بھارت بھاگیہ ودھاتا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زین شمسی

اور پھر وہ دن آگیا ،جب مائونٹ بیٹن نے کہا
’ہمیں یہ اطلاع دیتے ہوئے بے حد خوشی کا احساس ہو رہا ہے کہ بھارت 15اگست 1947 کو آزاد ملک ہوگا‘۔
گاندھی جی نواکھلی میں افسردہ بیٹھے ہیں،ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو طبیعت کے ساتھ کاٹ رہے ہیں،لہو کی کھیتی ہو رہی ہے۔
پٹیل اور نہرو کاخط گاندھی جی کے پاس پہنچتا ہے۔
مہاتما ہم آزاد ہوگئے ، آپ جشن آزادی کی تقریب میں ہمیں آشیرواد دینے دہلی آئیں۔
سابرمتی کا سنت اور ونسٹن چرچل کا ادھ ننگا فقیرکہتا ہے ’ یہاں کولکاتہ میں انسان انسان کا خون پی رہا ہے ، میں انہیں چھوڑ کر کیسے آئوں۔گاندھی غمگین ہیں۔وہ سمجھ چکے ہیں کہ لاشوں کے اس انبار پر چل کر جو آزادی آئی ہے ، وہ بیش قیمتی ہی سہی لیکن خوبصورت تو ہرگز نہیں ہے ،وہ دور کہیں خلا میں دیکھتے ہیں، ایک لامتناہی خلا، ایک صفر،بس صفر۔
نہرو اپنی تقریر 11:50میں شروع کرتے ہیں اور 12:35کی شب میں ختم کر دیتے ہیں۔
لیری کولنس اور دالمک لیپئرس اسے آدھی رات کی آزادی کہتے ہیں
اور فیض احمد فیض اسے داغ داغ اجالا سے تعبیر کرتے ہیں۔
بہادر شاہ ظفر جس محل میں سوتے تھے ، انہیں کی خوابگاہوں سے ملحق لال قلعہ کی فصیل سے 1947سے لے کر اب تک قوم وزرائے اعظم کی تقریر سنتی رہی ہے اور ہاتھوں میں3روپے کا ترنگا لے کر عظیم الشان بھاگیہ ودھاتا کو یاد کرتے ہیں۔ ہم اب غلام نہیں رہے ، آزاد پنچھی ہیں ، گگن ، پربت ، جنگل ،ندیاں ،میدان ، پٹھار ، پہاڑ سب ہمارے اپنے ہیں۔
اور یہاں سے بہت دورکوئے یارکی دو گز زمین نہ ملنے پر بدنصیب ظفر اپنی تربت میں بےچین ،بے آرام کروٹیں بدل رہا ہے۔ ان کے محل سے بھارت کا گن گان کرنے والے وزرائے اعظم بھی انہیں رنگون سے بھارت لانے میں بے یار و مدگارثابت ہوئے ہیں۔
کبھی گاندھی جی نوا کھلی میں ہندو اور مسلمانوں کو کٹتے مرتے دیکھتے رہے اور اب آزاد ہندوستان میں نہ جانے کتنے نواکھلی ہوگئے۔مگر اس پر آنسوبہانے والا کوئی نہیں رہا۔ ہم آزاد ہو گئے ہیں۔ آنسوئوں سے بھی۔
اور کتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ 80منٹ تک دہلی کی سڑک پر کوئی ٹرپتا رہا اور کسی نے گاڑی تک نہیں روکی ، ہم آزاد ہوگئے ہیں ، اپنے اخلاق اور روایت سے بھی۔
چوراہوں پر ریڈ سگنل پر میلے ہاتھوں میں ترنگا بیچنے والے بچوں کے لیے یہ دن اس طرح کی آزادی ہے کہ حب الوطنی کے موسم میں کم از کم ان لاچار بچوں کی کمائی اسی ترنگے سے ہو جاتی ہے۔غریب بچے آزاد ہوگئے ہیں ، اسکولوں اور مدرسوں سے ،تعلیم سے۔
