یہ صورتحال تشویشناک ہے

Bhatkallys

Published in - Other

04:09PM Tue 23 Apr, 2013
آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے.......... یہ صورتحال تشویشناک ہے! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ بھٹکل اسمبلی حلقہ میں دھیرے دھیرے الیکشن کا ماحول گرم ہوتا نظر آرہا ہے۔عوام اور خواص دونوں ہی تجسس اور تذبذب کے ساتھ آنے والے دنوں پر نظر جمائے موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے اور نتائج کا اندازہ لگانے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ ہمارے حلقہ میں الیکشن پہلی بار تونہیں ہونے جارہا ہے، اس سے پہلے بارہا الیکشن اور اجتماعی فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۳ ؁ ء کے خونریز مسلم کش فسادات کے فوری بعدبھی ہم نے الیکشن کا سامنا کیا ہے۔ مگر اس بار کا الیکشن ہماری اجتماعی عزت اور وقار کامسئلہ بن کر کھڑا ہے اور یہی چیز قومی اور ملی حمیت رکھنے والوں کے لیے آج کل اضطراب و بے چینی کا سبب بن گئی ہے۔ ۱۹۹۳ ؁ء کے بعد: الیکشن تو ۹۳ء کے پہلے بھی ہوتے رہے۔مرحوم جوکاکو شمس الدین صاحب کے بعد ’’مسٹر کلین‘‘کی امیج رکھنے والے جناب ایس ایم یحییٰ کا دور ہماری اجتماعی سیاسی تاریخ کا ایک سنہرا دور کہاجاسکتا ہے۔ بہت ممکن تھا کہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا اور نئے سیاسی قائدین کی دوسری صف ابھر آتی، مگر کچھ ہماری ماضی کی غلط سیاسی چالیں اور کچھ دشمنوں کی سازشوں نے ایک طرف فتنہ و فساد مچا کر ہماری اجتماعیت کو زک پہنچانے اورہمیں ختم کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف ہمیں سیاسی یتیمی کی طرف دھکیل دیا۔پھر جب ۱۹۹۳ ؁ء کے خوفناک فسادات کے بعد الیکشن کا مرحلہ آیا تو اس قدر مضبوط اجتماعیت کا مظاہرہ ہوا کہ تاریخ میں شایدہی اس کی مثال ملے۔ اس طرح سیاسی طور پرتقریباًمکمل polarizationکی ایک نئی روایت قائم ہو گئی۔ کانگریس کا دھوکہ : اس زمانہ میں فسطائی طاقتوں نے بھٹکل فساد کا بھرپور فائدہmileageحاصل کرنے کا منصوبہ بنایاہوا تھا۔اور کسی بھی حال میں ان فرقہ پرستوں کو جو خونریز فسادات مچانے اور مسلمانوں کے جانی و مالی نقصانات کا سبب تھے، اقتدار سے دور رکھنا ہمارااجتماعی مقصد بن گیا تھا ۔چونکہ ہمیشہ کی طرح تنظیم میں اور عوام میں بھی کانگریسی لابی مضبوط تھی ، اس لیے کانگریس پارٹی کی طرف سے ایک غیر معروف اور سیاسی طور پر انتہائی کمزور خاتون کو ٹکٹ دئے جانے کے باوجود ہم نے کانگریس کے حق میں فیصلہ کیا اور اس فیصلہ کو لاگو کرنے کے لیے بے مثال اتحاد کے ساتھ زمین و آسمان ایک کر دئے۔ مگر یہاں پر ہمیں غیر مسلم کانگریسیوں نے زبردست دھوکہ دیااور کانگریسی امیدوار ہمارے اجتماعی ووٹوں کو چھوڑ کر غیروں کے دوچار ہزار ووٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہ گئی۔ اس طرح فسطائیت کے علمبردار امیدوار نے اپنی شاندار جیت درج کی۔ فرقہ پرستوں کی یہ جیت صرف بھٹکل حلقہ تک محدود نہیں تھی، بلکہ پورے ساحلی علاقہcoastal beltمیں بی جے پی کا جھنڈا لہرانے لگا۔ خود کانگریسیوں کے فریب سے پیدا شدہ اس صورتحال پر ہماری قوم میں موجود’’ کانگریسی قائدین‘‘نے اپنی پارٹی اور ہائی کمان کے سامنے کس طرح کا احتجاج درج کروایا اور کس قسم کا احتساب کیا، وہ اب تک ایک سر بستہ راز ہی ہے۔ نئی سوچ ..... : صاف ظاہر تھا کہ کانگریس اور جے ڈی ایس جیسی خود کو سیکولر کہلانے والی پارٹیاں مسلمانوں کو بی جے پی اور فسطائیت کا بھوت دکھا کر fear psychosisکے ذریعہ ان کے ووٹ بٹورنے کے سوا ان کاکوئی بھی مفاد پورا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔(جبکہ الیکشن کے بعد حکومت بنانے کے لیے اسی فرقہ پرست بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں انہیں شرم بھی نہیں آتی !)اور مسلمانوں کو سیاسی طور پر اپنا غلام بنائے رکھنے سے ہٹ کر انہیں مضبوط کرنے اور political empowerment کے تعلق سے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔اس لیے یہاں کی نئی مسلم قیادت کے اندر ایک نئی سوچ ابھرنے لگی ۔ جب ایک بڑے عرصہ تک ہمارے علاقہ سے’’ کنول‘‘ کا زور ٹوٹتا نظر نہیں آرہا تھا تو ہم جیسے کچھ لوگوں نے ہمارے حلقہ میں’’مسلم امیدوار ‘‘کی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔ چاہے وہ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ ملنے کی صورت میں ہو یا پھر آزاد امیدوار کی شکل میں، ہر حال میں مسلم امیدوار کو میدان میں اتارنے کی پالیسی اپنانی چاہی۔ شاید اس وقت اس نئی سوچ کو عوام سے تعاون یقیناًملا ہوتا، مگرہمارے اندر موجود سیاسی پارٹیوں سے روابط اور مفادات رکھنے والی با اثرلابی نے اس سوچ کو پنپنے نہیں دیا اور اس کو sabotageکر ڈالا۔اور ہماری سیاسی پوزیشن کو سیاسی پارٹیوں کے پاس ’’گروی‘‘ رکھنے میں ہی عافیت جانی، اوربدقسمتی سے اس میں وہ کامیاب بھی رہے! نئی پلاننگ..........: جب’’ مسلم امیدوار‘‘کا ہمارا آئیڈیا کام کرتا نظر نہیںآیا، تو پھر ہم نے فسطائی طاقتوں کوشکست دینے کی ایک اور strategy اپنانے پر غور کیا۔ ہم نے ہمارے علاقہ کی ووٹنگ کے لحاظ سے سب سے بڑی کمیونٹی ’’نامدھاری‘‘ کے فعال لیڈروں سے بات چیت کی۔ نجی سطح پر’’ نامدھاری سنگھا‘‘ کے قائدین کو اس بات کے لیے آمادہ کیا کہ اگر بی جے پی سے یہاں کی نشست چھین لینا ہے تو پھر ہم دونوں یعنی نامدھاری اور مسلم کمیونٹی کو آپس میں اتحاد کرناہوگا اور اپنا ایک مشترکہ و متحدہ امیدوار میدان میں اتارنا ہوگا۔اس تعلق سے سلسلہ وار میٹنگوں اور منصوبہ کے مختلف پہلوؤں پر نتیجہ خیز گفتگو کے بعد اسے ہم مرکزی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم کے ٹیبل پرلے آئے۔ اور پھر دونوں فرقوں کے ذمہ داروں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں rotationکے اعتبار سے ان دو میں سے ایک فرقہ کا ’’متحدہ امیدوار‘‘ اتارا جائیگا۔