سفر حجاز۔۔۔(۳۹)۔۔۔ جدہ، جہاز۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:21PM Sun 1 Aug, 2021

جملہ معترضہ ختم ہوا، کئی ورق کا طویل و عجیب۔ ”جملہ“ ۔اور صرف نحوی اصطلاح میں نہیں، اپنے لفظی معنی میں بھی ۔”معترضہ“ ۔ہی تھا اور معلموں کی چیرہ دستوں سے حاجیوں کو آگاہ اور خبردار کرنے کے لیے یہ جملہ معترضہ سفر نامہ کا ضروری جزو تھا، اب پھر اصل سفر کی داستان شروع ہوتی ہے۔ عشاء کا اول وقت شروع ہوچکا تھا، جب مجمع کو چیرتے ہوئے ہم سب لوگ اعرابیوں پر سوار، مکہ کی آبادی سے باہر اس مقام پر پہونچے جہاں روانگی کے لیے سواریاں ملتی ہیں، سوار پہنچ گئے لیکن سواری ندارد!۔ ساری رات میدان میں گزاری، کچھ وقت معلم صاحب کے ساتھ زق زق بق بق میں گزرا اور باقی سونے میں صبح ہوئی، نماز فجر پڑھی۔آفتاب نکلا، چائے اور ناشتہ سے فراغت کی، سواری کا اب بھی پتہ نہیں! ۔دیر کے بعد معلوم ہوا کہ فرلانگ دو فرلانگ پر سرکاری تھانہ ہے، صلاح ٹھہری کہ وہاں چل کر قسمت آزمائی کر لی جائے، شاید کہ پولس کچھ دستگیری کرسکے۔۔۔توکل کا یہ مرتبہ کہاں نصیب تھا کہ اللہ کے گھر میں آکر تو اللہ ہی پر بھروسہ کئے بیٹھے رہیں، خلق اللہ سے استعانت ناگزیر تھی۔۔۔قافلہ سے ہم تین آدمی تھانہ پہونچے اور بہ مشکل تھانہ دار صاحب کے ہاں باریابی نصیب ہوئی، نجدیوں کی عام ذہنیت کا کافی تجربہ ہوچکا تھا، پھر تھانہ دار صاحب تو ماشاءاللہ محکمہ پولیس کے ایک ذی اختیار عہدہ دار تھے، اور گو نسلاً نجدی ہوں یا نہ ہوں لیکن اپنے عہدہ کے اعتبار سے تو بہرحال حکومت سعودیہ ہی کے ایک رکن تھے، ان کے حسن اخلاق کا جو نمونہ دیکھنے میں آیا، خدا نہ کرے وہ آئندہ کبھی کسی حاجی کو دیکھنا پڑے!۔ مولانا مناظر صاحب نے حجاز آکر خوب خوب مجاہدے کیے تھے لیکن اس سرزمین پر ان کے لیے سب سے بڑا مجاہدہ شاید اس سفر کی سب سے اخیر گھڑیوں کے لیے اٹھ رہا تھا، گفتگو ہم مسافروں کی طرف سے وہی فرمارہے تھے،ان بیچارہ پر جو زبردست ڈانٹ ان تھانہ دار صاحب کی پڑی ہے، اس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لے جانا مولانا ہی کا ظرف تھا۔

