گجرات ہائیکورٹ کا متعصبانہ فیصلہ

Bhatkallys

Published in - Other

12:52PM Fri 24 Jun, 2016
از:کلدیپ نیئر گجرات ہائی کورٹ کی تمام تر عزت و تکریم کے باوجود میں عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے اختلاف کروں گا کہ کانگریس کے رکن اسمبلی احسان جعفری کی طرف سے فائرنگ کی وجہ سے ہجوم مشتعل ہو گیا اور اشتعال میں آ کر احسان جعفری کو قتل کر دیا۔ میں احسان کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں جن کی کانگریس کے ساتھ دلی وابستگی تھی۔ گلبرگ سوسائٹی کا قتل عام مقامی گجرات کے مقامی لیڈروں کے خبث باطن کا نتیجہ تھا جو لوگوں میں افراتفری پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جب احسان جعفری کے گھر کو ہندوؤں کے ہجوم نے گھیر رکھا تھا تو احسان نے مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا کہ ان کی جان بچائی جائے۔ میں نے فوری طور پر دہلی میں وزارت داخلہ کو فون کیا اور انھیں احسان جعفری کے فون کے بارے میں بتایا۔ وہاں سے جواب ملا وہ پہلے ہی ریاستی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جونہی میں نے فون بند کیا اس کی گھنٹی دوبارہ بجی دوسری طرف پھر احسان جعفری تھا جو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ہجوم اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اسے بچانے کے لیے کچھ کیا جائے۔ اس کی طرف سے آنے والی مدد کی یہ التجا اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اس کے لیے کچھ نہ کر سکا سوائے اس کے کہ وزارت داخلہ کو پھر فون کیا مگر وہ بھی بے سود نکلا۔ لہٰذا عدالت عالیہ کا اپنے فیصلے میں یہ کہنا کہ احسان جعفری نے ہجوم کو اشتعال دلایا تھا قطعاً بے معنی اور بے بنیاد ہے۔ بلکہ یہ الٹا عدل و انصاف کا مذاق اڑانے والی بات ہے۔ لیکن اس کا الزام ہائی کورٹ کے بنچ کو بھی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ انھوں نے تو وہی فیصلہ کرنا تھا جس کے ثبوت ان کے سامنے پیش کیے گئے تھے۔ متعصب پولیس نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی اور نہ ہی حقائق تک پہنچنے کی سنجیدگی سے کوشش کی گئی لہٰذا عدالت کو یہی باور کرایا گیا کہ ہجوم کو جعفری نے خود مشتعل کیا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں جائے گا تب وسیع پیمانے پر پبلک کے سامنے حقائق آ سکیں گے۔ یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ جو تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قصور وار بھی جعفری ہی تھا۔ المیہ یہ ہے کہ اب جج حضرات بھی پولیس کی مانند تعصبات کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھارت اجتماعیت میں یقین رکھنے والا معاشرہ ہے۔ ملک پر آئین کی حکمرانی ہے اور آئین میں ہندوؤں‘ مسلمانوں‘ سکھوں اور عیسائیوں میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی کیونکہ آئین ساز اسمبلی میں تمام عقائد کے لوگ شامل تھے۔ یہ قومی سطح پر جدوجہد کرنے والے لیڈروں کا کارنامہ تھا کہ انھوں نے ملکی آبادی میں 80 فی صد ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود سیکولر آئین تشکیل کیا جس میں تمام مذاہب کو مساویانہ حیثیت دی گئی ہے۔ ہندو مہاسبھا جس نے کہ جن سنگھ کو جنم دیا لیکن ان کے دس ارکان بھی لوگ سبھا میں منتخب نہ ہو سکے۔ اس پارٹی نے اپنی پوزیشن بہتر بنا لی ہے اور اب ایوان میں اس کو اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔ لوک سبھا میں اس کی نشستوں کی تعداد 262 ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ انھیں واضح اکثریت حاصل ہے جب کہ شیوسینا ان کی قوت میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری مشینری میں ہر صورت حکمران جماعت کے نظریات کی عکاسی ہوتی ہے۔ کانگریس کی حکومت میں بھی یہی ہوتا تھا اور اب بی جے پی کی حکومت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کمیونسٹ بھی غیرجانبدار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں صحیح معنوں میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں کی جا سکی اور یہی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے کیونکہ تمام پارٹیاں اپنی انفرادیت کو قائم رکھنا چاہتی ہیں چنانچہ اس تاریک سرنگ کے دوسرے سرے پر کوئی روشنی نظر نہیں آتی۔ بدقسمتی سے آج سب سے زیادہ ظلم کا شکار اقلیتیں بن رہی ہیں۔ اگر قانون کی حکمرانی کو مقدم نہ رکھا جا سکا تو سارا معاشرہ اسی ناانصافی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہمارے لیے قانون کی حکمرانی کے سوا بقا کا اور کوئی راستہ نہیں۔ یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ کچھ فعال کارکن (ایکٹوسٹ) جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ اتنا مشکل کام ہے جو ممکن نظر نہیں آتا۔ آخر کار پارلیمنٹ حتمی حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ قوم کو دیکھنا ہو گا کہ وہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہوں یہ آئین 1950ء سے نافذ العمل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے سامنے طرز حکومت کے بہت سارے آپشن تھے۔ اس اسمبلی کے مشیر بی این راؤ نے اس موقع پر دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا تا کہ یہ دیکھا جائے کہ ان ملکوں میں کونسا نظام رائج ہے۔ وطن واپس آ کر انھوں نے آئین ساز اسمبلی کو صدارتی طرز حکومت اختیار کرنے کا مشورہ دیا جو کہ امریکا اور فرانس میں رائج تھا لیکن جواہر لعل نہرو نے، جن کی رائے کو اس وقت سب سے مقدم سمجھا جاتا تھا، پارلیمانی نظام حکومت کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ نہرو کی تعلیم چونکہ ہیروHarrow اور کیمبرج میں ہوئی تھی جس نے ان کے خیالات کی تشکیل کی۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو لیکن دراصل نہرو ایسا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے جس میں ہر بالغ شہری شرکت کر سکے۔ آئین ساز اسمبلی کے چیرمین ڈاکٹر راجندر پرشاد چاہتے تھے کہ ووٹر کے لیے تعلیم یافتہ ہونا لازم ہونا چاہیے، جب کہ نہرو کا کہنا تھا کہ غیر تعلیم یافتہ افراد کی ملک میں اکثریت ہے اور انھوں نے ہی تحریک آزادی میں حصہ لیا ہے اور اب جب کہ ملک نے آزادی حاصل کر لی ہے تو ان لوگوں کو کس طرح نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ انھیں ووٹ کا حق بھی نہ دیا جائے۔ دوسرا اصول جس نے حکومت کی رہنمائی کی وہ تھا سیکولر ازم، جسے آئین میں شامل کیا گیا اور ہر فرد کو ایک ووٹ دینے کا حق دیا گیا خواہ اس کی کمیونٹی کی معاشرے میں تعداد زیادہ ہو یا کم ہو۔ اور اکثریتی کمیونٹی والوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا حتٰی کہ مسلمانوں کے لیڈروں نے بھی اپنی کمیونٹی کے لیے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مخصوص کرنے کی پیشکش مسترد کر دی جو کہ انھیں برطانوی راج میں حاصل تھی اور اس پر آج بھی عمل کیا جا رہا ہے البتہ نجی شعبے میں تعصب کی کارفرمائی آج بھی نمایاں ہے۔ ہندوؤں کے بہت کم ادارے ہیں جن میں مسلمانوں کو ملازمت ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس سچل کمیٹی نے جسے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے قائم کیا تھا اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی حیثیت دلتوں (اچھوتوں) سے بھی بدتر ہے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ احسان جعفری کے مقدمے کا فیصلہ ہندوتوا کے حامی گروپ کو خوش کرنے کا باعث بنا ہے۔ شاید میں بہت مثبت انداز فکر رکھنے والا شخص ہوں اسی لیے مجھے اب بھی امید ہے کہ ہمارا معاشرہ حقیقت کو تسلیم کر لے گا اور بالآخر اجتماعیت پر یقین رکھنے والا معاشرہ بن جائے گا۔ اسی پر ہمارے ملک کی بقا کا انحصار ہے۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)