھ پنچ کا اس وقت طوطی بول رہاتھا۔جواس نے لکھ دیازبانوں پرچڑھ گیا۔ بول چال میں چل گیا۔ یہیں آپ کے لکھنؤ سے منشی سجادحسین کاکوروی کی ادارت میں نکلتاتھا ۔شامت پرشامت یہ کہ اس کے کچھ ہی دن بعد پنچ کے ایک کلہ ٹھلّہ والے نامہ نگار پنڈت برج نرائن چکبست کی مڈبھیڑ ایک بار پھرانھیں والاشان سے ہوگئی۔ مسئلہ تواب یادنہیں کہ کیاتھابہرحال تھی کچھ ایسی ہی بات کہ اس وقت کے لیڈر گوکھلے ،فیروزشاہ مہتہ لاٹ صاحب کی لاف زنی سے کونسل میں تلملااٹھے تھے۔ اس موقع پر جوتحفہ منظوم چکبست کی طر ف سے پیش ہوا  اس کا ایک آدھ شعراور مصرعہ توسن ہی لیجیے:

ع         مردہوکے تجھے زیبانہیں تریاہٹ

(اب بھی آ،ہوش میں، اندازِحکومت کوبدل

مردہوکے تجھے واجب نہیں یہ تریاہٹ)

اورحوالہ اکھاڑے کے انھیں دونوں پہلوانوں کا

ع          گوکھلے کی وہ چتھاڑ اوروہ مہتہ کی ڈپٹ

(یاد رکھو حشر تلک بھی نہ تجھے بھولے گی

گھوکھلے کی وہ چھتاڑ اوروہ مہتاکی ڈپٹ)

اورمقطع کاہے کوتھا زعفران کاکھیت تھا:۔

حضرت پنچ سے بگڑیں گے تو بن جائیں گے

لاٹ صاحب کو مناسب نہیں یاں جھلّاہٹ

(لاٹ صاحب کومناسب نہیں یاں گھبراہٹ)

داددیجیے داد۔بگاڑ سےبناؤکس بانکپن سے نکلا۔ آج ہنس جتنا چاہے لیجیے، انگریزی اقبال مندی کے عین شباب کے وقت یہ کہہ گزرنا ہنسی کی بات نہ تھی ،اور پھر جب لاٹ صاحبی کے تخت پر جلوہ افروزہوں لارڈکرزن اپنے وقت کے تاناشاہ ،اپنے زمانے کے جلالت الملک ۔

یہ تو خیر پنچانہ رنگ کی ایک جھلک تھی۔ اردو روز ناموں کا بھرم لکھنؤ بلکہ سارے صوبہ میں ’اودھ اخبار‘قائم کیے ہوئے تھامنشی نول کشور کانکالاہوا اورعبدالحلیم شرر اوررتن ناتھ سرشار تک اس کی ایڈیٹری کیے، جس زمانہ کاذکرکررہاہوں اس وقت ایڈیٹر کبھی جوالا پرشاد برق رہے ،کبھی دوارکاپرشادافق۔پرچہ ہندوؤں سے کہیں بڑھ کر مسلمانوں میں مقبول ہوا۔ خالص اسلامی مزاق کے مضمون دھڑادھڑچھاپتارہتا۔ ایک ”اردوسہ روزہ“ شہرکے لیڈربابو گنگا پرشادورما نکالتے تھے، اوران کے گذرجانے کے بعد پنڈت کشن پرشاد کول اسے نکالتے رہے۔ ایک انگریزی سہ روزہ ’ایڈوکیٹ‘ کے نام سے بھی یہی گنگاپرشاد ورمانکالتے تھے ،اور یہ امین آباد پارک معہ گھنٹہ گھرجوآپ دیکھ رہے ہیں یہ بھی انھیں ورماصاحب کا بنوایا ہوا ہے۔ خوب بڑی سی ڈاڑھی ،اچکن پاجامہ کالباس، صورت سے مسلمان ہی معلوم ہوتے تھے۔ایک انگریزی روزنامہ بھی ”انڈین ڈیلی ٹیلی گراف“ کے نام سے لکھنؤ سے نکلناشروع ہوا،اوربرسوں تک انگریزوں کی ایڈیٹری میں نکلتارہا۔ بعدکوراجہ صاحب محمودآباد کی مِلک میں آگیاتھا۔ ’پانیر‘ کے قدم اس وقت تک الٰہ آباد ہی میں جمے ہوئے تھے ،اس کا شمار عوام میں نہیں خواص میں تھا۔ کلکتہ کے انگلش میں، بمبئی کے” ٹائمز آف انڈیا“ اورلاہورکے ”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ کی طرح سرکاربرطانیہ کے اقبال وجلالت کاآئینہ دار، دہلی سے مولانا محمدعلی کا” ہمدرد“ سنہ ۱۹۱۱ءمیں نکلنا شروع ہوا اوردیکھتے دیکھتے ملک کے افق پرچھا گیا۔ لاہوراردو اخباروںکابڑامرکزبناہواتھا۔۱۹۱۲ء میں کلکتہ سے مولانا ابوالکلام آزادکے ہفت روزہ” الہلال“ نے طلوع کیااور آفتاب کی طرح چمکا۔

