محسن کتابیں۔۔۔ ۱۶۔۔۔ تحریر: خواجہ غلام السیدین

Bhatkallys

Published in - Other

08:21PM Sun 28 Jun, 2020

خواجہ غلام السیدین

            ۔ولادت:پانی پت،۵ /شعبان ۱۳۲۲ھ،/۱۶ اکتوبر  ۱۹۰۴ء۔

            ۔۱۹۰۴ وطن پانی  پت نسلاً ایوبی انصاری، مولانا الطاف حسین حالی کے پر نواسے تھے۔ ان کے والد خواجہ غلام الثقلین اردو کے ممتاز لوگوں میں تھے۔ میٹرک تک حالی مسلم ہائی سکول پانی پت میں تعلیم حاصل کی ۔۱۹۱۹ء ۔ میں پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ۱۹۲۳ء میں بی اے کیا، اور حکومت ہند کے وظیفے پر انگلستان جاکر لیڈز یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ڈپلومہ کیا، اور۱۹۲۵ء میں اسی یونیورسٹی سے ماسٹر آف ایجوکیشن (ایم ایڈ) کی ڈگری حاصل کی۔ انگلستان سے واپس آتے ہی۲۱  برس کی عمر میں مسلم یونیورسٹی کے ٹیچرس ٹریننگ کالج (حال شعبۂ تعلیم) میں ریڈر کی حیثیت سے اصول تعلیم پر درس دینے لگے۔۱۹۳۰ء میں ایجوکیشن کے پروفیسر اور ٹریننگ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔۱۹۳۸ء  سے۱۹۴۵ء تک ریاست جموں و کشمیر میں بحیثیت مدیر محکمہ تعلیم (ڈائریکٹر تعلیمات) خدمت انجام دی ۔۱۹۴۵ء میں مشیر تعلیم (وزیر تعلیم) کی حیثیت سے ریاست رام پور میں تقرر ہوا۔۱۹۴۵ء میں ریاست رام پور کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد صوبہ بمبئی میں اسی عہدے پر فائز ہو گئے۔۱۹۵۰ء میں مرکزی وزارت تعلیمات میں جوائنٹ سکریٹری بنائے گئے، ۱۹۵۷ء میں ترقی پاکر سکریٹری بن گئے، ۱۹۶۱ء میں اس سے سبکدوشی حاصل کی۔ اس کے بعد امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا، حکومت نے ۱۹۶۴ء میں ایک تعلیمی کمیشن تشکیل دیا، توسیدین صاحب(یہی ان کا عرف تھا) اس کے رکن مقرر ہوئے، ۱۹۶۶ء تک اس حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس کے بعد بھی بعض بیرونی ممالک میں بطور ماہر تعلیم آپ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ۱۹۶۲ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی اعزازی ڈگری پیش کی، اور۱۹۶۶ء میں حکومت ہند نے پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا۔ کولمبیا یونیورسٹی نے اپنی جبلی کے موقع پر دنیا کے سات ممتاز ماہرین تعلیم کو ایک تمغہ امتیاز اور سند پیش کی، ان میں ڈاکٹر غلام السیدین صاحب کا نام بھی شامل تھا وہ مذہباً شیعہ تھے ،مگر اپنے والد کی طرح مزاج میں تشدد نہیں تھا

            اردو انگریزی کی چھوٹی بڑی کتابوں اور رسالوں کی تعداد۲۸ ہے،مشہور کتابوں میں اصول تعلیم، آندھی میں چراغ،(اس پر ساہیتہ اکیڈمی نے ایوارڈ دیا تھا) روح تہذیب، سخن دلنواز، داستان اشک وغیرہ ہیں۔ اور انگریزی میں ایجوکیشنل فلاسفی آف اقبال سب سے مشہور ہے۔

             وفات:نئی دہلی ،/۱ ذی قعدہ ۱۳۷۱ھ، /۱۹ دسمبر ۱۹۷۱ء

             مدفن:قبرستان جامعہ نگر، نئی دہلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            جہاں تک یاد پڑتا ہے، مجھے ۱۹۱۳ء سے مطالعہ کا باقاعدہ شوق پڑا۔ میں اس وقت پانی پت کے میونسپل اسکول میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا، اور گرمیوں کی چھٹیاں بسر کرنے کے لئے میرٹھ گیا تھا، جہاں میرے والد خواجہ غلام الثقلین  صاحب مرحوم اس زمانے میں وکالت کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے اپنے کتب خانے کی ایک مکمل فہرست تیار کرنے کی فرمائش کی، اور میں نے بہت خوشی سے یہ کام اپنے ذمے لیا۔ ان کے پاس ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا، جس میں مختلف علوم و فنون اور زبانوں کی کتابیں تھیں، مذہب،فلسفہ، منطق، تاریخ،فقہ، ناول، ادب، قانون، معاشیات، غرض ہر قسم کی کتابیں انھوں نے جمع کی تھیں، اور انکا بہت غوراور شوق کے ساتھ مطالعہ کیا تھا۔ ان کو علاوہ اردو اور فارسی کے، عربی اور انگریزی پر بھی غیر معمولی عبور تھا، اور وہ ان تمام زبانوں میں بے تکلف تحریر اور تقریر کرسکتے تھے۔ میری ملاقات اور واقفیت خاصی وسیع ہے، لیکن میں کسی اور شخص سے واقف نہیں، جس کا مطالعہ ان جیسا وسیع اور متنوع ہو، اورجس نے اس قدر مختلف علوم میں ایسی مبصرانہ نظر پیدا کی ہو۔ خیر، یہ احساس تو مجھے بعد میں ہوا، جب میں نے ان کے انتقال کے بعد ان کی تصانیف اور مضامین کو پڑھا، اور ان کے ہم عصروں سے، ان کی ذہانت اور وسعت معلومات کی داستانیں سنیں۔ اس وقت تو مجھے صرف اس بات پر تعجب ہوا کہ انہیں اس قدر مختلف علوم میں کیسے دلچسپی ہو سکتی ہے!

             بہرحال،میں نے لائبریری کی فہرست تیار کرنی شروع کی، لیکن کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ منہ کالے ہونے ضروری ہیں۔ رجسٹر میں کتابوں کے نام درج کرنے اور ان پر کاغذ کی چٹیں لگانے کے ساتھ ساتھ، میں نے اپنی دلچسپی کی کتابیں پڑھنی شروع کردیں، بعض دفعہ ایسا ہوتا، کہ میں گھنٹوں بجائے اپنا مفوضہ کام کرنے کے، اپنا وقت کتابوں کے پڑھنے میں ضائع کرتا، والد مرحوم نے بہت دفعہ اس تضیع اوقات کو دیکھا، لیکن کبھی اس پر نہیں ٹوکا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اس طرح مطالعہ کا سچا شوق پیدا ہو جائے، تو وہ عمر بھر انسان کے لئے ایک بہترین رفیق ثابت ہوتا ہے۔ اگر وہ بعض والدین اور استادوں کی طرح ہمدردی اور تخیل سے محروم ہوتے، اور بچوں کی نفسیات سے واقف نہ ہوتے، تو یقیناً مجھے ٹوک دیتے، اور میری ذہنی دلچسپیوں کی دنیا ہی مختلف ہوتی، لیکن انہوں نے بڑی محبت اور دوراندیشی کے ساتھ میری ہمت افزائی کی، نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے دو ماہ میں ہزاروں کتابوں کی فہرست تیار کی، اور ہزاروں صفحے پڑھ ڈالے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اس وقت جتنا کچھ پڑھا، وہ سب سمجھا نہیں، لیکن اس تجربے سے یہ فائدہ ضرور ہوا کی روانی اور تیزی کے ساتھ پڑھنے کی عادت پیدا ہو گئی، اور میں بجائے ہونٹوں سے، اور بآواز بلند پڑھنے کے، آنکھوں سے پڑھنے لگا، جو خاموش مطالعے کے لئے ایک شرط لازم ہے۔

