حج کا سفر۔۔۔حج کے دنوں میں  (۰۲)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:21PM Tue 13 Jun, 2023

*حج کا سفر۔۔۔حج کے دنوں میں  (۰۲)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی*

ہمارے مولانا عتیق صاحب بھی اس سال حج کو گئے تھے، ان کو۷،ذی الحجہ کو جعہ کی نماز کے بعد حرم شریف میں دیکھ کر ہمیں ذراتعجب ہوا، بہت تعجب اس لئے نہیں ہوا کہ ممبئی  میں سن گن مل گئی تھی کہ ان کو بھی بذریعہ ہوائی جہاز جانے کی اجازت مل گئی ہے، جب انھوں نے بتایا کہ ان کی بیوی ،ہماری چچی صاحبہ بھی ساتھ آئی ہیں،تو واقعی حیرت سے ان کا منھ دیکھنے لگے، اگر حرم شریف میں نہ ہوتے یاا ن کی بذلہ سنجی کا کوئی سابقہ تجربہ ہمیں ہوتا تو ہم سمجھتے کہ مذاق کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ ہماری بیوی کی رشتہ میں بہن ہیں ہم ان کے ہرطرح خورد  ہونے کے باوجود ہم زلف بھی ہیں،رواج کے لحاظ سے ہم دونوں میں مذاق کی گنجائش بھی تھی!

آخر ان کی بیمار اہلیہ کس طرح آگئیں؟ جب لکھنؤمیں مولانا عتیق صاحب سے رخصت ہونے کے لئے ہم گئے تھے،تو حج کے سلسلے میں بہت سی گد از قلب کی باتیں انھوں نے کی تھیں،یہ کیوں نہیں بتایا تھا کہ وہ بھی کوشاں ہیں،پھر انھوں نے اپنی بیوی کی علالت کا ذکر کرتے ہوئے معالجین کی رایوں کے پیش نظر خاصی تشویش ظاہر کی تھی،جب ہم ان کی اہلیہ سے رخصت ہونے گئے ،توان کی کمزوری کا حال آنکھوں سے دیکھ کر اچھی خاصی تشویش خود ہم کو ہوگئی تھی، وہ اسی وقت بیت الخلا سے آئی تھیں، بہ مشکل دس قدم چلنا پڑاہوگا،بے حال ہو کر تخت پر بیٹھ گئیں تھیں دیرتک سانس بھی ٹھیک طریقے سے وہ نہ لے پائی تھیں ۔ پندرہ بیس دن ہی پہلے کی تو بات ہے !

جب مولانا عتیق صاحب نے اپنی بیوی کی آمد کا ذکرکیا ،تو ہم دیکھ رہے تھے کہ ان کا چہرہ بشرہ مطمئن بھی تھا اور مسرور بھی، یا رب!ایسی بیمارخاتون کو یہاں لے آنے کا جذبہ تو خیر سمجھ میں آسکتا تھا،لیکن یہ اطمینان کیا معنی ؟ کیا ان کو اتنے بڑے اقدام کے خطرات کا کوئی اندازہ نہیں ؟ یہ ہم سوچنے لگے ۔ اس کے بعد جب بیمار چچی صاحبہ سے ملنے گئے ،تو باوجود سنگین علالت کے ان کی شادمانی دیکھ کر توحق الیقین ہو گیا کہ حاجی حاجی مرتبے میں برابر نہیں ہوتے۔ اس وقت اپنی گھبراہٹوں پریشانیوں اور بدحواسیوں پر لاحول پڑھنے کا جی چاہا اور اپنی جگہ پشیمانی سی ہونے لگی،سچ ہے ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے، ان کی ہرگز برابری نہیں کر سکتے، جو خالق ِاعصار ونگارنده  آنات سے خاص معاملے رکھتے ہیں۔

۷،ذی الحجہ کو جمعہ تھا ہی، اگر جمعہ نہ ہو تا تب بھی آج ظہر کی نماز کے وقت حرم شریف کا امام ایک خطبہ دیتا، جس میں وہ سرکاری طور پر اعلان کرتا کہ اس سال حج کس دن ہو گا، مناسک حج کی تفصیل بتاتا، جمعہ کا دن تھا، اس لئے خطبہ جمعہ کےضمن ہی میں خطبہ حج کا فرض بھی ادا ہو گیا۔