نامدھاری سنگھا کے ذمہ داروں نے پہلا موقع طلب کرتے ہوئے اس وقت درپیش انتخاب میں اپنی کمیونٹی سے مسٹر جے ڈی نائک کو اپنے امیدوار کی شکل میں پیش کیا۔ اور اس کے بعد جب الیکشن ہوں گے تو نامدھاری فرقہ کی حمایت سے تنظیم کے حمایت کردہ مسلم امیدوار کو موقع دینے کا وعدہ کیا۔ اس طرح مسٹر جے ڈی نائک جیسے ایک عام وکیل دونوں فرقوں کے نمائندے کی صورت میں ایم ایل اے بن گئے۔ پھر فریب دیا گیا : مسٹر جے ڈی نائک نے ہمارے ایثار اور حمایت کی کتنی لاج رکھی اور اس کا کیا حق ادا کیا، یہ تو جگ ظاہر ہے۔ مگر ’’نامدھاری سنگھا‘‘ جیسے باوقار ادارہ نے بھی اپنے سابقہ وعدے اور فیصلے کاپاس و لحاظ رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ اپنے موقع کا تو انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھا یا۔ مگر دوسری بار الیکشن میں حسب وعد ہ مشترکہ مسلم امیدوار کھڑا کرنے کی جب بات آئی، تو ٹال مٹول کرتے ہوئے، ’’نامدھاری سنگھا‘‘ہی غیر فعال اور تقریباً تحلیل ہونے کا شوشہ چھوڑ کر اپنے ہاتھ کھڑے کر لیے۔اس طرح ہمارے ساتھ پھر ایک بار پر فریب کھیل کھیلا گیا۔ تب مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق دوبارہ مسٹر جے ڈی نائک کی حمایت پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ دوسری طرف ہمارے بے مثال تعاون سے اقتدار کے دروازے تک پہنچنے والے اس ایم ایل اے کے رویہ میں بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ، الٹے ان پر الزام یہ لگتے رہے کہ وہ ہمارے اندر موجود چند مفاد پرستوں کو خوش کرنے اور کچھ ’’خاص گروپوں‘‘ کا سہارا لے کرمبینہ طور پر ہماری اجتماعیت ہی کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بارہا اپنے اقدامات اور رویہ سے یہ تاثر چھوڑا کہ تنظیم جیسے مرکزی ادارہ کی ان کے دل میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔اور وہ کسی قسم کی ’’ممنونیت‘‘ ظاہر کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پھر دوسرا راستہ کیا تھا؟ : جب سیاسی شطرنج کی بساط اس طرح بچھائی گئی ہوتو ہمارے لیے دوسرا راستہ اور کیا رہ گیا تھا کہ’’ شاہ ‘‘کو مات دینے کے لیے ’’پیادوں‘‘ کو قربان کرتے ہوئے ایک ’’اندھی چال‘‘ ہی کیوں نہ چل دی جائے۔ سو وہ چال ہمارے مرکزی ادارہ نے چل دی۔ اور اپنے بل بوتے پر الیکشن ’’لڑنے‘‘ کا(’’جیتنے‘‘کا نہیں، کیونکہ اس کے لیے صرف جدو جہد اور تعداد ہی نہیں، اور بہت ساری چیزوں کے ساتھ ’’تقدیر‘‘ کا بنیادی رول ہوتا ہے) فیصلہ کر ہی ڈالا۔یہ risk تو بہر حال لینا ہی تھا۔ خیر سے سیکولرازم کا چولا اوڑھی ہوئی ایک اور موقع پرست اور مفاد پرست سیاسی پارٹی جنتا دل نے بھی بعد از خرابئ بسیارسہی، ہمارے امیدوار کو ٹکٹ دینے کا جوکھم بھی اٹھالیا ہے۔(اس سے اس پارٹی سے وابستہ غیرمسلم ووٹرس کی حقیقت بھی عیاں ہو جائے گی) لہٰذا اب ہمت مرداں، مدد خدا والا فارمولہ ہے، اور ہماری اجتماعیت ہے! مگر ان سیاسی بازیگروں کاکیا؟ :مگراصل مسئلہ ان سیاسی بلکہ’’کانگریسی ‘‘بازیگروں کا ہے جو اپنے آپ کو اس پارٹی کا ازلی وفادار ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ان کی مصیبت یہ ہے کہ اگر اجتماعی فیصلہ ’’کانگریس‘‘ کے حق میں ہوتا ہے، تو تنظیم کی جئے جئے کار کی جاتی ہے۔ اور اس فیصلے کے خلاف اُف بھی کرنے والے کو قوم کا غدار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مگر بات جب اس کے برخلاف ہوتودھونس اور دھڑلّے سے اور کبھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کھلے عام کانگریس کا ’’حق نمک ‘‘ ادا کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں دوسری پارٹی یعنی جنتا دل سے وابستہ ذمہ داران ،بشمول ہمارے موجودہ امیدوارپر بھی اجتماعی فیصلہ کے خلاف خفیہ سرگرمیاں چلانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ ہر بارعوام کی ایک مٹھی بھر تعداد اجتماعی سیاسی فیصلہ کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے(جسے ایک فطری عمل سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتاہے)۔ مگر اب کی بار کانگریس سے وابستہ تنظیم کے اعلیٰ ذمہ داران کا کھل کر میدان میں اترنا اور بعض کا منافقانہ انداز میں پردے کے پیچھے سے اپنے کرتب دکھانا ہماری اجتماعیت کے لیے ایک نئے اور سنگین باب کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ میڈم کوناراض مت کرو! : ان بے چارے کانگریسیوں کی غلامانہ نفسیات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان میں سے بعض کے لیے محض کسی ایک کمیٹی کی ممبر شپ یا زیادہ سے زیادہ ضلع وقف بورڈ کی چیرمین شپ کا مل جانا، مارگریٹ اور دیشپانڈے کے آگے پیچھے ’’میڈم‘‘ اور ’’صاب‘‘ کا وظیفہ رٹنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پھرقومی اور ملی مفاد کی تو ایسی کی تیسی! ایک دفعہ ہماری اس وقت کی ممبر پارلیمنٹ کے ساتھ پورے ضلع کے مسلم نمائندگان کی نشست یلاپور شہر میں ہوئی۔ ’’میڈم‘‘ نے ممبر پارلیمنٹ بن کر مسلمانوں کا جو ملی اور سیاسی نقصان کیا تھا،’’صاب‘‘کی موجودگی میں ہم لوگوں نے اس کا جب حساب و کتاب لیا،تو ’’میڈم ‘‘ لاجواب ہوگئیں، اور روہانسی ہوکر اسٹیج سے روٹھ کر نکل گئیں۔ اس کی بھنک ہمارے بھٹکل کے’’ ازلی کانگریسیوں‘‘ کولگی تو آج تک ہمارے نام پر خار کھائے بیٹھے ہیں کہ ہم لوگوں نے ’’میڈم کو ناراض ‘‘ کر دیا۔ آپ ہماری ماں ہیں! : مندرجہ بالا واقعہ سے ’’میڈم‘‘ کا پارہ اتنا چڑھا کہ انہوں نے بھٹکل والوں سے بہت دنوں تک فاصلہ بنائے رکھا۔ پھر ’’میڈم‘‘ کے ’’چیلوں ‘‘نے انہیں (شاید ہمارے خلاف پٹی پڑھاکر) کسی طرح تنظیم کے دفتر میں ’’حاضری دینے‘‘ پر آمادہ کر لیا۔اس موقع پر ہماری قوم کے ایک ذمہ دار ’’عالم دین‘‘نے جو خیر سے ہمارے مرکزی اداروں اور سماج کی ایک اہم شخصیت ہیں، جس طرح ’’میڈم‘‘ کی چاپلوسی کی تھی(جبکہ ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے انہوں نے ایک اقدام بھی مسلمانوں کے حق میں نہیں کیا تھا،اور مخالفانہ اقدامات کی فہرست ہمارے پاس موجود تھی!)