            یہ تو میرا بچپن کا زمانہ تھا، لیکن اس کے چند سال بعد مجھے کئی سال تک اپنے عم محترم مولوی خواجہ غلام الحسنین صاحب مرحوم کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی ساری زندگی علم اور مذہب کے دائرے میں محدود تھی۔ دنیا کے معمولی کاروبار ان کے لئے ایک قسم کی کوفت کا باعث ہوتے تھے۔ ان کو حقیقی مسرت صرف علمی اور مذہبی کاموں میں، وعظ و تقریر میں، تحریر و تصنیف میں حاصل ہوتی تھی۔ ان کا مطالعہ اس قدر وسیع اور متنوع تو نہ تھا، جس قدر والد مرحوم کا تھا، لیکن اپنی دلچسپی کے خاص مضامین کا انہوں نے غیرمعمولی محنت، استقلال اور دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کیا تھا، قرآن شریف پر انہیں کمال کا عبور تھا، اور اس کے مطالب ہر وقت ان کی زندگی اور ان کی تحریر و تقریر میں جاری اور ساری رہتے تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص ان کی صحبت میں رہے، اور قرآن شریف کی عظمت کا قائل نہ ہو جائے! اور یہ احساس عظمت بھی محض اعتقادی اور نظری نہ ہوتا تھا، بلکہ عملی ہوتا تھا، وہ بھی ان کی طرح قرآن شریف کو زندگی کے لیے ایک شمع ہدایت سمجھتا، اور اپنے اعمال و افکار کا سرچشمہ اسی میں تلاش کرتا۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرسکتا کہ ان کی صحبت میں مجھے قرآن شریف کے اتھاہ خزانوں پر عبور حاصل ہو گیا، لیکن ان کے طفیل، میرے دل پر اس کی عظمت کا نقش بیٹھ گیا، اور میں نے اتنے عربی سیکھ لی کہ اس کا مطلب نکال سکوں۔ انہی کی بدولت مجھے یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ قرآن کو محض برکت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لینا، جس کے الفاظ کو پڑھ کر انسان داخل ثواب ہو جاتا ہے، غلط ہے، اس کو مذہبی اعتقادات کا مجموعہ سمجھ لینا بھی کافی نہیں، بلکہ ضرورت یہ ہے کہ اس کے عظیم الشان اخلاقی اور معاشرتی اصولوں کو زندگی کے ہنگامہ خیز مسائل کے حل کرنے میں استعمال کیا جائے! مذہب کے بارے میں یہ عملی نقطۂ نظر جو شاید ابتدا میں غیرشعوری طور پر قائم ہوا ہو، ہمیشہ میرے مطالعے اور غور و فکر پر اثرانداز رہا ہے۔ ان کے فیضِ صحبت سے میں نے یہ بھی سیکھا کہ علم اور مذہب اور فکر انسانی کی دنیا، اس مادی دنیا سے، جہاں محض معاش کے لئے مسلسل جدوجہد ہوتی رہتی ہے، کم وقیع اور کم حقیقی نہیں، بلکہ زیادہ اہمیت اور معنویت رکھتی ہے۔

            چوں کہ ابتدا میں اتفاق سے قرآن شریف کا ذکر آ گیا ہے، اس لیے میں اسی سلسلے میں چند مذہبی کتابوں کا اور ذکر کر دوں، تو مناسب ہوگا۔ میں نے مذہبی کتابیں زیادہ نہیں پڑھیں، اور میرا خیال ہے کہ خالص فقہی اور مذہبی مسائل کی کتابیں، جن میں بعض اوقات جزوی تفصیلات، حقیقت کے روشن چہرے کو چھپا لیتی ہیں، عام لوگوں کے لیے چنداں اہمیت نہیں رکھتیں، ان کا مطالعہ صرف ان لوگوں کے لئے ضروری ہے، جو فقہ یا مذہب کو اپنا مخصوص موضوع بنانا، اور ان میں تحقیق و تجسس کرنا چاہیں، عام لوگوں کے لئے مذہب کے بڑے بڑے اصولوں سے واقف ہونا، اور ان کو عام تجربے اور معلومات کی روشنی میں پرکھنا زیادہ مفید ہے۔

            قرآن شریف کی تفسیر و اور ترجموں میں سے میں نے چند کو پڑھ لیا ہے، لیکن ان سب میں مقابلۃً  مولانا ابوالکلام آزاد کے’’ ترجمان القرآن ‘‘نے  مجھے زیادہ متاثر کیا ہے، کیونکہ انہوں نے قرآن شریف کی تعلیم کو اصطلاح اور فقہی نقطۂ نظر سے پیش نہیں کیا، بلکہ اس کے وسیع تر مطالب کو بھی واضح کیا ہے، اور زندگی کے بعض اہم مسائل سے انکا تعلق دکھایا ہے۔ کاش! انہیں اتنا موقع اور فرصت ملے کہ وہ اس ترجمے کو مکمل کر سکیں!

             ایک اور کتاب جس نے مجھ پر کافی اثر کیا ہے، علامہ عبدالعلی صاحب ہروی کی’’ مواعظ حسنہ‘‘ ہے، یہ علامہ مرحوم کی  دس بارہ تقریروں کا ترجمہ ہے، جسے مولوی محمد سبطین صاحب لدھیانوی نے جمع کر کے شائع کیا ہے۔ غالباً بہت سے حضرات، علامہ مرحوم کے نام اور شہرت سے واقف نہ ہوں گے! علامہ عبدالعلی مرحوم شاید۱۹۰۳ء میں ایران کے سیاسی انقلاب کی وجہ سے ہندوستان آئے تھے۔ اس زمانے میں والد مرحوم مالیرکوٹلہ میں جج تھے، اور وہیں ان کی ملاقات علامہ موصوف سے ہوئی۔ والد مرحوم کو پیشہ ور مولویوں کے بارے میں زیادہ خوش فہمی نہ تھی، وہ محض خوش عقیدگی کی کی بنا پر ہر مولوی نما شخص کے قائل نہ ہو جاتے تھے، لیکن انہیں کئی ماہ تک مسلسل علامہ موصوف کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا، اور انہوں نے ان سے نہ صرف مذہب اور فلسفہ قدیم پر، بلکہ علوم جدید پر بھی لمبی لمبی بحثیں کیں، اوریہ اندازہ لگایا کہ وہ واقعاً ایک زبردست اور متبحر عالم ہیں، جنہوں نے دقت نظر سے مذہب کا اور علوم جدید کا مطالعہ کرکے درجہ اجتہاد حاصل کیا ہے، یعنی انہیں اپنی علمی قابلیت اور جدت فکر کی بدولت یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی مسائل میں اجتہاد کرسکیں۔ اس وقت سے والد مرحوم ان کے بہت قائل ہو گئے، اور اکثر جب وہ کسی جلسے میں تقریر کرتے تھے، تو والد مرحوم اسکا ترجمہ فارسی سے اردو میں فی البدیہہ بیان کردیتے تھے۔ یہ خدمت بعض اوقات مولوی خواجہ غلام الحسنین صاحب مرحوم اور مولوی محمد سبطین صاحب بھی انجام دیتے تھے، اور یہ تینوں حضرات ان کی پر مغز اور بصیرت افروز تقریروں اور ان کی ذہنی جودت کے بہت مداح تھے۔ میں نے بھی ان کی بعض شگفتہ فارسی تقریریں سنی ہیں، منہ سے پھول جھڑتے تھے، جی چاہتا تھا کہ:

                                                            وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

            مواعظ حسنہ میں ان کی جو تقریریں شائع ہوئی ہیں، وہ دراصل مجالس عزا کے موقع پر کی گئی تھیں۔ اور ان سب کے آخر میں سید الشھداء علیہ السلام کی شہادت کا بیان ہے، لیکن ہر تقریر میں قرآن شریف کے مطالب، اور اسلامی اخلاق کے اصولوں کو اس قدر عمدگی اور ندرتِ خیال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان کو پڑھ کر اسلام کے بلند تصور حیات کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ کچھ تو ان کی غیرمعمولی طور پر جاذب شخصیت کا سحر ہوگا، اور کچھ ان تقریروں کی خوبی، بہرحال، جب میں نے اس کتاب کو پڑھا تھا، تو مجھ پر اس کا بہت کافی اثر پڑا تھا!۔

            لیکن حقیقت یہ ہے کہ روح اسلام کی سب سے بہتر تفسیر، میں نے علامہ اقبال کی شاعری اور تصانیف میں پائی۔ بحیثیت شاعر کے میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں، اور بعض اعتبار سے انہیں اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں، میں ان کی ذہانت اور قوت فکر کا بہت قائل ہوں۔ مغربی تہذیب کی جو جامع تنقید انہوں نے کی ہے، اس کا میری نظر میں بہت بلند علمی مرتبہ ہے، مگر ان کی شاعری کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس نے اسلام کا ایک زندہ تصور میرے سامنے پیش کیا، اور مجھے اس حقیقت سے روشناس کیا کے مذہب گوشہ گیری یا محض ریاضت و عبادت کا نام نہیں، بلکہ وہ بعض بنیادی اصولوں کے ماتحت زندگی کی تنظیم کی تعلیم دیتا ہے، اور اس کے بے اندازہ امکانات کو ظہور میں لانے کے لئے جدوجہد کرنا سکھاتا ہے:

       انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے      شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل       یا خاک کے آغوش میں راتوں کو مناجات

یہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست    وہ مذہب ملا و جمادات و نباتات

            ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل            جا بیٹھ کسی غار میں، اللہ کو کر یاد

مسکینی ومحکومی ونومیدی جاوید                    جس کا یہ تصوف ہو، وہ اسلام کر ایجاد

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت             ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

            اقبال کے کلام نے مجھے زندگی کے ایک نئے حرکت آفریں تصور سے روشناس کیا، اور دین اور دنیا کا حقیقی تعلق سمجھایا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ دور حاضر کی ترقی اور سائنس کے کمالات اور معجزات، کن شرائط کے اندر خدا کی نعمت ہیں اور کب عذاب الہی بن جاتے ہیں۔ دیکھئے دین اور دنیا کے تعلق پر کس قدر انوکھے، لیکن فیصلہ کن انداز میں روشنی ڈالی ہے:

