پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا ! (تیسری قسط)۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
haneefshabab@gmail.com
تعلقہ میجسٹرئٹ کے پاس پیشی کے بعد جب ہمیں واپس سب جیل کے ورانڈے میں لایا گیاتو پولیس کی اجازت ملنے پر ہم نے ہوٹل سے ناشتہ منگوایا۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوئے اپنی بھوک اور پیاس مٹارہے تھے کہ سب جیل کے سامنے، ہتھیار بند گارڈس کے ساتھ ایک پولیس ویان آکر رک گئی اور سب جیل کے گارڈ نے ہم لوگوں کو جلد ی جلدی کھانا ختم کرنے اور تیار ہوجانے کے لئے آواز لگائی۔ہم سب ہکا بکّا رہ گئے۔ہمارے ہاتھ میں نوالے رک گئے اورہم ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ہمارے بعض ساتھیوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں کہ اب کیا ہونے جارہا ہے؟ اس دوران سب جیل کے ہتھیار بند سنتریوں اورپولیس ویان کے گارڈز کی کھسر پھسر میرے کانوں میں پڑی کہ ہمیں جیل بھیجنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ مگر کہاں بھیجا جارہا ہے یہ معلوم نہیں ہوا۔
جیل یاترا کی تیاری: صبح کا سورج دوسرے دن آنے کا وعدہ کرتے ہوئے کب کا ڈوب چکا تھا،اوراس وقت دل میں ایک خلش سی ہو رہی تھی کہ ہماری سینئر قیادت نے(نامدھاری ، کھاروی اور موگیر سماج کی طرح) عوامی احتجاج کرنا تو دور بھول کر بھی ہم سے ملاقات یا خبر گیری کرنا گوارہ نہیں کیا تھا۔ پھر رات آٹھ بجے کے قریب پولیس کی ایک چھوٹی ویان میں جس میں صرف دس بارہ لوگوں کی گنجائش تھی ہم 22/ افراد کواس طرح سے ٹھونسا گیا کہ ڈھنگ سے بیٹھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس وقت پتہ چلا کہ ہمیں بیلگام سنٹرل جیل بھیجا جارہا ہے۔ ویان میں سامنے ڈرائیور کے ساتھ ایک یا دو پولیس والے تھے جبکہ پچھلے حصے میں دو کمپارٹمنٹ تھے۔ بڑے کمپارٹمنٹ میں ہمارے ساتھ اندر دو پولیس والے اور پھر اسی سے متصل اور مقفل چھوٹے کمپارٹمنٹ میں دو رائفل بردار گارڈز کے ساتھ ہماری جیل یاترا شروع ہوئی۔ اس وقت غالباً رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ ہتھیار بند گاڑی میں ہم سب کو لے کر پولیس ویان اگلے 6-7 گھنٹے کے سفر پر نکل پڑی۔ پتہ نہیں کیوں ویان کو کچھ دیر کے لئے وائی بھو ہوٹل(موجودہ ٹی ایف سی کے سامنے) روکا گیا۔ ویان کی جالیوں کے تنگ سوراخوں سے ہم نے دیکھا کہ وہاں سے گزرتے ہوئے لوگ ہم پنجرے کے قیدیوں پرایک سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ رہے ہیں جیسے کسی کا ہم سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گُم ہیں زباں ملی ہے ، مگر ہم زباں نہیں ملتا !
