چینی قیادت: ناقابلِ شکست

چین جس تیزی سے ابھرا ہے اُسے دیکھتے ہوئے دنیا کا اُس کی طرف متوجہ ہونا کسی بھی طور حیرت انگیز نہیں۔ آج کی دنیا چین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتی ہے۔ یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ اِتنی زیادہ آبادی کے باوجود چین نے عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوانے میں غیر معمولی کامیابی ہی حاصل نہیں کی بلکہ اب عالمی سیاست و معیشت پر نمایاں تصرّف کی کوشش میں مصروف ہے۔ دنیا بھر میں لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ چینی قیادت معاشرے پر کس طور تصرّف قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایک ارب ۴۰ کروڑ کی آبادی کو قابو میں رکھنا کسی بھی اعتبار سے بچوں کا کھیل نہیں۔ چینی قیادت نہ صرف یہ کہ آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ اُس نے عام آدمی کو تمام بنیادی سہولتیں قابلِ رشک حد تک فراہم کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
زیر نظر مضمون میں نیو یارک ٹائمز کے تجزیہ کاروں نے چینی معاشرے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس امر کا جائزہ لینے کی بھی کوشش کی ہے کہ اِتنی بڑی آبادی کو چینی قیادت کس طور کنٹرول کیے ہوئے ہے اور عام چینی کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں کس طور کامیابی یقینی بنائی جاسکی ہے۔
چین کے انتہائی پس ماندہ علاقے میں ۵۱ سالہ گونگ وانپنگ صبح پانچ بجے اٹھتی ہے اور کنویں سے پانی نکالنے کے لیے اپنے پیر دھوتی ہے اور پھر بیٹے کے بھی منہ ہاتھ دھلاتی ہے۔ وہ ڈراپ آؤٹ ہے یعنی اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کرسکی تھی مگر اُس کا ۱۷ سالہ بیٹا لی کوئی شائی جدید تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ وہ ہر سال امتحان میں اچھے مارکس لاتا ہے اور یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اُس کی زندگی اچھی گزرے گی۔ وہ ٹیکنیکل ایگزیکٹیو بننا چاہتا ہے۔
گونگ وانپنگ اور دوسرے کروڑوں غریب حکمراں کمیونسٹ پارٹی سے ایک غیر تحریری معاہدہ کرچکے ہیں۔ حکمراں جماعت کا وعدہ ہے کہ اگر ملک بھر کے کروڑوں عوام اور بالخصوص کسان سیاست سے دور رہیں تو اُنہیں معقول حد تک پُرسکون اور قابلِ رشک زندگی بسر کرنے کے لیے درکار تمام سہولتیں دی جائیں گی۔ عوام نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ سیاست میں کچھ نہیں رکھا اور اِس سے دور رہ کر اچھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے، تو سودا مہنگا نہیں بلکہ فائدے کا ہے۔ آج چین میں کروڑوں عوام سیاست سے برائے نام بھی تعلق نہیں رکھتے۔ حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں کا زیادہ ساتھ نہیں دیا جاتا۔ عام چینی جب دنیا بھر کے حالات کا جائزہ لیتا ہے تو اِس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ سیاست سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔
کئی عشروں تک مغرب کے تجزیہ کار اس خیال کے حامل رہے کہ چین میں کروڑوں افراد ایک پارٹی کی حکومت اس وقت تک برداشت کریں گے جب تک ملک ترقی نہیں کر جاتا۔ جب ملک ترقی کرے گا تو شخصی آزادیاں بھی آئیں گی۔ اُن کی یہ رائے بالکل غلط ثابت ہوئی ہے۔ آج چین بے مثال ترقی کرچکا ہے۔ اجتماعی ہی نہیں، انفرادی آمدنی کی سطح بھی قابلِ رشک حد تک بلند ہوچکی ہے مگر اِس کے باوجود ملک کے تمام معاملات پر کمیونسٹ پارٹی کی گرفت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ صدر شی جن پنگ تاحیات حکمران رہیں گے۔ یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے کہ جب کسی بھی معاشرے میں زیادہ خوشحالی آتی ہے تو جمہوری اَقدار بھی پروان چڑھتی ہیں۔ چین میں ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت اور کروڑوں غریب چینیوں کے درمیان جو غیر تحریری یا خاموش معاہدہ ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جیسا دکھائی دیتا ہے۔ ایک صدی قبل چینی معاشرے کو جس بنیادی سوال کا سامنا تھا وہی سوال اب تک ذہنوں میں کلبلا رہا ہے … یہ کہ مغرب نے اس قدر ترقی کیسے کی اور چین اس قدر پیچھے کیسے رہ گیا؟