ہر کہ بر افلاک رفتارش بود    بر زمیں رفتن چہ دشوارش بود

            یعنی جو شخص یا جو قوم اپنی دنیاوی زندگی کو نہ سنوار سکے، اور اس میں حسن اور عظمت کی شان پیدا نہ کر سکے، اس کا دین داری اور عبادت گزاری کا دعوی کرنا، یا تو خود فریبی ہے یا عالم فریبی، جو جماعت خدا کی رسی کو مضبوط پکڑ لیتی ہے، اس کو نہ پل صراط پر سے گزرنے میں مشکل ہونی چاہیے، جو تلوار سے زیادہ تیز، اور بال سے زیادہ باریک ہے، نہ سیاسی اور معاشرتی الجھنوں کو سلجھانے میں، لیکن ان مشکلات سے عقل، بغیر عشق کی روشنی اور سوز کے، عہدہ برآ نہیں ہوسکتی، عقل چراغ راہ ہے، لیکن ’’عشق‘‘ (جس میں عشق الہی اور انسانوں کی پرخلوص خدمت کا ولولہ دونوں شامل ہیں) منزل کا تعین کرتا ہے، اور مذہب ان دونوں میں توازن قائم رکھتا ہے، جب عقل وعشق کا یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، جب عقل بے زمام ہوجاتی ہے، اور مذہب کی تابع نہیں رہتی، تو انسانی تہذیب، ظلم، ناانصافی اور تخریب کے دلدل میں پھنس کر تباہ ہونے لگتی ہے، جیسا کہ آج کل ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ دور حاضر کے انسان کے عنوان سے اقبال نے اسی المناک صورتحال کا نقشہ کھینچا ہے:

عشق ناپید وخرد می گزش صورتِمار                عقل کو تابعِ فرمانِ نظر کر نہ سکا

 ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا             اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا          آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا        زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

            اقبال کی بعض نہایت اثر آفریں نظمیں، اس کے پہلے مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے فارسی کلام کا سرورانگیز شباب ’’پیام مشرق‘‘ میں پایا جاتا ہے، لیکن میرے خیال میں اس کے تصور حیات کی تفسیر کے لئے، ان دونوں مجموعہ سے زیادہ اہم، اس کی مثنویاں: اسرار خودی، اور رموزِ بے خودی، جاوید نامہ اوردو آخری اردو مجموعے: بالِ جبرئیل اور ضربِ کلیم ہیں، محض فنی اعتبار سے ضرب کلیم میں وہ خوبیاں نہیں، جو بال جبریل یا بانگ درا کی بعض نظموں میں ہیں، کیونکہ اس مجموعے میں فکر، آرٹ پر غالب آگیا ہے، لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان بعد کی نظموں میں اقبال محض وطنی اور قومی، بلکہ اسلامی شاعر کی منزل سے بھی گزر کر،عالم انسانیت کا شاعر بن گیا ہے، اور دنیا کے سامنے بالعموم اور مسلمانوں کے سامنے بالخصوص، وہ زندگی کا ایسا بلند نصب العین پیش کرتا ہے، جس سے رگوں میں خون تیز ہوجاتا ہے، اور انسان کے غیر محدود امکانات کی جھلک نظر آجاتی ہے۔ بال جبرئیل میں اس کا ساقی نامہ پڑھیے، جس میں ان امکانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

یہ عالم ،ہنگامہ رنگ و صوت                 یہ عالم، کہ ہے زیر فرمان موت

یہ عالم، یہ بت خانہ چشم و گوش             جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش

خودی کی یہ ہے منزل اولیں                    مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں

تیری آگ اس خاکداں سے نہیں                جہاں تجھ سے ہے، تو جہاں سے نہیں

بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر                  طلسمِ زماں و مکاں توڑ کر

 جہاں اور بھی ہیں، ابھی بے نمود             کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود

ہر اک منتظر تیری یلغار کا                      تیری شوخیِ فکر و کردار کا

یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار                    کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

            اقبال کے علاوہ دو اور شاعر ایسے ہیں جن کا اثر یقینا میرے خیالات اور جذبات پر پڑا ہے: ایک حالی اور دوسرے انیس۔ حالی کی’’ مسدس‘‘ دنیائے ادب کی ممتاز ترین تصانیف میں سے ہے۔ اس کو میں نے اپنی عمر کے مختلف منزلوں میں پڑھا ہے، اور عجیب بات ہے کہ جب کبھی میں نے اس کو چند ماہ یا چند سال بعد از سرنو پڑھا ہے، اس کی ادبی اور فکری عظمت کا احساس اور گہرا ہو گیا ہے۔ مسدس حالی کے معتقدوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے، لیکن مختلف لوگوں پر اس کا اثر مختلف وجوہ سے ہوا ہے۔ بعض نے اس کا خیرمقدم اس اعتبار سے کیا کہ یہ جدید شاعری کی پہلی اہم تصنیف ہے، بعض کے دل پر مسلمانوں کے زوال کی داستان کی گہری چوٹ لگی، لیکن مجھے اس کے جس پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ اس کی سلامتیِ فکر اور دقتِ نظر ہے۔ مسدس حالی، محض ایک بیانیہ تاریخی نظم نہیں، بلکہ یہ تاریخ کے ایک اہم دور کی نفسیاتی اور فلسفیانہ تفسیر کرتی ہے۔ حالی نے غیرمعمولی ذہانت اور قابلیت کے ساتھ مسلمانوں کے عروج اور زوال کے اسباب بیان کئے ہیں، اور یہ بتایا ہے کہ اگر اس زمانے میں مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ان کو اپنے میں کون سی انفرادی اور اجتماعی صفات اورعادتیں پیدا کرنی چاہئیں۔ قوم کے مرض کے لئے نسخہ لکھنے میں حالی نے اپنا ذہنی توازن، ایک ایسے نازک اور پرآشوب دور میں بھی قائم رکھا، جب مشرقی اور مغربی تہذیب کے تصادم نے، تقریباً سب لوگوں کے توازن اور نظام اقدار کو درہم برہم کر دیا تھا، بعض لوگ ہر مغربی چیز کو برا سمجھتے تھے، اور اس کے استعمال کو کفر قرار دیتے تھے، بعض لوگ آنکھیں بند کرکے تمام مغربی رسوم و رواج اور اداروں کو اختیار کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن حالی نے قدیم و جدید، مشرق و مغرب کے مطالبات کو ایک صحیح کسوٹی پر پرکھا، اور ان تمام چیزوں کو مسترد کیا، جو قومی ترقی کے راستے میں حائل تھیں، یا محض اپنی ظاہری چمک سے، کم سمجھ لوگوں کی نگاہ کو خیرہ کیے دیتی تھیں، مگر اس نے فراخدلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ ان تمام چیزوں کا خیرمقدم کیا جو زوال پذیر ہندوستانیوں کی بجھی ہوئی زندگیوں میں شرر پیدا کر سکتی تھیں۔ مسدس حالی میں کیا کچھ نہیں ہے؟ محنت کی عظمت کا اعتراف ہے، بیکاری اور کاہلی کی مذمت ہے، دولت مندوں کے مظالم اور اسراف، غریبوں کی کم ہمتی، مذہبی پیشواؤں کی بے راہ روی، اور اہل سیاست کے تعصب اور تنگ نظری پر احتساب ہے، جھوٹی اور ا وچھی شرافت کی پردہ دری ہے، مزدوروں اور کسانوں اور محنت کشوں کی ہمدردی ہے، غرض وہ تمام چیزیں، جو ایک معقول اور با انصاف نظامِ معاشرت کو قائم کرنے کے لئے، یا افراد کی سیرت کی صحیح تشکیل کے لئے ضروری ہیں، حالی کے یہاں موجود ہیں۔ اور اگر میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ میری sense values       نی چیزوں کی اضافی قدر و قیمت کے متعلق میرا اندازہ صحیح اور مناسب ہے، تو اس کو زیادہ تر مسدس حالی کے مطالعہ کا تصدق سمجھنا چاہیے، اور حالی کے خیالات کی اس تفسیر کا، جو میرے عم محترم جناب خواجہ غلام الحسنین صاحب مدظلہٗ نے اپنی تعلیم اور اپنی مثال کے ذریعے کی ہے۔

            دوسرا شاعر، جس نے مجھے متاثر کیا ہے، انیس ہے۔انیس کو قدرت سے دو غیرمعمولی عطیے ملے: ایک تو شعر گوئی کا ایسا ملکہ جو اعجاز کی حد تک پہنچتا ہے، اور دوسرے ایسے موضوع کا انتخاب، جس میں درد اور اثر آفرینی بدرجہ اتم موجود ہیں، یعنی کربلا کا واقعہ اور سید الشہداء حضرت امام حسین کی ذات مبارک۔ انیس نے اپنے مرثیوں میں ایثار، محبت، ہمدردی، شرافت، جرات، انسانی دوستی اور خدا ترسی کے جو جیتے جاگتے نقشے کھینچے ہیں، اوران محبوب شخصیتوں کی سیرت نگاری میں، جس سوز اور خلوص اور فنی قابلیت سے کام لیا ہے، اس سے متاثر نہ ہونا، ممکن ہی نہیں! انیس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انسان جواس قدر کمزور بھی ہے اور ظالم بھی ہے، جو اکثر خود اپنی اسفل فطرت کے ہاتھوں بے بس ہو جاتا ہے، جو اپنے چھوٹے چھوٹے اور گھٹیا مقاصد کے لئے اخلاق اور مروت اور اصول پرستی کا خون کرنے سے نہیں چوکتا، اور بے تکلف دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے، یہی انسان اخلاقی اور روحانی ترقی کے منازل طے کر کے، اس بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے، جو انیس کے ہیرو اور انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مجاہد اور شہید امام حسین کو حاصل ہے۔ جب زندگی کی تحریصیں اور اس کی آزمائشیں یورش کرتی ہیں، جب دیانت اور ایمان کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی بجھنے لگتی ہے، جب انسان حالات سے مجبور ہوکر چاہتا ہے کہ اصول اور عدالت کے کٹھن راستے کو ترک کر کے، عام لوگوں کے رنگ میں رنگ جائے اور ان کی آسان پسندی اختیار کر لے، اس وقت حسین ابن علی کی مثال سامنے آکر دست گیری کرتی ہے، اور زندگی کے ایک بہتر، لیکن دشوار گزار راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگوں کو ایسا تجربہ ہوا ہوگا، اور اس تجربے میں انیس کی شاعری کو بڑا دخل ہے، جس نے واقعۂ کربلا کو لافانی شعر کے قالب میں ڈھال کر اس کی حقیقی اہمیت اور معنویت کو عام لوگوں تک پہنچایا ہے!۔