انگریزی کے جوروزنامے ہندوستانیوں اورآزادی خواہ ہندوستانیوں کے قلم کے سائے میں نکلے ان میں شہرت ان پانچ کے نصیب میں آئی ۔کلکتہ سے ’امرت بازار‘ اور ’پترکا‘، ’ہندو‘مدراس سے ،’ لیڈر‘اوربعدکو’انڈپنڈنٹ‘ الٰہ آباد سے،سنجیدہ حلقوں میں پونا  کا ’سرونٹ آف انڈیا‘ خاصہ مقبول رہا۔ مولانامحمدعلی کاہفتہ وار’ کامریڈ‘ پہلے کلکتہ سے نکلناشروع ہوا،اورپھردارالسلطنت کی طرح خودبھی دہلی منتقل ہوآیا، اور اپنے ادبی چونچلوں کے لحاظ سے سب پر بازی لے گیا۔ ۱۹۱۶ءمیں سید جالب دہلوی کی ایڈیٹری میں لکھنؤ سے روزنامہ’ ہمدم‘ نکلا، پہلے شیخ شاہدحسین قدوائی تعلقہ دار گدیہ کی مِلک میں رہا،کئی سال بعد راجہ صاحب محمودآباد نے اسے بھی خرید لیا۔ رہے رسالے اور ماہنامے تولکھنؤ میں ’الندوہ‘ اوراس کے شہرہ آفاق ایڈیٹر مولاناشبلی اور ماہنامہ’ دل گداز‘ اوراس کے نامی گرامی ایڈیٹرمولوی عبدالحلیم شرر کے نام کوکون بھول سکتا،اوربھلاسکتاہے اوروہاں ان دونوں کے پیچھے گھسٹتاہوا اور گھسلتا ہوا’الناظر‘بھی اور اردوادب میں کئی سال کے لیے زقندیں بھرتا اورکلیلیں کرتاہوا چکبست کا’صبح امید‘بھی ۔

لکھنؤمیں مسلمانوں کے چندگھرمستقل مہمان خانوں کاکام دیتے تھے ، ہوٹل یا مہمان سرابنے ہوئے۔ جب دیکھیے مہمانوں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے ۔نمبر اول راجہ اور بعدکو مہاراجہ محمودآباد کاتھااورنمبر دوم مولاناعبدالباری فرنگی محلی کااورنمبر سوم پرشہرکے مشہور ایڈوکیٹ حاجی محمدنسیم صاحب کی کوٹھی واقع ڈالی باغ ۔اورآخر زمانہ میں یہی کیفیت راجہ احمدعلی خاں والی سلیم پور کے سلیم پورہاؤس کی بھی ہوگئی تھی۔ لکھنؤ خاصاسیاسی مرکز بھی ہوگیا تھا۔ باہر کے مہمان کثرت سے آتے تھے۔

دہلی سے ڈاکٹر انصاری اورحکیم اجمل خاں ،الٰہ آباد سے پنڈت موتی لال نہرو اور سرتیج بہادر سپرو، دہلی اوربمبئی سے علی برادران ،پٹنہ سے سرعلی امام اورمدراس سے اورپونا سے فلاں فلاں، گاندھی جی جب آتے تووہ مہمان رہتے مولاناعبدالباری فرنگی محلی کے ۔

لکھنؤ میں پبلک جلسہ گاہوں کے لیے یہ عمارتیں مخصوص تھیں، سٹی اسٹیشن کے سامنے رفاہ عام اورقیصرباغ کی سفید بارہ دری اورامین الدولہ پارک، اس سے پہلے جلسے چوک کے سامنے وکٹوریہ پارک میں ہواکرتے تھے، یاچوک ہی کی بغل میں دل آرام کی بارہ دری میں۔