ایک صدی قبل یہ تصور عام تھا کہ تعلیمی نظام میں پائی جانے والی ایک بنیادی خرابی نے چین کو پیچھے رکھا ہے۔ یہ کہ کنفیوشس کی تعلیمات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور فطری علوم بالخصوص ریاضی میں آگے بڑھنے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اور یہ کہ ریاستی سطح پر جدید تعلیم کو ترجیح کا درجہ بھی حاصل نہیں۔ پھر یہ ہوا کہ مارکسسٹ انقلاب آیا۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ کی قیادت میں ملک نے بھرپور کروٹ بدلی۔ ملک کی سیاست، معیشت، ثقافت … سبھی کچھ بدل گیا۔ تعلیم کے شعبے میں بھی انقلاب آیا۔ فطری علوم و فنون کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع ہوا، مگر یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ چینی قیادت آج بھی اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ جدید دور کے تمام تقاضوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ روایات کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے۔ کنفیوشس اور دیگر بڑی عظیم چینی شخصیات کی تعلیم کو یکسر نظر انداز کرنے کی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ کوشش کی جارہی ہے کہ بہت کچھ تبدیل ہو مگر ساتھ ہی ساتھ بہت کچھ باقی بھی رہے۔
چینی قیادت نے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم اپنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔ کنفیوشس کی تعلیم اور مارکسسٹ مشینری بہت حد تک تاجر طبقے کے خلاف تھی۔ انفرادی سطح پر معاشی جدوجہد کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اب انفرادی سطح پر معاشی جدوجہد کو غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔ عام چینی بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو لازم ہے کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کی جائے۔ دنیا بھر میں یہی ہو رہا ہے۔ جو کچھ دنیا میں چلتا ہے وہی کچھ چین میں بھی اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ اِتنے بڑے پیمانے پر اور اِس قدر نمایاں انداز سے کیا جارہا ہے کہ محسوس ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ ریاستی سطح پر یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کرنے کے عمل میں ملک کی تاریخی عظمت داؤ پر نہ لگے۔ آج کی چینی نسل کو بتایا جارہا ہے کہ چین کم و بیش تین ہزار سال سے بہت کچھ کرتا آیا ہے۔ چینی دانش و حکمت کو دنیا تسلیم کرتی رہی ہے۔ بہت سے علوم و فنون میں چینیوں کی مہارت کا لوہا مانا جاتا رہا ہے۔ ریاستی سطح پر بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ نئی نسل کے ذہنوں سے یہ بات حذف نہ ہو کہ کنفیوشس اور دیگر اہلِ علم نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔
چینی معاشرے میں ایک خاص حد تک بے چینی ضرور پائی جاتی ہے۔ جن غریبوں کو حکمراں جماعت سے بہت کچھ چاہیے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وعدے کے مطابق سب کچھ نہیں دیا گیا، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر حکمراں جماعت سے تصادم کی راہ پر چلنے کی کوشش کی گئی تب بھی کچھ خاص حاصل نہ ہوسکے گا۔ چند ایک نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو اس بات کا شکوہ ہے کہ حکمراں جماعت کی جابرانہ پالیسیوں نے ہزاروں گھرانوں کے لیے اپنے نسلی اور ثقافتی تناظر کے ساتھ جینا ناممکن بنادیا ہے۔