             میں نے اردو کی بہت کافی کتابیں پڑھی ہیں، اور ان میں سے بعض یقیناً فنی اور فکری اعتبار سے بہت قابل قدر ہیں، مثلا: پریم چند کے ناول اور افسانے، جن میں ہندوستانی زندگی کی نبض چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، حالی کی’’ حیات جاوید ‘‘جس میں اس نے اپنے ممدو ح سرسید کی ہمہ گیر اور متنوع شخصیت کی ایک انمٹ تصویر کھینچی ہے۔ (میرا خیال ہے کہ سوائے ٹیگور کے، ہندوستان کے مشاہیر میں سے کسی اور کے حصے میں، اتنی مختلف قسم کی صلاحیتیں اور قوتیں، اس قدر فراوانی کے ساتھ نہیں آئیں)، سرشار کا ’’فسانہ آزاد‘‘ جس میں ایک بہت دلچسپ، لیکن زوال پذیر تمدنی دور کا نقشہ بڑی چابک دستی سے کھینچا گیا ہے، فرحت اللہ بیگ کے مضامین، ٹیگور کی بعض ادبی اور قومی تصانیف(یعنی انکے برے بھلے ترجمے) وغیرہ وغیرہ۔ جب میں نے ان کتابوں کو پڑھا تھا، میں ان سے یقیناً متاثر ہوا تھا، اور محسوس یا غیر محسوس طریقے پر انہوں نے بھی اور بہت سی کتابوں کی طرح میرے خیالات کی دنیا کو وسیع کرنے، اور میری انسانی ہمدردی کو ہمہ گیر بنانے میں حصہ لیا، لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے شعوری طور پر میرے خیالات اور جذبات کو ان کا مخصوص رنگ دیا ہے، اس لئے اس فہرست کو زیادہ لمبا کرنامیں مناسب نہیں سمجھتا۔ علاوہ اس کے بہت سے کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو انسان دلچسپی اور شوق کے ساتھ پڑتا ہے، لیکن بعد میں ان کا مضمون، بلکہ ان کا اور ان کے مصنف کا نام بھی یاد نہیں رہتا، لیکن ایسی کتابوں کے متعلق میرا ایک تسکین دہ نظریہ ہے، جسکا ذکر میں آگے چل کر کروں گا، لیکن یہاں بہرحال، صرف ان کتابوں کا تذکرہ مقصود ہے، جن کا شعوری اثر خاص طور پر گہرا ہوا ہے۔ اس زمرے میں شاید مندرجہ بالا کتابیں کافی ہوگی۔

            نظام تعلیم کا فیض سمجھئے یا مقابلتاً ہماری زبان کی کم مائیگی، مجھے اردو کتابوں سے زیادہ، انگریزی کتابوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ انگریزی زبان میں ادب اور علوم کے ان گنت اور انمول خزانے بھرے ہوئے ہیں، اور ہم لوگوں کے لئے تو دوسری مغربی زبانوں اور ان کے ادب کی کنجی بھی انگریزی زبان ہی ہے، کیونکہ اس میں بیشتر یورپی زبانوں کی مستند تصانیف کے ترجمے موجود ہیں۔ انگلستان اور ہندوستان کے سیاسی تعلق کی وجہ سے، جہاں ہندوستان کی قومی زندگی اور ارتقاء کو بہت کچھ نقصان پہنچا ہے، اور انگریزی تعلیم کی وجہ سے اعلی تعلیم اور ہماری ملکی زبانوں کا حیات بخش رشتہ ٹوٹ گیا ہے، وہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہوسکتا کی انگریزی زبان اور ادب اور مغربی علوم کے مطالعہ نے، ہماری نظر کو زیادہ وسیع اور بعض اعتبار سے ہمارے ذہنی ارتقاء کو زیادہ تیز بنا دیا ہے، اگر ہماری سیاسی تاریخ مختلف ہوتی ہے تو شاید ہم مغربی علوم تک کسی اور راستے سے پہنچتے، لیکن شاید مشیت الہی اسی طرح تھی!۔

             جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اس مضمون میں کون سی انگریزی کتابوں کا تخصیص کے ساتھ ذکر کروں تو مجھے ایک مشکل پیش آتی ہے، کتابیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کا مفصل تذکرہ کرنا ناممکن،اور صرف فہرست لکھ دینا بیکار ہے۔ علاوہ اس کے، میرا خیال یہ ہے کہ بہت سی اچھی اور مفید کتابیں جو ہم پڑھتے ہیں، ان کا نقش انفرادی حیثیت سے ہمارے دل اور دماغ پر قائم نہیں رہتا، بلکہ بعض اوقات، ہم ان کے مطالب کا خلاصہ، ان کا پلاٹ، بلکہ ان کے مصنف کا نام تک بھول جاتے ہیں۔ کم از کم میرا تجربہ یہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا مطالعہ بیکار گیا، دراصل اس کتاب کی جزوی تفصیلات محو ہو جاتی ہیں، لیکن اس کی روح اور اس کے کرداروں کی سیرت، ان کی شرافت اور انسانیت، اور اس کا مرکزی خیال، ہمارے دل اور دماغ کی گہرائیوں میں جا پہنچتا ہے، اور غیر شعوری طور پر ہمارے خیالات اور جذبات، ہمارے اعمال اور حرکات پر اثرانداز ہوتا رہتا ہے۔ کوئی انسان کسی بڑے تخلیقی تجربے سے گزرنے کے بعد وہ نہیں رہتا جو پہلے تھا، خواہ وہ تجربہ دکھ کا ہو یا سکھ کا، آرٹ کا ہو یا عشق ومحبت کا، یا مذہب کا یا سیاست کا، اس کی سیرت کے بنیادی عناصر میں ایک نیا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ کسی بلند پایہ مصنف یا کسی اعلیٰ درجے کی کتاب کا مطالعہ، اسی قسم کے تخلیقی تجربات میں سے ہے۔ اگر کوئی اچھی کتاب محض تفریح یا وقت گزارنے کے لئے نہیں پڑھی گئی ہے، اگر اس نے پڑھنے والے کے دل کے تاروں کو ہلایا ہے، اور اس کے دل میں احساس، ہمدردی، اور حسن شناسی کے نئے جذبات کو ابھارا ہے، تو اس کی زندگی کا جز بن جاتی ہے، اور اس کا پیغام اس کے خون کے اندر سرایت کر جاتا ہے، اسی وجہ سے میرے لئے فردا فردا کتابوں کا ذکر کرنے کے بجائے یہ بتانا زیادہ سہل ہوگا، اور یہی شاید پڑھنے والوں کے لیے بھی زیادہ دلچسپی کا باعث ہو، کہ کن مصنفوں نے میرے خیالات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، اور کیوں؟۔

            یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ مجھے سب سے زیادہ ادب عالیہ کے مستند اراکین نے متاثر کیا ہے۔ میں نے مغربی ادب، بالخصوص انگریزی ادب کے بہت سے مستند مصنفین خصوصاً ناول نویسوں کی تصانیف کو پڑھا ہے، اور ان میں سے بعض، مثلاً ڈکنز اور گوئٹے کا میں بہت معترف ہوں، لیکن یہ زیادہ تر ان کی ادبی عظمت کا اعتراف ہے۔ انہوں نے میرے خیالات کے بنانے میں کوئی نمایاں حصہ نہیں لیا۔ ان کا مجھ پر بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے مجھے ایک گزرے ہوئے دور کی سماجی زندگی کی جھلک دکھائی، اور عالم انسانیت کے ان جذبات اور تجربات سے روشناس کرایا، جو تمام انسانوں میں مشترک ہیں، مگر میرے خیالات کو ڈھالنے میں، ان سے زیادہ بعض جدید مصنفوں کا حصہ ہے، جنہوں نے گزشتہ پچاس سال میں، اپنی علمی اور سیاسی تصانیف، یا اپنے ناولوں، ڈراموں اور افسانوں کے ذریعے، اس عظیم الشان سماجی جدوجہد میں حصہ لیا ہے، جس کا مقصد انسانوں کی اجتماعی زندگی، اور ان کے باہمی تعلقات میں عدل اور انصاف کی حکمرانی قائم کرنا، اور نسل، رنگ، اور دولت کے ان امتیازات کو دور کرنا ہے، جنہوں نے انسانوں کی زندگی میں سے اخوت، مساوات اور شرافت کے جذبات کو خارج کردیا ہے۔ مجھے ان تمام لوگوں کی زندگی اور کارنامے اپیل کرتے ہیں، جنہوں نے اس بلند مقصد کے لئے جدوجہد کی ہے۔ مجھے وہ تمام مصنف عزیز ہیں جنہوں نے اپنے قلم کو محض جمالی تفریح کا آلہ نہیں بنایا، بلکہ اس کے ذریعے سے انسانوں کی سوئی ہوئی شرافت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، اور ان کھلے اور چھپے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے، جو دولتمند غریبوں پر، زبردست کمزوروں پر، سرمایہ دار مزدوروں پر، سفید رنگ والے گندمی اور سیاہ رنگ والوں پر، تعصبات عقل پر، سماج افراد پر، اور افراد سماج پر کرتے ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری نے ایک جگہ کسی یونانی مصنف کا قول نقل کیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں کوئی حسین عورت ہے، وہ میری عزیز اور رشتہ دار ہے۔ اس احساس جمال سے کہیں زیادہ، میرے دل میں اس احساس انسانیت کی قدر ہے، جو یہ سمجھے کہ دنیا میں جہاں کہیں کوئی دکھی دل ہے، یا کوئی مظلوم شخص ہے، جس کی حق تلفی ہوئی ہے، یا کوئی ایسی جماعت ہے، جس کی خدا داد آزادی سلب کر لی گئی ہے، وہ میری دوست، اور عزیز اور رشتہ دار ہے، اور اس کی حمایت کرنا، اس کی خاطر جہاد کرنا، میرا مقدس فرض ہے۔ یہی احساس ہے جو ان تمام مصنفوں میں کم و بیش مشترک ہے، جن کے خیالات نے مجھے متاثر کیا ہے۔

            اس جماعت میں بہت سے لکھنے والے شامل ہیں، جو فنی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور ادبی لحاظ سے ہم پلہ نہیں، لیکن ان میں انسانیت کا درد، اور اس کو دور کرنے کی تڑپ مشترک ہے۔ میں ان میں سے انگلستان کے برٹرنڈرسل، برنارڈ شا اور ایچ۔ جی،ویلز، فرانس کے انا ٹول فرانس، اور روماں رولاں، امریکہ کے اپٹن سنکلیر کو بلند مرتبہ دیتا ہوں۔ ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ انہیں اپنے ملک اور اپنے زمانے کی خرابیوں اور خامیوں کا احساس ہے۔ ان کی وطن دوستی اندھی نہیں، روشن ضمیر ہے۔ یہ دور حاضر کی فنی اور صنعتی ترقی، اور سائنس کے کمالات سے چکاچوند ہوکر ایک سستی اور اوچھی قسم کی خود پسندی اور قومی خوش فہمی میں گرفتار نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے اپنی قوت تنقید کو بیدار رکھا ہے، اور ایک سبک دست سر جن کی طرح سے ان فساد کے مرکزوں کو ٹٹول کر صاف کرنے کی کوشش کی ہے، جو سماج کے جسم کو بیمار اور اس کے خون کو گندہ کر رہے ہیں۔

            برناڈشا نے انگریزی سماج، مغربی تہذیب، اور اس کی سرمایہ دارانہ ذہنیت کے ناپاک مظاہر کو تلاش کیا، اور ایک ایک کو اپنی بے پناہ صاف گوئی اور ظرافت کے ساتھ بے نقاب کیا، اور انگریزوں کی مخصوص خودپسندی اور جمود کو زبردست ٹھیس لگائی۔ ابتدا میں قدامت پسندوں نے اس کو ایک دلچسپ اور بے ضرر مجنون سمجھا، پھر اس کے بڑھتے ہوئے اثر سے ناراض ہو کر اس کو باغی اور مخرب اخلاق ٹھہرایا، اور جب اس کی بہت سی’’ بغاوتیں‘‘ نئی نسل کے نظامِ خیال کا جز بن کر معزز بن گئیں، تو انہوں نے اپنی خاص قومی ادا کے بموجب اس کو قصرِ ادب میں جگہ دے دی، اور اس کی تصانیف کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے درس میں شامل کرکے انہیں ایک حد تک بے ضرر بنا دیا۔ اس کی تصانیف نے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کیا کے سماجی نظام کو بے چوں و چرا تسلیم کرلینا، اور اس کی خامیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنا، نہ صرف عقل کے ساتھ بے انصافی ہے، بلکہ اخلاق کا بھی خون کرنا ہے۔ برنارڈ شا کے ڈراموں میں سے چند نے خاص طور پر مجھے دعوت فکر دی ہے، اور زندگی کے بعض تاریک، لیکن اہم پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے، مثلاً "parents and children"(والدین اور بچے) جس میں مصنف نے تعلیم و تربیت کے مسائل، اور بچوں اور ان کے والدین کی نفسیات سے اپنے خاص انداز میں بحث کی ہے،(قوموں کی زندگی کے لئے آزادی دم عیسی کا مرتبہ رکھتی ہے، اور والدین، استاد، حکام، سب اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح آزادی کو ملیامیٹ کر دیں، تاکہ اس وقت بچوں کی زندگی خاموشی اور سکون کے ساتھ گزرے خواہ آئندہ چل کر وہ بالکل ہی تباہ ہو جائے!) یا "the advanture of the black girl in serach of god"(سیاہ فام لڑکی کی تلاش حق) جس میں اس نے مذہب کے ارتقائی تصور سے بحث کی ہے، یا"back to mathoselah"( رجوع بہ میتھوسلا) جس میں انسانی تاریخ کا ارتقاء دکھایا ہے۔ اس نے سوئے سوئے دماغوں کو جھنجوڑنے کا کام بہت کامیابی کے ساتھ انجام دیا ہے۔