اس نمازِجمعہ میں حرم شریف کے اند ر نمازیوں کا جوازدحام تھا، اس کا ذکر کیا کریں،متین میاں مولانا محمد میاں الہ آبادی اور ہم کو زیرِ تعمیرحرم کی ان سیڑھیوں سے ایک سیڑھی پر جو عمارت کی اوپری منزلوں کو جاتی ہیں، بدقت ِتمام جگہ ملی،ایک زینے کی اوقات ہی کیا،بس اتنی جگہ ملی کہ نماز سے پہلے انتظار نماز میں بیٹھ سکے،اتنے میں لیبیا کا ایک حاجی احرام باندھے آیا اور ہم سے جو سکڑے سمٹے بیٹھے تھے، جگہ مانگنے لگا۔رسماً اس نے جگہ مانگی تھی،ہماری رضامندی اور منظوری کا اندازہ کئے بغیری وہ ہمارے پیچھے اپنی چھتری اور جوتا رکھ کر ہمارے آگے بیٹھ گیا،محمد میاں صاحب الہ آبادی کی خندہ پیشانی کو دیکھ کر ہم بھی فراخ دلی دکھانے پر مجبور ہو گئے اور سمجھ لیا کہ یہ حرم شریف ہے ،اپنے ملک کی مسجد نہیں جہاں ایسی حرکت پر لوگ لڑپڑتے ہیں۔

آبِ زمزم پلانے والے لمبی لمبی صراحیاں لئے کٹورے بجاتے ہر نماز کے وقت صفوں کے درمیان گھوما کرتے ہیں، چوں کہ دو دو گھنٹے قبل نمازی صفیں بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پیاس بجھانے کے لئے اپنی جگہ چھوڑ نہیں سکتے ،اس لئے زمزم پلانے والوں کی ضرورت بہت رہتی ہے، زیادہ نہیں ایک قرش (ریال کا بیسواں حصہ)یا اپنے دو آنے )ز مزم پلانے والوں کی نذر کر دیجئے اور کبھی بغیر کچھ نذرکئے زمزم پلانے والا چلا جاتا ہے، یہ اس وقت جب کوئی حاجی اسے ایک ریال دے کر ایک کٹورہ خود پیتا ہے باقی سبیل کر دیتا ہے  ہمارے پاس بیٹھ جانے والے لیبیائی حاجی نے زمزم والے کو ایک ریال دیا اور سبیل کر دیا اس نے ہم تینوں کو لیبیائی حاجی کو اور دو چار اور حاجیوں کو، یعنی انداز اً  اتنے حاجیوں کو جتنوں کو زمزم پلا کر وہ ایک ریال اکٹھا کر سکتا ،ایک ایک کٹورہ پلایا، اس طرح سبیل کرنے کادستور پہلی دفعہ ہمارے تجربے میں آیا ۔

جمعہ کا خطبہ ہوا، بس یہ سنائی دیا کہ خطبہ ہورہا ہے، کیا ہورہا ہےسمجھ نہیں پار ہے تھے،حرمین محترمین میں خطبہ نماز تکبیرات،اذان سب لاوڈ اسپیکر پرہوتی ہیں، بلکہ جدہ ریڈیو،مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی مغرب کی نمازیں روزانہ ریلے بھی کرتا ہے ۔ چونکہ نماز کی تکبیریں امام کے سامنے والے میکرو فون سے بھی نشر ہوتی ہیں،اور سکرین کے سامنے والے میکرو فونوں سے بھی،اور بلند آواز سے ہوتی ہیں ،اس لئے وہ بخوبی سنائی دیتی ہیں، خطبہ صرف امام کے سامنے والے میکروفون سے نشر ہوتا ہے ،وہ پوری طرح سنائی نہیں پڑا،مختصرخطبہ تھا، جس کے بعد جماعت شروع ہوئی، امام کے سلام پھیرنے کے فورا ہی بعد لیبیائی حاجی نے ہماری طرف، جو اس کے داہنے پر تھے دونوں ہاتھ بڑھائے ،پہلے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیوں ہاتھ بڑھائے ہیں ،پھر اندازہ ہوا کہ مصافحہ کرنا مقصود ہے،اس نے ہم سے اور بائیں طرف بیٹھے متین میاں اور محمد میاں صاحب الٰہ آبادی سے مصافحہ کیا، خیال ہوا کہ یہ کوئی خوش اخلاق حاجی معلوم ہوتا ہے، پھر توکئی موقعوں پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں سلام پھیرتے ہی پڑوسی مقتدیوں سے مصافحے کرنا پڑے۔

جناب محمدمسلم صاحب (ایڈیٹر روزنامہ دعوت ،دہلی) نے اس مصافحہ کی نوعیت پر ایک دن روشنی ڈالی،وہ جماعت میں ایک دفعہ ہمارے پاس ہی تھے ،اس طرح مصافحے ہونے کے بعد انھوں نے کہا: یہ اچھی بات ہے،پوچھا کسی لحاظ سے ؟انھوں نے کہا:جماعت میں مقتدیوں کی کش مکش سے جو تھوڑی بہت زحمت ہرایک کو دوسرے سے پہنچتی ہے،یہ مصا فحہ اس کی تلافی میں کیا جاتا ہے !

