منافرت پھیلانے والے بھگوا لیڈروں کے خلاف مقدمات ۔۔حقائق اور نتائج۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
haneefshabab@gmail.com
کرناٹکا اسمبلی الیکشن کے دن جیسے جیسے قریب آتے جارہے ہیں، زعفرانی کیمپ میں شطرنج کی بساط پر چلنے کے لئے چالوں اور سازشوں کے منصوبے تیار ہونے لگے ہیں اور اس پر پورے جوش وخروش کے ساتھ عمل درآمد کے لئے بھگوا بریگیڈ کے شعلہ بیان مقررین نے ایک طرف اسٹیج سنبھا لا ہے تو دوسری طرف میڈیا اور خاص طور پر سوشیل میڈیا کے محاذ پر بھی زعفرانی ٹولہ پوری طرح سرگرم ہوگیا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال پچھلے دنوں بھٹکل بلدیہ کی دکانوں کی نیلامی اور اس پس منظر میں ایک دکاندار کی خود سوزی کے مسئلے میں دیکھنے کو ملی۔
طویلے کی بلا بندر کے سر: ہندو جاگرن ویدیکے کے ڈسٹرکٹ کنوینراور بی جے پی کی ایم پی شوبھا کرندلاجے اور دیگر لیڈروں نے خواہ مخواہ ہی بھٹکل کے مسلمانوں کے نمائندہ ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کواور مدرسوں کو پریس کانفرنس کے دوران کھلے عام نشانہ بنایا۔اس معاملے کو مسلمانوں کی دہشت گردی اور ہندوؤں کو بھٹکل سے بھگانے کی ساز ش قرار دیا۔اس کے بعد بلدیہ کی عمارت پر سنگ باری کرنے والوں کے خلاف سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اورسرکاری افسران کو اپنے فرائض سے باز رکھنے کے الزامات کے تحت ملزمین کی گرفتاری شروع ہوگئی تو اسے بھی ہندوؤں کو دبانے اور کچلنے کے لئے مسلمانوں اور کانگریسی سرکار کی ملی بھگت کا نام دیا گیابلکہ اسے سرکاری دہشت گردی قرار دیاگیا۔ اس گرم ہوا کو بنائے رکھنے کے لیے سری رام سینا کا مقامی لیڈر شنکر نائک تو حسب معمول اب بھی سوشیل میڈیا پر آگ اگلنے میں مصروف ہے۔
تنظیم نے کیس کیوں درج نہیں کیا؟!: ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی عوام کے اندر ایک کھلبلی یہ مچی رہی کہ تنظیم ، مسلمان اور مدرسوں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے منافرت پھیلانے والوں کے خلاف تنظیم نے قانونی کارروائی کیوں نہیں کی۔ خاص کر نوجوان تنظیم کی قیادت پر ایک حد تک برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔کچھ لوگ "انجان آواز"کے نام سے وہاٹس ایپ گروپس پر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے اور تنظیم سے وابستہ ارباب حل و عقد کی صلاحیت و اہلیت پر ہی سوال اٹھاتے نظر آئے۔ (بد قسمتی سے ہنگامی معاملات میں اس طرح کے خیالات اور تبصرے ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جز بن گئے ہیں!)کچھ دانشور قسم کے حضرات یہ مشورہ دیتے نظر آئے کہ تنظیم یا کسی دوسرے فرد کے آگے بڑھنے کا انتظار نہ کرتے ہوئے ہمارے معاشرے کے نوجوان وکیلوں کو خود سے آگے بڑھ کر مقدمات درج کروانا چاہیے۔منجملہ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ ادھر تنظیم نے یا کسی فرد نے پولیس میں کیس درج کروایا اور اُدھر شنکر نائک، پی ایس پائی اور اس قبیلے کے تمام سردار سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں گے اور وہاں سڑتے رہ جائیں گے۔
یہ قانونی اقدام کمیٹی کی ذمہ داری ہے!: میرا اپنا موقف یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کے بیانات یا تقاریر ہوں تو ہماری طرف سے پولیس میں معاملہ درج کروایا جانا چا ہیے۔ اور تنظیم میں قانونی اقدام کمیٹی کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ بھی قائم ہے۔جس کا ایک اہم ترین کام یہ ہے کہ اسلام، مسلمان، مسلم ادارے اور ملت کے خلاف اگر کہیں سے کوئی بیان یا تحریر سامنے آئے تو اس کا جائزہ لے اور قانونی اقدام کے امکانات پر غور کرتے ہوئے جہاں بھی ضروری ہو، وہاں کیس داخل کروائے۔اس شعبے کے تحت ماضی میں بھی اس طرح کی کارروائیاں انجام دی جاچکی ہیں۔اس لئے عوام کے اس مطالبے یا تقاضے کو غلط تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن گمنام رہ کر کسی ادارے یا قائدین کے بارے میں بدگمانی پھیلانے والوں کی بھی ہمت افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔
اس خوش گمانی سے باہر نکلنا چاہیے: میں یہ توہر گز نہیں کہتا کہ زعفرانی ٹولے کی ایسی ہرزہ سرائی اور اشتعال انگیزی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ان پر تومقدمات درج ہونے چاہئیں اور بار بار ہونے چاہئیں۔ البتہ شرانگیز بیانات دینے اور منافرت پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کا مطالبہ کرنے والے ہمارے باشعور اور بے شعور دونوں سطح کے افراد کو اس خوش گمانی سے باہر نکلنا چاہیے کہ ہماری طرف سے کیس داخل کرنے کے ساتھ ہی بھگوا بریگیڈ کے firebrand فسادیوں کو لگام لگ جائے گی۔ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں پڑ جائیں گی یاپھر وہ دُم دبا کرچوہوں کی طرح اپنے بِلوں میں گھس جائیں گے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اسی خام خیالی کی وجہ سے کبھی اپنے قائدین سے مایوس ہوجاتے ہیں ۔کبھی حالات کا شکوہ کرتے ہیں اور کبھی غیر ضروری رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کیس داخل کرنا اور سزا دلوانا آسان ہے؟: جب بھی کوئی اشتعال انگیز تحریریا بیان سامنے آتا ہے تو کچھ لوگ شور مچانے لگتے ہیں کہ تنظیم کو کیس داخل کرنا چاہیے۔ اور اب کچھ دانشور قسم کے لوگ ہمارے وکیلوں اور دوسرے افراد کواپنی طرف سے کیس داخل کرنے پر اکساتے اور سوشیل میڈیا میں اس پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن کیا کسی پر کیس داخل کرنا اور سزا دلوانا اتنا آسان اور بچوں کا کھیل ہے!اس کا شعور بھی تو ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے تنظیم ہی کے تحت کئی مقدمات درج کیے گئے ۔ اخبارات پر مقدمات درج ہوئے اور نتیجہ کیا نکلا؟۔ہائی بینگلورو کے ایڈیٹر روی بیلگیرے پر تنظیم کے لیگل سیل کے تحت دائر (defamation) ہتک عزت کا مقدمہ 12سال سے زائد عرصے تک چلااور نتیجہ صفر رہا۔شاید دیگردو ایک مقدمات ابھی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔
آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا دنیا کو جہاں گیر کا دربار نہ سمجھو
مقدمہ کے لئے کوئی آگے بھی تو آئے !: منافرت پھیلانے والے بھگوابریگیڈ کے کمانڈروں کے خلاف مقدمات دائر کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ اس کے لئے شکایت کنندہ نہیں ملتے۔ تنظیم کی قانونی اقدام کمیٹی رہنمائی تو کرسکتی ہے، مگر ہر مرتبہ اور ہر معاملے میں تنظیم کے عہدیداران کے نام سے شکایت درج کروانا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جب تک کیس سماعت اور جرح کے مرحلے تک پہنچتا ہے تب تک تنظیم کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے ۔پھر شکایت کنندہ کے علاوہ تین چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام میں سے کچھ لوگوں کو گواہی دینے کے لئے آگے آنا ہوتا ہے ۔یہاں بھی یہ مشکل پیش آتی ہے کہ عدالت کے چکر کاٹنے اور ایک لمبے عرصے تک گواہی کے لئے پیش ہونے کا انتظار کرنے کے لئے کوئی رضاکارانہ طور پر تیار نہیں ہوتا۔ہمارے اکثر و بیشتر افراد این آر آئی زمرے میں ہوتے ہیں۔ ان کا شہر میں قیام عارضی ہوتا ہے۔ ہمیشہ سفر میں او رمسلسل شہرسے باہر رہنے والے عدالتی کارروائیوں میں کوئی تعاون کر نہیں سکتے ۔ اور جو لوگ شہر میں رہ کر قانونی اقدامات کرنے کے لئے تنظیم پر دباؤ بناتے اور اس کی مہم چلاتے ہیں ، ان میں سے بھی کوئی خود رضاکارانہ طورپر آگے بڑھ کر شکایت کنندہ یا گواہ کے بطور قانونی اقدام کمیٹی کاعملاً ساتھ نہیں دیتا ہے۔