            برٹرنڈ رسل کو قدرت نے ایک غیرمعمولی دماغ دیا ہے، کبھی وہ روشنی کا ایک فوارہ معلوم ہوتا ہے، کہ جس طرف مڑ جاتا ہے، انفرادی اور سماجی زندگی کے تاریک گوشوں کو روشن کردیتا ہے، کبھی وہ ایک تیز دھار والی تلوار ہے، جوان تنگ نظر تعصبات کو کاٹتی ہوئی چلی جاتی ہے، جن کے سائے میں عام طور پر لوگوں کی بزدل عقلیں پناہ لیتی ہیں۔ وہ بھی برناڈشا کی طرح بت شکن ہے۔ نسل، قومیت، کلیسا، رنگ، وطن، غرض وہ تمام مسکرات جو دولت اور قوت کے پجاریوں نے عوام کو دھوکے میں ڈالنے کے لئے بنائے ہیں، اس کی تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ اس نے مختلف علوم اور مضامین پر قابل قدر کتابیں لکھی ہیں، اور ہر میدان میں عقل اور آزادی کی حمایت کی ہے۔ اپنی تعلیمی تصنیف"education and the social order" (تعلیم اور نظام معاشرت) میں اس نے اس بات کو واضح کر کے دکھایا ہے کہ تعلیم کے نظام اور نصب العین پر موجودہ سرمایہ داری، قومیت اور مذہب کی بندشوں کا کیا اثر پڑا ہے، اور کس طرح ان بندھنوں میں گرفتار ہوکر بجائے انسانی دماغ اور ضمیر کو آزاد کرنے کے، ان کو اسیر اور محدود کرنے کا آلہ بن گئی ہے۔ اس کتاب میں اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ تعلیم کو کس طرح ان زنجیروں سے آزاد کر کے، ایک بہتر اور زیادہ انصاف پرور سماج کو قائم کرنے کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، لیکن ان ذرائع کی بحث سے زیادہ اہم، اس کا ایک بنیادی اصول ہے کہ تعلیمی مسائل کو زندگی اور سماجی ماحول اور اثرات سے بے تعلق سمجھنا، اور معلموں کا سیاست اور اقتصادیات کی تلخ اور ناگوار حقائق سے بے خبر یا بے پرواہ ہونا، ایک شدید جرم ہے۔ تعلیم خلا میں نہیں دی جاتی ہے، بلکہ ان تمام طاقتوں اور سماجی مسائل کے ماحول میں دی جاتی ہے، جو سوسائٹی کے نظام کی تشکیل کرتے ہیں، لہذا اس کے ہر مسئلے کو زندگی کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہئے، ورنہ مدرسہ، ادب، دانش، اور ذوق کی شراب سے بیگانہ ہو گا، اور اس کی حقیقت ’’کارگہِ شیشہ گراں ‘‘سے بڑھ کر نہ ہوگی۔ نے اپنی ایک اور کتاب"conquest of happiness"(تسخیر مسرت) میں اس نکتہ کو حل کیا ہے کی افراد کی زندگی میں سچی اور پائیدار خوشی، کن حالات میں راہ پا سکتی ہے۔ اس نے دو قسم کی خوشی میں امتیاز کیا ہے: ایک وہ خوشی، جسے وہ (possessive happiness)کہتا ہے، یہ وہ خوشی ہے، جو عام طور پر گھٹیا دل و دماغ کے لوگوں کو، مال و دولت، اسباب و سامان، قوت، حکومت، غرض مختلف قسم کی چیزوں کو جمع کرنے اور ان پر تصرف پانے سے حاصل ہوتی ہے، زندگی کی جانب وہ اس نیت سے بڑھتے ہیں کہ اس کی فراوانیوں، بالخصوص مادی فراوانیوں میں سے وہ اپنی ذات کے لئے زیادہ سے زیادہ کس قدر بٹور سکتے ہیں۔ دوسری خوشی کو (creative happiness) یعنی تخلیقی مسرت کا نام دیتا ہے، یہ وہ خوشی ہے، جو انسان کو ایسے مفید اور جدت آفریں کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے، جن میں اسے اظہار خودی کا موقع ملے، جو شخص اس مسرت کی بے پایاں لذت سے بہرہ مند ہوتا ہے، اسے یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کی پونجی میں سے اپنی ذات کے لئے کتنا کچھ لے سکتا ہے، بلکہ وہ یہ سوچتا ہے کہ دنیا کو اپنی ذات کی اتھاہ دولت اور ممکنات سے کیا کچھ دے سکتا ہے! یہ وہ مسرت ہے جو مصور کو اپنی تصویر کشی میں، شاعر کو اپنی شاعری میں، ڈاکٹر کو مرض کے خلاف کامیابی کے ساتھ جنگ کرنے میں، سماج کی سیواکرنے والے کو ایثار کی آزمائشوں میں، سائنسدان کو نئے حقائق کا انکشاف کرنے میں، سیاح کو نئی دنیا دریافت کرنے میں حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی کی کشتی محض (possessive happiness) کے سمندر میں کھیتے(کشتی چلانا) ہیں، وہ لازمی طور پر رقابت اور خود غرضی اور بے جا تصرف کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں، کیونکہ انکی خوشی محض بیرونی اشیاء کی غلام ہوتی ہے، اور جب ان چیزوں کے لئے چھین جھپٹ کی جاتی ہے(جو موجودہ اقتصادی نظام کی نا مبارک بنیاد ہے) تو اس کا نتیجہ ہر لحاظ سے خراب ہوتا ہے، جیتنے والوں کے ضمیر پر چوروں کی طرح خوف کا تسلط رہتا ہے، اور ہارنے والے اپنے نزدیک زندگی کا بہترین انعام کھو بیٹھتے ہیں، اس لئے ان کے واسطے زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے، برخلاف اس کے، تخلیقی مسرت، خودی کی لہر کو سمندر کی وسعت سے ہمکنار کردیتی ہے، وہ انسان کو اس کی ذات کے تنگ اور محدود بندھنوں سے آزاد کر کے، یہ احساس دلاتی ہے، کہ دنیا میں بہت سے بڑے بڑے مقاصد ایسے ہیں، جن کے لئے جدوجہد کرنا، شخصی دکھ سکھ اور خوف و رجا سے کہیں بڑھ کر ہے، مثلاً ادب، آرٹ، مذہب، سائنس، سماجی خدمت، ان میں اپنی خودی کو گم کرنا، دراصل خودی کو پا لینا ہے، کیونکہ ان اہم قدروں میں جذب ہوکر خودی، شکست و ریخت اور زوال اور موت کی دسترس سے بھی آزاد ہو جاتی ہے، یا سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیجئے کہ آدمی مر جاتا ہے، لیکن اس کا کام زندہ رہتا ہے۔ اس نے جو شمع روشن کی ہے، خواہ وہ خدمت خلق کی ہو، یا ادب کی، یا آرٹ کی، یا سائنس، کی وہ جلتی رہتی ہے، اور روشنی پہنچا تی رہتی ہے، اسے اجل کی پھونک بھی نہیں بجھا سکتی۔ اس طرح اس کی خودی بھی ہمیشہ زندہ اورپائندہ رہتی ہے۔ خیال بہت پرانا ہے، لیکن رسل نے اس کو بڑی وضاحت اورقوت کے ساتھ بیان کیا ہے، اور یہ نقطۂ نظر زندگی کے سفر کے لئے یقیناً ایک بے بہا شمع ہدایت ہے۔

            ایچ۔جی،ویلز کا علمی مرتبہ ان دونوں کے برابر نہیں، اس میں نہ اتنی قوت فکر ہے، نہ اجتہاد، وہ پروپیگنڈہ زیادہ کرتا ہے، اس کی رائے اکثر بی بے جا حد تک اس کے خاص مرکزی خیال کی تابع ہوتی ہے، مگر باوجود اس کے، اس نے علمی مفکرین اور تعلیم یافتہ عوام کے درمیان ایک نہایت ضروری اور قابل قدر واسطے کا کام دیا ہے، اور اپنے ناولوں اور دیگر علمی تصانیف کے ذریعے جدید معاشرتی علوم اور سائنس کے نظریوں کو مقبول کرایا ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے ہر ہر طریقے پر قومیت کے تنگ تصور کے خلاف جہاد کیا ہے، اور انسانیت کے وسیع اور مقدس رشتے کی وکالت کی ہے۔ وہ اس اصول کا پرچار کرتا ہے کہ عقل اور سائنس کو سماجی اور سیاسی مسائل میں بھی اسی طرح راہبر بنانا چاہیے، جس طرح ان سے نظری علوم میں کام لیا جاتا ہے۔ اس وقت سیاسی اور اقتصادی تعلقات اور مسائل پر جذبات کا غلبہ ہے، ان کے حل کرنے میں عقل کی کارفرمائی کو بہت کم دخل ہے۔ ویلز کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر سائنس کو محض چند اصولوں، نظریوں اور عملی ایجادوں کا مجموعہ نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کو ایک طریقہ فکر، ایک تفتیش و اجتہاد کا ذریعہ قرار دیا جائے، تو ہمارے بہت سے سماجی اور سیاسی جھمیلے، جو اس وقت انسانیت کے لئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں، معقولیت کے ساتھ طے ہوسکتے ہیں۔ ویلز نے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں سائنس کے کمالات اور آئندہ امکانات کو دکھایا ہے، انسانی سیرت اور انسانی سماج کی ارتقاء سے بحث کی ہے، ان خارجی نفسیاتی گتھیوں کو پیش کیا ہے، جو اس کی آزادانہ نشونما میں حارج ہوتی ہیں، لیکن اس کا مرکزی موضوع یہی رہا ہے کہ ایک بہتر معاشرے اور اس کے لیے شایان شان افراد کی تربیت کیسے کی جا سکتی ہے، وہ دل اور دماغ کو وہ گرمی اور روشنی تو نہیں بخشتا جو بصیرت اور گداز پیدا کرتی ہیں، لیکن نظر کے سامنے نئی اور لامحدود فضائیں اورامکانات ضرور پیش کر دیتا ہے۔

            اناطول فرانس، جو بعض اعتبار سے گزشتہ صدی کا سب سے بلند پایا فرانسیسی مصنف ہے، ان مصنفوں سے مختلف ہے، اس میں آرٹ زیادہ، اور پروپیگنڈہ کم ہے، اس کے مطالعہ اور تفسیر کا خاص موضوع، سوسائٹی اور اس کی تشکیل نہیں، بلکہ نفس انسانی کی گہرائیاں اور پیج ہیں،جن کو اپنے مخصوص طنز اور ظرافت کے ساتھ کھول کر رکھ دیتا ہے، لیکن اس کا یہ طنز، احساس اور ہمدردی سے خالی نہیں، بلکہ ایک نقاب ہے جس میں وہ اپنی ہمدردی اور رحم کے جذبہ کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی اس کا موضوع تاریخی کردار اور تاریخی واقعات ہوتے ہیں، جیسے "gods are thirst"(دیوتا پیاسے ہیں) میں، جہاں وہ انقلاب فرانس کی تصویر کھینچتا ہے، کبھی وہ انسانی جذبات اور آئیڈیل کی کشمکش دکھاتا ہے، جیسے" "red lity یا "theis"(تائیس) میں، جہاں اس کویہ دکھانا مقصود ہے کہ:۔