ایک دفعہ مدینہ منورہ میں ریاض الجنہ کے مختصر ،مگر مقدس ترین مقام میں ہم کوعصر کے وقت خوش قسمتی سے جگہ مل گئی،طے کر لیا کہ عصرکی نماز کے بعد بھی بیٹھے رہیں گے اور مغرب کی نماز،بلکہ عشاء کی نماز پڑھ کر اٹھیں گے، ایسے مواقع کہاں نصیب ہوتے ہیں! بیٹھے رہے سامنے الماریوں میں قرآن شریف رکھے تھے،نکا ل کرپڑھنے لگے ،اتنے میں مغرب کی اذان کا وقت آگیا اور تلاوت کرنے والے اپنے قرآن شریف حاجیوں کے سپرد کرنے لگے، ایک ادھیڑ عرب ٹانگتا پھاند تا آیا اورہماری صف میں بیٹھنے کے لئے جگہ چاہنے لگا،سرکنے تک کی گنجایش وہاں نہ تھی، ایک ہی صورت تھی کہ اپنی جگہ اس کو دے کر خود دھکے کھاتے پیچھے کہیں جاکر کھڑے ہوں جائیں، کسی دینی فضیلت کے حاصل کرنے والے پر ایثار لازم نہیں ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کو حضور انورﷺ نے اپنا پس خورده عنایت فرمایا ،جو حضور را نورﷺ کی داہنی طرف مجلس مبارک میں تھے،بائیں طرف حضرت عباس ؓان کے والد اور حضور انور کے سگے چچا تشریف فرما تھے،حضور انور نے داہنی طرف والے کے حق کو مرجح قرار دیتے ہوئے، ابن عباس ؓکو پس خوردہ عطا فرمایا اور یہ بھی فرمادیا کہ:” پسند کرو تو اس میں سے عباس ؓ کے لئےبھی چھوڑ دینا“

ابن عباسؓ نے بے ساختہ عرض کیا کہ: حضور انور ﷺکے پس خوردہ کے حصول کی سعادت میں ،میں ادنی ایثاربھی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں ،یہ کہہ کر پورا پیالہ دودھ کا پی لیا، بلکہ پیالہ کو انگلیوں سے چاٹ تک لیا، حضرت عباسؓ جن کو حضور انورﷺکے پس خورده نصیب نہ ہونے پر ایک طرح سے قلق ہوا تھا، یہ دیکھ کر کہ حضو رانورﷺکےدہان ِمبارک کے چھوئے ہوئے پیالہ اور پس خوردہ کا یہ احترام ان کا بیٹا کرتا ہے، خوش ہو گئے۔ اس سے محدثین نے نتیجہ نکالا ہے کہ دینی فضیلت کے معاملے میں ایثارلازم نہیں ہوتا، ہم نے خود اٹھ کر دوسرے کے لئے جگہ خالی کر دینے سے انکار کر دیا،عرب صاحب نے ناگواری سے کہا:”آپ مجھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؟ قرآن میں ہےکہ مجلس میں جب جگہ مانگی جائے تو جگہ نکالو“ہماری نظر میں اس استدلال کا زیادہ وزن نہ تھا، اس لئے کہ سروں اورگردنوں پر پھاندتے ہوئے اگلی صف میں بیٹھنے اور صف اول کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش سے صراحتاً مما نعت شرع میں وارد ہوئی ہے ۔

بہر حال عرب صاحب کے لئے جگہ تین چار بلکہ پانچ چھ آدمیوں کے سمٹنے سے بہ مشکل نکلی نماز کے بعد ہم سمجھے کہ وہ بھی اس کلفت وزحمت پر جو ان کی وجہ سے صف والوں کو ہوئی ،مصافحہ کریں گے مگر ایسا نہ ہوا،اب ہم نے خود ان سے صفائی کے لئے مصافحہ کیا اور اپنی بے مروتی پر معافی مانگ لی، وہ مدینہ شریف میں رہتے تھے اور بتایا کہ وہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی اولاد میں ہیں ،یعنی وہ ہمارے ہم جد نکلے۔