بس برائے نام ہنگامہ آرائی کرنا ہی ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ ہندتوا وادی فائر برانڈ لیڈرس : ملکی سطح پرمسلمانوں اور اسلام کے خلاف رات دن زہر افشانی کرنے کے لئے اگر سادھوی پراچی، اوما بھارتی، یوگی آدتیہ ناتھ، پروین توگاڈیہ،ساکشی مہاراج جیسے لوگ صف اول میں ہیں تو ہمارے یہاں ریاستی سطح پر پرمود متالک اور جگدیش کارنت سب سے آگے ہیں۔ اورضلع جنوبی کینرا میں رکن پارلیمان نلین کمار کٹیل اور شوبھا کرندلاجے کے علاوہ شرن پمپ ویل ، کلاڈکا پربھا کر، چکرورتی سولی بیلے، ستیہ جیت سورتکل وغیرہ ہندو راشٹرا واد اور مسلم دشمنی کے محاذپر جمے ہوئے ہیں توضلع شمالی کینرا میں رکن پارلیمان اننت کمارہیگڈے اور بھٹکل تعلقہ کی سطح پرسری رام سینا کے چیف پرمود متالک کے چیلے شنکر نائک اور ہندو جاگرن ویدیکے کے نئے رنگروٹوں نے مورچہ سنبھالا ہوا ہے۔اس طرح پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو اکسانے اور ہراساں کرنے کے لئے سنگھ پریوار کی ٹیمیں میدان میں کام کررہی ہیں۔ پرمود متالک کی کارستانیاں : جنوبی ہند میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں کے خلاف زہر افشانی کرنے اور حملے کروانے کے سلسلے میں سب سے زیادہ مقدمات پرمود متالک پر دائر کیے جاچکے ہیں۔ ان مقدمات کی تعداد 40سے تجاوز کرچکی ہے۔ریاست کے تقریباً 11اضلاع کی پولیس کو وہ مطلوب ہے ۔ کئی معاملات میں عدالت سے غیر حاضری پر اس کے خلاف وارنٹس نکل چکے ہیں۔بعض اضلاع کے مخصوص مقامات پر اس کے داخلے پر عارضی پابندی بھی لگائی جاتی ہے۔ ریاست گوا میں اس کے داخلے پر پابندی لگی ہوئی ہے۔لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ پرمود متالک آزاد ہے۔ اور وہ بے دھڑک اپنی زبان سے منافرت کی آگ موقع بے موقع مسلسل اگل رہا ہے۔نہ اسے مقدمات کی پرواہے اور نہ کسی قانون کا ڈراسے اپنی مسلم دشمنی سے باز رکھتا ہے۔ وہ اس وقت راشٹریہ ہندو سینا کا چیف ہے جس کی ذیلی شاخ سری رام سینا ہے۔وہ بنیادی طور پرآر ایس ایس کا ممبر رہا ہے پھراسے جنوبی ہند کے لئے بجرنگ دل کاکنوینر بنادیا گیا تھا۔ بجرنگ دل سے نکال باہر کیے جانے پر اس نے شیوسینا کی کرناٹکا یونٹ قائم کرلی تھی، لیکن بیلگام کو مہاراشٹرا شامل کرنے کے مطالبے پر شیوسینا سے اختلاف کی وجہ سے اس نے اپنی سری رام سینا بنالی۔پرمود متالک مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کاپرجوش قدر دان اور پرستارہے اور ہر سال اس کی برسی کی تقریبات میں شرکت کے لئے لازمی طور پر پونے جایا کرتا ہے۔ جگدیش کارنت کی زہر افشانیاں: یہ جوہندو جاگرن ویدیکے کا کنوینر جگدیش کارنت ہے اس کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ ہندو سماویش کے نام سے مختلف مقامات پر وقفے وقفے سے بڑے بڑے جلسے منعقدکیے جائیں اور اس میں جم کر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑاس نکالی جائے اور ہندو نوجوانوں کو عیسائیوں اور مسلمانوں سے پاک ہندو راشٹرکی تشکیل کے لئے ذہن سازی کی جائے۔جنوبی کینرا کے سورتکل میں تو اس کی تقریری کے بعد باقاعدہ فساد پھوٹ پڑا تھا اور کئی جانیں تلف ہوگئی تھیں۔ملک کے سیکیولر ڈھانچے کو توڑنے اور اسے صرف اور صرف ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی اپیل کرنا ہی اس کا مشن ہے۔ گزشتہ آٹھ دس برسوں میں کی گئی اس کی تقاریر کا لب لباب ہی یہ ہے کہ ہندوستان پر مسلمانوں کا اب کو ئی حق واختیار نہیں ہے ، کیونکہ ہندوستان کو کاٹ کر مسلمانوں نے پاکستان کے نام سے اپنا ملک الگ بنوالیا ہے۔اس لئے ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے۔ بھٹکل میں بھی کیس درج ہوا تھا: کچھ برسوں قبل بھٹکل میں بھی ہندو مہا سماویش کے دوران عام خطاب کے دوران اسی جگدیش کارنت نے بھٹکل کے مسلمانوں ، تنظیم کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ اس وقت کے سرکل پولیس انسپکٹر جینت شیٹی کا نام لے کر کہا تھا کہ وہ تنظیم کے صدر شبّر (دامدا حسن شبر صاحب) کی جوتیاں سیدھی کرنے میں لگا ہوا ہے۔