کاسرکوڈ کے وہ انجان باحمیت مسلم نوجوان: پھر ہمارا جو سفر شروع ہوا تو کاسرکوڈ ہوناورکے پاس تھوڑی دیر کے لئے رک گیا کیونکہ اس زمانے میں ہوناور کا شراوتی پُل بری طرح خستہ ہوچکا تھا۔ ایک عرصے سے اس کی مرمت ہورہی تھی اس لئے اس پر ٹریفک بند تھی۔ لہٰذا شراوتی ندی پار کرنے کے لئے کاسرکوڈ کے کنارے سے ہوناور کے دوسرے کنارے تک خصوصی طور پر بنائے گئے barge( تیرتے ہوئے پلیٹ فارم) کا استعمال ہوتاتھا۔ جب اس بارج کے انتظار میں کاسرکوڈ کے کنارے پر پولیس گاڑی روکی گئی تو وہاں پرموجود لوگوں کو معلوم ہوا کہ بھٹکل کے نوجوانوں کو گرفتار کرکے لے جایا جارہا ہے۔ چند لمحوں میں کافی مسلم نوجوان وہاں جمع ہوگئے۔ ہاتھ کے اشاروں سے ہماری ہمت بندھانے لگے۔ پھروہ پولیس والوں سے درخواست کرنے لگے کہ ہمارے لئے کولڈ ڈرنکس کا انتظام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اتنے میں ہوناور کے کنارے سے آنے والی بارج کاسرکوڈ کی جیٹی پر پہنچ گئی اور ہماری گاڑی کو اس پر سوار کردیا گیا۔ جب تک بارج کنارہ چھوڑتی تب تک کاسرکوڈ کے وہ باحمیت نوجوان دوڑ بھاگ کر کولڈ ڈرنکس کے باکس کے ساتھ بارج پر سوار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ پھر پولیس کی اجازت سے گاڑی کے اطراف لگی ہوئی جالی میں موجودگول سوراخوں سے انہوں نے ٹھنڈے مشروب کی بوتلیں اندر پہنچائیں اور ہمارے لئے وقتی سکون اور راحت کا سبب بن گئے۔ خدا بھلا کرے ان اجنبی اور انجان نوجوانوں کا جن کے لئے آج بھی میرے دل سے دعا نکلتی ہے اور ان کے خلوص اور ان کی غیرت ملّی کی یاد رہ رہ کر آتی ہے۔ پتہ نہیں ان میں سے کون اب کس حال میں ہو۔ بیلگام ہینڈلگا سنٹرل جیل کے دروازے پر : تقریباً پوری رات ایک دوسرے پر لڑھکتے اور جھولتے ہوئے ، بیٹھنے کی کوشش میں سوتے ہوئے اورنیند کے غلبے کے باوجود سکڑ اوراکڑ کر ایک ہی جگہ پر بیٹھنے پر مجبوری کے ساتھ ہم سب نے بھٹکل سے بیلگام تک کا کئی گھنٹوں کا ایک لمبا سفر بہت ہی تکلیف اور تنگی کے ساتھ طے کیا اوربیلگام کی ہینڈلگا سنٹرل جیل کے داخلی دروازے پر جب پولیس گاڑی رکی تو شاید صبح کے 3 یا 4 بجے کا وقت تھا۔ مگر اکڑے ہوئے پیروں اور تھکے ہوئے جسموں کو راحت ملنے کے لئے مزید وقت درکار تھا۔ کیونکہ ہمیں پولیس والوں سے پتہ چلا کہ صبح کا سورج نکلنے اور جیل کا داخلی دروازہ کھلنے تک ابھی کچھ گھنٹے ہمیں پولیس ویان میں ہی بیٹھ کرانتظار کرتے ہوئے گزارنے ہونگے۔ تو ہماری حالت یہ ہوگئی کہ:بجھنے کا خیال آتا ہی نہیں روشن جو ہوئے اِک شام سے ہم تکلیف سلگنے ہی تک تھی ، جلتے ہیں بڑے آرام سے ہم
درِ زنداں کھلا خدا خدا کرکے: صبح چھ یا سات بجے کے آس پاس جیل کا آہنی داخلی دروازہ کھلا۔ جیل افسران نے ہم سب کی تلاشی لی ۔ ہمارا جسمانی معائنہ کیا، ہمارے پاس موجود تمام رقم اور دوسری چیزیں اپنی تحویل میں لی۔ پھر ضابطے کی کاغذی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد(جس میں دوایک گھنٹے سے زیادہ کاوقت لگا) ہمیں ایک پلیٹ اور ایک چادر تھماتے ہوئے گارڈ کے ساتھ ہمارے سیل کی طرف بھیج دیا۔ہم میں سے ہرایک ساتھی زندگی میں پہلی بار جیل کے اندر قدم رکھ رہاتھا۔ بلند و بالا دیواروں اور پہریداروں سے گھرے ہوئے ایک وسیع وعریض علاقے میں پھیلی ہوئی اس دنیا کے باسی زیادہ تر سزا یافتہ convicted قیدی تھے جو قیدیوں کے مخصوص یونیفارم پہنے ہوئے تھے اور کچھ زیر سماعت Undertrial اور عدالتی تحویل Judicial custody والے قیدی تھے جو عام لباس میں تھے۔ ناشتے کا وقفہ شاید ختم ہوگیا تھا اوریہ تمام قیدی جیل کے عملے کی طرف سے انہیں تفویض کردہ روزانہ کی مصروفیات میں لگ گئے تھے۔ غیر مسلم لیڈروں سے آمنا سامنا: جب ہمیں جیل کا عملہ ہمارے سیل کی طرف لے جارہاتھا تو ایک موڑ پر سنگھ پریوار کے گرفتار شدہ بھٹکل کے غیر مسلم لیڈروں سے آمنا سامنا ہوگیا۔ جن میں ڈاکٹر یو چترنجن (۱۹۹۶میں جنہیں گولی مارکر ان کے ہی گھر میں قتل کیاگیا)، سریندرا شانبھاگ اور دیگر لیڈران(نام یاد نہیں آرہے ہیں) شامل تھے۔ وہ سب اپنے سیل سے باہر تھے اور جیل کے داخلی دروازے کے پاس واقع دفتر کی طرف بڑھ رہے تھے ، کیونکہ اس دن ضمانت پر ان کی رہائی ہورہی تھی۔ یہ ایک عجیب منظر تھا۔ یعنی غیر مسلموں کی جواں سال اور سینئر قیادت پر مشتمل قافلہ جیل سے رہا ہورہاتھا اور مسلمانوں کی صرف ابھرتی جواں سال قیادت کے بعض نمائندے جیل میں داخل ہورہے تھے جبکہ سینئر قیادت پوری طرح محفوظ تھی اورآرام فرما رہی تھی!اور سرسراتی ہوئی ہوا میرے کانوں میں سرگوشی کررہی تھی کہ :نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے
ڈاکٹر چترنجن کی خوش اخلاقی: ویسے سماجی مسائل اورمذہبی منافرت کے پس منظر میں سنگھ پریوار کے لیڈران اور ہماری قیادت ایک دوسرے مد مقابل تھے۔ لیکن بی جے پی کے اہم ترین لیڈر ہونے کے باوجود ڈاکٹر چترنجن کے اندرشرافت، مروت اور خوش اخلاقی کی صفات بہر حال بدرجۂ اتم موجود تھیں، جس کا مظاہرہ وہ عام زندگی میں بحیثیت ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ساتھ اور اپنے ملنے والوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ جیل میں آمنا سامنا ہونے پر بھی انہوں نے اوران کے کچھ ساتھیوں نے بڑی خوش اخلاقی سے ہم سے مصافحہ کیا(جیسے جیل میں ہمارا سواگت کررہے ہوں!) ۔ ہمارے ایک ساتھی نے بڑے جوشیلے انداز میں ان سے کہا کہ:" یہ سب پولیس کی کارستانیاں ہیں، اس لئے آئندہ ہم اور تم لوگ مل کر پولیس کے خلاف لڑیں گے۔" اس پران میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، ڈاکٹر چترنجن کے چہرے پر بس ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے اپنے پاس موجود ناشتے کا ایک بڑا پیکیٹ(جس میں تازہ تازہ اڈلی اور چٹنی تھی)دواؤں کاایک چھوٹا سا باکس، نیا تولیہ ، نئی لنگی، اور کچھ رقم زبردستی مجھے تھمائی۔ میں لاکھ انکار کرتا رہا کہ" پیسوں کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، ہمارے پاس بھی کافی رقم تھی، جو جیل کے دفتر میں جمع کر دی گئی ہے۔ "انہوں نے رقم میری جیب میں رکھتے ہوئے کہا:" ان پیسوں کی کتنی ضرورت ہے، اس کا احساس آپ کو کل ہوجائے گا،اس لئے اسے رکھ لینا۔ " پھر ہم سے جداہوتے ہوئے وہ لوگ جیل کے پنجرے سے آزادی کی طرف اور ہم قید کی طرف آگے بڑھے ، یہاں تک کہ پہلے منزلے پر واقع ایک بہت وسیع ہال کے دروازے پر پڑاہوا بڑاساقفل کھول کرہمیں اندر بھیج دیا گیا! اس کے بعدایک طرف جیل کی اندرونی دنیا سے ہم متعارف ہورہے تھے تودوسری طرف بھٹکل میں پولیس کی کارروائی جاری تھی( جس میں ہمارے کچھ لیڈروں کی طرف سے بھی پولیس کوبھرپور تعاون دئے جانے کی بات ہمیں جیل سے باہر آنے کے بعد معلوم ہوئی) بہرحال جیل کی اندرونی دنیا کے جو رنگ ہم پر ظاہر ہوئے وہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں تھے! اس دور کے جتنے بھی شہیدانِ ستم ہیں وہ سب مری غزلوں کے نقابوں میں ملیں گے (۔۔۔سلسلہ جاری ہے۔۔۔ آئندہ قسط ملاحظہ فرمائیں) (نوٹ: مندرجہ بالا مضمون میں درج تمام مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے اور ان کے خیالات پر مبنی ہے۔ اس میں موجود کسی بھی بات سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)