خیر۷،ذی الحجہ کو جمعہ حرم شریف میں پڑھا ،جو ہمارا پہلا جمعہ تھا، اس سے طبیعت میں سرور کی سی کیفیت پائی ،مگر اس سرور کو اگلی آنے والی منزلوں کا تصور بار بارمغلوب کرنا چاہتا تھا۔

منتخب تو یہ ہے کہ آج کا دن گذراکر رات کو عشا ءکی نما ز حرم میں پڑھ کررات ہی میں کسی وقت حج کا احرام وہ لوگ باندھ لیں، جو عمرہ ادا کر کے احرام اتار چکےتھے ،جو حوصلہ مند“ قران“(حج اور عمرے دونوں) کا احرام میقات میں باندھ چکے تھے انہوں نے نہ اپنا احرام اتارا تھا،نہ انہیں دوبارہ باندھنا تھا ۔

عشا ءکی نما ز حرم میں پڑھ کر ہم لوگ کھانا کھا نے قیام گاہ واپس آگئے اورپھر صبح ۸،ذی الحجہ کو وہیں سے احرام باندھ کر اس ٹیکسی سے جو پہلے سے طے ہوچکی تھی ،منی کی طرف روانہ ہو گئے،ٹیکسیوں اوربسوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ ہمارے آگے پیچھے تھا اور ٹریفک کنٹرول کے لئے جگہ جگہ سپاہی کھڑے تھے،اس وقت سب سواریاں ایک ہی سمت جا رہی تھیں، آنے والی سواریوں کا کوئی سوال نہ تھا، اس لئے بڑی آسانی سے پہاڑی نشیب و فرانہ کی حامل چار میل کی مسافت طے کر کے ہم لوگ منی میں پہنچ گئے ۔ ہم سے پہلے بھی ہزاروں حاجی وہاں پہنچ چکے تھے، ٹیکسی سڑک پر ایک جگہ رک گئی، اپنے معلم مولانا عبد الہادی سکندر کا ”علاقہ“منی میں کہاں ہے، یہ ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی، ہمارا ٹیکسی ڈرائیور جانتا تھا اتفاق سے سڑک ہی پر معلم کے صاحبزادے عبدالوالی مل گئے، جہاں ٹیکسی رکی تھی، وہیں سے ایک مڑنے والی سڑک پر پہلی قطار میں تیسرا خیمہ ہم لوگوں کا تھا،ٹیکسی وہاں تک بھی جاسکتی تھی سامان اتارنے کے لئے اُسے لے جانا ضروری بھی تھا،ور نہ اس مسافرانہ مختصر سامان کے بھی تین چار ریال تو دینا ہی ہوتے۔

منی، کو ایک قصبہ سمجھئے، جہاں پختہ عمارتیں بھی ہیں، ہوٹل بھی اور مستقل آبادی بھی، مگر آج وہ قصبہ نہیں، بڑے بڑے شہروں میں کا ایک شہر ہے،ہوٹل، کچھ سرکاری ہیں،جن میں سعودی حکومت کے مہمان قیام کریں گے،باقی نجی ہیں،جن میں صاحبان ثروت اور خوش حال حاجی، ہزار ڈیڑھ ہزار ریال چار دن کے دے کر قیام پذیرہوں گے،باقی قطعات ہیں،یعنی میدان جو قطعہ قطعہ(پلاٹ پلاٹ) کر کے تمام معلموں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے، سب کا چکر لگا نا کسی کے بس کی بات نہیں، ہمارے معلم کا علاقہ خوش قسمتی سے اصل سڑک سے ملی ہوئی سڑک کے شروع ہی میں تھا۔ یہاں سے مسجدِخیف،وہ مقدس مقام،جہاں ”حجتہ الوداع“ میں حضور انورﷺ  کا مبارک خیمہ ایستادہ ہوا تھا، چند قدم کے فاصلے پر ہے ۔

 ہرمعلم کا الگ جھنڈا ہوتا ہے، جو اس کے علاقے میں بہت اونچے بانس پر لہرایا کرتا ہے،بھیڑ میں گم ہونے والا حاجی اس جھنڈے کو دیکھ کر اپنے معلم کےعلاقے میں واپس آ سکتا ہے، یہ بھی سنا خود تجربہ نہیں ہوا، کہ مسجد خیف میں معلمین کے کارندے اپنے اپنے جھنڈے لئے بیٹھے ہوتے ہیں، اگر کوئی بھولا بھٹکا راستہ نہ پاسکے ،تو مسجدِخیف چلا جائے وہاں جھنڈے سے معلم کے کارندے کو پہچان لے، وہ اُسے علاقے تک پہنچا دیں گے ۔                                                         کمپوزنگ:خبیب ایوب منیار

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/