اس وقت ریاست کے اعلیٰ پولیس افسران نے بھٹکل میں کیمپ کیا تھا۔ ان کے پاس پوری تقریر ریکارڈ تھی۔ ہم نے فوری طور پر پولیس کے اعلیٰ ترین افسران کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے بڑ ی مدلل بریفنگ کی تھی اوراپنے طور پر ریکارڈ کروائی گئی تقریر کا کیسیٹ بھی ان کے حوالے کیا تھا۔ پولیس نے پوری تقریر کا جائزہ لینے کے بعدsuo motuکیس درج کرنے کا وعدہ کیا۔مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!لہٰذا وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی مسلم مخالف مہم میں پوری طرح جٹا ہوا ہے۔ حالانکہ ایک حالیہ اشتعال انگیز تقریر کے دوران پتّور میں ایک مسلم پولیس انسپکٹر کے خلاف انتہائی ہتک اور ذلت آمیز ریمارکس کے لئے اسے گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ مگر چند ہی گھنٹوں میں عدالت نے اسے عبوری ضمانت(interim bail)پر رہا بھی کردیا۔اب یہ گرفتاری اور رہائی بھی اس کی شان بڑھانے میں کام آئے گی۔عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف
پرمودمتالک کا چیلا شنکر نائک: اسی طرح سوشیل میڈیا پربھٹکلی مسلمانوں اور ان کے اداروں کو ٹارگٹ بنا کر زہر افشانی کرنے میں سری رام سینا کے چیف پرمود متالک کا چیلاشنکر نائک سب سے آگے ہے۔حالانکہ اس کے خلاف پولیس میں بار بار شکایت کی گئی ۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ پر اس کی نفرت انگیز پوسٹس کی نقلیں بھی بڑی تعداد میں پولیس کے حوالے کی گئیں۔ خبر یہ تھی کہ بہت جلد اسے شہر بدر کرنے کے اقدامات پولیس اور ضلع انتظامیہ کی طرف سے ہونے والے ہیں۔لیکن قانونی موشگافیوں، سیاسی دخل اندازیوں اور انتظامی مصلحتوں کے طفیل میں وہ اب بھی آزاد ہے اور مسلسل آگ اگل رہا ہے۔بلدیہ کی عمارت پر سنگباری اور توڑ پھوڑ کے معاملے میں اسے گرفتار تو کیا گیا تھا مگر دو چار دنوں میں ہی وہ ضمانت پر رہا ہوگیا ہے اور فیس بک پر پھر سے سرگرم ہوگیا ہے۔ یہ ہندوؤں کی تحریک آزادی ہے !: فائر برانڈہندتواوادی لیڈروں کے مشن کا نصب العین ان کے ایک ویب سائٹStruggle for Hindu Existence(ہندوؤں کی بقاء کے لئے جد وجہد)پر یوں بیان کیا گیا ہے :"خود مختاری اور وقار کے ساتھ جینے کے حقوق کے لئے اور بھارت کو 2025تک ہندو راشٹرا بنانے کی ہندوتحریک آزادی Hindu Freedom Movementمیں نوجوانوں کو شامل کرنا" اب اس نصب العین کی روشنی میں دیکھیں تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ ہندتواوادیوں کے لئے پولیس ، مقدمات ، عدالت اور جیل وغیرہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے ۔سچائی یہ ہے کہ انہوں نے ان مقدمات کو اپنے لئے توصیفی سند اور تمغات کا مقام دے رکھا ہے ۔اس سے کٹر ہندتواوادی بھگوابریگیڈ میں ان کا رینک اور مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ان کا قداور وقار گھٹنے کے بجائے مزید بلند ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان پر مقدمات داخل کرنے سے کوئی خاص اور قابل قدر فائدہ ہونے کے بجائے عام طور پر اس سے انہیں کا مفاد پورا ہوتا ہے۔ البتہ بار بار مقدمات دائر کرنے سے کبھی کبھار چھوٹے موٹے لیڈروں کو کچھ مدت کے لئے سلاخوں کے پیچھے بھیجنے یا شہر بدر(تڑی پار) کروانے میں مدد مل سکتی ہے، وہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ پولیس اور انتظامیہ ایسے اقدام کا قصد کرلے۔دیکھو یہ میرے خواب تھے ، دیکھو یہ میرے زخم ہیں میں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا
(وضاحت: یہ تحریر مضمون نگار کے ذاتی خیالات اور ان کی ذاتی آراء پر مبنی ہے ۔اس تحریر سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)