سچی باتیں ۔۔۔ دو راستے ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

07:26PM Mon 9 Apr, 2018

سورۂ یٰسین میں  ایک شخص اپنے ہم قوموں  سے وقت کے پیغمبروں  پر ایمان لانے کی سفارش کرتاہے اور پیغمبروں  کا وصف مشترک یہ بتاتاہے کہ یہ وہ حضرات جو اپنی شبانہ روز کی مشغولیت کی کوئی اجرت نہیں  مانگتے  (قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْا الْمُرْسَلِیْن اِتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْئَلُکُمْ اَجْرًا)  اپنی دن رات کی خدمات کا کوئی معاوضہ طلب نہیں  کرتے اسی طرح سورۂ شعراء میں  حضرت نو ح علیہ السلام ، حضرت ھود علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام پانچ انبیاء جلیل القدر کی زبان سے یہ قول نقل فرمایا گیا ہے کہ   وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلیٰ رَبِّ الْعَالَمِیْن   میں تم لوگوں  سے تو تبلیغ رسالت پر کسی طرح کا معاوضہ نہیں  چاہتا مجھے انعام جو کچھ ملتا ہے پروردگارِ عالم کے ہاں  سے ملے گا، اور یہی مضمون بکثرت دوسری آیتوں  میں  بھی وارد ہوا ہے مثلاً  قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ  ۔  قُلْ مَاسَئَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ  ۔  یَا قَوْمِ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجَرًا  ۔  اَمْ تَسْئَلُھُمْ اَجْرًا فَھُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُوْن  ۔  وغیرھا۔ دنیا کی سب سے زیادہ معزز ہستیوں  کا طریقِ کار آپ نے دیکھ لیا۔ نہ بڑی بڑی فیسیں ، نہ محنتانے نہ نذرانے نہ بڑے بڑے مشاہرے نہ جاگیریں  نہ جائدادیں نہ زمینداریاں نہ بڑے بڑے تعلقے نہ تجارتی کوٹھیاں  نہ بڑے بڑے فارم اور کمپنیاں نہ ساہوکاروں  کے ہاں  بہی کھاتے نہ بنک میں  بھاری ڈپازٹ، جس شغل میں  دن رات صبح شام لگے ہوئے اس کے عوض میں  آمدنی ہزاروں  کی تو کیا سینکڑوں  کی ،دہائیوں  کی اکائیوں  کی بھی نہیں! اگر آپ محض زبان ہی سے نہیں، دل سے بھی انہیں  حضرات کو سب سے زیادہ معزز سمجھ رہے ہیں، اگر آپ ا نھیں  کی انتہائی عزت کے قائل ہیں  تو قدرتاً آپ کے دل میں  بھی ولولہ انہیں  کے نقشِ قدم پر چلنے کاا نہیں  کی راہ اختیار کرنے کا پیدا ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے بر عکس آج دنیانے عزت و ناموری کے ساتھ کن کن ناموں  کو چمکاکر آپ کے سامنے پیش کر رکھا ہے؟ فلاں  بیرسٹر صاحب اور فلاں  وکیل صاحب، جو ایک ایک پیشی میں  سینکڑوں  اور ہزاروں  لے لیتے ہیں، فلاں  ڈاکٹر صاحب اور فلاں  حکیم صاحب جو ایک ایک callمیں  اپنی جیبیں  بھر بھر لیتے ہیں  جو ایک ایک آپریشن میں  مالامال ہو جاتے ہیں ،فلاں  جج اور فلاں کمشنر، فلاں  منسٹر اور فلاں  ایکزیکٹو کونسلر جن کی اتنی اتنی تنخواہیں  ہیں  فلاں  رئیس فلاں  زمیندار جن کی لاکھوں  کی آمدنیاں  ہیں  اور خیر یہ  تو پھر دنیوی پیشے اور کھلے خزانے ’’پیٹ کے دھندے‘‘ ہیں، فلاں  شاہ صاحب اور فلاں  مولوی صاحب جن کے نذرانے اور جن کے ہاں  کے ’’چڑھاوے‘‘ سن سن کر دنیا داروں  کو بھی رشک آ جاتاہے اپنے  دل کو ٹٹول کر دیکھیے کہ دل میں  امنگیں  کس کی روش پر چلنے کی ہیں ، انبیا کرام کے طریقہ پر یا آج کے معززین اور اہلِ وجاہت کی راہ پر؟ زمانے نے آپ کی نظرمیں  زیادہ خوش آیند اور قابلِ تقلید بنا رکھا ہے، ’’اجر‘‘ سے بھاگنے والوں  کو یا ’’اجر‘‘ پر دوڑ دوڑ کر گرنے والوں  کو؟