                                                   زاہد غرور کرد، و سلامت نہ برد راہ

                                                رند،ازرہ نیاز،بہ دارالسلام رفت

             کبھی وہ ایک  ایسی سیدھی سادھی شریف انسانی سیرت کے خدوخال نمایاں کر کے دکھاتا ہے، جس کی طرف خود بخود دل کھینچتا ہے، جیسے ۔"crime of sylvester bonnard"میں، لیکن اس کا کام وکیل عدالت کی طرح انسانی کمزوریوں کی نمائش سے لطف اٹھانا نہیں ہے، وہ ایک جج کی طرح ان کے خلاف سزا کا حکم بھی نہیں سناتا، وہ تو محض گہری ہمدردی، بڑی گہری سمجھ داری کے ساتھ یہ دیکھتا اور سمجھا تا ہے، کہ اکثر اوقات انسان مختلف داخلی اور خارجی قوتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتا ہے، اور دراصل اپنے اعمال کے لیے جوابدہ نہیں ہوتا، اس لئے جرم اور مجرم میں تمیز کرنا انسان کا نہایت ضروری فرض ہے۔ ایک نیک اور با اخلاق اور بااصول آدمی جرم سے نفرت کر سکتا ہے، لیکن اس کو مجرم سے نفرت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اگر حالات ذرا سے مختلف ہوتے، تو وہ خود اسی طرح ارتکاب جرم کرتا، لہذا شیشے کے گھروں میں رہنے والوں کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ دوسروں پر پتھر پھینکیں۔ اناطول فرانس کے فلسفہ زندگی نے مجھے یہ انمول سبق سکھایا کہ بقول فرانسیسیوں کے (جو آدمی سب کچھ سمجھ سکتا ہے، وہ سب کچھ معاف بھی کرسکتا ہے)،شاید اسی وجہ سے میرے لیے ممکن نہیں کہ میں کسی شخص سے جو کسی گناہ یا جرم کا مرتکب ہوا ہو، اس قدر شدت اور ذاتی کد کے ساتھ اظہار نفرت یا مخالفت کر سکوں، جیسے بعض مدعیانِ مذہب و عصمت کیا کرتے ہیں، جن کی رائے شاید سطح سے نیچے اتر کر نفس انسانی کی گہرائیوں تک نہیں پہنچتی!۔

            فرانس کا ایک اور مایہ ناز مصنف، جو آزادی اور انسانیت کی جنگ میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے، اور جس کی تصانیف نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، روماں رولاں ہے۔ اس کا قلم ایک تلوار ہے، جس نے ہمیشہ ان حقوق کی خاطر جنگ کی ہے، جو ہر انسان کو بحیثیت انسان کے، ہر قوم کو بحیثیت ایک قوم کے حاصل ہونے چاہئیں، لیکن دوسروں کے ظلم اور تصرف نے انہیں اپنے ان پیدائشی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ روماں رولاں ایک بلند پایہ آرٹسٹ بھی ہے، جس کی تحریر میں موسیقی کا رقص اور توازن ہے، اور ایک پرجوش مبلغ بھی، جس کے الفاظ میں طوفان کی شوکت، اور انسانیت کے دھڑکتے ہوئے دل کا ولولہ ہے۔ اپنے معرکۃ الآرا ناول "jean christophe"(جین کرسٹوف) میں وہ ایک نوجوان کی سیرت کا ارتقا دکھاتا ہے، جو قدرت کی طرف سے موسیقی کی غیر معمولی صلاحیت لے کر آیا ہے، لیکن باوجود آرٹ کا پجاری ہونے کے، اپنے ماحول کے مقناطیسی اثرات سے متاثر ہوکر، وہ خود کو اس سیاسی کشمکش میں جھونک دیتا ہے، جو اس کے گرد و پیش جاری ہے۔ اس ناول میں رولاں نے یورپ کی اس تہذیب وتمدن کا جیتا جاگتا نفسہ کھینچاہے، جو گزشتہ جنگ عظیم سے پیشتر،اہل یورپ، بلکہ تمام دنیا کو مسحور کیے ہوئے تھی، لیکن بعض صاحبانِ بصیرت کو اس ظاہری شان و شوکت کے اندر تباہی اور فساد کے جراثیم بھی کام کرتے دکھائی دے رہے تھے، انھیں میں رولاں کا شمار ہے، اسے یقین تھا کہ مغرب کی اندھی مادیت، سرمایہ داری، قوت کا نشہ، قومیت کا غرور، سامان جنگ کے بارے میں قوموں کی رقابت، اور رنگ و نسل کا تعصب، اسے تباہ کرکے رہے گا، اور ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ اپنے ایک اور ناول"the soul enchanted"(روح مسحور) میں اس نے جنگ کے بعد کے یورپ کانقشہ کھینچا ہے، اور ان قوتوں کا ابھار دکھایا ہے جن کا مقصد سماجی انصاف کا قیام ہے، لیکن قوت اور سرمائے کے ٹھیکیداروں نے اپنے اغراض اور مفاد کی حفاظت کے لئے ہر ذلیل اور ظالمانہ طریقے سے ان شریفانہ جذبات کو، اور آزادی کی تمام تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ رولاں کے قلم سے اس کشمکش کا بیان پڑھ کر خون کھولنے لگتا ہے۔ اگر ایک’’ ترقی پسند ادیب‘‘ کا کام یہی ہے، کہ وہ لوگوں میں صحیح جذبات کو بیدار کرے، اور انہیں حق کی حمایت اور ظلم کی مخالفت پر آمادہ کرے، تو رولاں بدرجہ اتم ایک ترقی پسند ادیب ہے۔ اس نے اپنی سیاسی تحریروں اور تقریروں اور ہر قسم کی تصانیف میں، اسی مقصد کو پیش نظر رکھا ہے، کیونکہ وہ ادب برائے ادب کا قائل نہیں ہے، وہ تو ادب کو زندگی کی بھٹی میں جھونک کر اسے کندن بنانا چاہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے مضامین کا ایک مجموعہ جو چند سال ہوئے شائع ہوا تھا،"i will not rest" (میں آرام نہ لونگا) کے نام سے موسوم ہے۔ کوئی حساس اور انسان دوست ادیب بھی اس جدوجہد کے زمانے میں آرام نہیں لے سکتا، ادب کی پرسکون سرزمین میں بھی آرام نہیں لے سکتا۔

