وطن سے دور اہل بھٹکل کی عیدیں(۱)۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

11:17AM Sat 7 May, 2022

(چند روز قبل ہم نے دبی میں اہل بھٹکل کی نماز تراویح کے تعلق سے ایک کالم تحریر کیا تھا، جسے قارئین نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا، اور خواہش ظاہرکہ کچھ اسی طرح عید کی بھی کچھ باتیں ہوجائیں۔ اسی فرمائش کی تعمیل میں یہ چند سطریں پیش کی جارہی ہیں)۔

------------------------------------------------------------------------

 ہم نے امسال عید الفطر کی نماز عید گاہ دیرہ  ( مصلی عید) میں ادا کی، چالیس سال گزررہے ہیں، عید کے موقعہ جب بھی دبی میں رہنا ہوتا ہے تو اسی عید گاہ میں ہماری نماز عید ادا ہوتی آرہی ہے، عید گاہ کے خطیب الشیخ الدکتور احمد عبد العزیز الحداد حفظہ اللہ تھے، شیخ صاحب حکومت دبی کے دائرۃ الشؤون الاسلامیہ والعمل الخیری میں مدیر ادارۃ الافتاء ( صدر مفتی ) کی حیثیت سے گزشتہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ سے خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ کا شمار دور حاضر میں مذہب شافعی کے عظیم فقہیوں میں ہوتا ہے، آپ کی ایک تصانیف ہیں، جن میں امام نووی کی فقہ شافعی کی معتبرکتاب منہاج الطالبین کا تین جلدوں میں ایڈیشن بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس میں آپ نے جہاں کتاب کی تحقیق پر محنت صرف کی ہے وہیں منہاج الطالبین میں مذکورہ مسائل کی کتاب وسنت سے دلیلوں کے ذکر کا اہتمام کیا ہے، اس سے قبل ایسے تحقیقی معیار سے بھرپورکوئی فقہی متن ہماری نظر سے نہیں گذرا، شیخ صاحب کا جائے پیدائش یمن ہے، آپ نے مکہ مکرمہ میں اپنے دور کے عظیم فقہاء شیخ عبد اللہ اللحجی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سےعلم حاصل کیا، اس وقت آپ امارات کی مواطن ہیں۔ آپ کی اقتدا میں نماز عید نے عید کی خوشی کو دوبالا کردیا، اللہ تعالی آپ کا سایہ امت مسلمہ پر تادیر قائم رکھے،بڑے بااخلاق اور اہل علم کی قدر کرنے والے انسان ہیں۔

چند سال قبل تک عید گاہ دیرہ کے آس پاس  البراحہ، الحمریہ، فریج المرر، شارع المطینہ، ہور العنز، وغیرہ میں مقامی عرب افراد کے مکانات اور رہائش گاہیں ہوا کرتی تھی، اورعید گاہ کی ابتدائی  صفوں میں ابتدا ہی میں یہاں کے مقتدر خاندانوں الغریر، الفطیم وغیرہ کے افراد اور مقامی عربوں کا عود کی بھینی خوشبو میں بسی بشت اور عباؤوں میں ایک جمگھٹا نظر آتا تھا،جو عید کا بہت ہی خوش نما منظر دیتا تھا،اور اس کی  ایک الگ شان ہی ہوا کرتی تھی، لیکن اب کی بار یہاں پر برصغیر ہندو پاک بنگلہ دیش اور افریقہ وغیرہ خارجی ممالک کے افراد ہی نظر آئے،جن لباس ووضع قطع میں عربوں کا اہتمام عموما نہیں پایا جاتا،  گزشتہ ایک دو سال قبل تک ایک مقامی عرب اپنے مخصوص بلند انداز میں الصلاۃ جامعہ کی صدا لگاتے نظر آتے تھے، لیکن اب کی بار وہ بھی نظر نہیں آئے، مقامی افراد نے اب ان محلوں سے نقل مکانی کرلی ہے۔ اور وہ دور دور علاقوں میں جا بسے ہیں۔ یہ دنیا کی گردشیں ہیں، ریت پانی اور ہوا کی طرح انسانی آبادیاں بھی نقل مکانی کرتی رہتی ہیں۔

چند سال قبل تک دبی میں بسنے والی بھٹکلی احباب کی جملہ آبادی اس عیدگاہ میں نظر آتی تھی، اس بار یہ تناسب بہت کم نظر آیا، سنا ہے کہ الراس کی مسجد الفطیم اور بن دلموک میں ان کی بھیڑ تھی، اور یہاں بھٹکل کے عیدگاہ کا سماں تھا۔ آج سے دس بارہ سال قبل تک الراس کی مساجد میں عیدین کی نماز کا اہتمام صرف مسجد الفطیم میں ہواکرتا تھا، چونکہ وہاں کے امام صاحب حنفی مسلک کے بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے، تو صبح سے تکبیر کے بجائے قصیدہ بردہ کے اشعار، اورنعت ومنقبت سے محلہ گونجتا تھا، چونکہ بھٹکلی احباب مذہب شافعی کے متبع ہیں،اوران کی مساجد میں چاند کے اعلان کے ساتھ تکبیریں بلند ہونے لگتی ہیں تو ان کے لئے یہ ماحول اچھنبا لگتا تھا، وہ شاذونادر ہی عید گاہ کے بجائے مسجد میں نماز عید ادا کرتے ملتے تھے۔