لکھنؤکے علما میں میرے بچپن تک مولوی محمدنعیم فرنگی محلی زندہ تھے، مرجع خاص و عام بنے ہوئے ۔ان کی جانشینی ان کے بھتیجوں کے حصے میں آئی۔ مولوی ابوالغناءعبدالمجیدصاحب اورمولوی ابوالحامد مولوی عبدالحمید صاحب، دونوں شمس العلماءتھے اور برطانیہ کے خیرخواہ فرنگی محل ہی کی ایک دوسری شاخ میں محقق فاضل مولوی عبدالحی گزرچکے تھے۔ اس شاخ میں شہرت ومرجعیت قیام الدین مولانا عبدالباری کے حصے میں آئی۔ علی برادران کوان ہی سے بیعت تھی۔ ایک بڑے عالم و بزرگ مولانا عین القضاة حیدرآبادی ثم لکھنوی تھے۔ ان کے دست غیب کے عجب عجب قصے مشہور تھے— اور ایک خاص حلقہ میں عالم تھے— مولوی عبدالشکورصاحب مدیر”النجم“ شیعہ علماءومجتہدین میں مشہور یہ تھے ،شمس العلماءمولوی ناصرحسین اورپھرمولوی نجم الحسن صاحب مولوی آغاحسن صاحب اورمولوی کلب حسین صاحب۔

مرثیہ گویوں میں پیارے صاحب رشید، عروج صاحب دولھا اورجاوید صاحب سے ملاہوں اورشاعروں کاتولکھنؤمیں شمارہی نہ پوچھیے۔ نام صرف چندہی لے سکتاہوں ۔ عزیز صاحب، صفی صاحب، ثاقب صاحب، اثرصاحب، محشر صاحب ، چکبست صاحب۔ اورہاں فارسی کے شاعرخواجہ عزیز ، جگت موہن لال رواں ، شاگرد عزیز نے بعد کو خوب خوب رباعیاں نکالیں، کالج میں میرے ساتھ کے پڑھے تھے۔ لکھنؤکے باہری شاعروں کی ایک پوری دنیا آباد تھی، سب کے نام گنانے پر آجاؤں تو گفتگو ساری اسی کی نظرہوجائے۔ انتخاب درانتخاب کرکے صرف چندنام لیے دیتا ہوں امیروداغ دونوںاستاد میرے بچپن میں تھے۔ اورحضرت اکبر اور استادجلیل تومیری جوانی تک حیات رہے، اوراکبرسے مستفید بھی اپنی بساط کے لائق خوب ہوا۔ ریاض خیرآبادی، حسرت موہانی، وصل بلگرامی ،سیماب اکبرآبادی اورناطق کے نام کیسے چھوڑجاؤں بلکہ اگرمحکمہ زندہ شخصیتوں کوبالکل ہی گمنام رکھنا نہیں چاہتاہے تو یہ تین نام زبان پر آنے کوپھڑپھڑارہے ہیں۔ فراق گورکھپوری، ملالکھنوی اورجوش ملیح آبادی۔

نثرلکھنے والوں میں استادی کامرتبہ مولاناشبلی کوحاصل ہے۔ ٹوٹاپھوٹا جوکچھ بھی لکھنا آیاسب انھیں کافیض ہے۔ اورنوک پلک کاکچھ تھوڑا بہت سلیقہ مرزاہادی رسوا کی ذات سے آگیا۔شررصاحب سے بھی زیارتیں رہیں۔ مولاناحالی کوبھی زندہ دیکھا۔ مولوی نذیر احمد دہلوی سے توخاصہ فائدہ اٹھایاہے، لیکن نام کے لیے توضرور سرسید کازمانہ بھی پایاہے۔ سرسید کانام آگیا ان کے چندرفیقوں ،مریدوں کے نام سن لیجیے ۔نواب محسن الملک ،وقار الملک ، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں ،ڈاکٹر ضیاءالدین احمد۔علی گڑھ ہی کے سلسلے میں تین نام اور زبان پربے اختیار آئے جارہے ہیں جسٹس سرسلیمان، جسٹس سیدکرامت حسین اور صدریارجنگ حبیب الرحمن خاں شیروانی۔

اپنی کالج تعلیم تولکھنؤمیں پائی۔بی اے یہیں کیا، کیننگ کالج کے پہلے پروفیسر اور پھرپرنسپل کیمرن کانقش دل پربیٹھاہواہے ،یونیورسٹی کے قائم ہونے پراس کے وائس چانسلر بھی ہوگئے تھے۔ میڈیکل کالج، کوئن میری زنانہ اسپتال کی بنیادیں میرے سامنے رکھی گئیں، اورجب سے ڈاکٹروں کے انبوہ نظرآنے لگے۔ اس سے پہلے شہرت کے پروں سے یہ ڈاکٹر پرواز کررہے تھے۔