چینیوں کی اکثریت اب بھی بہت سے معاملات میں اندر ہی اندر الجھی ہوئی ہے۔ اگر حکومتی پالیسی سے کوئی اختلاف ہو بھی تو وہ منظر عام پر اس لیے نہیں آتا کہ عام چینی جانتا ہے کہ ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ اِتنی بڑی آبادی کے لیے تمام بنیادی سہولتوں کا بندوبست کرنا آسان کام نہیں۔ ملک کئی بار قحط کے دور سے گزرا ہے۔ خانہ جنگی بھی ہوتی رہی ہے۔ عام چینی جانتا ہے کہ اگر سیاست میں دلچسپی لینے کا سلسلہ چل نکلا اور انحراف کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ کروڑوں چینیوں کو مختلف النوع خدشات چپ کرادیتے ہیں۔ ماضی کی تلخ یادیں اُن سے کہتی ہیں کہ سیاست میں حصہ مت لو، کوئی سوال مت پوچھو اور خاموشی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہو۔
کروڑوں چینیوں میں ’’فرسٹریشن‘‘ پائی جاتی ہے۔ وہ پریشان ہیں کہ اپنا معیارِ زندگی کس طور بلند کریں، مگر ساتھ ہی ساتھ اُنہیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے اور عالمی سطح پر بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ قومی تشخص کے حوالے سے چینی بہت حسّاس ہیں۔ اُن میں وطن پرستی اور قوم پرستی نمایاں ہے۔ اس بات سے وہ بہت خوش ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے اور یہ کہ اب اُنہیں بھی آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ بیشتر چینیوں کو چینی ہونے پر فخر ہے۔ ایک دور تھا کہ سب مغرب کی طرف دیکھتے تھے اور اُس سے غیر معمولی حد تک متاثر ہوتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ بہت سے چینیوں نے امریکا اور یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آکر قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کو ترجیح دی ہے۔ ’’جیمز نی‘‘ کے پاس امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع تھا مگر اس نے ملک میں رہنا قبول کیا اور آج کروڑ پتی ہے۔ ’’ہوا ییجیاا وینچر‘‘ سرمایہ دار ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کا آٹھ سالہ بیٹا چینی ہونے پر فخر کرے۔ ہوا ییجیا کا کہنا ہے ’’میں چاہتا ہوں میرے بیٹے کو معلوم ہو کہ ہماری زبان بہت خوبصورت ہے اور یہ کہ ہماری کئی نسلوں نے بہت کچھ سہا ہے۔ بہت کچھ سہنے کے بعد اب اس بات کی گنجائش پیدا ہوئی ہے کہ چینیوں کی نئی نسل کچھ حاصل کرے، کچھ کرکے دکھائے‘‘۔
بہت سے تجزیہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کو اب یقین ہوچلا ہے کہ جو کچھ انہوں نے چین کے حوالے سے سوچا تھا وہ غلط ثابت ہوا ہے۔ بیجنگ سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان اور مصنف شو ژیوآن کہتے ہیں کہ چینی ذہنیت مجموعی طور پر بہت عمل پسند ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے باور کرایا جاتا ہے کہ مثالی زندگی بسر کرنی ہے، کسی بھی معاملے میں غیر ضروری طور پر اختلافات رکھنے سے گریز کرنا ہے اور جتنی بھی ترقی کرنی ہے سسٹم کے اندر رہتے ہوئے کرنی ہے۔ پورا معاشرہ مسابقت کا میدان ہے۔ سبھی کو مسابقت کا سامنا ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے محنت کیے بغیر چارہ نہیں۔
چائنیز ڈریم
چین میں ہر سال کروڑوں طلبہ کو کالج میں داخلے کے لیے غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے۔ میرٹ کا سختی سے خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی سطح پر دھوکا دہی کی گنجائش نہیں۔ اساتذہ کی طرف سے طلبہ کی حوصلہ افزائی کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل بہت چھوٹی عمر سے اس حقیقت کو تسلیم کرلے، ذہن نشین کرلے کہ کامیابی صرف اُنہی کو ملتی ہے جو ذہین اور محنتی ہوں۔ محنت کی عظمت بار بار یاد دلائی جاتی ہے تاکہ چینیوں کی نئی نسل باقی زندگی بھرپور محنت کرے اور معیاری زندگی بسر کرے۔ انہیں یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ بہتر زندگی کے لیے عنفوانِ شباب ہی میں غیر معمولی محنت کرلی جائے تو بہت کچھ درست ہو جاتا ہے۔ کالج میں داخلے کے ٹیسٹ کے حوالے سے چینی نوجوان بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تعلیمی ادارے کم ہیں یعنی غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے۔