صبح پانچ بجے ہوچکی تھی، ۷ بجے، ۸ بجے، ساڑھے آٹھ، ۹ بجے خدا خدا کرکے مشکل آسان ہوئی، اور کوکب الشرق کمپنی ۔(ایک مصری موٹر کمپنی کا نام ہے) ۔کی ایک لاری ہم لوگوں کے لیے نظر آئی، رفیقان قافلہ اس میں سوار ہوئے، مجھے خود ایک چھوٹی موٹر میں جگہ مل گئی، اس موٹر پر مولانا شوکت علی کے داماد اور بھانجے عثمان علی خاں صاحب مع اپنی دو عدد رامپوری دوستوں کے آ رہے تھے، موٹر اور لاری کے درمیان کرایہ میں کچھ زیادہ فرق نہیں لیکن آرام میں اچھا خاصا فرق ہے، موٹر وقت کم لیتا ہے۔اس میں جھٹکے کم لگتے ہیں، بیٹھنے کی جگہ زیادہ آرام دہ ہوتی ہے، کرایہ اب خوب یاد نہیں فی کس ایک گنی سے غالباً ایک آدھ روپیہ زائد ہے۔ مدینہ سے روانگی کے وقت یاد ہوگا کہ شہر سے ۳ /ذی الحجہ کو رخصت ہوئے تھے اور ۲۷ گھنٹے کے انتظار کے بعد شہر پناہ کے پھاٹک سے ۴/کی دوپہر کو نکلے تھے، اسی طرح شہر مکہ سے ۱۵/ذی الحجہ کو بعد مغرب روانہ ہوئے اور ۱۳۔۱۴ گھنٹے کے انتظار کے بعد ۱۶/کو نماز چاشت کے وقت شہر پناہ سے باہر ہوئے، ہندوستانی وقت کے حساب سے کوئی ۱۰ بجے ہوں گے کہ حدودِ مکہ سے موٹر روانہ ہوگیا۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ چند روز کا بابرکت زمانہ قیام ختم ہوگیا۔ اب عمر بھر پھر اسی کی یاد رہے گی اور اسی کی حسرتیں، اسی کا دھیان رہے گا، اور یہیں کا ارمان!۔ یہیں کی تمنائیں رہیں گی، اور یہیں کی آرزؤئیں!۔ اسی در کی طلب، اور اسی آستاں کی تڑپ، ایک خواب تھا کہ چشم زدن میں ختم ہوگیا۔ اب عمر بھر کی بیداریاں ہوں گی، اور تمنائے خواب! ۔۔۔۔۔لیکن یہ یاس کا غلبہ اور مایوسی کا ہجوم کیوں؟۔ جس قادر علی الاطلاق نے بلا کسی حق و استحقاق کے ایک بار ان آنکھوں سے اس کی زیارت کرا دی، اس کے فضل و کرم سے کیا کچھ بعید ہے کہ ایک بار پھر، اور ایک ہی بار کی قید کیوں، بار بار پھر جیتے جی، اس جنت ارضی کی سیر کرا دے، اور کراتا رہے؟۔ لائے اور پھر لے جائے اور پھر لائے اور بار بار لائے اور ایسا لائے کہ پھر اس جسم ناسونی کو جنت البقیع یا جنت المعلیٰ کے احاطہ میں حشر تک کے لیے سلادے! ۔یہیں سلائے اور یہیں سے اٹھائے!۔ ”زندگی“ ۔کی طلب رکھنے والوں کو انگلستان اور فرانس اور امریکہ اور روس کی سیر مبارک، لیکن ۔”موت“۔کے دامن میں پناہ دھونڈنے والا حجاز والے کے سوا کسی کا آسرا لگائے؟ ۔”جنت نظیر“۔کی آرزو والے ۔”کشمیر“۔ اور۔ ”جنت نشان“ ۔کی تمنا والے ہندوستانی فرنگستان کی گلگشت میں مصروف رہیں لیکن ۔”جنت نظیر“۔اور ۔”جنت نشان“۔کی شاعری کا مفتوں نہیں۔خود جنت کی حقیقت کا بھوکا، اور اگر ادھر نہ آئے تو کدھر جائے؟۔