ایک ڈاکٹر اینڈرسن (شہرکے سول سرجن) دوسرے ڈاکٹر عبدالرحیم (ماہر امراضِ چشم) تیسرے ڈاکٹر رام لال اوریونانی طبیبوں کے بارے میں سن لیجیے کہ دہلی کے اجمل خاں اوردوسرے شریف زادوں سے کسی کامقابلہ ہی کیا۔ لیکن وہ جو جوہر رام پوری کہہ گئے ہیں:۔

تجھ سے مقابلہ کی کسے تاب ہے ولے

میرا لہو بھی خوب ہے تیری حناکے بعد

ہمارے لکھنؤ کاجھنوائی ٹولہ بھی کچھ کم نہیں۔ حکیم عبدالعزیز اورپھر حکیم عبدالحمید ، حکیم عبدالمعید، حکیم عبداللطیف بھی بھولنے والے نہیں۔ اوریہ آخری تینوں شفاءالملک تھے، دواورشفاءالملک ،اوربھی یاد کرنے کے قابل رہے جاتے ہیں۔ ایک خواجہ شمس الدین ، دوسرے میرے بھائی حکیم عبدالحسیب دریابادی۔ یہ دونوں اپنے نام کے ساتھ اپنے فن کا نام بھی خوب روشن کرگئے اورایک آج سے پچاس برس قبل کے طبیب حکیم عبدالحئی نائب ناظم ندوة العلماء ، مطب گوئن روڈ پرکرتے تھے۔ ان کی جانشینی ان کے صاحب زادے ڈاکٹر عبدالعلی کے حصے میں آئی۔ یہ طب یونانی میں حاذق ہونے کے علاوہ ایک اچھے ڈاکٹر بھی تھے ۔اورناظم ندوہ بھی الگ برسہابرس رہے۔ اردولکھنے والے اوراردو کی خدمت کرنے والے بھی لکھنؤسے باہر بہت سے ہوئے ہیں۔ سب سے یگانگت کارشتہ ہے۔

سب سے پہلے بابائے اردومولوی عبدالحق پھردہلی کے خواجہ حسن نظامی، پھر مولانا ابوالکلام، پھرمولانا سیدسلیمان ندوی پھر قاضی عبدالغفار، پھرمہدی حسن افادی اور پھروحیدالدین سلیم۔ رتن ناتھ سرشار کافسانہ آزاد جب تک اردوزندہ ہے ان کانام بھی زندہ ہے ۔یہ بھی میرے بچپن تک زندہ سلامت تھے۔

سیاسی لیڈرمیرے لڑکپن بھریہ تھے۔ (۱)سریندرناتھ بنرجی، (۲)گوکھلے، (۳)فیروز شاہ مہتہ، (۴)محمدعلی، (۵)دادابھائی نوروجی اورایک خاص پارٹی میں سب سے بڑی شخصیت تلک مہاراج کی تھی۔ مالوی جی اپنی شیریں بیانی اوراعتدال پسندی کے لیے معروف تھے۔ پھر شہرت کے نام پر اڑتے ہوئے مسزنائیڈو ،موتی لال اورجواہرلال نظرآئے۔ اور گاندھی جی نے تو گویا ریکارڈ ہی توڑدیا۔ انھیں کے ہم دوش تحریک خلافت وترک موالات کے زمانے میں علی بردران رہے۔ اپناکسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق کبھی بھی نہیں رہا، بجز ایک خلافت کے، اور اس سلسلے میں علی برادران سے پینگ خوب بڑھ گئے۔

لاہورکے ظفرعلی خاں اورامرتسر کے عطا ءاللہ شاہ بخاری بھی بیگانے سے زیادہ اپنے ہی تھے، اورسیاسی لیڈروں میں مولاناابوالکلام، رفیع احمدقدوائی، مولوی حفظ الرحمن ، مولانا حسین احمد، ڈاکٹر سیدمحمود ،مجیدخواجہ، اورحسرت موہانی  شیر و شکر  رہے۔  اورگاندھی جی کی تو عظمت ہی نہیں عقیدت برسوں تک رہی۔

دینی اورروحانی سلسلے سے واسطہ رہا۔ پہلے ایک ہندورشی ڈاکٹر بھگوان داس بنارسی سے اورپھرمتعدد مسلمان بزرگوں سے۔اکبرالٰہ آباد ی، مولانازکریا،شاہ وصی اللہ ؒحضرت رائے پوری اورسب سے بڑھ کر شیخ المشائخ حضرت اشرف علی تھانویؒ سے کہ انھیں کی دست گیری سرمایۂ آخرت ہے۔"

(منقول: نشریات  ماجدی،  ترتیب  جدید  مع  تخریج  و  تحشیہ،  مرتبہ  زبیر  احمد  صدیقی، ۲۰۱۶ء)