جھنڈا اونچا رہے ہمارا
جے این یو میں180فٹ کا جھنڈا لگا دیا جائے تاکہ کنہیاکمار وطن سے غداری نہ کر سکے۔
ویمولا لکھ کر مر گیا کہ آزادی کا مطلب ہے کہ اپنے ملک کی تعریف کرو اور دوسرے ملک کی برائی۔ اپنے مذہب کی تعریف کرو اور دوسرے مذہب کی توہین۔
یہاں تک کہ شیو بھکت کانوڑیوں کی حب الوطنی دیدنی ہے کہ اس نے شیو جیسے شکتی شالی بھاگیہ ودھاتا کو بھی ہندوستانی بنا دیا،وہ وشو کے سنرکچھک اب نہیں رہے۔
ایک روپے سے لے کرایک لاکھ روپے کے جھنڈے امیر اور غریب کے فرق کو بڑھانے کے لیے رواج دئے جارہے ہیں۔ایک سائز کے جھنڈے کا حکم ہوتا تو اچھا ہوتا۔
اچھی بات یہ ہے کہ جھنڈے کی سلامی لینے والوں کو وندے ماترم اور جن گن من نہیں گانا پڑتا ہے ، ورنہ بیشتر نیتاگن کی چوری پکڑی جاتی کہ انہیں قومی گیت یاد ہی نہیں۔
جھنڈے سے حب الوطنی آتی ہے ، ہم غدار وطن نہیں بن پاتے۔
آزادی دنیا کی انمول شئے ہے۔ یہ کسی علامت کی محتاج نہیں اور نہ ہی کسی مثال اور نظیر کی مرہون منت ہے۔ بولنے کی آزادی سوچنے کی آزادی ، لکھنے کی آزادی ، کھانے کی آزادی ، پہننے کی آزادی ، پیار کرنے کی آزادی ،آزادی کی روح ہے۔
مگر جب ہم نے قلم اٹھایا تو تم نے ہمارے ہاتھ قلم کر دئے ، ہم نے نوالہ اٹھایا تو تم نے ہم سے ہماری غذائیں چھین لیں۔ ہم پہن بھی نہیں سکتے جو ہم پہننا چاہتے ہیں ،ہمارے لب بھی اب اتنے آزاد نہیں ہیں کہ ہم بول سکیں کہ
بول کہ اب لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!
کون بولنے دے رہا ہے، سچ کہاں کوئی بول پا رہا ہے۔سچ کہاں اب زندہ ہے۔جب تک وزیر اعظم وعدے شادے کرتے رہے ،تب تک سب کچھ ٹھیک تھا،اب وزیر اعظم نے ایک سچ بولا، گئو رکشکوں کے بارے میں۔ پروین توگڑیا رونے لگا کہ انہوں نے انسانوں کو مارنے والوں کے خلاف کیوں بولا ،گایوں کو مارنے والوں کے خلاف کیوں نہیں بولا، ہندو ناراض ہیں ، سادھو سنت بھی ناراض ہیں۔سچ کہاں کوئی سنتا ہے۔
مگر ہم آزاد ہیں تھوڑے سے ہی سچ کے ساتھ صحیح ،بے چین ہیں ،ہماری بھارت ماتا بھی بے چین ہے۔وہ ایک بار پھر نفرت کی زنجیروں میں خود کو جکڑی ہوئی پا رہی ہے۔مگر ہم ہندوستان کے امن پسند لوگ اسے شرپسندوں کے چنگل میں جانے نہیں دیں گے۔ ہم پھر سےانقلاب زندہ باد کے نعرے لگا دیں گے۔ہم اب بھی کمزور نہیں، جس شان سے لال قلعہ کھڑا ہے ، ہم بھی اسی شان سے کھڑے ہیں۔
تمام دیش واسیوں کو آزادی کی بہت بہت مبارک باد