عورتوں کی آزادی آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے دیکھتے دیکھتے کہاں سے کہا ں پہنچی۔ابھی یہی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورتوں کو تعلیم دینا بھی چاہیے یا نہیں کہ آپ کی قوم کی عورتوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کردی ،اور آپ کے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا،زنانہ مدرسے کھل گئے ،زنانہ کالج کھل گئے ،لیڈیز کانفرنس کے اجلاس ہونے لگے ،زنانے رسالے نکلنے لگے ،زنانے اخبار چھپنے لگے ،برقعے اور نقاب رخصت ہونے لگے ،ڈولی اورپالکی کی جگہ ’’عجائب گھر‘‘رہ گئی ،پردہ کلب اور مزید ترقی کر کے بے پردہ کلب کھلنے لگے ،جو بیچاریاں بے زبان تھیں،وہ تقریروں،اسپیچوں،اور لکچروں پر اتر آئیں اور جنھیں آپ اندھیرے گھر کا چراغ سمجھ رہے تھے ،انھوں نے آپ کی آنکھوں کے سامنے ’’سوسائٹی ‘‘کے اندر ،بزم و رہ گزر کے اندر ،بجلی کے قمقموں کی چمک دمک پیدا کر لی۔ آپ اپنی شاعری کی دنیا میں بیٹھے ہوئے جنھیں ’’کم سخن‘‘و’’بے زبان‘‘سمجھتے رہے ،انھوں نے آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے ،پنڈال بنائے ،رزولیشن پر تقریریں شروع کردیں پلیٹ فارم پر قبضہ کرلیا اور اسٹیج کو اپنی ہنگامہ پر وریوں سے تھرادیا اورآپ اب تک جنھیں ’’بت‘‘کہتے تھے وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے’’ناقوس‘‘بن گئے۔ شانِ سابق سے یہ مایو س ہوجاتے ہیں ’بت‘ جو تھے دیر میں ’ناقوس‘ ہوئے جاتے ہیں ساروا ایکٹ کی تائید ہورہی ہے ،تعداد ازدواج کے قانون ممانعت کا مطالبہ ہورہاہے ،پردہ اورحجا ب اپنی ہر صورت میں توڑا جارہا ہے،آج لکھنو میں جلسہ ہورہا ہے کل دہلی میں اور پرسوں اجمیر میں،خواہش ’’آزادی‘‘کی ہے اور ’’پابندی‘‘ سے بیزاری ’’حقوق‘‘یاد رہ گئے ہیں اور ’’فرائض‘‘بھلا دیے گئے ہیں’’پانیر‘‘اور’’ ٹائمس آف انڈیا‘‘اورملک کے اور انگریزی اخبارات جن کے بیش قیمت صفحات میں بہتر سے بہتر دینی مقالات اور اخلاقی مضامین کے لیے چند سطروں کی گنجائش بھی نہیں نکل سکتی اپنے دو دو اورچار چار کالم بڑے بڑے جلی اورنمایاں عنوانات کے ساتھ ان زنانے جلسوں کی رودادوں اور کاروائیوں سے با تکلف لبریز رکھتے ہیں۔ دنیا میں آج سے پیشتر بھی ایسی مہذب ومتمدن قومیں گزر چکی ہیں جو اللہ کا نام لینا فحش کے خلاف اور اپنے پر وردگار کی یاد عقلیت ،وروشن خیالی کے منافی سمجھتی تھیں ۔کلامِ پاک میں ان کے تذکرے میں آتا ہے کہ یہ لوگ۔ إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا اللہ کو چھوڑ کر عورتوں ہی کو پکارتے ہیں مفسرین کے مختلف اقوال آیت کی تفسیر میں ہیں اور اکثر نے یہ کہا ہے کہ عورتوں سے مراد دیویاں ہیں جن کی یہ لوگ پرستش کرتے تھے ،لیکن آج کے مشاہدات یہ کہتے ہیں کہ اس حد تک بھی مجاز کیوں اختیار کیا جائے اور ’’اناث‘‘کے صاف اورسیدھے معنی عورت ہی کے کیوں نہ لیے جائیں؟