 موٹر کا سفر بحمداللہ ہر طرح خوشگوار اور آرام دہ رہا اور گو مئی کی ۲۵/ تھی، موسم بہت زائد سخت نہ تھا، موٹر اچھا تھا، مصری شوفر اچھا تھا، ہندی رفقا اچھے تھے، درمیان میں ذرا کی ذرا بحیرہ میں ٹھہرے، یہاں چائے کی میز پر چند جاوی حاجیوں کا ساتھ رہا۔ ایک دوسرے کی زبان سے یکسر اجنبی۔ اس پر بھی ملاقات پرلطف و شگفتہ رہی۔ڈھائی گھنٹہ میں جدہ کی عمارتیں دکھائی دینے لگیں اور چند منٹ کے بعد موٹر اپنی جگہ پر آکر ٹھہرگیا، آج ہندوستان کی ڈاک کی تقسیم کا دن تھا، وطن چھوڑنے کے بعد یہ پہلی ڈاک تھی جو سرزمین عرب پر ملنے والی تھی، عزیزوں کی خیریت میں دوستوں کے ذاتی حالات میں، اور ملک کے عام قومی کیفیات میں دل لگا ہوا تھا، اپنی ڈاک پوسٹ ماسٹر جدہ کے پتہ پر طلب کر آیا تھا، موٹر سے اترتے ہی دوپہر میں پیدل ڈاک خانہ پہونچا،  یہ معلوم کرکے مایوسی ہوئی کہ ڈاک کے جہاز کی آمد ہے لیکن ابھی آ نہیں چکا ہے، مجبوراً واپس ہوا اور اپنے وکیل صالح بسیونی کے مکان پر پہونچا، بیسیوں قافلے اس وقت سے کہیں پیشتر جدہ پہونچ چکے تھے اور اکثروں کے ٹکٹ کا انتظام ہوچکا تھا، وکیل صاحب کے مکان کے اندر ہجوم اور باہر ایک میلہ سا لگا ہوا! ۔ہم لوگوں کے پہونچنے میں اچھی خاصی تاخیر ہوئی۔۔۔۔۔وہی معلم صاحب کی عنایت ۔۔۔۔۔اور اس اثناء میں جہاز کی سب جگہیں بھرچکیں، بمبئی کے لیے ٹرنر موریسن کمپنی کا پہلا جہاز ”رحمانی“ کل ہی پرسوں روانہ ہونے والا ہے، اس کی گنجائش بھر کے مسافر سب آچکے، اب بھلا اس پر جگہ ملنے کی کیا صورت؟ وکیل صاحب نے بھی مایوس کر دیا اور جہازی کمپنی کے دفتر ہی میں تھا کہ اتفاق سے منشی احسان اللہ خاں صاحب وائس کانسل وہاں آ گئے، ٹکٹوں کا معاملہ انہیں کے ہاتھ میں ہے مگر انھوں نے اپنے ہاں کے قاعدے اور ضابطے ایسے مقرر کر رکھے ہیں کہ اگر کسی شخص کے ساتھ خاص رعایت اور عنایت کرنا چاہیں بھی تو آسانی سے نہیں کر سکتے، ہر شخص کو اس کے نمبر ہی پر ٹکٹ ملے گا، اس لیے ان سے جو گفتگو ہوئی وہ بھی کچھ امید افزا نہ تھی۔

میں خود تو جدہ پہونچ گیا لیکن رفقاء کہاں ہیں؟ موٹر پہونچے ہوئے مدت ہوگئی لیکن ساتھیوں کی لاری کا اب تک پتہ نہیں۔موٹر مانا کہ لاری سے قبل پہونچتی ہے لیکن بس وہی گھنٹہ پون گھنٹہ قبل، اس سے زائد کا فرق تو نہ ہونا چاہیئے، گھنٹہ گزرا، ڈیڑھ گھنٹہ، دو گھنٹے، تین گھنٹے، چار گھنٹے مجھے پہونچے ہوئے ہوگئے، میں ظہر کے اول وقت پہونچا تھا، اب عصر کا اوسط وقت ہوگیا اور لاری کا کہیں پتہ نہیں، گھبرا کر بار بار وکیل صاحب سے دفتر ”کوکب الشرق“ کو ٹیلیفون دلواتا تھا، اور وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا تھا، جب بالکل شام ہونے لگی تو استغاثہ لےکر منشی احسان اللہ صاحب کے مکان پر گیا، وہ خود تو موجود نہ ملے، البتہ ان کے ہاں ہمارے ملک کے مشہور واعظ مولوی حاجی نثار احمد صاحب کانپوری۔ (مفتی جامع مسجد آگرہ)۔ مل گئے اور بڑے اخلاق و تپاک سے ملے، وہ ماشاءاللہ متعدد حج کرچکے ہیں اور یہاں کی زبان، جغرافیہ، حالات سب سے خوب واقف ہیں۔ بیچارے از راہِ ہمدردی ازخود میرے ہمراہ ہوگئے اور کمپنی کے دفتر کی تلاش میں نکلے اور جب وہاں پہنچ کر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تو اب اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ رضا بالقضا پر مجبوراً عمل کرکے شہر پناہ کے پھاٹک پر کھڑے ہو کر صبر کے ساتھ انتظار دیکھا جائے، اتفاق دیکھئے کہ جوں ہی پھاٹک پر پہونچے پہلی لاری جو دکھائی دی، وہ ہمارے ہی قافلہ کی تھی، عین غروب آفتاب کا وقت تھا گویا مکہ سے جدہ تک جو فاصلہ میری موٹر نے ڈھائی گھنٹہ میں طے کرلیا تھا، وہ اس لاری نے ساڑھے سات گھنٹے میں طے کیا!۔ ساتھیوں سے معلوم ہوا کہ راستہ میں ہر قسم کی افتادہ، شوفر کی حرکتوں سے لاری کو پیش آتی رہی، یہاں تک کہ ایک بار اس کی سگریٹ کی چنگاریوں سے لاری میں آگ بھی لگ گئی، اور کپڑے جلنے شروع ہوگئے لیکن بے درد شقی القلب شوفر کسی قسم کی مدد و ہمدردی کرنا الگ رہا، لاری کو روکنے تک کا روادار نہ ہوا! مولانا مناظر صاحب اور دوسرے رفقا برابر۔ ”النار“۔ ”النار“۔ ”الحریق“۔”الحریق“ ۔پکارتے رہے اور صراحیوں کا پانی ڈال ڈال کر جس طرح بن پڑا آگ بجھائی، ورنہ اگر جانیں بھی چلیں جاتیں تو کچھ بعید نہ تھا۔کوکب الشرق کمپنی کی گاڑیوں کا ایک ہی تجربہ ہوا، اور خدا نہ کرے اس تجربہ کے اعادہ کی نوبت آئے۔

رحمانی بمبئی کے لیے ۱۸/ذی الحجہ کو روانہ ہورہا تھا، اس پر جگہ ملنے سے بالکل مایوسی تھی اور خیال یہی تھا کہ دوسرے جہاز کے انتظار میں ابھی کئی دن جدہ میں پڑا رہنا ہوگا لیکن رحمت باری کو مایوس دلوں کی شگفتہ کرتے کیا دیر لگتی ہے۔۔۔۔۔اور اس سفر کے دوران میں تو اس کا مشاہدہ قدم قدم پر کرایا گیا۔۔۔۱۷/ کی صبح کو جب منشی احسان اللہ صاحب کے ہاں ملنے گئے تو کچھ دیر کے بعد معلوم ہوا کہ اسی جہاز میں پورے قافلہ کے لیے جگہ نکل آئی ہے! یہ احسان تمام تر اللہ ہی کا تھا، لیکن احسان کا واسطہ ”احسان اللہ“ کی ذات کو بنایا گیا، منشی صاحب کی عنایت و نوازش کی جب کوئی داد دیتا ہے تو وہ چڑنے سے لگتے ہیں اور چشم تصور یہ دیکھ رہی ہے کہ منشی صاحب سفر نامہ کی ان سطور کو پڑھتے جاتے ہیں اور ان کا استقبال بجائے تبسم کے چین ابرو سے کررہے ہیں لیکن۔۔۔