            امریکہ کے مصنفوں میں سے میری نظر میں اپٹن سنکلیر (upton sinclair)کی خاص قدر ہے۔ اس نے گزشتہ چالیس پچاس سالوں میں بہت سے ناول، کہانیاں، اور سیاسی اور سماجی مضامین لکھے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اس نے امریکہ کی تہذیب اور معاشرت کے تاریک پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے، اور غیر معمولی جرات سے کام لے کر سرمایہ داری اور ظلم کے ان زبردست قلعوں پر ضرب لگائی ہے،جو مذہب اور متمدن امریکہ کی زندگی پر ایک خون آشام دیو کی طرح مسلط ہیں۔ اس کی کتابوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں اس کے خلاف بیسیوں مقدمے چلانے کے لیے مواد موجود ہے، لیکن چوں کہ ان کی بنیاد صداقت پر رکھی گئی ہے، اس لئے کبھی کسی کو عدالت میں چارہ جوئی کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، البتہ اس کی مخالفت میں، اور اس کو مالی اعتبار سے تباہ کرنے کے لئے، وہ تمام حربے ضرور استعمال کئے گئے جو آزاد امریکہ کی سیاسی زندگی کا مخصوص امتیاز ہیں، لیکن اس نے بدنامی، افلاس، حق تلفی، غرض ہر قسم کی مصیبتوں کو برداشت کیا، لیکن حق گوئی اور حق دوستی کے کٹھن راستے کو نہیں چھوڑا۔ اس نے امریکہ کی تہذیب کی تنقید اس وقت شروع کی تھی، جب  وہاں کے تقریباً تمام ممتاز ادیب اور مفکر، جدید مادی اور صنعتی ترقی کے نشے میں سرشار تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ علوم و فنون کی ترقی اور سرمایہ دارانہ نظام کی دولت آفرینی نے انسانی زندگی کے تمام اخلاقی اور سماجی مسائل بھی حل کر دئے ہیں، اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ غازۂ تہذیب کے نیچے، انسان کی فطرت کی سیاہی اور حرص اور تصرف کی قوتیں بدستور موجود ہیں۔ اس عالم گیر خوش فہمی کو چیلنج کرنا، اور خودفریبی کے اس طلسم کوحقیقت نگاری کی ضرب سے توڑنا، بڑے دل گردے کا کام تھا، لیکن سنکلیر نے اس خدمت کو اپنے ذمے لیا، اور اس شان کے ساتھ انجام دیا کہ اس کا نام ادب کی تاریخ میں ہمیشہ احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ اس نے اپنی مختلف کتابوں میں امریکن زندگی کے مختلف بدنما پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے، مثلاً’’ جنگل‘‘ میں امریکہ کے صنعتی اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس رقابت اور کش مکش کو دکھایا ہے، جس کی بے رحمی اور بے اصولی کے سامنے جنگلوں میں حیوانوں کی زندگی غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ "oil"(تیل) میں ان زیادتیوں اور مردم آزاریوں کو طشت از بام کیا گیا ہے، جو تہذیب حاضرہ کے محرک اعظم یعنی پٹرول کے بڑے بڑے کارخانے داروں نے مزدوروں کے ساتھ روا رکھی ہیں۔ ’’فلورکنگ ‘‘میں اس نے موٹر کاروں کی صنعت کے تاجدار ہینری فورڈ کی سیرت کے ارتقاء کا عبرت خیز نقشہ کھینچا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ایک شریف اور نیک نیت آدمی دولت اور سرمایہ داری کے دلدل میں پھنس کر اپنی فطری انسانیت کھو بیٹھتا ہے، اور بجائے دولت کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کے، اس کی بے شمار ظاہر اور پنہاں زنجیروں میں اسیر ہو جاتا ہے۔ ایک اور کتاب میں جس کا نام ہے"money writes"(روپیہ لکھتا ہے)، اس نے  یہ راز فاش کیا ہے کہ اخباروں کی رائے اور بیشتر کتابوں کی اشاعت بھی دولت کی غلام ہے، اور اس جمہوری حکومت میں آزادی رائے کا دعوی، محض دھوکہ، یا خام خیالی ہے۔ چند بڑے سرمایہ داروں نے بیشتر اخباروں اور اشاعت خانوں پر قبضہ کر لیا ہے، اور ان کے ذریعے سے یہ رائے عامہ کو جس سانچے میں چاہتے ہیں، ڈھال لیتے ہیں، اور پروپیگنڈا کے ذریعے ہر قسم کے پبلک اداروں کو اپنے قبضے کے اندر رکھتے ہیں۔ اس خوفناک حربے کی مدد سے، وہ نہایت آسانی اور کامیابی کے ساتھ، ہر ایسے جدید اور انقلاب آفریں خیال کا سر کچل دیتے ہیں، جن سے ان کے مفاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، چنانچہ خود سنکلیئر کے خلاف یہ زبردست قوت نہایت بے باکی اور بدباطنی کے ساتھ برابر استعمال کی گئی۔ خیالات کو اپنے مجوزہ سانچوں کے اندر رکھنے کے لیے یہ لوگ محض پریس کی قوت ہی استعمال نہیں کرتے، بلکہ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب، طریقہ تعلیم، نظم ونسق، اور استادوں کے تقرر پر بھی اپنا قابو رکھتے ہیں۔تعلیم کے اس پہلو کی تفسیر اس نے"she goes step" میں کی ہے، جس کا ترجمہ’’ قدم ملا کر چلنا ‘‘کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہی’’ ہم قدمی‘‘ ہے، جس کا انتہائی مظاہرہ موجودہ جرمن قوم کی ذہنیت میں نظر آتا ہے، جہاں قوت فکر وتنقید پر اندھیریاں لگا دی گئی ہیں، یعنی ایک فرض شناس شہری کا یہ کام نہیں کہ وہ دائیں بائیں دیکھے، کیا حکومت کی پالیسی پر تنقید و احتساب کرے، اس کا کام محض یہ ہے کہ جس طرف اسکی نکیل موڑ دی جائے، اسی طرف قدم بڑھائے جائے، لیکن یہ ’’ہم قدمی‘‘ صرف نازی جرمنی کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ اس کا مظاہرہ کم و بیش ان تمام ملکوں میں بھی موجود ہے، جہاں بظاہر جمہوریت کا نظام قائم ہے۔ سنکلیر نے یہ راز فاش کیا ہے کہ جمہوری امریکہ میں بھی فکر کی اسیری کے لیے، ایک پیچیدہ اور گراں نظام تعلیم قائم کیا گیا ہے۔ ایک تازہ تصنیف"the world's end" (دنیا کا انجام) میں اس نے گزشتہ جنگ عظیم کے پوست کندہ حالات بیان کئے ہیں، اور دکھایا ہے کہ کس طرح درپردہ بین الاقوامی سیاست کی مہار، ان چند بڑے کارخانے والوں کے ہاتھ میں تھی، جو سامان جنگ بناتے تھے، اور منافع کمانے کی ناپاک کوشش میں دیانت اور حب وطن کا خون کرنے میں مطلق تامل نہ کرتے تھے۔ علاوہ اس قسم کے بامقصد ناولوں کے، اس نے اور بھی بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں سے ہر ایک میں اس کی شریف، آزاد، انصاف پسند، اور قابل محبت شخصیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے، ہر ایک میں اس کے ذہنی آئیڈیل اور ماحول کی تلخ حقیقتوں کا تقابل نظر آتا ہے۔ اس نے ایک کہانی کی شکل میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک سوانح عمری لکھی ہے، جس کا نام ہے "they call me carpenter" (انہوں نے میرا نام نجار رکھا ہے) اس میں اس عبرت انگیز حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر کہیں (خدانخواستہ) حضرت عیسی علیہ السلام کا ظہور اس زمانے میں ہوجائے، اور وہ امریکہ کی تہذیب وتمدن کا جائزہ لیں، جس کی بنیاد بظاہر مسیحیت پر رکھی گئی ہے، تو امراء اور ارباب سیاست اور کلیساؤں کے پیشواؤں میں ہلچل بپا ہو جائے، اور حکومت مذہبی لیڈروں کی رضامندی سے ان کی انقلابی تعلیم کو خطرناک اور مفاد عامہ کے مخالف قرار دے کر یا تو انہیں قید خانے میں بند کر دے، یا مجنون قرار دے کر ان کی آزادی سلب کرلے، یا ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھے جو دو ہزار سال قبل رومیوں نے کیا تھا۔

            دنیا میں ہر قسم کی ترقی انہیں لوگوں کے طفیل ہوئی ہے، جنہوں نے اپنے زمانے کے ناقص نظام کو بے چوں و چرا تسلیم نہیں کیا۔ اور اس کے رنگ میں رنگ کر، اس کی کمزوریوں اور خرابیوں سے فائدہ اٹھا کر، اپنے لئے آرام اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار نہیں کی، بلکہ اپنی روشن ضمیری کی بدولت ایک بہتر دنیا کا تصور قائم کیا، یا اپنے وجدانی تخیل کی روشنی میں ایک بہتر دنیا کی تصویر دیکھی، اور پھر جرات کے ساتھ مخالفت کو خندہ پیشانی کے ساتھ جھیلتے ہوئے، بے حس اور تنگ نظر لوگوں کے سامنے، اپنے تصور کی دنیا کی تصویر کھینچی، اور ان کو موجودہ حالات سے بیزار کر کے، ایک بہتر مستقبل کی طرف مائل کیا۔ یہی کام ہے جسے غیر معمولی قابلیت اور جرات کے ساتھ سنکلیئر نے تمام عمر انجام دیا ہے۔ شاید اس کا اپنا فلسفۂ زندگی ان الفاظ سے واضح ہوجائے، جو اس نے اپنی ایک غیر معروف کتاب"jemmie higgins"(جمی ہگنز) میں لکھے ہیں، اس کا ہیرو ایک غریب اور کم رو اور معمولی درجے کا سوشلسٹ تھا، لیکن اس کے دل میں دیانت اور  وفاشعاری اور دوست داری کا ایک ایسا شعلہ روشن تھا، کے باوجود ہر قسم کی ایذا رسانی اور ناقابل برداشت جسمانی کرب جھیلنے کے، اس نے اپنی جان دینا گوارا کیا، لیکن اپنے ساتھیوں اور سیاسی رفیقوں کا بھید نہیں دیا۔ جس وقت اس کی بہادر روح اس کے دکھی اور کمزور جسم سے رخصت ہو رہی تھی، اس کے کانوں میں یہ آواز آتی ہے۔:

            ’’ میں انسان ہوں، اور آخری فتح میری ہوگی، میں جسم کی کمزوری کو کچل ڈالتا ہوں، اور اس پر قابو پا لیتا ہوں، اگر میرے جسم کو قید کر لیا جائے، تو مجھے اس کی پرواہ نہیں، اگر اس پر خوف طاری ہو گا، یا مصلحت اندیشی زنجیر پا ہوگی، تو اس کو ٹھکرا دوں گا، میں صداقت ہوں، اور دنیا کو میری آواز سننی ہو گی، میں انصاف ہوں، اور دنیا پر میری حکومت قائم ہو کر رہے گی، میں آزادی ہوں، اور تمام قوانین کو توڑ ڈالتا ہوں، میں ظلم کو خاطر میں نہیں لاتا، میری ہمت بلند ہے، میں رہائی کا پیغام لے کر آیا ہوں‘‘۔

            اور چونکہ ہر ملک اور ہر زمانے میں، انسان کی روح میں اس مبارک قوت کا جلوہ رہا ہے، اور یہ غیبی آواز اپنا پیغام سناتی رہی ہے، اس لیے انسانیت تاریکی اور درندگی سے نکل کر کم از کم اس مقام تک پہنچ گئی ہے، جہاں اس کو ایک زیادہ بہتر اور شادکام مستقبل کا خواب نظر آتا ہے، اور اگر دنیا، اس خوف اور بربریت کے تسلط سے نکل سکتی ہے، جس میں آج کل ظالموں کے لالچ اور ظلم نے اسے پھنسا دیا ہے، تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ یہ کہ جن خیالات کا پرچار انہوں نے، اور ان جیسے دوسرے بلند خیال اور انسان دوست مصنفوں نے کیا ہے، دنیا میں عام ہوجائیں، اور لوگ اپنی بنائی ہوئی قید خانے کی کوٹھریوں سے نکل کر، خدا کی کھلی ہوا اور روشنی میں سانس لینا سیکھیں۔ ادب کا کام اور کتابوں کا احسان یہی ہے کہ وہ لوگوں کی انسانیت اور ہمدردی اور محبت کو وسیع کریں، اور ان کے دل و دماغ کو تنگ نظری، تعصب اور بے انصافی کی یورش سے بچائیں۔ اگر کتابیں ایسا کریں، تو وہ محسن ہیں، ورنہ محض وقت گزارنے اور تفریح کاذریعہ ،یا چارپائے پر معلومات کا بوجھ ہیں، یا عالم کی بے فیض دولت ہیں، اور ان میں سے کوئی چیز بھی بہت قدر کے قابل نہیں!۔

https://telegram.me/ilmokitab