ہر مسلمان سے پہلے ہر ہندو کو گائے پرست بنائیے۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

11:41AM Wed 12 Apr, 2017
شری موہن بھاگوت آر ایس ایس کے چیف ہیں اور اس وقت ملک کے بڑے حصہ پر بی جے پی یعنی آر ایس ایس کی حکومت ہے، اس اعتبار سے وہ ملک کے سب سے بااختیار آدمی ہیں۔ کسی رسمی عہدہ پر نہ رہتے ہوئے بھی ان کی بات رسمی وزیر اعظم سے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ صرف وہی ایسے بڑے ہیں جن کے دربار میں مرکزی وزیر اور خود وزیر اعظم اپنی کارکردگی کی رپورٹ لے کر حاضر ہوتے ہیں اور ان سے آگے کے لیے ہدایات لیتے ہیں۔ اب انھوں نے ایک تقریب میں کہا ہے کہ پورے ملک میں گؤ کشی پر پابندی کا قانون ہونا چاہیے۔ آگے انھوں نے شمالی مشرقی ریاستوں کے ساتھ بنگال اور کیرالا کا نام بھی لیا ہے جہاں گائے کاٹنے کی آزادی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں اب بی جے پی کی حکومت ہے۔ اور بنگال میں ممتا بنرجی کی اور کیرالا میں کمیونسٹوں کی حکومت ہے اور دونوں جگہ بی جے پی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ موہن بھاگوت صاحب اس پر ز ور کیوں نہیں دیتے کہ ہندو گائے کاٹنا اور گائے کھانا چھوڑدیں۔ یا ہندو دھرم کے تمام گرواعلان کریں کہ جو گائے کھائے گا وہ ہندو نہیں رہے گا۔ ان کو معلوم ہوگا کہ اسلام میں خنزیر حرام ہے اور ہمارے علم میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے خنزیر کھاتا ہو۔ یا خنزیر پالتا ہو یا اس کا کاروبار کرتا ہو۔ (ہم نے اپنے علم کی بات کہی ہے) ہوسکتا ہے کسی کے پاس معلومات ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک میں لحم خنزیر کو حرام کہہ دیا گیا ہے۔ بنگال میں انگریزوں کے زمانہ سے مسلمان غریب ہیں۔ یہ انگریزوں کی سازش تھی کہ ہندوؤں کو اپنا تحصیلدار بناؤ اور مسلمانوں کو دبا کر رکھو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان آج بھی غریب ہے۔ بنگال میں مسلمان کے کھانے کی چیز سب سے زیادہ سستی گائے کا گوشت ہے۔ کانگریس کی حکومت میں بھی بنگال میں گائے کھائی جاتی تھی۔ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی کی حکومت آئی تو جیوتی بسو وزیر اعلیٰ بنے اور انھوں نے گائے کی تجارت کو باقی رکھا۔ گاندھی جی کے سب سے بڑے چیلے آچاریہ ونو بھاوے تھے۔ ملک میں جتنے بھی گاندھی وادی تھے وہ سب ان کا احترام کرتے تھے۔ انھوں نے جیوتی بسو کو لکھا تھا کہ بنگال میں گائے کے گوشت پر پابندی لگاؤ ورنہ میں بنگال میں آکر مرن برت رکھوں گا۔ بسو دادا نے جواب دیا تھا کہ بنگال کے غریب مسلمان مہنگی مچھلی نہیں کھاسکتے وہ سستا گوشت کھالیتے ہیں میں انہیں بھوک سے نہیں مرنے دوں گا۔ اس قضیہ پرکشمیر سے شیخ عبداللہ نے بھی جیوتی بسو کو خط لکھا کہ میں نے اپنی ریاست کی اقلیت (ہندوؤں) کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کاٹنے پر پابندی لگا دی ہے۔ آپ بھی آچاریہ جی کا ا حترام کرتے ہوئے بنگال میں گائے پر پابندی لگادیجئے۔ اس کا جواب بسو دادا نے یہ دیا تھا کہ میں نے بھی تو اپنے صوبہ کی اقلیت (مسلمانوں ) کی ضرورت کے لیے گائے کاٹنے کی اجازت دی ہے اور آچاریہ ونو بھاوے کو لکھا کہ آپ بنگال تشریف لائیں ہم آپ کے شایان شان رہائش کا انتظام کریں گے اور ہر ضرورت پوری کریں گے۔ لیکن گا ئے کا مسئلہ غریب کے پیٹ کا ہے اور یہ برسہا برس سے چل رہا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ موہن بھاگوت صاحب کو معلوم ہے کہ اترپردیش ہی میں سب سے پہلے گائے پر پابندی کا قانون بنا تھا اور پابندی کے بعد پہلی بقرعید کو دارالعلوم دیوبند اور ان تمام مدارس میں چھاپے پڑے تھے جہاں مسلمانوں سے امداد کی اپیل کے ساتھ قربانی کے مسائل بھی اشتہار میں چھپے تھے وہ سب اس لیے ضبط کرلیے گئے تھے کہ اس میں لکھا تھا کہ گائے بھینس اور اونٹ میں سات حصے ہوتے ہیں۔ اعتراض یہ تھا کہ گائے کیوں لکھا؟ مسلمانوں نے تو گائے کھانا اور لکھنا سب چھوڑ دیا، لیکن وہ بھی سب ہندو ہیں جن کے بارے میں ہم نے کل اشارہ کیا اور میرٹھ کے علاقہ بھیم نگر کے پاس صرف ہندو نہیں بی جے پی لیڈر اجے راگھو اور انجو چودھری اور راہل ٹھاکر کی گوشت فیکٹری پر وی ایچ پی کے لیڈروں کے ساتھ پولیس نے چھاپا مارا جہاں سے 20کوئنٹل گوشت برآمد ہوا جو گائے کا تھا۔ یہ واقعہ ۲۶ مارچ کی رات کا ہے جب اترپردیش میں بی جے پی حکومت کو قائم ہوئے ۱۲ دن ہوچکے تھے۔ آر ایس ایس چیف کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا کہ جو ہندو گائے کے گوشت کی تجارت کرے گا اس کا کیا حشر ہوگا؟ 20کوئٹنل کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم پچاس گا یوں کا گوشت ہوگا۔ وہاں جو پارٹنر ملا اسے لات اور گھونسے تو مارے لیکن وہ حشر نہیں کیا جو مسلمان کا صرف اس جرم میں کیا کہ وہ گائے خرید کر لے جارہا تھا۔ یہ بات حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی کام پولیس کی رشوت کے بغیر نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ جہاں 50جانور کٹے ہوں وہاں گوشت تو 20کوئنٹل ہو اور کھال سحری پائے اور آلائش نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ پولیس کی سازش ہے کہ بیان کیا گیا کہ گوشت کا نمونہ بھیجا گیا ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ بھینس کاہے یا گائے کا ؟ اب موہن بھاگوت صاحب کا فرض ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ کون ہندو ہے اور کون نہیں ہے؟ بنگال کی ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کے تمام ہندو کیرالا کی حکومت کے کمیونسٹ اور ان کے ہندو، اترپردیش میں وہ میرٹھ کے گاؤں میں چھپ کر گائے کے گوشت کا کاروبار کرنے والے ہوں اور ان کے ساتھی اپنی گائے کاٹنے والے کو بیچنے والے یا ان کے گھر اور گاؤں والے ہندو اور تمام مشرقی شمالی ریاستوں میں گا ئے کھانے والے اور حکومت کرنے والے ہندو ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ ہندو نہیں ہیں تو کیا ہیں؟ ہم نے مسلمان اور خنزیر کے گوشت کی مثال دی ہے۔ ۱۸ کروڑ بتائے جانے والے ہندوستانی مسلمانوں میں کیا کوئی بتائے گا کہ کتنے مسلمان حرام کہے جانے والے گوشت کو کھ اتے یا اس کی تجارت کرتے ہیں؟ ا ور سو کروڑ ہندوؤں میں کتنے نہیں، یہ بتانا آسان ہے کہ کروڑوں ہندو کھاتے یا تجارت کرتے ہیں۔ پھر مسلمان عالموں سے اس مطالبہ سے کیا فائدہ کہ وہ گائے کے گوشت کو حرام قرار دے دیں۔ انہیں کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال کا حق کیسے مل گیا؟ کیا اگر ا نگریز دباؤ ڈالتے تو علماء خنزیر کے گوشت کو حلال یا مردہ کو حلال کا فتویٰ دے سکتے تھے؟ یہ فیصلہ کہ حرام کیا ہے ہے اور حلال کیا؟ پندرہ سو برس پہلے ہوچکا۔ اب یہ کہا جانا چاہیے کہ شریعت کا حکم ہے کہ مسلمان جس ملک میں رہیں وہاں کے قانون کی پابندی کریں۔ انشورڈ کرانا ناجائز ہے، لیکن ملک کا قانون ہے کہ ہوائی جہاز کے سفر میں بیمہ کیا جاتا ہے۔ کار خریدی تو قیمت کے ساتھ ہی بیمہ کی رقم لے لی جاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو اختیاری ہے اس میں ہماراحق ہے اور جو غیر اختیاری ہے ہم اس میں ملک کے قانون کی وجہ سے پابند ہیں۔ اب اگر کوئی مسلمان چوری سے کررہا ہے تو ہندو بھی تو چوری سے کررہا ہے۔ دونوں غیر قانونی کام کررہے ہیں تو صرف مسلمان ہی مخاطب کیوں ہیں؟