بہار کے عوام کا سیاسی نروان(از:زاہدہ حنا)

Bhatkallys

Published in - Other

04:40PM Wed 11 Nov, 2015
یہ اب سے ڈھائی ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ سچائی کی تلاش میں راج پاٹ اور گھربار چھوڑ کر جنگل جنگل پھرنے والے کپل وستو کے راج کمار گوتم کو نروان گیا میں برگد کے ایک پیڑ کے نیچے حاصل ہوا۔ اسی کے بعد کپل وستو کے راج کمار کو مہاتما بدھ کے نام سے یاد کیا گیا اور آج بھی ان کے کروڑوں ماننے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آج مہاتما بدھ کی یاد اس لیے آئی کہ بہار میں بسنے والے کیا ہندو اور کیا مسلمان، سب ہی اس بات پر ناز کرتے ہیںکہ راج کمار گوتم شہر شہر نگر نگر گھومے لیکن نروان ان کو ہماری زمین پر حاصل ہوا۔ دو دن پہلے ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی ریاست بہار کے انتخابی نتائج سامنے آئے ہیں جنہوں نے مودی سرکار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ یہ نتائج اس بات کا اشارہ ہیں کہ کثیرالمشرب ہندوستان کے عام آدمی کوسیاسی نروان حاصل ہوگیا ہے اور اس نے مذہب، مسلک اور طبقے کی بنیاد پر عدم برداشت اور نفرت کی سیاست کو رد کردیا ہے۔ بی جے پی اور اس کی حامی جماعتوں نے بہار میں جو انتخابی مہم چلائی اس میں اپنے مخالفین کے لیے توہین آمیز کلمات ادا کرنے میں ذرابھی احتیاط نہیں برتی۔ خاص طور سے پہلے انتخابی جلسے میں مودی صاحب کا یہ جملہ کہ ’’ نتیش کمار (بہار کے وزیراعلیٰ) کے ڈی این اے میں کوئی خرابی ہے۔ جمہوریت کا ڈی این اے ایسا نہیں ہوتا‘‘۔ یہ جملہ نتیش کمار کے حامیوں کو نشتر کی طرح چبھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بی جے پی اپنے سیاسی حریفوں کا قطعاً احترام نہیں کررہی تھی۔ مودی صاحب کے اس بیان کے فوراً بعد ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار جی نے ’لفظ واپس لیں‘ کی مہم شروع کی۔ بہار کے لوگوں کے 50 لاکھ ڈی این اے (ناخن اور بال) کے نمونے جمع کیے گئے اور دلی بھیج دیے گئے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار والوں نے ہندوستانی وزیراعظم کے اس جملے کو کس قدر شدت سے محسوس کیا۔ نتیش کمار جی کی طرف سے جملہ واپس لینے کی مہم 25 جولائی کو شروع ہوئی تھی اور اس نے عوامی جذبات کو یقینی طور پر مشتعل کیا تھا۔ دونوں طرف سے بیان بازی چل رہی تھی۔ اسی دور ان سیکولر خیالات رکھنے والے ہندو ادیبوں کو قتل کردیا گیا، گائے ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان کو ڈنڈے اور اینٹیں مار کر ہلاک کردیا۔ سونے پر سہاگہ یہ بات ہوئی کہ ہندوستانی سیاست کے انتہاپسند عناصر نے ’سیکولر‘ خیالات رکھنے والے لوگوں کا دماغ درست کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جانے لگا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ نفرت اور تقسیم در تقسیم کی اس مہم کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ مجھ جیسے بے شمار لوگ پریشان تھے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہندوستان کے لوگوں کو نفرت کی یہ کون سی بیماری لاحق ہوئی ہے جو اس کی رنگارنگ ثقافت اور اس کے سماج کی خوبصورت بنت کو ادھیڑ رہی ہے۔ ہمارے یہاں ادیب، دانشور، فنکار اور مصور کسی گنتی شمار میں نہیں آتے۔ ان کے کہے اور لکھے ہوئے لفظوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ہمارے یہاں وہ جمہوری فضا کبھی پیدا نہیں ہوئی جو دانشوروں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ اسی لیے ہمارے بہت پڑھے لکھے لوگ بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ ہندوستانی دانشوروں، ادیبوں، تاریخ دانوں، فنکاروں اور صحافیوں کا احتجاج عدم برداشت کی راہ میں مزاحم نہیں ہوگا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا خیال تھا کہ ہندوستان میں لکھنے والوں کی بہت توقیر کی جاتی ہے، اسی لیے دانشوروں اور ادیبوں کی برادری کا احتجاج اپنا رنگ دکھائے گا۔ 88 برس کی نین تارا سہگل ہندوستان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار اور ادیب ہیں۔ انھوں نے اس خوفناک صورتحال کے خلاف آواز اٹھانے میں پہل کی اور 6 اکتوبر کو ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کردیا۔ نین تارا، مسزوجے لکشمی پنڈت کی بیٹی اور پنڈت جواہر لال نہرو کی بھانجی ہیں۔ ان کی ماموں زاد بہن اور اس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے جب ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی تھی، اس وقت بھی نین تارا نے شدید احتجاج کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بی جے پی نے ان کی بہت ستائش کی تھی لیکن آج کل انھیں توہین آمیز جملوں سے نوازا گیا۔ ان کے ساتھ ساتھ مشہور شاعر اور دانشور اشوک باجپائی، جارج فرنانڈس اور دوسرے بہت سے لوگوں نے اپنے سرکاری اعزاز واپس کیے۔ پھر خبر آئی کہ عدم برداشت کے خلاف بات کرنے پر شاہ رخ خان کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا گیا۔ یہ مشورہ ان ہندو ادیبوں اور فنکاروں کو بھی دیا گیا جنہوں نے عدم رواداری اور اشتعال انگیز بیانات کے خلاف بات کی تھی۔ یہ خبریں پہلے تو بارش کے چند قطروں کی طرح لوگوں تک پہنچیں لیکن پھر تو جیسے برسات ہونے لگی۔ اختلاف کرنے اور سرکاری طور پر نفرت انگیزی کو ہوا دینے کے رویے کو مسترد کرنے والوں کی تعداد ہزار تک جاپہنچی، ان میں رومیلا تھاپر سے لے کر شبانہ اعظمی تک سب ہی شامل تھے۔ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ پچھلے انتخابات ہار جانے والی کانگریس نے بھی ایک جلوس نکالا جس کی قیادت سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کررہے تھے۔ یہ تمام خبریں بہار کے ووٹر کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کررہی تھیں۔ شاہ رخ خان اور سلمان خان، مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر ہندوؤں کے ہیرو ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ان لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس احتجاج میں صرف ہندی یا انگریزی کے ہی نہیں کنٹر، ملیالم، گجراتی، پنجابی، اردو اور اڑیا کے دانشور اور ادیب سب ہی یک زبان تھے۔ ارون دھتی رائے جو اپنے کاٹ دار جملوں کے لیے مشہور ہیں، انھیں 1989 میں بہترین اسکرین پلے رائٹر کا ایوارڈ دیاگیا تھا۔ انھوں نے یہ انعام واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں بھی ان ادیبوں، فلمی دنیا سے وابستہ لوگوں ، دانشوروں کے ساتھ شامل ہوگئی ہوں، جنہوں نے ملک میںعروج پاتی ہوئی انتہا پسندی، عدم رواداری اور نفرت پر مشتمل سیاست کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ انھوں نے انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ میں ایک ایسی سیاسی تحریک کا حصہ بن رہی ہوں جس کا ہر اول دستہ ادیب اور فنکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا لوگوں کو ڈنڈے اور پتھر مار کر ہلاک کردینا، اپنے جیسے انسانوں کو زندہ جلادینا ، انھیں گولی مار کر قتل کرنا، عدم رواداری سے کہیں بڑی بات ہے۔ بہار میں بی جے پی کو جس طرح شکست فاش ہوئی ہے، اس میں نتیش کمار، لالوپرشاد یادو اور دوسرے سیاستدانوں کی تقریریں، ان کے بیانات کا بڑا دخل ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہار کے ووٹر نے اپنے ادیبوں، دانشوروں، مورخوں، فنکاروں اور صحافیوں کی اس مسلسل مزاحمت سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ جس قدیم ہندوستان کی تہذیب پر وہ ناز کرتے ہیں، اس کے منہ پر کالک ملی جارہی ہے۔ وہ اس کے لیے تیار نہیں کہ ان کا خطہ جو امن، رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا ہے اسے تباہ و برباد کردیا جائے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن نے ناخواندہ لوگوں تک بھی تمام حقائق پہنچا دیے ہیں۔ وہ یہ سن چکے ہیں کہ کنٹر کے مشہور اور محترم ادیب یو آر اننت مورتی نے اپنی موت سے چند ہفتوں پہلے اپنی آخری کتاب میں یہ لکھا تھا کہ میں مودی کے ہندوستان میں زندہ نہیں رہنا چاہوں گا۔ یہ کتاب ابھی انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوئی لیکن ہندی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں میں اس پر تبصرے ہوئے ہیں۔ بہار والوں کے کانوں تک مودی صاحب کے ایک قریبی دوست گری راج سنگھ کا یہ جملہ بھی پہنچا ہے کہ جو لوگ مودی جی کے ہندوستان میں زندہ نہیں رہنا چاہتے وہ ٹرین پکڑ کر پاکستان چلے جائیں۔ کنٹر کے محترم ترین ادیب کے بارے میں یہ توہین آمیز جملے لوگوں کو بھلے نہیں معلوم ہوئے ہیں۔ ان بہاریوں نے ارون دھتی رائے کے سخت جملے سنے ہیں، پنڈت جی کی بھانجی کو بڑھیا اور ’سٹھیائی ہوئی‘ سننا ان کے لیے بہت مشکل تھا اور کئی ہندو لکھنے والوں کو چن کر جان سے مار دینا، تو مہا پاپ ہے۔ بہاریوں نے سیاسی نروان کی طاقت سے سارا حساب چکادیا ۔ یہ وہ نر وان ہے جو انھیں برگدکے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر نہیں، جمہوریت کی چھتر چھایا میں حاصل ہوا ہے۔جمہوریت عوام کو شعور اور سیاسی نروان دیتی ہے اور جب عوام کو سیاسی نروان مل جاتا ہے تو وہ نفرت کے ایجنڈ ے پر کام کرنے والوں اور مذہبی انتہاپسندوں کی ضمانتیں ضبط کرا کے اپنا ملک اور سماج بچا لیتے ہیں۔ یہی بہار کے انتخابات میں ہوا۔ 368462-ZahidaHinaNEWNEW-1434820751-402-640x480