دوسروں کا تجربہ جو کچھ ہوا اور جس شخص کو ہزار ہا اہلِ حاجت سے سابقہ رہتا ہے، اس کے لیے سب کو مطمئن و رضامند رکھنا آسان بھی نہیں۔۔۔اپنا تجربہ تو ان کے متعلق یہی ہوا کہ انھوں نے اسم بامسمیٰ ہونے کا ثبوت دیا، اور علاوہ ٹکٹ میں مدد دینے کے جس کی اس وقت نہایت درجہ قدر ہوئی، کھلانے پلانے میں چائے پلانے اور کھانا کھلانے میں جس لطف و مدارات کا برتاؤ کرتے رہے، اس سے تو رہ رہ کر دھوکا ہوتا تھا، کہ کوئی نئے شناسا نہیں بلکہ پرانے بےتکلف دوست ہیں اور ۔(احباب معاف فرمائیں)۔ پنجاب کے باشندے نہیں اودھ کے رہنے والے ہیں!۔ ٹرنرماریسن کے دفتر کے قاضی عزیز الدین صاحب سے بھی اب کی زیادہ سابقہ رہا، ضلع بارہ بنکی کے قصبہ سیدن پور کے رہنے والے گویا اپنے ہم وطن تھے، انھوں نے اگر بالکل عزیزوں کا سا برتاؤ کیا تو ان سے اسی کی توقع بھی تھی، جدہ سے روانگی کے وقت ہم میاں بیوی انھیں کے موٹر لانچ پر روانہ ہوئے، کمپنی کے ایجنٹ اور شہر جدہ کے حاکم حاجی عبداللہ علی رضا زینل کے اخلاق کی کیا تعریف ہو، چہرہ کی نورانیت نور باطن کا آئینہ، پردیسیوں کے حق میں  آیہ رحمت ، شیخ عبدالرحمٰن الفضل سے بھی ملاقات رہی، ان کی محبتیں اور خاطر داریاں بھی بھولنے کی چیز نہیں اور شیخ  نصیف کا آرام دہ اور پرفضا چبوترہ، مئی کے آخری ہفتہ کی گرمی اور جدہ میں حاجیوں کا ہجوم، اگر اب کی بھی فرط کرم سے شیخ نے اپنا چبوترہ عنایت نہ کردیا ہوتا تو خدا معلوم دو راتیں کس طرح بسر ہوتیں، جدہ میں رہنے والے، گویا اللہ کے گھر کے ڈیوڑھی بان ہیں، حجاج کی خدمت کرنے اور انھیں آسائش پہونچانے کے انھیں بہترین مواقع حاصل ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ افراد جو ان موقعوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور انہیں اپنے لیے توشہ آخرت بناتے جاتے ہیں! ۔

۱۷/ ذی الحجہ اتوار کا دن، ملنے جلنے سامان سفر درست کرنے اور اشیاء کی خریداری میں گزرا، ہندوستان سے ڈاک خدا خدا کرکے آئی، سہ پہر کو تقسیم ہوئی لیکن میری ڈاک کا ایک بہت قلیل جزو آیا، صرف ایک پلندہ تھا جس کے اندر چند اخبارات لپٹے ہوئے تھے۔ میرے اندازہ میں ایسے ایسے پندرہ بیس پلندے ہونے چاہیئے تھے، معلوم ہوتا ہے بقیہ ڈاک آئندہ جہاز سے موصول ہوگی، پوسٹ ماسٹر صاحب کے پاس اپنا ہندوستان کا پتہ چھوڑے جاتا ہوں، اب جو ڈاک آئے گی، وہ وہیں واپس کردیں گے، خیال یہ تھا کہ ڈاک یہاں مل جاتی تو جہاز پر اسے دیکھ ڈالتا اور ہندوستان پہونچتے پہونچتے پھر دنیا کے حالات سے باخبر ہوجاتا، خیر ۱۸/ ذی الحجہ ۲۷/ مئی دو شنبہ کا دن تھا کہ صبح سویرے اپنا اسباب ٹھیلوں پر لاد کر ساحل کی طرف روانہ کردیا۔ سب قافلے والے ہمراہ گئے اور ساحل سے کشتی کرایہ کرکے جہاز کے لیے روانہ ہوئے، جہاز دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سمندر میں اور بہت سے جہازوں کے ہجوم میں کھڑا تھا، وکیل صاحب کے مطالبات دے دلاکر، کچھ دیر بعد ہم دونوں میاں بیوی ٹرنرماریسن کے موٹر پر روانہ ہوئے اور بہت جلد جہاز تک پہونچ گئے، جدہ میں کشتی سے جہاز پر چڑھنے کا مرحلہ سخت ہوتا ہے، کشتی برابر ہلتی رہتی ہے، اس سے بھی کہیں بڑھ کر لوگوں کا دھکم دھکا، سیڑھی پر ایک وقت میں ایک ہی آدمی چڑھ سکتا ہے، اسباب کے چھوٹ جانے کا اندیشہ مزید برآں۔ بہرحال ناتواں اور ضعیفوں کو اس وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، گو خدا کے فضل سے کوئی حادثہ عموماً پیش نہیں آتا لیکن اس کا خطرہ ہر وقت لگا رہتا ہے۔ رحمانی ٹرنرماریسن کمپنی کا نو تعمیر جہاز ہے، ۱۹۲۸ء میں تیار ہوا ہے اور اس کے کل جہازوں میں سب سے بڑا، سب سے بہتر اور سب سے وزنی  ہے۔۵۲۹۱ ٹن وزن کا ہے،۔ (بعد کو رحمانی ہی کے پیمانہ کے اور جہاز اسلامی وغیرہ بھی مغل کمپنی (جس کا نام اب ٹرنرماریسن نے ”حج لائن“ مشہور کردیا ہے)۔ نے تیار کرا لیے اور ان کا تازہ ترین جہاز مظفری تو سنا ہے، ان سب سے ہی بڑا اور بہتر ہے۔۔۔۔۔جہاز کے آرام دہ ہونے میں اس کے وزن کو بھی اچھا خاصا دخل ہوتا ہے، اس لیے متن میں سب سے ۔”وزنی“ ۔کو کوئی بےمعنی فقرہ نہ سمجھا  جائے) ۔کمرے اکبر کے کمروں سے بڑے بھی اور زیادہ آرام دہ بھی، سکنڈ کلاس میں بھی پنکھے موجود، اکبر پر پندرہ سو مسافر تھے، اس پر سترہ سو ہیں۔ جہاز کا عملہ اس کے علاوہ ۹ بجے تک ہم لوگ پہونچ گئے تھے۔ ۵، ۶ گھنٹے کے بعد سہ پہر کو روانگی کی سیٹی ہوئی اور جہاز وطن کی طرف روانہ ہوا۔۔۔۔۔۔”وطن”! کیا خدا کی شان ہے، حجاز کا مسافر ہندوستان کو ”وطن“ لکھ رہا ہے اور سمجھ رہا ہے! ۔یہ وہی مسلم خانماں برباد ہے جو کبھی حجاز سے آیا تھا اور جس کے باپ دادا کی رگوں میں حجازی خون گردش کررہا تھا، چند صدیوں کے بعد وطن پردیس ہوگیا ہے اور پردیس وطن کے حکم میں داخل ہوگیا ہے! ۔حجاز اب اس کے لیے پردیس ہے! ۔اور مکہ اور مدینہ کے جوار میں اب اپنے تئیں وہ غریب الوطن سمجھ رہا ہے!۔

ناقل: محمد بشارت نواز