چین میں حرکت پذیری کے حوالے سے تعلیم کا بنیادی کردار ہے۔ میرٹ کی بنیاد پر کالجوں میں داخلہ ملتا ہے اور داخلے کے امتحان میں کامیابی کا مطلب بہتر زندگی ہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی جامعات میں داخل ہونے کا موقع بھی ہے۔ جو طلبہ بڑی جامعات میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں وہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں گھر واپس آتے ہیں تو اپنے تجربات کھل کر بیان کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اسکول کی سطح کے بچوں کو بہتر زندگی کی طرف بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔
چین میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے کے امتحان کو ’’گاؤکاؤ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حکومت گاؤکاؤ کو سماجی حرکت پذیری کنٹرول کرنے کے آلے کے طور پر بھی بروئے کار لاتی ہے۔ ملک بھر کی جامعات میں داخلے کے لیے اس امتحان میں کامیابی لازم ہے۔ داخلے اس ترتیب سے دیے جاتے ہیں کہ کسی ایک صوبے یا علاقے پر زیادہ بوجھ مرتب نہ ہو۔ آبادی کو متوازن رکھنے کے لیے گاؤکاؤ کو اس طور بروئے کار لایا جاتا ہے کہ کہیں بھی آبادی کا توازن نہ بگڑے اور سماجی سطح پر بگاڑ زیادہ نہ ہو۔ اسکالرز کہتے ہیں کہ معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کا یہ طریقہ دراصل ۱۳۰۰ سال تک سرکاری حکام اور دیگر ملازمین کے انتخاب کے لیے اپنائے جانے والے کنفیوشین نظام ’’کیجو‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ خاندانی بادشاہت کے ادوار میں بھی سرکاری مشینری کے پُرزوں کا انتخاب خالص میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا تھا تاکہ حکومتی امور کو چلانے کے لیے بہترین افرادی قوت میسر ہو۔ تب ایک فیصد سے زائد امیدوار کامیاب نہیں ہو پاتے تھے کیونکہ امتحان کے لیے بہت تیاری کرنا پڑتی تھی اور بہت سوں کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے تھے۔ فی زمانہ گاؤکاؤ کا نظام اپنایا گیا ہے جس میں بدعنوانی کی گنجائش بہت کم ہے۔ ایسے میں اگر کوئی داخلے کے امتحان میں ناکام بھی ہوجائے تو حکومت یا سسٹم کو موردِ الزام ٹھہرا نہیں پاتا۔ امریکا کی یونیورسٹی آف کنساس میں تعلیم کے پروفیسر یانگ ژی کہتے ہیں کہ چینی حکومت کے گورننگ کا ایک بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ داخلے کے امتحان میں ناکام ہونے والوں سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ لوگ اس لیے ناکام ہوئے کہ خاطر خواہ محنت نہیں کی تھی۔
گاؤکاؤ ۱۹۵۲ء میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدا میں کمیونسٹ پس منظر کے حامل طلبہ کو ترجیح دی جاتی تھی۔ بعد میں خرابیاں پیدا ہوئیں۔ پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ ثقافتی انقلاب کے نام پر اساتذہ کو مارا پیٹا گیا اور اسکول تباہ کردیے گئے۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے انتقال کے بعد ۱۹۷۷ء میں گاؤکاؤ کو بحال کیا گیا۔ یوں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلے کے حوالے سے بدعنوانی کا خاتمہ ہوا اور نئی نسل کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کا بھرپور موقع ملا۔
(۔۔۔جاری ہے!)
“How China’s rulers control society: Opportunity, nationalism and fear”.(“New York Times”. NOV. 25, 2018)