اسی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ہماری حمیت اور ضمیر کیسے نچلے درجے تک پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے ’’میڈم‘‘ سے مخاطب ہوکر کہا تھا:’’آپ ہماری ماں ہیں۔ بچوں سے غلطی ہوگئی ہوگی۔ آپ انہیں ایک ماں کی طرح معاف کردیجئے ۔ ہم تو پیدائشی کانگریسی ہیں۔ آپ ہم سے ناراض نہ ہوں....‘‘ یعنی ہم آپ کے ازلی وفادار ہیں، چاہے آپ ہمارا قومی اور ملی بیڑا غرق کر دیجئے، ہم اُف کرنے والے نہیں ہیں!!! یہ صورتحال تشویشناک ہے : آج جب ہماری اجتماعی قوت اور ہمارا ملی وقار داؤ پر لگا ہواہے۔ موجودہ فیصلہ کے پس منظر میں ہمارے سیاسی و سماجی مستقبل کا سورج چھپا ہوا ہے۔ ایسے میں تنظیم اور دیگر اداروں سے وابستہ ہمارے اپنے نام نہاد’’ قائدین ‘‘کی یہ بے وفائی اور باغیانہ روش ہمارے اجتماعی مستقبل کوخدا نخواستہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ عوام کوشاید یاد ہو کہ ۱۹۹۳ ؁ء کے بعد گزشتہ دو دہائیوں سے مضبوط ترین بن کر ابھرنے والی تنظیم اوراجتماعی قیادت کو ابھی پچھلے کچھ برسوں پہلے ضلع پنچایت الیکشن کے موقع پر پہلی بار ایک بہت بڑے تاجر نے (جسے قوم کا خیر خواہ اور لیڈر ہونے کا بھی زعم ہے )صرف اپنی ذات اور انا کی تسکین کے لیے بغاوت کے ذریعہ sabotageکرنے کی شروعات کی تھی۔ اب’’ کانگریسی لیڈروں ‘‘نے تنظیم کے اجتماعی فیصلہ کا حصہ ہونے کے باوجودکھلے عام اجتماعیت سے کھلواڑ کا رخ اپنایا ہے۔ ایک طرف بعض’’ قائدین قوم‘‘ اس اجتماعی فیصلہ پر عمل در آمد کے لیے پیش پیش رہنے اور ’’قیادت‘‘ کاحق ادا کرنے کے بجائے کانگریسی کیمپ کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف قوم کے بعض ذمہ داران ’’ کانگریسی اسٹیج ‘‘سے خطابات کرنے، کانگریس کو جتانے اور بر سر اقتدار لانے کی پیش گوئیاں کرنے میں کوئی جھجھک اور شرمندگی محسوس نہیں کررہے ہیں۔اورتیسری طرف تنظیم کے بعض ’’اعلیٰ ذمہ داران‘‘ مبینہ طور پر اپنے ہی فیصلے کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور خود کو ایسے فیصلے کے لیے’’ گناہگار‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ ایسے میں الیکشن کے موقع پر ٹرٹرانے والے ان مینڈکوں کی چاندی ہے، جنہیں گرگٹ کی طرح رنگ بدل کراور ہر بار لیڈری کے نئے مکھوٹے لگا کر بازی گری کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ سچائی یہی ہے کہ موجودہ الیکشن عوام کے لیے ایک دشوار کن مرحلہ اور ہمارے اتحاد و اتفاق کے لیے ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ جو آئے دن بد سے بد تر ہوتی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ دشمنوں کے منصوبے خاک میں مل جائیں۔ ملت کے خیرخواہوں کا بول بالا ہو۔ اورالیکشن کا ایسا نتیجہ آئے کہ ہمارے اجتماعی وقار کی لاج رہ جائے۔ورنہ قوم کی نیا ڈبونے کی ساری ذمہ داری نسل در نسل اسی منافقت مزاج قیادت پر ہوگی، جس پر قوم نے بھروسہ کرنے کی بھول کی تھی۔