ہماری دبی میں آمد ۱۹۷۹ء کے وسط میں ہوئی تھی، اس زمانے میں بھٹکلی احباب کی تعداد یہاں کم تھی ، اور ان کی زیادہ تر رہائش گاہیں کریک کے اس پار بر دبی میں ہوا کرتی تھیں،وہ دبی میں اولین آنے بھٹکلی احباب میں سے ایک اور ہمارے محسن صدیق محمد جعفری مرحوم کی جوانی کا دور تھا، مینا بازار کے پیچھے آپ کی رہائش گاہ مرجع خلائق ہوا کرتی تھی، جعفری صاحب اس زمانے میں اہتمام سے بر دبی عیدگاہ میں ساتھیوں کے ساتھ نماز عید پڑھنے جایا کرتے تھے، زیادہ تربھٹکلی احباب بھی وہیں نماز عید ادا کرتے، اورنماز کے بعد ٹہر کر کافی وقت تک آپس میں گلے ملتے تھے، اس وقت دبی کے فرماں روا شیخ راشد بن سعید آل مکتوم رحمہ اللہ ،بڑے سادہ انداز سے  اپنی کار پرنمازعید پڑھنے یہاں آیا کرتے تھے، نماز سے فارغ ہو کر جب اپنی گاڑی میں وہ بیٹھتے تو لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لئے آگے بڑھتے،سادہ لوگ تھے، کوئی ہٹو بچو کا زمانہ نہیں تھا۔

 دبی کے ایک عالم دین شیخ عمر الماجد مرحوم یہاں نماز عید کی امامت کرتے تھے ، مرحوم سابق مدیر اوقاف شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم کے عزیز تھے، شیخ عبد الجبار مرحوم کو اب لوگ بھول گئے ہیں، ۱۹۷۸ء یا اس کے آس پاس بھٹکل کے ممتاز حسن عسکری مرحوم نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر پچاس بھٹکلی افراد کا گروپ ویزا آپ سے حاصل کیا تھا، بھٹکلی افراد کی اتنی بڑی تعداد، یکجا طور پر اس کے علاوہ  یہاں کبھی نہیں آئی، بھٹکل کے مسلمانوں کی موجودہ خوشحالی میں دبی میں ذریعہ معاش کی سہولت مرکزی نقطہ کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے لئے جعفری مرحوم کی کوششوں کو یاد کرنے والے اب بھی چند ایک پائے جاتے ہیں، لیکن ممتاز حسن مرحوم کے توسط سے آنے والے ان پچاس افراد نے بھٹکل کی معاشی خوشحالی میں جو خوشنما اثرات چھوڑے ہیں اس کا تذکرہ شاید ہی کسی کی کو یاد ہو۔

ایسا نہیں تھا کہ الراس میں بھٹکلی احباب کے فلیٹ اس زمانے میں نہ پائے جاتے ہوں، لیکن یہ تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی، الراس اسٹریٹ کے آس پاس دھندا کاٹ، البٹنہ محل، گڑگڑی محل، ہوا محل، گلشن محل، گلستان محل، مصری محل، بنگلہ دیش محل، سارٹ محل، ایمیریٹس محل، وغیرہ ناموں سے مختلف فلیٹس پائے جاتے تھے، شاید لوگوں کو حیرت ہو کہ نیشنل ٹائلرس کے سامنے منہدم شدہ الفطیم بلڈنگ میں جہاں اسموکنگ سنٹر ہوا کرتا تھا، اس کی پہلی منزل پر امریکن قنصلیٹ قائم تھی، بعد میں یہ بلڈنگ عبرہ محل کی وجہ سے مشہور ہوئی۔

۔۱۹۸۰ء کے بعد عیدین کے موقعہ پر الراس میں بھٹکل ہی کا سماں بندھنے لگا، مدرسہ اور کمیونٹی کی سرگرمیاں بھی بڑھنے لگیں، آپسی میل ملاپ کی راہیں بھی کھلنے لگیں، وطن سے دور عید ملنے اور ملاقاتیں کرنے کا رواج فروغ پایا، اور نماز عید کے بعد فلیٹوں میں جاکر دوست واحباب، جانے اور انجانے افراد سے ملاقاتوں کا اہتمام ہونے لگا، دور دور رہنے والے افراد بھی خویش واقارب کے ساتھ اس روز عید منانے یہاں آتے، ہر فلیٹ میں مہمان نوازی کا خاطر خواہ اہتمام ہوتا، بھٹکل کے مقامی رنگ برنگے کھانے او ناشتے تیار کئے جاتے،پردیس میں لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوشیاں بانٹتے، اور اپنے یہاں کسی کسی کے نہ آنے پر شکایت کا اظہار بھی کرتے، خاطر داری میں غریب اور امیر کا فرق اٹھ جاتا، رت جگے محنت کش افراد لوگوں سے مل ملا کر کہیں ظہرانے کے بعد ہی پیٹھ سیدھی کرنے کا موقعہ پاتے، معلوم نہیں زمانہ بدل گیا، یا پھر ہماری نگاہیں کمزور پڑگئیں، اب عید کی وہ بہاریں یہاں نظر نہیں آتیں، نماز عید کے بعد اب لوگ بند کمروں میں سوتے ہوئے نظر آتے ہیں، یا پھر موبائل میں مصروف، رات میں چمکتے جگنؤوں کی طرح عید کی چاہتیں، اور محبتیں کہیں کہیں اب بھی نظر آتی ہیں۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں، کہ اس راہ سے کوئی کارواں گذرا ہے۔ (جاری)

  Whatsapp: 00971555636151