دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۳۔ تحریر: عبد المتین منیری

کاندھلہ میں پہلی مرتبہ جائیں اور صرف دو تین گھنٹے ٹہریں، تو شاید یہ بات بدذوقی کی علامت شمار ہوگی، کیونکہ کاندھلہ ایسی سرزمین نہیں کہ اس پر سے ایسے سرسری نگاہیں ڈال کر گزرا جائے، یہاں سے دہلی تک پھیلا ہوا زمین کا چپہ چپہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے شہیدوں کے خون سے سینچا ہوا ہے، مولوی ارشد قاسم بتا رہے تھے کہ حضرت جی منزل کے سامنے واقع مسجد میں گزشتہ کئی صدیوں سے اللہ والے نماز پنچگانہ اداکرتے آرہے ہیں ، یہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شاہ اسماعیل شہید اور تحریک مجاہدین کے جملہ رہنما سجدہ ریز ہوتے رہے ہیں، آپ نے قریب ہی میں وہ برجی بھی دکھائی جس میں ۱۸۵۷ء کے مجاہدین نے پناہ لی تھی، یہاں کی تنگ گلیاں جہاں پہنچ کر سامراجی کارندے بھول بھلیوں کی طرح راہ بھٹک جاتے تھے، اور جہاں سے ایک بیل گاڑی کے علاوہ کسی اور سواری کے گزرنے کی گنجائش نہیں تھی،جہاں اس سڑک سےملےہوئے مکانات کی قطار پر سے نگاہ ہٹانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا،وہیں محلے سے گزرتی قدیم افغانی برقعہ میں سرتاپاڈھکی ہوئی ایک خاتون نے نگاہوں کو۱۹۶۰ء کے بھٹکل میں ہمیں لاکھڑا کردیا، شایدکاندھلہ اور بھٹکل کے ماضی میں ایسی کئی ایک مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے بچپن میں بھٹکل جملہ آٹھ محلوں، تکیہ محلہ، علوہ محلہ ، قاضی محلہ ، مشما محلہ، جامع محلہ، خلیفہ محلہ، سلطان محلہ، غوثیہ محلہ پر مشتمل تھا، ان کے علاوہ ، مومن اسٹریٹ ، صدیق اسٹریٹ، اور شوکت علی اسٹریٹ کی حیثیت ذیلی گلیوں کی تھی ۔بس یہاں کا مرکزی چوک بازار، محمد علی اسٹریٹ پر واقع تھا ، قدیم بھٹکل کے نقشے کو آج سوچتے ہیں توان دونوں قصبوں کے محل وقوع میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ کاندھلہ اور آس پاس کا علاقہ میدانی اور مسطح ہے ، اور بھٹکل کے مغربی جانب ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحیرہ عرب، مشرق، شمال اور جنوب سے نستار، جبلین سے شروع ہونے والا پہاڑیوں کا سلسلہ جو انجمن آباد ہوتے ہوئے ، مخدوم کالونی سے گزر کربھٹکل کے شمالی علاقے کو گھیرتا ہے، اب تو ہمت نہیں رہی، جب جامع مسجد کی تعمیر نو ختم ہوئی تھی ، اور ہم نے اس کے بلند مینار پر چڑھ کر چاروں طرف بھٹکل پر ایک اچٹتی نظر ڈالی تھی تو ایسا لگا تھا، جیسے یہ پہاڑیاں کسی اسٹڈیم کے دائرے کے مانند کھڑی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھٹکل کے نام کی کئی ایک توجیہات بیان کی جاتی ہیں لیکن مورخ وکٹر ڈیسوزا نے اس کی ایک توجیہ یہ بیان کی ہے کہ بھٹکل نام کی اصل مراٹھی کا لفظ Vatkul ہے جس کے معنی ہیں پہاڑیوں سے گھرا ہوا گائوں۔دیوناگری قاعدے کے مطابق حرف وائو باء سے بدل گیا، اطالوی سیاح فریر جورڈانوس ۱۳۳۰ءنے اس کانام بھٹگلہ ، مورخ الطیب بافقیہ ۱۰۰۰ھ/۱۵۹۲ء نے اس کا عربی نام بادقل، اور ابن ماجد ۱۵۰۰ء نے بادقلۃ لکھا ہے، دوچار سالوں سے بعض افراد اس قصبے کی نسبت کنڑا زبان کے گرامر نویس بھٹکلنکا ، کی طرف کسی بڑے تاریخی انکشاف کی حیثیت سے کررہے ہیں، حالانکہ اس کی وفات جورڈانوس تین سوسال بعد سترھویں صدی عیسوی میں ہوئی ہے۔ یعنی بھٹکلنکا کے تین سو سال قبل سے بھٹکل شہر کا نام رائج ہے۔ آج نصف صدی قبل کے بھٹکل کے نقشے کو سوچ کرایسا لگتا ہے کہ یہ قصبہ کسی ٹیلے پر آباد کیا گیا ہوگا،یہ اس طرح کہ پہلے تین چار فٹ زمین کھود کر سڑکیں بنائی گئیں، پھر اطراف کو کرسی بنا کر اس پر دو طرفہ مکانات تعمیر کئے گئے، لہذا اب بھی پرانے مکانا ت کی دیوڑھیاں تین چار فٹ اونچی نظر آتی ہیں، مکانات مشترکہ دیواروں کے ساتھ مل کر کھڑے کئے گئےہیں، سڑکوں کی چوڑائی بہت تنگ رکھی گئی تھی، ایک بیل گاڑی کے علاوہ کسی اور سواری کے جانے کی گنجائش نہیں، گھروں کا مین دروازہ سڑک پر کھلتا، لیکن پچھواڑ ے چوکور یا دائرہ نما میدان ہوا کرتا۔ جس کے چاروں سمت مکانات کا پچھلا آنگن کھلتا ، جو چاروں طرف پھیلے محلوں کو ان گھروں سے ملاتا، اس طرح چاروں طرف واقع تکیہ محلہ، علوہ محلہ ، جامعہ محلہ ، قاضیا محلہ وغیرہ کی مستورات ، گھروں کے مردانہ حصوں سے گذرے بغیر پچھواڑے سے اڑوس پڑوس اور دوسرے محلوں میں بلا روک ٹوک آجاسکتیں، اس طرح محلے جہاں پر ختم ہوتے وہاں سے دائیں بائیں راستے نکلتے، ہنگامی حالات اور خطرات میں ممکن نہیں تھا کہ کوئی جیب گاڑی بھی آسانی سے قصبے میں داخل ہوسکتی، بوقت ضرورت مرد حضرات بھی ادھر ادھر آزادی سے آمد ورفت کرسکتے۔۱۹۷۰ء کے اوائل میں بلدیہ کے احکامات پر مکانات کی چھتیں، اور سڑک سے ملی کمروں کی دیواروں کو کاٹ کرسڑکیں اتنی چوڑی کی گئیں کہ کہ پولیس جیب اور امباسیڈر کاریں قصبے میں داخل ہوسکیں۔ کاندھلہ کے درودیوار مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی ان گلیوںکو قومی ورثہ قرار دے کر حفاظت کی جائے، انہیں مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جائے،اور انہیں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کیا جائے ، کیونکہ جن قوموں کا حال ماضی سے جڑا ہوا نہیں ہوتا، ان کے روشن مستقل کی ضمانت نہیں ہوا کرتی، لیکن اس قیمتی قومی ورثہ کی حفاظت کون کرے؟ ۔ یہ کام تو حکومتوں کے کرنے کے ہیں، اور ایسے منصوبے جن سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ان کی قربانیاں اجاگر ہوتی ہوں، انہیں جڑ سے اکھاڑنے ہی میں فسطائی مزاج حکمرانوں کی دلچسپی ہوسکتی ہے، سنا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد یونیسکو نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا تھا کہ دہلی کے شاہجہاں آبادعلاقہ کو قومی ورثہ قرار دے کر اسے محفوظ کیا جائے، لیکن اس وقت کی سیکولر حکومت نے اس سے صاف انکار کردیا، بات یہیں پر نہیں رکی، اس وقت کے وزیر اعظم اپنے وقت کے مجاہدین آزادی اور تقسیم ہند کے مخالف مسلم رہنمائوں اور جگری دوست مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمۃ کے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ دہلی فرقہ وارانہ فسادات سے جل رہا تھا،اور بتایا کہ کیبینٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ دارالسلطنت دہلی سے مسلمانوں کا انخلا کیا جائے، لہذا آپ اپنی جان کی امان چاہیں اوردہلی چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں،اللہ غریق رحمت کرے ان پاسبان امت کو، جنہوں نے اپنی جان بچاکر نکلنے کے بجائے دارالسلطنت میں مکمل طور پر مسلمانوں کے پائوں اکھڑنے سے روکنے کی طرف توجہ مرکوز کی،جب مکانات سے شعلوں کی لپٹیں اٹھ رہی رتھیں ، تویہاں کے مکینوں کا حوصلہ بڑھایا۔یہ حال جب سیکولر حکمرانی کے میں تھا، تو آج کی فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے حکمرانوں کے دور میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔مولانا نور الحسن راشد صاحب کی پر لطف ضیافت، کے بعد دوبارہ کاندھلہ آنے کی حسرت لے کر ہمارا قافلہ سوئے دیوبند روانہ ہوا۔جاری۔۔۔